متفرق مضامین

خِلقتِ اِنس میں ہے اُنس و محبت کاخمیرگر محبت نہیں بیکار ہے انساں ہونا

ترقی کے اس دَور میں انسان مشین کی طرح کام کرنے لگا ہے۔ ہر شخص اپنے وقت کو زیادہ سے زیادہ بہتر انداز میں استعمال کرناچاہتا ہے جس سے اس کی زندگی خاصی مصروف ہوگئی ہے۔ دولت کی طلب، کاروبار اور نوکری کی مجبوریوں اور بہتر طرزِزندگی کے حصول کی خواہش کے پیش نظر ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کے رجحان میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ افراد کی یہ بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اور نقل مکانی خاندانی نظام پر اثر انداز ہورہی ہیں۔

اسلام نہ صرف ہمیں اعلیٰ اقدار سکھاتا ہےبلکہ معاشرے میں موجود اسلامی تعلیمات اور اُصولوں سے متصادم روایات کی اصلاح بھی ضروری سمجھتا ہے۔ عصر حاضر میں خاندانی اقدار تیزی سے تبدیل ہورہی ہیں، اگر یہ تبدیلی اسلامی تعلیمات اور سوچ کے زیراثر ہوتی تو یقیناً ہم اس کے ثمرات سے بہرہ ور ہوتے جبکہ اس کے برعکس ہماری اقدار میں یہ تبدیلی زیادہ تر میڈیا کے زیر اثر ہورہی ہے۔آج کا میڈیا مادہ پرست اور خودغرض سوچ کی نمائندگی اور عکاسی کررہا ہے۔ نتیجے کے طور پر ہمارا معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہے جونہ توروایتی مثالی معاشرہ رہا اور نہ ہی اسلام کے زرّیں اُصول اس میں نظر آتے ہیں۔ خاندانوں میں رائج عمدہ روایات دم توڑ رہی ہیں۔ صلہ رحمی، باہمی تعاون، غم خواری اور انسانی ہمدردی کا وجود عنقا ہوتا جارہا ہےجبکہ اللہ تعالیٰ نے انسانی معاشرے کی بنیاد ہی پیار و محبت پر رکھی ہے۔ حضرت آدمؑ کے ساتھ حضرت حوا کی پیدائش سے یہ پیغام بھی دیا کہ انسان جوڑے میں رہے اور ایک ایسے خاندانی نظام کی بنیاد رکھی جس کا لازمی جزو ہی الفت و شفقت تھا۔ قرآنی تعلیم میں والدین اور دیگر اقرباء سے حسن سلوک کے بارے میں واضح حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَاعۡبُدُوااللّٰہَ وَلَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّبِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّبِذِی الۡقُرۡبٰی وَالۡیَتٰمٰی وَالۡمَسٰکِیۡنِ وَالۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَالۡجَارِ الۡجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَمَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا(النساء:۳۷) یعنی اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیررشتہ دار ہمسایوں سے بھی۔ اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان سے بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یقیناً اللہ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر (اور) شیخی بگھارنے والا ہو۔

حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جس شخص کی خواہش ہو کہ عمر لمبی ہو اور رزق میں فراوانی ہو تو اس کو چاہیے کہ اپنے والدین سے حسنِ سلوک کرے اور صلہ رحمی کی عادت ڈالے۔(مسند احمد بن حنبل، مسند المکثرین من الصحابۃ، مسند انس بن مالکؓ ۱۳۸۴۷)

تو اس خلق پر عمل کرنے سے جہاں انسان کی آخرت سنورتی ہےوہاں دنیا میں بھی اس کو اجر عظیم کی نوید دی جاتی ہے، اس کا رزق اس پر وسیع کیا جاتا ہے۔

صحت مند تعمیری معاشرتی سرگرمیوں کے لیے صرف مادی وسائل کا ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ایک انسان خوشی اور غمی کے مواقع کو بانٹناچاہتا ہے۔ خوشی کے موقع پر رشتہ داروں اور دوست احباب کی شمولیت خوشی کو دوبالا کردیتی ہے اور مصیبت و پریشانی کے وقت انہی لوگوں کا ساتھ غم کے زخم مندمل کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔اسلام نے اس فطری تقاضے کے پیش نظر صلہ رحمی کو دین کا حصہ قرار دیا ہے اور قطع رحمی کرنے والے کی مذمت کی ہے۔حضرت جبیر بن مطعم ؓبیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔(بخاری كِتَاب الْأَدَبِ بَابُ إِثْمِ الْقَاطِعِ)

صلہ رحمی صرف رحمی رشتوں کے ساتھ حسن سلوک کا نام نہیں ہےبلکہ اس ضمن میں رشتہ داروں کےحقوق بیان کرتےہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :’’صلہ رحمی بھی بڑا وسیع لفظ ہے۔ اس میں بیوی کے رشتہ داروں کے بھی وہی حقوق ہیں جو مرد کے اپنے رشتے داروں کے ہیں۔ ان سے بھی صلہ رحمی اتنی ہی ضروری ہے جتنی اپنوں سے۔ اگر یہ عادت پیدا ہو جائے اور دونوں طرف سے صلہ رحمی کے یہ نمونے قائم ہو جائیں تو پھر کیا کبھی اس گھر میں تُوتکار ہو سکتی ہے؟ کوئی لڑائی جھگڑا ہو سکتا ہے؟ کبھی نہیں۔ کیونکہ اکثر جھگڑے ہی اس بات سے ہوتے ہیں کہ ذرا سی بات ہوئی یا ماں باپ کی طرف سے کوئی رنجش پیدا ہوئی یا کسی کی ماں نے یا کسی کے باپ نے کوئی بات کہہ دی، اگر مذاق میں ہی کہہ دی اور کسی کو بری لگی تو فوراً ناراض ہو گیا کہ میں تمہاری ماں سے بات نہیں کروں گا، میں تمہارے باپ سے بات نہیں کروں گا۔ میں تمہارے بھائی سے بات نہیں کروں گا پھر الزام تراشیاں کہ وہ یہ ہیں اور وہ ہیں تو یہ زود رنجیاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر، یہی پھربڑے جھگڑوں کی بنیاد بنتی ہیں ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲؍جولائی ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۶؍جولائی ۲۰۰۴ء)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس بارے میں مزید فرماتے ہیں:’’اگر تم سے کوئی صلہ رحمی کر رہاہے یا اچھے اخلاق سے پیش آرہا ہے تو تم اس کے بدلے میں اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔ اگر کوئی تعلق توڑنا بھی چاہتا ہے تو اس سے تعلق جوڑو۔ تو دیکھیں کتنی پیاری تعلیم ہے۔ صلح کا ہاتھ تم پہلے بڑھاؤ۔ اگر ہر مسلمان اس پر عمل کرنا شروع کردے تو کیا کوئی جھگڑا باقی رہ جاتا ہے۔ ہر طرف امن کی فضا قائم ہوجائے گی۔ اب یہ تعلیم جو ہے اس کو رواج دینا اور یہ اعلیٰ اخلاق اپنے رشتہ داروں کو سکھانا آج ہر احمدی کا کام ہے۔ تب ہی تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تم صلح میں پہل کرو اور سچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلل اختیار کرو۔ تب ہی یہ اعلیٰ اخلاق کا معاشرہ قائم ہوسکتاہے۔‘‘(خطبہ جمعہ ۲۳؍جنوری ۲۰۰۴ء)

صلہ رحمی وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ ہماری نسلیں ایک ایسے معاشرے میں پروان چڑھیں جہاں محبت و امن کا دور دورہ ہو۔ خدا تعالیٰ ہم سب کو ایک دوسرے سے حسن و احسان کرنے والا بنائے ایک دوسرےکو محبت اور پیار کے جذبے سے سرشار کر دے۔ آمین

(درثمین احمد ۔جرمنی )

مزید پڑھیں: پاکیزہ اولاد کی خواہش کے لئے دعا بھی ہونی چاہئے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button