حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

رسول اللہﷺکی زندگی قرآن کریم کی تعلیم کی عملی تصویر

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۴؍مارچ۲۰۰۵ء)

قرآن کریم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ یہ پاک کتاب ہے اور ہر قسم کے ممکنہ عیب سے پاک ہے اور نہ صرف پاک ہے بلکہ ہر قسم کی حسین اور خوبصورت تعلیم اس میں پائی جاتی ہے جس کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ اور اس میں وہ تمام خوبیاں شامل کر دی گئی ہیں جن کی پہلے صحیفوں میں کمی تھی اور اب یہی ایک تعلیم ہے جو ہر ایک قسم کی کمی سے پاک ہے۔ بلکہ اس تعلیم پر عمل کرکے ہر برائی سے بچا جا سکتا ہے۔ اور نہ صرف بچا جا سکتا ہے بلکہ اس کی تعلیم پر عمل کرنے اور اس تعلیم کو لاگو کرنے سے ہی اپنی اور دنیا کی اصلاح ممکن ہے۔ یعنی یہ تعلیم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری یہی اب دنیا کی اصلاح کی، دنیا میں نیکیاں رائج کرنے کی، دنیا میں امن قائم کرنے کی، دنیا میں عبادت گزار پیدا کرنے کی، دنیا میں ہر طبقے کے حقوق قائم کرنے کی ضمانت ہے۔ تو جس نبی پر یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ کامل اور مکمل تعلیم اتری اور جو خَاتَمَ النَّبِیِّیْن کہلائے، جن کے بعدکوئی نئی شریعت آ ہی نہیں سکتی اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے۔ تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود اس تعلیم پر کس قدر عمل کرنے والے ہوں گے، اس کا تصور بھی انسانی سوچ سے باہر ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں جنہوں نے اس پاک کلام کو سمجھا، وہ آپؐ ہی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے اس کلام کا مکمل فہم اور ادراک حاصل ہوا۔ یہ آپؐ ہی کی ذات ہے جس کو اپنے پر اترنے والی اس آخری کتاب، اس آخری شریعت، کلام کے مطالب اور معانی کے مختلف زاویوں اور اس کے مختلف بطون کو سمجھنے کا کامل علم حاصل ہوا۔ گویا یہ خَاتَمَ النَّبِیِّیْنؐ کی ذات ہی تھی جس نے اس خَاتَمُ الْکُتُبْکو سمجھا اور نہ صرف اس گہرائی میں جا کر عمل کیا بلکہ صحابہؓ کو بھی وہ شعور عطا فرمایا جس سے وہ اس کو سمجھ کر پڑھتے تھے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس آخری کتاب کو پڑھنے کے بعد یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی اور شریعت یا کتاب سے رہنمائی لی جائے۔ کیونکہ پہلوں کی باتیں بھی اس میں آ چکی ہیں اور آئندہ کی باتیں اور خبریں بھی اس میں آ چکی ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’خاتم النبییّن کا لفظ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بولا گیا ہے۔ بجائے خود چاہتا ہے اور بالطبع اسی لفظ میں یہ رکھا گیا ہے کہ وہ کتاب جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے وہ بھی خَاتَمُ الْکُتُبْ ہو۔ اور سارے کمالات اس میں موجود ہوں اور حقیقت میں وہ کمالات اس میں موجود ہیں۔ کیونکہ کلام الٰہی کے نزول کا عام قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ جس قدر قوت قدسی اور کمال باطنی اس شخص کا ہوتا ہے اسی قدر قوت و شوکت اس کلام کی ہوتی ہے‘‘۔

اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کو ہر کوئی جانتا ہے کہ کس طرح آپؐ نے صحابہ ؓ میں پاک تبدیلیاں پیدا کیں۔ جو پاک تبدیلیاں صحابہ ؓ میں ہوئیں کہ راتوں کو جاگ کر محفلیں لگانے والے اب بھی راتوں کو جاگتے تھے لیکن راگ رنگ کی محفلیں نہیں جمتی تھیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدوں میں راتیں گزرتی تھیں۔ پھر جو شراب کو پانی کی طرح پینے والے تھے انہوں نے جب خبر سنی تو نشے کی حالت میں بھی یہ نہیں کہا کہ پہلے پتہ کرو کیا ہو رہاہے کیا نہیں ہو رہا۔ بلکہ پہلے شراب کے مٹکے توڑے گئے۔ تو یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی ہی تھی جس نے یہ انقلاب برپا کیا۔

تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جس قدر کسی شخص کی قوت قدسی ہوتی ہے اسی قدر اس کا قوت و شوکت کا کلام ہوتا ہے۔ پھر فرمایا کہ

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اور کمال باطنی چونکہ اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کا تھا جس سے بڑھ کر کسی انسان کا نہ کبھی ہوا اور نہ آئندہ ہو گا۔ اس لئے قرآن شریف بھی تمام پہلی کتابوں اور صحائف سے اس اعلیٰ مقام اور مرتبہ پر واقع ہوا ہے جہاں تک کوئی دوسرا کلام نہیں پہنچا۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی استعداد اور قوت قدسی سب سے بڑھی ہو ئی تھی۔ اور تمام مقامات کمال آپؐ پر ختم ہو چکے تھے اور آپؐ انتہائی نقطہ پر پہنچے ہوئے تھے اور اس مقام پر قرآن شریف جو آپؐ پر نازل ہوا کمال کو پہنچا ہوا ہے۔ اور جیسے نبوت کے کمالات آپؐ پر ختم ہو گئے اسی طرح پر اعجاز کلام کے کمالات قرآن شریف پر ختم ہو گئے۔ آپؐ خاتم النبییّن ٹھہرے اور آپؐ کی کتاب خاتم الکتب ٹھہری۔ جس قدر مراتب اور وجوہ اعجاز کلام کے ہو سکتے ہیں ان سب کے اعتبار سے آپؐ کی کتاب انتہائی نقطہ پر پہنچی ہوئی ہے۔ یعنی کیا باعتبار فصاحت و بلاغت، کیا باعتبار ترتیب مضامین، کیا باعتبار تعلیم، کیا باعتبار کمالات تعلیم، کیا باعتبار ثمرات تعلیم، غرض جس پہلو سے دیکھو اسی پہلو سے قرآن شریف کا کمال نظر آتا ہے اور اس کا اعجاز ثابت ہوتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے کسی خاص امر کی نظیر نہیں مانگی بلکہ عام طور پر نظیر طلب کی ہے یعنی جس پہلو سے چاہو مقابلہ کرو۔ خواہ بلحاظ فصاحت وبلاغت، خواہ بلحاظ مطالب و مقاصد، خواہ بلحاظ تعلیم، خواہ بلحاظ، پیشگوئیوں اور غیب کے جو قرآن شریف میں موجود ہیں۔ غرض کسی رنگ میں دیکھو یہ معجزہ ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد ۲صفحہ ۲۶-۲۷ ایڈیشن۱۹۸۸ء- الحکم ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۲،۱)

تو جیسا کہ آپؑ نے فرمایا کہ قرآن کریم ایک مکمل معجزہ ہے۔ اور یہی نہیں کہ اس میں مکمل تعلیم آ گئی اور یہ معجزہ ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معجزے کے ہر حکم کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا اور اس پر عمل کرکے دکھایا تاکہ اپنے ماننے والوں کو بھی بتا سکیں کہ مَیں بھی ایک بشر ہوں، جہاں تک بشری تقاضوں کا سوال ہے۔ لیکن ایسا بشر ہوں جس کو خداتعالیٰ نے اپنا پیارا بنایا ہے۔ اور اپنی طرف جھکنے کی وجہ سے پیارا بنایا ہے۔ تم بھی اس تعلیم پر عمل کرو، میری سنت کی پیروی کرو اور اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق خداتعالیٰ کا قرب پانے والے بنو۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کے حکموں پر کس حد تک عمل کرتے تھے۔ اس بارے میں حضرت عائشہ ؓ کا مشہور جواب ہر ایک کے علم میں ہے کہ جب آپؓ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؓ نے فرمایا کہ کیا تم قرآن نہیں پڑھتے۔ پوچھنے والے نے کہا: کیوں نہیں۔ تو انہوں نے فرمایا کہ ’’فَاِنَّ خُلُقَ نَبِیِّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ الْقُرْآن‘‘۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق قرآن ہی تھے۔ (مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، باب جامع صلاۃاللَّیل ومن نام عنہ او مرضحدیث نمبر ۱۷۳۹)

یعنی قرآن کریم میں جس طرح لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کی۔ قرآن کریم میں جس طرح لکھا ہے کہ حقوق العباد ادا کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوق العباد ادا کئے۔ قرآن کریم میں جن باتوں کو کرنے کا حکم دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان باتوں اور حکموں پر مکمل طور پر عمل کیا، ان کو بجا لائے، ان کی ادائیگی کی۔ قرآن نے جن باتوں سے رکنے کاحکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان باتوں کو ترک کیا۔ قرآن کریم نے روزوں کا حکم دیا، صدقات کا حکم دیا، زکوٰۃ کا حکم دیا۔ آپؐ نے روزوں، صدقات اور زکوٰۃ کے اعلیٰ ترین معیار قائم کر دئیے۔ قرآن کریم نے معاشرے میں لوگوں کے ساتھ نرمی کا حکم دیا تو آپؐ نے نرمی کی وہ انتہا کی جس کی مثال نہیں مل سکتی۔ اپنے جانی دشمنوں کو بھی معاف فرما دیا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اصلاح معاشرہ کے لئے سختی کا حکم دیا تو آپؐ نے اس کی بھی پوری اطاعت و فرمانبرداری کی۔ غرض کون سا حکم ہے قرآن کریم کا جس کی آپؐ نے نہ صرف پوری طرح بلکہ اعلیٰ ترین معیار قائم کرتے ہوئے تعمیل نہ کی ہو۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے، آپؐ کے آپس کے تعلق کی بہت اچھی طرح مثال پیش کی ہے کہ قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو موتی ہیں جو ایک ہی سیپ سے اکٹھے نکلے ہیں۔ قرآن کریم کی تعلیم کو جاننا چاہتے ہو توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو دیکھ لو۔ اور اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں معلومات لینا چاہتے ہو، اگر یہ دیکھنا چاہتے ہو کہ آپؐ کے صبح و شام اور رات دن کس طرح گزرتے تھے، تو قرآن کریم کے تمام حکموں کو، اوامرونواہی کو پڑھ لو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سامنے آجا ئے گی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک اور مقدس زندگی کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ہادیٔ کامل اور پھر قیامت تک کے لئے اور اس پر کل دنیا کے لئے مقرر فرمایا۔ مگر آپؐ کی زندگی کے کُل واقعات ایک عملی تعلیمات کا مجموعہ ہیں۔ جس طرح پر قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی قولی کتاب ہے اور قانون قدرت اس کی فعلی کتاب ہے، اسی طرح پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بھی ایک فعلی کتاب ہے جو گویا قرآن کریم کی شرح اور تفسیر ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد۳صفحہ۳۴۔ ایڈیشن۱۹۸۸ء)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار جگہ مختلف حوالوں سے شیطان سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button