خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۹؍دسمبر۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے)
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا: آج بھی جنگِ اُحد کی کچھ مزید تفصیلات بیان کروں گا۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غزوہ احدمیں آنحضرتﷺکی جرأت اوربہادری کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: اس بارے میں لکھا ہے کہ جب لڑائی کا پانسہ پلٹنے کے بعد صحابہؓ بدحواسی میں اپنے آپ کو سنبھال نہ سکے اور افراتفری کا شکار ہو گئے تو آنحضرت ﷺ اس افراتفری میں اور اپنے چاروں طرف دشمنوں کے جمگھٹے کے باوجود اپنی جگہ ثابت قدم اور جمے رہے۔ صحابہؓ کو گھبراہٹ میں اِدھر اُدھر بھاگتے دیکھ کران کو پکارتے ہوئے آپ ﷺ فرماتے جاتے تھے۔ اے فلاں! میری طرف آؤ۔ اے فلاں! میری طرف آؤ۔ میں خدا کا رسول ہوں۔ جبکہ ہر طرف سے آپؐ پر تیروں کی بوچھاڑ ہو رہی تھی۔ ایک روایت میں ہے کہ آپؐ بلند آواز میں فرما رہے تھے۔اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِب ،اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِب،اَنَا ابْنُ الْعَوَاتِکْ میں نبی ہوں اس میں جھوٹ نہیں۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں میں عواتک یعنی عاتکاؤں کا بیٹا ہوں۔ عام طور پر روایات اور سیرت کی کتابوں میں ہے کہ یہ کلمات آپؐ نے غزوہ حنین میں فرمائے تھے لیکن بہرحال بعید نہیں کہ یہی کلمات آپؐ نے اُحد میں بھی فرمائے ہوں اور حنین میں بھی فرمائے ہوں۔
سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسلمان تیراندازوں کےدرّہ چھوڑنےاورلشکرقریش کےحملہ کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: اس واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھا ہے کہ ’’جب عبداللہ بن جُبیرؓ کے ساتھیوں نے دیکھا کہ اب تو فتح ہوچکی ہے تو انہوں نے اپنے امیر عبداللہ سے کہا کہ اب تو فتح ہو چکی ہے اور مسلمان غنیمت کا مال جمع کر رہے ہیں آپ ہم کو اجازت دیں کہ ہم بھی لشکر کے ساتھ جا کر شامل ہو جائیں۔ عبداللہ نے انہیں روکا اور آنحضرت ﷺ کی تاکیدی ہدایت یاد دلائی مگر وہ فتح کی خوشی میں غافل ہورہے تھے‘‘ یہ لوگ ’’اس لئے وہ باز نہ آئے اوریہ کہتے ہوئے نیچے اترگئے کہ رسول اللہ ﷺ کاصرف یہ مطلب تھا کہ جب تک پورا اطمینان نہ ہو لے درّہ خالی نہ چھوڑا جاوے اوراب چونکہ فتح ہوچکی ہے اس لئے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور سوائے عبداللہ بن جُبیرؓ اوران کے پانچ سات ساتھیوں کے درّہ کی حفاظت کے لئے کوئی نہ رہا۔ خالد بن ولید کی تیز آنکھ نے دُور سے درّہ کی طرف دیکھا تو میدان صاف پایا جس پر اس نے اپنے سواروں کوجلدی جلدی جمع کرکے فوراً درّہ کا رخ کیا اور اس کے پیچھے پیچھے عکرمہ بن ابوجہل بھی رہے سہے دستہ کو ساتھ لے کر تیزی کے ساتھ وہاں پہنچا اور یہ دونوں دستے عبداللہ بن جُبیرؓ اوران کے چند ساتھیوں کوایک آن کی آن میں شہید کر کے اسلامی لشکر کے عقب میں اچانک حملہ آور ہو گئے۔ مسلمان جو فتح کے اطمینان میں غافل اور منتشر ہو رہے تھے اس بلائے ناگہانی سے گھبرا گئے مگرپھر بھی سنبھلے اور پلٹ کر کفار کے حملہ کوروکنا چاہا۔ اس وقت کسی چالاک معاند نے یہ آواز دی کہ اے مسلمانو! دوسری طرف سے بھی کفار کا دھاوا ہوگیا ہے۔‘‘ یعنی اس طرف سے حملہ ہو گیا ہے۔ ’’مسلمانوں نے سراسیمہ ہوکر پھرپلٹا کھایا اور گھبراہٹ میں بےدیکھے سمجھے اپنے آدمیوں پرہی تلوار چلانی شروع کر دی۔ دوسری طرف مکہ کی ایک بہادر عورت عَمْرَہ بنت عَلْقَمَہ نے جب یہ نظارہ دیکھا تو جھٹ آگے بڑھ کر قریش کاعَلم جو ابھی تک خاک میں پڑا تھا اٹھا کربلند کردیا جسے دیکھتے ہی قریش کامنتشر لشکر پھر جمع ہو گیا۔اوراس طرح مسلمان حقیقتاً چاروں طرف سے دشمن کے نرغہ میں گھر گئے اور اسلامی فوج میں ایک خطرناک کھلبلی کی صورت پیدا ہو گئی‘‘… اس وقت ’’آنحضرت ﷺ نے جو ایک بلند جگہ پر کھڑے ہوئے یہ سب نظارہ دیکھ رہے تھے مسلمانوں کو آواز پر آواز دی مگر اس شور شرابے میں آپؐ کی آواز دب دب کر رہ جاتی تھی۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ یہ سب کچھ اتنے قلیل عرصہ میں ہو گیا کہ اکثر مسلمان بالکل بدحواس ہو گئے۔ حتی کہ اس بدحواسی میں بعض مسلمان ایک دوسرے پر وار کرنے لگ گئے اور اپنے پرائے میں امتیاز نہ رہا۔ چنانچہ خود مسلمانوں کے ہاتھ سے بعض مسلمان زخمی ہو گئے اور حذیفہ کے والد یمان کو تو مسلمانوں نے غلطی سے شہید ہی کر دیا۔ حُذَیفہ اس وقت قریب ہی تھے وہ چلّاتے رہ گئے کہ اے مسلمانو! یہ میرے والد ہیں مگر اس وقت کون سنتا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے بعد میں مسلمانوں کی طرف سے یمان کا خون بہا ادا کرنا چاہا مگر حُذَیفہ نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں اپنے باپ کا خون مسلمانوں کو معاف کرتا ہوں۔‘‘
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سورہ نورکی آیت نمبر۶۴کاذکرکرتےہوئےکیاواقعہ بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ سورہ نور کی آیت ۶۴کی تفسیر میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’جو لوگ اس رسولؐ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ کہیں ان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی آفت نہ پہنچ جائے۔‘‘ یہ ترجمہ ہے اس آیت کا ’’یا وہ کسی دردناک عذاب میں مبتلا نہ ہو جائیں۔‘‘ آپؓ فرماتے ہیں ’’چنانچہ دیکھ لو جنگِ اُحد میں اس حکم کی خلاف ورزی کی وجہ سے اسلامی لشکر کو کتنا نقصان پہنچا۔رسول کریم ﷺ نے ایک پہاڑی درّہ کی حفاظت کے لئے پچاس سپاہی مقرر فرمائے تھے اور یہ درّہ اتنا اہم تھا کہ آپؐ نے ان کے افسر عبداللہ بن جُبیر انصاری کو بلا کر فرمایا کہ خواہ ہم مارے جائیں یا جیت جائیں تم نے اس درّہ کو نہیں چھوڑنا مگر جب کفار کو شکست ہوئی اور مسلمانوں نے ان کا تعاقب شروع کر دیا تو اس درّہ پر جو سپاہی مقرر تھے۔ انہوں نے اپنے افسر سے کہا کہ اب تو فتح ہوچکی ہے۔ اب ہمارا یہاں ٹھہرنا بے کا ر ہے۔ ہمیں اجازت دیں کہ ہم بھی جہاد میں شامل ہونے کا ثواب لے لیں۔ان کے افسر نے انہیں سمجھایا کہ دیکھو! رسول کریم ﷺ کے حکم کی خلاف ورزی نہ کرو۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ خواہ فتح ہو یا شکست تم نے اس درّہ کو نہیں چھوڑ نا اس لئے میں تمہیں جانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔انہوں نے کہا رسول کریم ﷺ کا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ خواہ فتح ہو جائے پھر بھی تم نے نہیں ہلنا۔ آپؐ کا مقصد تو صرف تاکید کرنا تھا۔ اب جبکہ فتح ہو چکی ہے ہمارا یہاں کیا کام ہے؟ چنانچہ انہوں نے خدا کے رسول کے حکم پر اپنی رائے کو فوقیت دیتے ہوئے اس درّہ کو چھوڑ دیا۔ صرف ان کا افسر اور چند سپاہی باقی رہ گئے۔ جب کفار کا لشکر مکہ کی طرف بھاگتا چلا جارہا تھا تو اچانک خالد بن ولیدنے پیچھے کی طرف مڑکر دیکھا تو درّہ کو خالی پایا۔ انہوں نے عَمرو بن العاص کو آواز دی۔ یہ دونوں ابھی تک اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے اور کہا دیکھو! کیسا اچھا موقع ہے آؤ ہم مڑ کر مسلمانوں پر حملہ کریں۔ چنانچہ دونوں جرنیلوں نے اپنے بھاگتے ہوئے دستوں کو سنبھالا اور اسلامی لشکر کا بازو کاٹتے ہوئے پہاڑ پر چڑھ گئے۔ چند مسلمان جو وہاں موجود تھے اور جو دشمن کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے ان کو انہوں نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اسلامی لشکر پر پشت پر سے حملہ کر دیا۔ کفار کا یہ حملہ ایسا اچانک تھا کہ مسلمان جو فتح کی خوشی میں ادھر ادھر پھیل چکے تھے ان کے قدم جم نہ سکے۔ صرف چند صحابہؓ دوڑ کر رسول کریم ﷺ کے گرد جمع ہو گئے جن کی تعداد زیادہ سے زیادہ بیس تھی۔ مگر یہ چند لوگ کب تک دشمن کا مقابلہ کر سکتے تھے۔ آخر کفار کے ایک ریلے کی وجہ سے مسلمان سپاہی بھی پیچھے کی طرف دھکیلے گئے اور رسول کریم ﷺ میدان جنگ میں تن تنہا رہ گئے۔ اسی حالت میں آپؐ کے خَود پر ایک پتھر لگا جس کی وجہ سے خَود کے کیل آپؐ کے سر میں چبھ گئے اور آپؐ بے ہوش ہوکر ایک گڑھے میں گر گئے جو بعض شریروں نے اسلامی لشکر کو نقصان پہنچانے کے لئے کھود کر ڈھانپ رکھے تھے۔ اس کے بعد کچھ اَور صحابہؓ شہید ہوئے اور ان کی لاشیں آپؐ کے جسم مبارک پر جاگریں اور لوگوں میں یہ مشہور ہو گیا کہ رسول کریم ﷺ شہید ہو گئے ہیں۔ مگر وہ صحابہؓ جو کفار کے ریلے کی وجہ سے پیچھے دھکیل دیئے گئے تھے کفار کے پیچھے ہٹتے ہی پھر رسول کریم ﷺ کے گرد جمع ہو گئے اور انہوں نے آپؐ کو گڑھے میں سے باہر نکالا۔تھوڑی دیر کے بعد رسول کریم ﷺ کو ہوش آ گیا اور آپؐ نے چاروں طرف میدان میں آدمی دوڑا دیئے کہ مسلمان پھر اکٹھے ہوجائیں اور آپؐ انہیں ساتھ لے کر پہاڑ کے دامن میں چلے گئے۔ اسلامی لشکر کو کفار پر فتح حاصل کرنے کے بعد ایک عارضی شکست کا چر کہ اس لئے لگا کہ ان میں سے چند آدمیوں نے رسول کریم ﷺ کے ایک حکم کی خلاف ورزی کی اور آپؐ کی ہدایت پر عمل کرنے کی بجائے اپنے اجتہاد سے کام لینا شروع کر دیا۔ اگر وہ لوگ محمد رسول اللہ ﷺ کے پیچھے اسی طرح چلتے جس طرح نبض حرکتِ قلب کے پیچھے چلتی ہے۔ اگر وہ سمجھتے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے ایک حکم کے نتیجہ میں اگر ساری دنیا کو بھی اپنی جانیں قربان کرنی پڑتی ہیں تو وہ ایک بے حقیقت شے ہے۔ اگر وہ ذاتی اجتہاد سے کام لے کر اس پہاڑی درّہ کو نہ چھوڑتے جس پر رسول کریم ﷺ نے انہیں اس ہدایت کے ساتھ کھڑا کیا تھا کہ خواہ ہم فتح حاصل کریں یا مارے جائیں تم نے اس مقام سے نہیں ہلنا تو نہ دشمن کو دوبارہ حملہ کرنے کا موقع ملتا اور نہ محمد رسول اللہ ﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ کو کوئی نقصان پہنچتا۔‘‘
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غزوہ احدمیں آنحضرتﷺکی استقامت کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:اس بارے میں حضرت مسیح موعودؑ بیان فرماتے ہیں کہ ’’آنحضرت ﷺ کی مکی زندگی ایک عجیب نمونہ ہے۔‘‘ آپؐ کی بہادری کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرما رہے ہیں ’’اور ایک پہلو سے ساری زندگی ہی تکلیفات میں گزری۔ جنگ اُحد میں آپؐ اکیلے ہی تھے۔ لڑائی میں حضور علیہ الصلوٰة والسلام کا اپنی نسبت رسول اللہ ظاہر کرنا آپؐ کی کس درجہ کی شوکت،جرأت اور استقامت کو بتاتا ہے۔‘‘ایسے دشمنوں میں گھرے ہوئے تھے تب بھی آپؐ نے یہ نہیں چھپایا کہ میں نہیں ہوں بلکہ اعلان کر دیا۔ لوگوں کو پتہ لگ گیا۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’انبیاء اور اولیاء اللہ کے لئے تکلیف اس قسم کی نہیں ہوتی جیسی کہ یہود کو لعنت اور ذلّت ہو رہی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی ناراضگی کا اظہار ہوتا ہے بلکہ انبیاء شجاعت کا ایک نمونہ قائم کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کو اسلام کے ساتھ کوئی دشمنی نہ تھی مگر دیکھو! جنگ اُحد میں حضرت رسول اللہ ﷺ اکیلے رہ گئے۔ اس میں یہی بھید تھا کہ آنحضرتؐ کی شجاعت ظاہر ہو جبکہ حضرت رسول کریمﷺ دس ہزار کے مقابل میں اکیلے کھڑے ہو گئے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔ ایسا نمونہ دکھانے کا کسی نبی کو موقع نہیں ملا۔‘‘
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: بنیادی مسائل کے جوابات(قسط ۹۰)