مکتوب جنوبی امریکہ(جنوری۲۰۲۵ء)
بر اعظم جنوبی امریکہ کےتازہ حالات و واقعات کا خلاصہ
’’تعاون کرو ورنہ…‘‘۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پہلا بین الاقوامی تنازعہ،دھمکی کا ہتھیار
اور عالمی راہنماؤں کے لیے پیغام
صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے ایک ہفتے کے اندر ہی ڈونلڈ ٹرمپ ایک تنازعہ میں الجھ بیٹھے ہیں۔ اور ان کا ہدف چین، میکسیکو یا کینیڈا نہیں تھے۔ بلکہ ان کے غصے کا نشانہ بننے والا ملک کولمبیا تھا جو لاطینی امریکہ میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا سب سے قریبی اتحادی ہے۔کولمبیا کا جرم یہ تھا کہ اس نے غیر قانونی تارکین وطن افراد سے بھری دو امریکی پروازوں کو اترنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ یہ عسکری جہاز تھے۔ لیکن ٹرمپ کے لیے دھمکی کا اجرا کرنے کے لیے اتنا کافی تھا۔ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’’ہم کولمبیا کی حکومت کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ امریکہ پر تھوپ دیے جانے والے مجرموں کی واپسی سے متعلق اپنی قانونی ذمہ داریوں سے روگردانی کرے۔‘‘ٹرمپ نے دھمکی دی کہ کولمبیا کو ۲۵؍فیصد ٹیرف کے ساتھ ساتھ سفری پابندی اور سرکاری حکام کے ویزا کی منسوخی کا سامنا ہو گا۔ بعد میں وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا کہ کولمبیا نے غیر قانونی تارکین وطن کی عسکری طیاروں میں واپسی کی حامی بھر لی ہے اس لیے ان اقدامات پر عمل نہیں کیا جائے گا۔اپنے پہلے ہفتے کے دوران ایسا لگ رہا ہے کہ امریکی صدر تجارتی معاملات کے مقابلے میں امیگریشن پر زیادہ توجہ دیے ہوئے ہیں اور ایسی قوموں کو سزا دینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں جو امریکہ کی نئی سخت گیر امیگریشن پالیسی کی حمایت نہیں کر رہیں۔ٹرمپ امریکی اتحادیوں اور مخالفین کو ایک جیسی تنبیہ کررہے ہیں کہ اگر امریکہ کے ساتھ تعاون نہ کیا گیا تو نتائج سنگین ہوں گے۔کولمبیا نے ٹیرف کی جنگ میں الجھنے سے گریز کیا ہے تاہم یہ نئی حکمت عملی ٹرمپ انتظامیہ کا بھی امتحان لے گی۔
اگر مستقبل میں ایسی دھمکیوں پر عمل کیا گیا اور امریکی شہریوں کو اس کی قیمت افراط زر کی شکل میں ادا کرنا پڑی تو کیا لوگ احتجاج کریں گے؟ کیا وہ معاشی تکلیف اس لیے برداشت کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے کہ ٹرمپ اپنی امیگریشن کی ترجیحات پر عمل پیرا ہو سکیں؟
امریکہ کے محکمہ زراعت کے مطابق امریکہ ۲۷؍ فیصد کافی کولمبیا سے درآمد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ کیلا، پھول اور دیگر مصنوعات بھی درآمد کی جاتی ہیں۔ صرف کافی کی درآمد کا حجم دو ارب ڈالر تک ہے۔کولمبیا کے صدر گسٹاوو پیٹرو (Gustavo Petro)نے ابتدا میں کہا تھا کہ ان کا ملک تارکین وطن کی واپسی عام جہازوں میں قبول کرے گا لیکن ان کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک نہیں کیا جائے گا۔یہ کوئی راز نہیں کہ پیٹرو ٹرمپ کو پسند نہیں کرتے ہیں کیوں کہ وہ امیگریشن سمیت موسمیاتی تبدیلی پر ٹرمپ کی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے ہیں۔سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر انہوں نے لکھا کہ: ’’ ٹرمپ لالچ کی وجہ سے انسانیت کو مٹا دیں گے۔‘‘ اور انہوں نے الزام عائد کیا کہ امریکی صدر کولمبیا کے شہریوں کو ’’کم ترنسل‘‘سمجھتے ہیں۔پیٹرو نے مزید کہا کہ’’ٹرمپ معاشی طاقت اور گھمنڈ کی مدد سے ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرسکتے ہیں، لیکن وہ لڑیں گے۔‘‘ قابل ذکربات یہ ہے کہ پیٹرو نے کہا کہ’’آج سے کولمبیا پوری دنیا کے لیے کھلا ہے۔‘‘اور یہ بات کسی بھی امریکی صدر کے لیے پریشان کن ہونی چاہیے، خصوصی طور پر ایسے صدر کے لیے جو امیگریشن کے مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ اس کام کے لیے میکسیکو سے آگے تک دیکھنا ہو گا۔
کرسٹوفر لانڈو(Christopher Landau)جنہیں ٹرمپ نائب امریکی سیکرٹری خارجہ کے عہدے کے لیے چن چکے ہیں، طویل عرصے سے یہ کہتے چلے آئے ہیں کہ دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنا امریکی خارجہ پالیسی کا اہم جزو ہونا چاہیے۔ لیکن اس تازہ ترین جھڑپ کے بعد یہ کام مشکل ہو گا۔
واضح رہے کہ انڈیا اور چین سمیت دنیا بھر کے مختلف ممالک سے سالانہ لاکھوں تارکین وطن لاطینی امریکہ میں پہنچنے کے بعد کولمبیا کے راستے سفر کرتے ہوئے شمال کا رخ کرتے ہیں۔ یہ ایک خطرناک سفر ہوتا ہے جس میں مجرم گروہ مدد کرتے ہیں۔
ٹرمپ کے جواب میں کولمبیا کے صدر نے کہا کہ اگر امیگریشن پر مذاکرات معطل ہوئے تو غیر قانونی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا۔ یہ بیان ایک ڈھکی چھپی دھمکی کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد کم ہونے کی بجائے بڑھ سکتی ہے۔تاہم یہ واضح ہے کہ ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی کا معاملہ امریکی مطالبات نہ ماننے والے دوسرے ممالک کے لیے درد سر بن سکتا ہے اور جیسا کہ ہم نے دیکھا یہ ٹرمپ کی سب سے پہلی حکمت عملی ہو گی۔
پوپ کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا منصوبہ انسانیت کی تذلیل ہے
رومن کیتھولک فرقے کے پیشوا پوپ فرانسس (Pope Francis) نے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکہ سے غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا منصوبہ اگر عملی شکل اختیار کرے گا تو وہ ’’بدنام‘‘ ہوں گے۔ ویٹیکن شہر میں اپنی رہائش گاہ سے ایک اطالوی ٹی وی پروگرام سے بات کرتے ہوئے، فرانسس نے کہا کہ اگر یہ منصوبہ آگے بڑھاتو ٹرمپ غربا کے مسائل میں اضافوں کا باعث بنیں گے۔ یہ بات کسی بھی لحاظ سے ٹھیک نہیں ہے۔ اس طرح آپ مسائل کو حل نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد امریکی تاریخ میں غیر دستاویزی تارکین وطن کی سب سے بڑی بے دخلی شروع کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ پوپ کو تارکین وطن کے معاملے کو عزیز رکھنے کے لیے جانا جاتا ہے۔ گذشتہ سال اگست میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ’’منظم طریقے سے تارکین وطن کو بھگانے کے لیے کوئی کام کرناایک سنگین گناہ ہے۔‘‘ ۲۰۱۶ء میں جب ٹرمپ صدارتی انتخابات میں حصہ لے رہے تھے تب پوپ فرانسس نے کہا تھا کہ’’ جو شخص صرف دیواریں بنانے کے بارے میں سوچتا ہے، پل بنانے کا نہیں، وہ عیسائی نہیں ہے۔‘‘میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے اور تارکین وطن کو امریکہ میں سفر کرنے سے روکنے کے ٹرمپ کے وعدے کا حوالہ دیتے ہوئے پوپ فرانسس نے کہا تھا کہ ’’میں صرف اتنا کہتا ہوں کہ اگر اس نے ایسی باتیں کہی ہیں تو یہ شخص عیسائی نہیں ہے۔ مگر میں اسے شک کا فائدہ دوں گا۔‘‘ بعدازاں ۲۰۱۷ء میں صدر نے روم کا دورہ کیا تھا اور اس دورہ کے دوران صدر ٹرمپ اور ان کے اہل خانہ نے پوپ فرانسس سے ملاقات بھی کی تھی۔
مسلح گروہوں سے لڑنے کے لیے گوئٹے مالا کے فوجیوں کی ہیٹی آمد
گوئٹے مالا کے ۱۵۰؍فوجیوں کا ایک دستہ ہیٹی پہنچ گیا ہے جسے مسلح گروہوں کی طرف سے پھیلائی گئی افراتفری کے درمیان امن بحال کرنے میں مدد فراہم کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔ گوئٹے مالا کی حکومت کے مطابق دو گروپس میں یہ فوجی ہیٹی پہنچے۔ ہیٹی میں گذشتہ کئی مہینوں سے ہنگامی حالت نافذ ہے کیونکہ حکومت پرتشدد گروہوں سے لڑ رہی ہے جنہوں نے دارالحکومت پورٹ اوپرنس کے زیادہ تر حصے پر قبضہ کر لیا ہے۔ گوئٹے مالا کے فوجیوں کی ہیٹی میں آمد کا مقصد کینیا کی قیادت میں اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ سیکیورٹی مشن کو فروغ دینا ہے، جو تشدد کو بڑھنے سے روکنے میں اب تک ناکام رہا ہے۔ کینیا نے گذشتہ سال جون اور جولائی میں تقریباً ۴۰۰؍ پولیس افسران کو مسلح گروہوں سے نمٹنے میں مدد کے لیے ہیٹی بھیجا تھا۔ یہ اقوام متحدہ سے منظور شدہ بین الاقوامی فورس کی پہلی کھیپ تھی جو مختلف ممالک کے ۲۵۰۰؍افسران پر مشتمل ہوگی۔ جمیکا، بیلیز اور ایل سلواڈور کی افواج کی ایک چھوٹی تعداد بھی مشن کے حصے کے طور پر ہیٹی میں موجود ہے اور امریکہ اس آپریشن کے لیے سب سے زیادہ مالی مدد فراہم کررہاہے۔ مارچ ۲۰۲۴ء میں مسلح گروہوں نے ہیٹی کی دو سب سے بڑی جیلوں پر دھاوا بولا تھا جس میں تقریباً ۳۷۰۰؍قیدیوں کو رہا کیا گیا۔ ۲۰۲۱ء میں ملک کے صدرJovenel Moïse کو دارالحکومت پورٹ اوپرنس میں نامعلوم مسلح افراد نے قتل کر دیا تھا۔
چلّی کے صدر کا قطب جنوبی کا تاریخی دورہ
چلّی کے صدر گیبریل بورک(Gabriel Boric) امریکی اڈے پر پہنچنے کے بعد قطب جنوبی کا دورہ کرنے والے لاطینی امریکہ کے پہلے رہنما بن گئے ہیں۔ صدر نے کہا کہAmundsen-Scott South Pole Station کے ان کے دورے نے انٹارکٹک کے ایک حصے پر خودمختاری کے لیے چلی کے اپنے دعوے کی تصدیق کی۔ بورک نے چلی کے ٹیلی ویژن پر دکھائی جانے والی فوٹیج میں کہا کہ یہ ہمارے لیے ایک سنگ میل ہے، انہوں نے مزید کہا کہ یہ پہلا موقع ہے جب چلّی کے صدر نے قطب جنوبی پر آکر چلی کے انٹارکٹک مشن کے بارے میں بات کی۔ بورک نے سائنسدانوں کے ایک گروپ اور کابینہ کے کئی ارکان کے ساتھ سفر کیا۔ ان کے وفد میں مسلح افواج کے نمائندےاور ماحولیات کے وزراء شامل تھے۔
پاناما نے ’’پاناما کینال‘‘ کو واپس لینے کے ٹرمپ کے وعدے کو مسترد کردیا
پاناما کے صدر نے ڈونلڈ ٹرمپ کے پاناما کینال کو واپس لینے کے منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے اپنے امریکی ہم منصب کو بتایا کہ یہ اہم تجارتی راستہ پانامہ کے ہاتھ میں ہے اور رہے گا۔ اپنی افتتاحی تقریر میں صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ پاناما نے غیر جانبدار رہنے کا وعدہ توڑا ہے، اور الزام لگایا کہ چین پاناما کینال کو چلا رہا ہے۔ پاناما کے صدر ہوزے راؤل ملینو (Jose Raul Mulino)نے کہا کہ وہ ٹرمپ کے الفاظ کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔ صدر ہوزے نے کہا دنیا میں ایسی کوئی قوم نہیں ہے جو ہمارے انتظامی معاملات میں مداخلت کرتی ہو۔
پاناما کینال امریکہ کے سب سے اہم تجارتی راستوں میں سے ایک ہے، جہاں ملک کے تمام کنٹینر بحری جہازوں کا تقریباً ۴۰؍ فیصد بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کے درمیان آبی گزرگاہ سے گزرتا ہے۔ اپنی دوسری میعاد کے پہلے خطاب میں ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکی بحری جہازوں کو بہت زیادہ چارج کیا جا رہا ہے اور ان کے ساتھ کئی طرح سے نامناسب سلوک کیا جا رہا ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ چین پاناما کینال کو چلا رہا ہے۔ ہم نے اسے چین کو نہیں دیا تھا بلکہ ہم نے پاناما کو دیا تھا اور ہم اسے واپس لے رہے ہیں۔ امریکا نے بیسویں صدی کے اوائل میں یہ نہر بنائی تھی اور اس پر اسی کا کنٹرول تھا، لیکن برسوں کے احتجاج کے بعد امریکی صدر جمی کارٹر نے ۱۹۷۷ء میں پانامہ کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تاکہ اس آبی گزرگاہ کا کنٹرول بتدریج واپس کر دیا جائے۔ ۱۹۹۹ء میں پاناما نے ایک معاہدے کے ساتھ نہر کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا تھا کہ یہ تمام ممالک کے بحری جہازوں اور کشتیوں کے لیے کھلا رہے۔
مزید پڑھیں: حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات جمعہ میں بیان فرمودہ بعض تاریخی مقامات کا جغرافیائی تعارف