ہِرَقْلُ۔ عظیم الروم(حصہ اوّل)
الدلائل القطعیہ فی السیرۃ النبویہ
ہرقل نہایت زیرک اور بہادر حکمران اور تاریخ کے قابل ترین جرنیلوں میں سے ایک تھا۔اس کی فراست کا اندازہ ان سوالات اور ان سے اخذ کردہ نتائج سے ہو سکتا ہے جو اس نے ابو سفیان سے کیے
ہِرَقْلُ (۵۷۵ء تا ۶۴۱ء ) اس بازنطینی قیصر کا نام ہے جس کا ابتدائی اسلامی تاریخ میں ایک اہم کردار ہے۔ اسی کو آنحضورؐ نے تبلیغی خط تحریر فرمایا تھا جس پر اس نے ابو سفیان کو بلا کر آپؐ کے متعلق سوالات کیے تھے۔ اسی کے خلاف غزوۂ تبوک اور سریہ موتہ ہوئے اور اسی کی سلطنت کے اہم ترین صوبے شام، عراق، مصر، لیبیا اور مغرب مسلمانوں نے فتح کیے۔

ہرقل نے اپنی خدمات کا آغاز افریقہ میں اس علاقے سے کیا جو آج کل تیونس کہلاتا ہے۔ اس نے بغاوت کے بعد قسطنطنیہ کے شاہی تخت پر قبضہ کیا اور بازنطینی قیاصرہ کے ایک نئے خاندان کی بنیاد ڈالی۔ ہرقل کی زندگی متعدد بار مکمل شکست اور مکمل فتح سے عبارت ہے۔ بہت کم کسی بادشاہ کو یوں انتہائی ذلت و پستی اور انتہائی عروج و عزت کا اتنی مرتبہ سامنا کرنا پڑا ہو جیسا کہ ہرقل کو کرنا پڑا۔ ہرقل نہایت زیرک اور بہادر حکمران اور تاریخ کے قابل ترین جرنیلوں میں سے ایک تھا۔ اس کی فراست کا اندازہ ان سوالات اور ان سے اخذ کردہ نتائج سے ہو سکتا ہے جو اس نے ابو سفیان سے کیے۔ خوش قسمتی سے ہرقل کی ہم عصر رومی تواریخ میں بہت سی اہم معلومات محفوظ ہیں۔ اسی طرح عرب مؤرخین نے بھی اس کے متعلق بہت سی مفید معلومات جمع کی ہیں۔ ذیل کے مضمون میں دونوں اقسام کے ماخذ سے استفادہ کیا گیا ہے۔
ماخذ
بازنطینی کی جانب سے ہرقل کے متعلق بنیادی ماخذ میں سے بعض ہرقل کے زمانہ کے مصنفین سے براہ راست ہم تک پہنچے ہیں۔ ان میں سے اہم یہ ہیں: سیموکاٹا کی تاریخ جو اس نے ہرقل کے زمانہ حکومت میں لکھی تھی۔ آرمینیہ کے اسقف سبیوس، جو ہرقل کے زمانہ میں موجود تھا کی تاریخ جو ۶۶۱ء تک کے واقعات پر مشتمل ہے۔ لیونڈ کی تاریخ آرمینیہ ہرقل کے قریباً ۷۰؍سال بعد، کی تصنیف ہے۔ اسی طرح مصر کے اسقف نیکیو (متوفی قریباً ۷۰۰ء) کی تاریخ ، تھیوفانس (متوفی ۸۱۸ء) کی تاریخ اور ہرقل کے پایہ تخت قسطنطنیہ کے مسیحی بطریق نیکیفورس اول (متوفی ۸۲۸ء) کی تحریر کردہ تاریخ بھی اول درجہ کے ماخذ میں شمار ہوتی ہیں۔ آخر الذکر دونوں مصنفین ہرقل کی وفات سے قریباً ۱۵۰؍سال بعد لکھ رہے تھے تاہم ان کے سامنے کوئی اور ، اب مفقود، تاریخ موجود تھی جس سے انہوں نے مدد لی ہے اسی لیے دونوں کم و بیش ایک جیسی باتیں لکھتے ہیں۔ اور یہ مشترکہ ماخذ اصل واقعات کے قریب تھا۔
اسی طرح فرانس میں لکھی گئی تاریخ فریدڈیگار جو ۶۶۰ء کے قریب لکھی گئی ہرقل کے زمانہ کے بالکل قریب اور بازنطینی ماخذ سے آزاد ہے۔
عرب مؤرخین میں سب سے مشہور ابن ہشام (متوفی ۸۳۳ء) ہیں جن کی تاریخ رسول اللہؐ سیرت کے موضوع پر قدیم ترین کتب میں سے ہے۔ طبری (متوفی ۹۲۳ء) کی تاریخ الرسل و الملوک ، ابن اثیر (متوفی ۱۲۳۳ء) کی الکامل فی التاریخ اور ابن کثیر (متوفی ۱۳۷۳ء) کی البدایہ و النھایہ بھی بہت مشہور ماخذ ہیں۔ کتب حدیث میں امام احمد بن حنبل (متوفی ۸۵۵ء ) کی مسند ، اور امام بخاری (متوفی ۸۷۰ء ) کی صحیح اہم ترین ہیں۔
جدید محققین
جدید محققین میں سے Kaegi ہرقل پر ایک سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی مشہور ترین کتابHeraclius, Emperor of Byzantium سنہ۲۰۰۳ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب سے استفادہ کیے بغیر ہرقل پر بات کرنا اِس وقت ممکن نہیں۔ تاہم اس کے بعد بھی بہت کچھ تحقیق ہو چکی ہے اور اپنی تمام تر افادیت کے باوجود صرف اس ایک کتاب پر انحصار ممکن نہیں۔ ان کے بعد Howard-Johnston خصوصیت کے حامل ہیں اور بالخصوص روم و فارس کی جنگوں پر ماہر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ان کی ۲۰۲۱ء کی کتاب Last Great War of Antiquity ہرقل کی فارس کے خلاف جنگوں پر مستندہے۔ جرمنی سے Viermann کی تحقیقHerakleios, der schwitzende Kaiser سنہ۲۰۲۱ء میں شائع ہوئی اور اس زمانہ کی اب تک کی تازہ ترین کتاب Kallidis کی The New Roman Empire ہے جو ۲۰۲۴ء میں شائع ہوئی۔اس موضوع پر تحقیق جاری ہے اور قوی امید ہے کہ اس وقت موجود اختلافی امور میں سے بعض کے متعلق فیصلہ کن حقائق دریافت ہو جائیں گے۔
والدین، بچپن، تعلیم
ہرقل کا مکمل نام فلاویوس ہیراکلیوس تھا۔ غالب امکان ہے کہ اس کے خاندان کا تعلق آرمینیہ سے تھا۔ اس کے باپ کا نام بھی ہیراکلیوس تھا جبکہ ماں ایپی فانیہ کہلاتی تھی۔باپ اور بیٹے میں فرق کرنے کے لیے اکثر ہیراکلیوس کبیر اور ہیراکلیوس صغیر کی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ لیکن اس مضمون میں بیٹے کا عربوں میں مشہور نام ہرقل اور باپ کا نام ہیراکلیوس لکھا گیا ہے۔ ہرقل کا باپ یعنی ہیراکلیوس ایک رومی جرنیل تھا جو ۵۸۵ء میں ایک اہم عہدے پر فائز اور اپنے علاقے کا سپریم کمانڈر تھا۔ مشرقی افواج کے سپہ سالار فیلیپیکوس کی عدم موجودگی میں اسے ۵۸۷ء میں ان افواج کی کمان بھی سونپی گئی تھی جس سے اس کی صلاحیتوں اور بازنطینی حکومت کے اس پر اعتماد کا اظہار ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد ۵۹۵ء میں اسے آرمینیہ کی فوجوں کا کمانڈر بنا دیا گیا۔ اس کی جنگی مہمات کا تفصیلی ذکر مؤرخ سیموکاٹا نے اپنی تاریخ میں کیا ہے۔ ابن خلدون نے ہرقل کا نام ’’ہرقل بن ہرقل بن انطونیش‘‘ بتایا ہے۔ (Kaegi, Heraclius, P 21، ابن خلدون، تاریخ، جلد ۲، صفحہ ۲۶۴)
ہرقل کے بچپن کے اساتذہ، اس کے دوستوں یا اس کے کلیسا کے ساتھ تعلقات کے متعلق زیادہ معلومات محفوظ نہیں۔ غالب خیال ہے کہ وہ آرمینیہ اپنے باپ کے پاس آتا جاتا ہو گا یا اسی کے پاس رہائش پذیر ہو گا۔ بعد کی زندگی میں آرمینیہ کے علاقہ سے اس کی واقفیت نے ہرقل کی بہت مدد کی۔ کہا جاتا ہے کہ بچپن میں ہرقل نے خواب دیکھا تھا کہ وہ سلطنت حاصل کرے گا۔ گو اس جگہ یہ واضح نہیں ہے کہ اس سے مراد قیصر ہرقل ہے یا اس کا باپ ہیراکلیوس۔ عرب مؤرخین نے بھی اس خواب کا ذکر کیا ہے البتہ انہوں نے اسے ہرقل کی بغاوت کے وقت بیان کیا ہے نہ کہ بچپن میں۔گو یہ خواب سچا بھی ہو سکتا ہے مگر اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ یہ خواب ہرقل کی بادشاہت کو مذہبی جواز فراہم کرنے کے لیے یا اس کی بڑائی ظاہر کرنے کے لیے گھڑ لیا گیا ہو۔ ہرقل بغاوت کر کے تخت پر قابض ہوا تھا اس لیے اس کی حکومت کو جواز فراہم کرنا ضروری تھا۔ (Kaegi, Heraclius P 24، طبری، تاریخ، جلد ۲، صفحہ۱۸۲)
رومی سلطنت کے مشرق میں خدمات سر انجام دینے کے بعد ۶۰۲ء سے قبل کسی وقت، غالباً ۶۰۰ء میں ، قیصر موریکیوس نے ہیراکلیوس کو افریقہ کا گورنر جنرل بنا دیا اور وہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے قرطانجہ، موجودہ تیونس، چلا گیا۔ مشرق میں فارس کی سرحد پر جنگی مصروفیات کی جگہ اب اس کے ذمہ قرطانجہ میں پُرسکون انتظامی کام تھے۔ چنانچہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہرقل نے ۲۵؍ سے ۳۵؍ سال کی عمر اپنے باپ کے ہمراہ تیونس ہی میں گزاری۔ بعض علماء کے نزدیک قرطانجہ تعیناتی کا واقعہ ۵۹۸ء کا ہے۔اس زمانہ کے متعلق ذکر کیا گیا ہے کہ ہرقل کافی طاقتور اور نڈر تھا اور عوام کے سامنے جنگلی سؤر اور شیروں کے ساتھ لڑا کرتا تھا۔(Fredegarius, 4.65، Venning, P 136، Kaegi, Heraclius, P 26)
ہرقل کی ماں ایپی فانیہ اس دوران اس کی منگیتر فابیہ (جس نے اپنا نام بدل کر اوڈوکیہ رکھ لیا تھا) کے ساتھ سلطنت کے مشرق میں مقیم رہی۔ فابیہ ایک افریقی خاندان سے تعلق رکھتی تھی اور اس کے باپ کا نام روگاس تھا۔ (Kaegi, Heraclius, P 36)
ہرقل کا چچا گریگوری اور چچا زاد بھائی نیکیٹاس بھی افریقہ میں ہی رہائش پذیر تھے۔ان کے ساتھ ہرقل کے تعلقات آخر تک مثالی رہے اور انہوں نے ہرقل کو تخت پر قبضہ کرنے میں کافی مدد کی۔ ہرقل کا بیٹا، جو اس کے بعد قیصر بنا، کی شادی نیکیٹاس کی بیٹی سے ہوئی۔(Kaegi, Heraclius, P 30)
ہرقل پڑھا لکھا تھا۔ اس کو یونانی زبان پر دسترس حاصل تھی جبکہ لاطینی کے متعلق کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ ہرقل کو لاطینی بولنی یا سمجھنی آتی تھی۔ ہرقل کی ایک ہم عصر تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے علم النجوم میں خاص مہارت حاصل تھی۔ عرب مؤرخین نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اسی بنا پر ہرقل نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ مختون قوم کا بادشاہ ظاہر ہو چکا ہے۔ اس زمانہ میں علم النجوم اور دیگر ایسے ’علوم‘ عام تھے اور ہرقل کو ان میں گونہ دسترس حاصل تھی۔ اٹلی میں وینس کی لائبریری میں ہرقل کی چند کتب کا ذکر موجود ہے گو وہ کتب موجود نہیں۔ پیرس میں علم النجوم پر ایک کتاب کے کچھ ٹکڑے موجود ہیں جو ہرقل سے منسوب ہیں۔ (عبد الرزاق، مصنف، غزوۃ حدیبیہ، جلد ۶، صفحہ ۲۴، ابن کثیر، البدایہ و النھایۃ، جلد ۶، صفحہ ۴۷۰،Kaegi, Heraclius, P 35، Fredegarius, 4.65، Stratos P94)
ہرقل کے ایک بھائی تھیوڈور س کا ذکر بھی ملتا ہے، جو ایک فوج کا سپہ سالار تھا۔ عرب مؤرخین نے اس کا نام تذارق بیان کیا ہے۔ (طبری، تاریخ، جلد ۳، صفحہ ۴۰۵، ابن حبان، سیرۃ ، جلد ۲، صفحہ ۴۴۷) جبکہ دوسرے بھائی، گریگوریوس، کا ذکر کم کیا گیا ہے۔ ہرقل کی بہن مارٹینہ کے متعلق بھی تفصیلات ملتی ہیں جن میں سے کچھ کا ذکر آگے آئے گا۔
قیصر موریکیوس کا قتل ۶۰۲ء
رومی سلطنت میں بغاوت بہت کم ہوتی تھی۔ چنانچہ ۵۹۴ء میں، قیصر موریکیوس ہی کے زمانہ میں مسیحی مؤرخ ایواگریوس نے بڑے فخر سے لکھا کہ جب سے قسطنطین اعظم نے مسیحیت قبول کی ہے قیاصرہ پُرامن طریق پر اقتدار میں آتے رہے ہیں اور ان کے خلاف نہ باغی کامیاب ہوئے ہیں نہ ہی کسی غیر طاقت نے ان کا تخت چھینا ہے۔ (سفر ۳، باب ۴۱) وہ اس بات کو مسیحیت کی سچائی اور خدائی تائید کے نشان کے طور پر پیش کرتا ہے۔ تاہم ایواگریوس کو معلوم نہ تھا کہ اس کی یہ بات بہت جلد ایک بھیانک طریق پر غلط ثابت ہونے والی ہے۔ نہ صرف قیصر موریکیوس کے خلاف بغاوت ہو گی، بلکہ اس کے ایسے دُور رَس نتائج نکلیں گے جو رومی سلطنت کو بنیادوں تک ہلا کر رکھ دیں گے اور پھر کبھی وہ پہلی سی شان و شوکت حاصل نہ کر سکے گی۔
تاریخ | قیصر | کسریٰ | نوٹ |
۳۱؍جنوری۵۷۹ء | ہرمز چہارم | ||
۱۳؍اگست ۵۸۲ء | موریکیوس | ||
ستمبر ۵۹۰ء | خسرو ثانی آبرویز | پہلا دور حکومت | |
ستمبر ۵۹۰ء | بہرام ششم | ||
جنوری ۵۹۱ء | خسرو ثانی آبرویز | دوسرا دور حکومت | |
۲۳۔ نومبر ۶۰۲ء | فوکاس |
ہرقل کے قیصر بننے تک رومی اور فارسی سلاطین
۵۔ اکتوبر ۶۱۰ء | ہرقل |
اس کی تقریب یوں پیدا ہوئی کہ قیصر موریکیوس نے نومبر ۶۰۲ء کے آغاز میں بلقان کے علاقہ میں برسر پیکار رومی افواج کو دریائے ڈینیوب کے کنارے پڑاؤ ڈالنے اور اپنے لیےخوردونوش کا سامان خود مہیا کرنے کے احکامات دیے۔ رومی فوجی شدید سردیوں کے موسم میں ایسا نہیں کرنا چاہتے تھے۔چنانچہ انہوں نے اپنے جرنیل فوکاس کی سرکردگی میں علَم بغاوت بلند کر دیا۔ سپاہ کی حمایت سے فوکاس ۲۵؍نومبر کو دارالحکومت قسطنطنیہ میں داخل ہوا اور اس کے فوجیوں نے قیصر موریکیوس اور اس کے چھ بیٹوں کو قتل کردیا۔ جبکہ ملکہ اور شہزادیوں کو نظر بند کر دیا گیا۔ پانچ سال بعد ۷ جون ۶۰۷ء کو ملکہ قسطنطنیہ اور اسکی تین بیٹیاں بھی قتل کر دی گئیں۔(Venning, P137-141, Howard-Johnston P16-17, Viermann P80)
یہ بغاوت اچانک نہیں ہوئی۔ اس سے پہلے مسلسل مختلف مواقع پر قیصر موریکیوس کو مالی تنگی اور قحط سالی وغیرہ کی وجہ سے فوج کی تنخواہ میں کمی یا تنخواہ کی جگہ غلہ اجناس وغیرہ دینا پڑا۔ ہر مرتبہ افواج نے قیصر کے خلاف شور و غوغا کیا اور بار بار نوبت بغاوت تک پہنچتی رہی۔ اس پر مجبوراً تنخواہوں میں اضافہ وغیرہ کے ذریعہ فوجی بغاوت کو فرو کرنا پڑا۔ یعنی ایک طرف تو موریکیوس کا فوج کے ساتھ سلوک خواہ مجبوراً ہی، اچھا نہیں تھا اور دوسری طرف فوج بھی خود سر تھی اور بغاوت پر اتر آتی تھی۔ حالات اس نہج تک پہنچ چکے تھے کہ ایک مرتبہ جب یورپی جنگلی قبائل نے حملہ کیا تو یہ بات مشہور ہو گئی کہ موریکیوس نے جان بوجھ کر اپنی فوج ان کے ہاتھوں گرفتار ہونے دی اور رومی فوجیوں کی رہائی کے بدلہ میں فدیہ دینے سے بھی انکار کردیا۔ چنانچہ انہوں نے گرفتار شدہ رومی فوجیوں کو قتل کردیا۔ (Viermann, P81، Chronicon Paschale P200, Olster P51)

پس فوج میں بے چینی اور قیصر موریکیوس کے خلاف جذبات پہلے سے موجود تھے۔ اسی پس منظر میں سردیوں میں بلقان کے علاقے میں پڑاؤ کے حکم نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور کھلے عام بغاوت شروع ہو گئی۔ لیکن محض فوج کی مخالفت اس وقت تک کارگر نہیں ہو سکتی تھی جب تک عوام بادشاہ کے خلاف نہ ہوتی۔ صورتحال اتنی ابتر ہو چکی تھی کہ قیصر نے خیال کیا کہ وہ دار الحکومت چھوڑ کر چلا جائے اور پھر اپنے حمایتیوں کے ساتھ تخت واپس حاصل کرے۔ تاہم اس کوشش کے دوران ہی فوکاس کی افواج نے اسے پکڑ کر قتل کر دیا۔ مؤرخ سیموکاٹا کے مطابق موریکیوس کا خیال تھا شاید کہ اسے کسریٰ خسرو آبرویز (’’آبرویز‘‘یعنی ’’فاتح‘‘کو جدید فارسی میں ’’پرویز‘‘ کہا جاتا ہے) سے مدد مل جائے جیسا کہ اس نے مشکل وقت میں کسریٰ کی مدد کی تھی۔ (سیموکاٹا سفر ۸ باب ۹) مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی اور موریکیوس کو مدد پہنچنے سے پہلے ہی قتل کر دیا گیا،۔ لیکن کسریٰ نے بازنطینی سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔(Viernmann, P89)
بادشاہ اور اس کے خاندان کا بےدردی سے قتل بھی ایک ظلم تھا جس کے خلاف مملکت کی اشرافیہ میں ردِعمل ہونا تھا۔ فوکاس، کو یہ احساس تھا کہ وہ بغاوت کر کے حکومت پر قابض ہوا ہے اور سلطنت کے بہت سے ارکان اور عمائدین اس کی بغاوت سے متفق نہیں۔ اس لیے اس نے اپنے معتمدین کو اہم جگہوں پر متعین کرنا شروع کر دیا۔ اس سے دیگر عمائد میں مزید بے چینی پیدا ہوئی۔ رہی سہی کسر نئے بادشاہ کی سختی اور مخالفین پر ظلم و ستم نے نکال دی۔
ظلم کا شیطانی چکر
ظلم ظلم ہی ہے خواہ بطور سزا ہی کیوں نہ کیا گیا ہو۔ مثلاً موریکیوس کے اپنے ہی فوجیوں پر ظلم کا بدلہ تو اُسے ملا۔ لیکن فوکاس نے موریکیوس اور اس کے خاندان پر جو ظلم کیا اس کی سنگینی اس وجہ سے کم نہیں ہو جاتی۔ فوکاس نے بہرحال اپنی جگہ ظلم کیا جس کا اُسے کوئی حق نہ تھا۔ فوکاس کا انجام ظاہر کرتا ہے کہ اسے بھی اپنے کیے کی سزا ملی۔ مکافات عمل کے ایسے سلسلہ کا اختتام اس وقت ہوتا ہے جب کسی قدم پر سزا براہ راست خدائی پکڑ کی صورت میں آئے یا پھر ظالم اپنے ظلم کی تلافی کر دے۔ ایک ظلم دوسرے ظلم کے ذریعہ ہرگز نہیں مٹ سکتا۔ اسی لیے قرآن کریم میں قتل کا بدلہ لیتے وقت بھی یہ ہدایت کی گئی ہے کہ فَلَا یُسۡرِفۡ فِّی الۡقَتۡلِ(بنی اسرائیل:۳۴) یعنی قاتل، جو قتل کی سزا کا حقدار ہے، کے ساتھ بھی سزا دیتے وقت زیادتی نہ کی جائے۔ دیگر مواقع پر بھی یہی ہدایت ہے کہ جو تمہارے خلاف لڑے، اس سے لڑو، مگر زیادتی مت کرنا۔(البقرۃ:۱۹۱) بدلہ کی حد تک سزا دینا جائز ہے، گو سزا دینا ضروری نہیں بلکہ اصلاح کا امکان ہو تو معاف کرنا یا سزا میں تخفیف کرنا بہتر قرار دیا گیا ہے۔ لیکن کسی بھی صورت میں جرم کی حد سے زیادہ سزا دینا منع ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں پھر ظلم کا وہ لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو انفرادی اور اجتماعی زوال کا باعث بنتا ہے۔
فارس کی یلغار ۶۰۳ء
فوکاس کے زوال کا سلسلہ جلد ہی شروع ہو گیا۔ وہ اس طرح کہ شہنشاہ فارس کسریٰ خسرو ثانی آبرویز نے اس قتل کا بدلہ لینے کے لیے ۶۰۳ء میں بازنطینی سلطنت پر چڑھائی کر دی۔اس لیے فوکاس کی توجہ اور سلطنت کی آمد کا ایک حصہ مشرقی سرحدی مصارف کی طرف منتقل ہو گیا۔(Howard-Johnston, Heraclius‘ persian campaigns)
خسرو ثانی آبرویز کے اس حملے کا پس منظر یہ ہے کہ اس کے باپ ہرمز چہارم نے اپنے ایک مشہور جرنیل بہرام چوبین کو ذلیل کر کے معزول کر دیا تھا۔ اس پر بہرام نے بغاوت کردی۔ ہرمز کی بیوی کے بھائیوں، وستہم اور وندویہ، نے ہرمز کو قتل کروا کر اس کی جگہ اس کے بیٹے یعنی اپنے بھانجے خسرو ثانی آبرویز کو بادشاہ بنا دیا۔ تاہم بہرام نے بغاوت جاری رکھی اور خسرو کو اپنے ماتحت آنے کا حکم دیا۔ بہرام کے ہتک آمیز خط کے جواب میں کسریٰ خسرو آبرویز نے بہت نرم جواب دیا اور بہرام کو اپنا اتحادی کہا۔ تاہم بہرام نے آگے بڑھ کر سلطنت پر قبضہ کرلیا۔(Daryaee P.31- 32, Viermann P.71- 74, Kaldellis, P350, Theophylact, 4,7- 8)

اس وقت خسرو نے جان بچانے کے لیے بھاگ کر بازنطینی سلطنت میں پناہ لی اور قیصر موریکیوس سے مدد مانگی۔ رومی سینیٹ نے قیصر کو مشورہ دیا کہ ایسا نہ کیا جائے تاہم موریکیوس نے خسرو کی مدد کی اور وہ قیصر کی تائید سے بالآخر بہرام کو شکست دے کر اپنا تخت واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔یہ قصہ کافی زیادہ تفصیل کے ساتھ مختلف مؤرخین نے بیان کیا ہے۔ (طبری، تاریخ، جلد ۲، صفحہ ۲۱۶ الیٰ آخر، Olster, P32، Theophylact , 4)
موریکیوس نے سینیٹ کے مشورہ کے برخلاف آبرویز کی مدد کیوں کی؟ اس کے متعلق اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ بعض علماء کے نزدیک اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ موریکیوس تخت فارس پر ایک ناتجربہ کار، نوجوان اور اپنے زیر احسان بادشاہ دیکھنا پسند کرتا تھا۔ آبرویز کے مقابل پر بہرام تجربہ کار جنگجو تھا جس سے رومی سلطنت کو زیادہ خطرہ ہونا تھا۔ بہرحال موریکیوس کا فیصلہ درست ثابت ہوا اور بازنطینی سلطنت کو ایک عرصہ تک امن نصیب ہوا۔ رومی سلطنت جو سالانہ تاوان فارس کو ادا کرتی تھی ، اس کی ادائیگی بھی ختم ہو گئی۔
ہیراکلیوس کی بغاوت ۶۰۸ء
مشرق میں فارس کی یلغار جاری تھی کہ ہرقل کے باپ، یعنی ہیراکلیوس، نے ۶۰۸ء میں افریقہ میں علم بغاوت بلند کردیا۔ ہیراکلیوس نے اپنے نام کا سکہ بھی جاری کر دیا لیکن اس میں احتیاطاً اپنا لقب ’’قیصر‘‘ کی بجائے ’’قنصل‘‘ متعارف کروایا۔ اس زمانے میں قیصر ہی قنصل بھی ہوتے تھے۔ یوں ہیراکلیوس نے گویا اپنے آپ کو قیصر کہے بغیر قیصر کے مقام کا دعویٰ کر دیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی افریقہ میں بازنطینی علاقوں لیبیا، مصر وغیرہ میں اس کے مخالف اور موافق دھڑوں میں خانہ جنگی شروع ہو گئی جس میں ہیراکلیوس کو کامیابی ہوئی اور یوں افریقہ سے قسطنطنیہ کو اناج کی فراہمی بند ہو گئی۔(Kaegi, Heraclius, P 39- 41)
ہیراکلیوس نے بغاوت کیوں کی؟ یقینی طور پر تو اس کی وجہ معلوم نہیں لیکن غالب امکان ہے کہ اسے یہ خوف ہو گا کہ دیگر بہت سے لوگوں کی طرح اس کو بھی سابقہ قیصر موریکیوس کا اہم معتمد ہونے کی بنا پر معزول کر دیا جائے گا۔ فوکاس نے قیصر موریکیوس کے خاندان کے علاوہ اہم جرنیلوں کو بھی قتل کروادیا تھا مثلاً یورپ میں متعین جرنیل کومینٹیلوس اور مشرق میں متعین نائب جرنیل گریگروس ،جو قیصر موریکیوس کا بھائی تھا، کو قتل کروا دیا تھا۔ علاوہ ازیں اس نے بعض اہم عہدیداروں کو راہب بننے پر مجبور کر دیا۔(Kaegi, Heraclius, P 38, Chr. Paschale. 602- 603 Theophylact, 3, 8)
بہرصورت بغاوت کا فیصلہ کرنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ باغیوں پر یہ واضح تھا کہ اگر ان کی بغاوت ناکام ہو گئی، جیساکہ اس سے قبل تین سو سال کی بغاوتیں ناکام ہو چکی تھیں، تو نہ صرف وہ خود ایک دردناک موت سے دوچار ہوں گے بلکہ ان کے خاندانوں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا اور ان کی تمام جائیداد ضبط کر لی جائے گی۔ اس سے ظاہر ہے کہ کامیابی کا مکمل یقین کیے بغیر بغاوت نہ کی گئی ہو گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ فوکاس کے ۶۰۲ء میں تخت نشین ہونے کے بعد چھ سال تک انتظار اور تیاری کی گئی اور ۶۰۸ء میں بغاوت ہوئی۔ ایسی بغاوتوں میں فوج کے ایک معتد بہ حصہ، بادشاہ کے قریبی حلقہ اور دارالحکومت کی اہم سیاسی شخصیات کی پشت پناہی حاصل کرنا ضروری ہوتی ہے۔
ہیراکلیوس اہم فوجی عہدوں پر متعین رہ چکا تھا اور افریقہ کا گورنر بھی تھا، اس لیے یقیناً کچھ جرنیلوں اور اہم افراد سے اس کے روابط ہوں گے۔ بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ فوکاس کے داماد، پریسکوس ، نے ہیراکلیوس کو قسطنطنیہ پر حملہ کی دعوت دی تھی۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ قیصر فوکاس نے اپنی بیٹی کی شادی پر اہالیان قسطنطنیہ کی جانب سے اس کے مجسمے بنانے پر سخت برہمی کا اظہار کیا تھا اور شہر کی دونوں بڑی پارٹیوں کے سربراہوں کو قتل کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ اس حرکت سے اسے بڑی مشکل سے باز رکھا گیا۔ اس وقت سے فوکاس اور اس کے داماد پریسکوس کے درمیان رنجش تھی۔ مؤرخ تھیوفانس کے مطابق پریسکوس کی جانب سے ہرقل کے باپ کو بغاوت کرنے کے لیے خطوط بھی لکھے گئے تھے(تھیوفانس ۶۱۰۰)مؤرخ نیکوفورس نے بھی اس بات کی تائید کی ہے(تاریخ، باب اول)۔ تاہم یوحنا انطاکی کے مطابق یہ خطوط بغاوت شروع ہونے کے بعد لکھے گئے تھے۔(Kaegi, Heraclius, P 42)
غالب امکان یہ ہے کہ تحریری طور پر بغاوت پر اکسانے سے قبل ان کے درمیان دیگر ذرائع سے رابطہ ہو گا۔ چنانچہ تھیوفانس نے تصریح کی ہے کہ جب پریسکوس کو افریقہ میں بغاوت کی تیاری کی اطلاع ملی تو یہ خطوط لکھے گئے۔ بہرحال اگر یہ خطوط پکڑے جاتے یا ہیراکلیوس ہی ان کے متعلق قیصر کو اطلاع دے دیتا تو پریسکوس کا انجام ہولناک ہونا تھا۔ پس بغاوت کے خطوط اسی وقت لکھے جا سکتے تھے جب پریسکوس کو معلوم ہو چکا تھا کہ ہیراکلیوس بغاوت پر آمادہ ہو چکا ہے۔
ہرقل قیصر روم ۶۱۰ء
بغاوت کا آغاز ہوتے ہی ہر جگہ خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ سلطنت کی دونوں بڑی پارٹیاں منقسم ہو گئیں۔ سبز پارٹی ہرقل کے حق میں جبکہ نیلی پارٹی فوکاس کے حق میں تھی۔ ہیراکلیوس نے قرطانجہ اور اس کے بھائی گریگوریوس نے اسکندریہ کا محاذ سنبھالا جبکہ ان کے دونوں نوجوان بیٹوں ، ہرقل اور نیکیٹاس نے دو مختلف جانب پیش قدمی شروع کر دی۔ نیکیٹاس نے مصر کی جانب بڑھنا شروع کیا۔ جبکہ ہرقل کا راستہ معین طور پر معلوم نہیں مگر خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے سمندر کے راستے یا تو سسلی، یونان اور پھر قسطنطنیہ کا سفر اختیار کیا۔ یا پھر مصر سے قبرص اور وہاں سے قسطنطنیہ پر حملہ کیا۔ نیکیٹاس کو مصر میں فتح حاصل ہوئی اور اسکندریہ کے قریب اس نے فوکاس کی افواج کو فیصلہ کن شکست دی۔ ایک تجربہ کار جرنیل کے مقابل پر نوجوان نیکیٹاس کی فتح میں اہم کردار غالباً نئی طرز کی منجنیق کا استعمال تھا جو چین میں کئی سو سال پہلے ایجاد کی گئی تھی مگر شرق اوسط میں اس زمانہ میں پہنچی تھی۔ ان منجنیقوں کے ذریعہ بھاری پتھر زیادہ فاصلہ تک پھینکے جا سکتے تھے۔ عوام نے باغیوں کا ساتھ دیا اور متعدد سرکاری عمارتوں پر قبضہ کر لیا۔ یوں مصر، جو دار الحکومت کو اناج فراہم کرنے کے لیے نہایت اہم تھا، قیصر فوکاس کے ہاتھ سے نکل گیا۔(Kaldellis, P.349, Kaegi, Heraclius, P46, Howard-Johnston P56, Stratos P84- 87)
قدیم قسطنطنیہ : شہر کے تین اطراف میں سمندر ہے
اس اثنا میں ہرقل درہ دانیال اور بحیرہ مرمرہ سے ہوتے ہوئے قسطنطنیہ پہنچ گیا۔ اس کا چچا زاد بھائی نکیٹاس بھی وہاں آن پہنچا۔ قسطنطنیہ کے قریب ہرقل کو تاج پہنا دیا گیا۔ اُدھر قیصر فوکاس نے قسطنطنیہ کی فصیل کے پاس جہاں اس کے خیال میں ہرقل نے اترنا تھا اپنے بھائی کو فوج دے کر متعین کر دیا۔ مگر ہرقل نے اس جگہ کی بجائے دوسری جانب سے شہر پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ موسم گرما میں بحیرہ مرمرہ پہنچ جانے کے باوجود ہرقل نے فوری حملہ کرنا مناسب نہیں سمجھا اور مناسب وقت کا انتظار کرنے لگا۔ (Kaegi, Heraclius, P 48)
اس دوران ہرقل کے لشکر میں اضافہ ہوتا رہا۔خانہ جنگی میں اکثر اوقات لوگ یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ کس فریق کا پلڑا بھاری ہے تاکہ اس کے ساتھ مل جائیں کیونکہ جنگ میں ہارنے والے فریق کا انجام ہمیشہ دردناک ہوتا ہے۔ جس طریق پر ہرقل کے حمایتیوں نے افریقہ اور خصوصاً مصر پر قبضہ کر لیا تھا اور اس کے بیڑے کو راستہ میں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا اس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ اس کا پلڑا ہی بھاری رہے گا۔
تین اکتوبر ۶۱۰ء کو ہرقل کی فوجیں قسطنطنیہ کی فصیل کے پاس اتریں۔ اگلے روز، چار اکتوبر کو فوکاس کے جرنیل بونوسوس نے اس کا ساتھ چھوڑ کر کشتی کے ذریعہ بھاگنے کی کوشش کی مگر مارا گیا اور اس کی لاش پانی سے نکال کر جلا دی گئی۔ شہر میں موجود ہرقل کے حمایتی سبز فریق نے اس کی ماں اور منگیتر کو قید سے آزاد کروا لیا۔ قیصر فوکاس کو شاہی محل سے گرفتار کر کے ہرقل کے پاس لایا گیا۔ اگلے روز پانچ اکتوبر بروز سوموار ہرقل نے زمین پر قدم رکھا۔
قیصر فوکاس کے ساتھ اسی طرح کا سفاکانہ سلوک کیا گیا جیسا کہ اس نے قیصر موریکیوس اور اس کے خاندان کے ساتھ کیا تھا۔ اس کو قتل کر دیا گیا اور اس کے بعد اس کا دایاں بازو کندھے کے پاس سے کاٹ دیا گیا اور سر تن سے جدا کر دیا گیا۔ اس کا ہاتھ نیزے میں پرو کر شہر میں گھمایا گیا۔ لاش کو پہلے شہر میں گھسیٹا پھر جلا دیا گیا۔ اسی روز شام کو ہرقل کو سٹیفانوس کی کلیسا میں باقاعدہ قیصر بنا دیا گیا۔(Chronicon Paschale P 150, Nikephoros 1)
اس وقت ہرقل کی عمر ۳۵؍ سال بتائی جاتی ہے۔ قیصر بنتے ہی ہرقل نے اپنی منگیتر فابیہ سے شادی کرلی۔ فابیہ نے اپنا شاہی نام اوڈوکیہ رکھ لیا اور اسے ملکہ کا تاج پہنا دیا گیا۔ ہرقل نے اپنے باپ کو اپنے قیصر بننے کی اطلاع دی۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ اس کے جلد بعد ہی وہ فوت ہو گیا کیونکہ تاریخ میں اس کا مزید ذکر نہیں ملتا۔(Stratos P92, Kaldellis, P 350, Kaegi, Heraclius, P 51 -52, Stratos P91)
اس کے ساتھ ہی ہرقل عظیم، قیصر روم ،بازنطینی سلطنت کے فرمانروا کے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ چنانچہ تاریخ اب ہرقل کے سالوں میں لکھی جانے لگی۔ اگلے سال سات جولائی ۶۱۱ء کو بدھ کے دن ہرقل کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام اس نے اپنی ماں کے نام پر اوڈوکسیا ایپی فانیہ رکھا۔ اس سے اگلے سال ۳مئی ۶۱۲ء کو بدھ کے روز اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام اپنے باپ اور دادا کے نام پر ہیراکلیوس قسطنطین رکھا۔ ولی عہد کی پیدائش کی خوشی مگر زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکی کیونکہ تین ماہ بعد ہی اتوار ۱۳؍اگست ۶۱۲ء کو اوڈوکیہ مرگی کے مرض سے وفات پا گئی۔ فابیہ؍اوڈوکیہ کا بیٹا ہیراکلیوس قسطنطین ۲۲ جنوری ۶۱۳ء کو ہرقل کا شریک قیصر مقرر کر دیا گیا۔(Chronicon Paschale P153- 154, Nikephoros 3, Howard-Johnston P85)

مارٹینہ
اوڈوکیہ کی وفات کے بعد ہرقل نے ۶۱۳؍۶۱۴ء میں دوسری شادی کی۔ تاہم یہ شادی رومی قوانین اور مسیحی طریق کار کے خلاف تھی۔ کیونکہ اس کی یہ بیوی مارٹینہ اس کی سگی بہن ماریہ کی اپنے پہلے خاوند مارٹینوس سے بیٹی تھی یعنی ہرقل کی بھانجی۔ کلیسا نے ہرقل پر دباؤ ڈالا کہ یہ شادی غلط ہے اور اسے اس کام سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ اسقف اعظم سرگیوس نے ہرقل کو خط لکھ کر اس شادی کی ممانعت بیان کی۔ مگر بےسود۔ ہرقل نے اسے جواب دیا کہ تم نے بطور پادری اور بطور دوست اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ اب اپنے اعمال کا میں خود ذمہ دار ہوں۔ ہرقل کے اس شادی پر اس قدر اصرار کی بنا پر بعض علماء کا خیال ہے کہ اس کی بنیاد بائیبل کے عہدنامہ قدیم کے قوانین پر تھی ، جن میں یہ شادی جائز قرار دی گئی ہے۔(Viermann, P174 -175)
تاہم یہ رشتہ مسیحی کلیسا کی تعلیمات کے بہرحال برخلاف تھا۔ نیچے ذکر آئے گا کہ ہرقل نے اپنی بیٹی کی شادی بھی اس کے چچازاد سے کی تھی اور یہ شادی بھی کلیسا کے قوانین کے خلاف تھی۔ تاہم ہرقل نے حکومت کے مفاد کو کلیسا کے قوانین پر مقدم رکھا۔ مارٹینہ سے ہرقل کے ہاں دو بیٹے پیدا ہوئے جن کے نام فلاویوس اور تھیوڈوسیوس رکھے گئے۔ فلاویوس کی گردن میں نقص تھا جس کی وجہ سے وہ اپنا سر پوری طرح گھمانے کے قابل نہ تھا جبکہ تھیوڈوسیوس بہرہ تھا۔ ہرقل کے بھائی تھیوڈوروس نے مسلمانوں کے فلسطین پر حملہ کے دوران ہرقل کے متعلق کہا تھا کہ اس کا گناہ اس کے سامنے آ رہا ہے۔ اس بات سے اس کا اشارہ ہرقل کی مارٹینہ سے شادی کی طرف ہی تھا۔ اس بات پر اسے ہرقل کی ناراضگی کا سامنا بھی کرنا پڑا اور اُسے مشرقی افواج کی کمان کرنے سے معزول کر دیا گیا۔(Byzantine Empresses P63، Nikephoros 11, 20)

مارٹینہ ایک غیر معمولی عورت تھی۔ ہرقل کے سکوں پر اس کی موجودگی اس کی خصوصی اہمیت کا ثبوت ہے۔ دیگر رومی ملکہ اور شہزادیوں کے برخلاف مارٹینہ نے تمام سفروں میں ہرقل کا ساتھ دیا اور اس کی تمام جنگوں میں بنفس نفیس شریک ہوئی۔ ان کے دس بچے تھے جن میں سے دو معذور تھے جن کا ذکر ہوچکا ہے۔۶۲۴ء اور ۶۲۸ء کے درمیان ان کے چار بچے جنگی سفروں کے دوران ہی وفات پا گئے۔
مارٹینہ نے اپنے بیٹے کو ولی عہد بنوانے کی کوشش کی اور اس میں اس حد تک کامیاب بھی ہو گئی کہ اس کے بیٹے کو ولی عہد ثانی مقرر کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ اس نے اپنے لیے خصوصی مقام و مراعات بھی حاصل کر لیں۔ ہرقل کی وفات کے ساتھ ہی اس کا سوتیلا بیٹا ہیراکلیوس قسطنطین ثالث قیصر بنا تو ان کے درمیان اختلاف بڑھ گیا۔ رومی عوام مارٹینہ کی غیرقانونی شادی اور اس کے بڑھتے ہوئے رسوخ کی وجہ سے اس کے خلاف تھے۔ چنانچہ اسے بالآخر پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ نیکیفورس لکھتا ہے کہ عمائدین سلطنت نے اسے غیرملکی وفود سے ملنے سے بھی روک دیا تھا۔(Byzantine Empresses P64- 65, Nikephoros 28)
ہرقل کی زندگی میں ہی شام و مصر کی مسلمانوں کے ہاتھوں فتح کے بعد بازنطینی سلطنت ان دو اہم صوبوں کے ٹیکس سے محروم ہو چکی تھی جبکہ مسلسل جنگوں کی وجہ سے دفاعی اخراجات بڑھ گئے تھے۔ اس لیے قیصر نے اپنی سوتیلی ماں کی مختلف مالی مراعات ختم کیں بلکہ اپنے باپ ہرقل کا وہ سونے کا تاج بھی قبر سے نکال لیا جو ہرقل کے ساتھ ہی دفن کیا گیا تھا اور وزن میں ۷۰؍ سیر کا بتایا جاتا ہے۔(Nikephoros 29 -30)
ہیراکلیوس قسطنطین ثالث تاج پوشی کے وقت بیمار تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ وہ جلد ہی فوت ہو جائے گا اور اس کے بعد ہرقل کے فیصلہ کے مطابق مارٹینہ کا بیٹا، یعنی اس کا سوتیلا بھائی ، قیصر بنے گا۔ چنانچہ اس نے کوشش کی کہ اس کا اپنا بیٹا قیصر بنے۔ لیکن اس کی عمر نے وفا نہ کی اور محض ۱۰۳؍ دن کی حکومت کے بعد ہی فوت ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ مارٹینہ نے اسے زہر دے کر مروا دیا تھا۔ لیکن یہ الزام غلط معلوم ہوتا ہے۔ ان میں آپس میں مخالفت و عداوت ضرور تھی تاہم قیصر کا قتل کوئی معمولی بات نہ تھی نہ ہی قسطنطین مارٹینہ کی طرف سے غافل تھا۔ (Nikephoros 30، Theophanes 640- 641)
قرین قیاس ہے کہ یہ کہانی بعد میں گھڑی گئی ہے ا ور اس کی بنیاد قسطنطین کے مالی امور کے ناظم کے اس خیال پر ہے کہ شاید مارٹینہ قسطنطین کو مروا دے ، جو کہ ایک بے ثبوت بات ہے۔ قسطنطین کی بیماری اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ اسے مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ اپنی اولاد کو مارٹینہ اور اس کے بیٹے سے لاحق خطرات کے پیش نظر فوج سے روابط بڑھائے اور فوج کو اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کے لیے کہے۔ نیز وہ شہر میں شاہی محل میں رہنے کی بجائے سمندر پار نئے تعمیر شدہ محل میں رہتا تھا۔ (Nikephoros 29)
ہرقل کی وصیت کے مطابق ہیراکلیوس قسطنطین ثالث کی وفات کے بعد مارٹینہ کا بیٹا قیصر بن گیا۔ کلیسا کے اکابرین کے نزدیک مارٹینہ کی ہرقل کے ساتھ شادی غیر شرعی تھی چنانچہ اس سے پیدا ہونے والا بیٹا ان کے نزدیک قیصر بننے کے قابل نہ تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس نے سب سے پہلے کلیسا سے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی اور قیصر بنتے ہی اپنے باپ ہرقل کا سونے کا تاج چرچ کو ہبہ کر دیا۔ پھر اس نے تمام فوجیوں کو خصوصی انعام دیا۔ قیصر کی عمر اس وقت محض ۱۵؍سال تھی۔ چنانچہ حکومت عملاً اس کی ماں مارٹینہ ہی چلا رہی تھی۔(Nikephoros 30, Byzantine Empresses P66 -67)
بازنطینی فوج نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بغاوت کر دی اور دارالحکومت قسطنطنیہ کے بالمقابل پڑاؤ ڈال لیا۔ فوج کا مؤقف تھا کہ اصل وارث قسطنطین ثالث کا بیٹا ہے حالانکہ ہرقل کی وصیت اس کے خلاف تھی۔ ان حالات کے پیش نظر نئے قیصر یعنی مارٹینہ کے بیٹے ہیراکلوناس نے اپنے بھتیجے کو اپنا ولی عہد مقرر کیا۔ نیز مسیحؑ کی صلیب کے ٹکڑے پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی کہ وہ اسے کوئی گزند نہیں پہنچنے دے گا۔ علاوہ ازیں باغی فوجیوں کو معافی اور پیسے دے کر راضی کیا گیا۔
(Nikephoros 30 -32)
سوتیلی ماؤں کا مسئلہ
اس جگہ یہ تذکرہ برمحل ہو گا کہ سوتیلی ماؤں کی اولاد میں پیدا ہونے والی چپقلش اور رقابت ہمیشہ سے سلطنتوں کی تباہی و بربادی کی وجہ ہوتی رہی ہے۔ خواہ یہ سوتیلی مائیں بیک وقت ہوں، یعنی تعدّد ازدواج کی وجہ سے، خواہ ایک کی وفات کے بعد دوسری۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس زمانہ میں بادشاہت کا انحصار اداروں پر نہیں بلکہ ارکان سلطنت پر ہوتا تھا۔ اس لیے بادشاہوں کو ہر وقت طاقتور امراء اور وزراء سے بغاوت کا خطرہ بھی رہتا تھا۔ بہت سے سلاطین نے اپنے مشہور ترین اور قابل ترین وزراء اور جرنیلوں کو مروا دیا یا خود ان کے ہاتھوں مرے۔ بغاوت کے خوف کے پیش نظر سلاطین اپنے قابل اعتماد اہل خاندان کو سلطنت کے اہم حصوں اور کاموں پر متعین کیا کرتے تھے۔ جب تک سلطنت اور اس کے وسائل میں اضافہ ہوتا رہتا تھا، اس وقت تک تو تمام ماؤں کے بچوں کو امور سلطنت اور مراعات میں مناسب حصہ دے کر راضی رکھا جا سکتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان لوگوں کے ارد گرد خود غرضوں کے ٹولے جمع ہو جاتے جو انہیں یہ سمجھاتے کہ وہ خود بھی حکومت کرنے کے قابل ہیں اور انہیں دوسری صف پر راضی ہونے کی بجائے قوم و ملک کے ’’وسیع تر مفاد‘‘ میں حکومت پر قبضہ کرلینا چاہیے۔ اسی لیے سوتیلے تو الگ، سگے بھائیوں اور باپوں کے خلاف بھی بازنطینی، فارسی، عرب، ترک اور ہندوستانی سلاطین میں ایسی بغاوتوں کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔
اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ اداروں کو اس قدر مضبوط بنایا جائے کہ بغاوت کا امکان نہ رہے۔ افسوس کہ تیسری دنیا کے ممالک میں اکثر ’’مصلحت‘‘آڑے آ جاتی ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ حکومت کو قائم رکھنے کے لیے قابل اعتماد رشتہ دار ہی ’’مناسب ترین‘‘ہیں۔ جبکہ سچ یہ ہے کہ اگر رشتہ دار قابل و اہل بھی ہوں تب بھی مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں کوئی عہدہ نہ دیا جائے ورنہ اقربا پروری کا دروازہ کھل جاتا ہے جو ملک و قوم کے لیے زیادہ نقصان دہ بات ہے۔
(اس مضمون کا اگلا حصہ ۲۷؍فروری کے شمارےمیں شائع ہو گا۔ ان شاء اللہ)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: فلسطین میں بنی اسرائیل کے دوبارہ آباد ہونے کے بارے میں قرآنی پیشگوئی