متفرق مضامین

کُلُوْاوَاشْرَبُوْا

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی شان میں فرماتا ہے:وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیم(القلم :۵)

حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ و السلام اس آیت کی تفسیر میں فرماتےہیں۔

اس آیت کا مفہوم ہے کہ جہاں تک اخلاقِ فاضلہ و شمائلِ حسنہ نفسِ انسانی کو حاصل ہو سکتے ہیں وہ تمام اخلاقِ کاملہ تامہ نفسِ محمدیؐ میں موجود ہیں۔

مومنوں کو کلوا و اشربوا کا حکم دیا… کلوا ایک امر ہے جب مومن اس کو امر سمجھ کر بجا لاوے تو اس کا ثواب ہوگا۔ (الحکم جلد۸ نمبر۸ مؤرخہ ۱۰؍مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ۹)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :واضح ہو کہ قرآن شریف کے رُو سے انسان کی طبعی حالتوں کو اس کی اخلاقی اور روحانی حالتوں سے نہایت ہی شدیدتعلقات واقع ہیںیہاں تک کہ انسان کے کھانے پینے کے طریقے بھی انسان کی اخلاقی اور روحانی حالتوں پر اثر کر تے ہیں۔ اور اگر ان طبعی حالتوں سے شریعت کی ہدایت کے موافق کام لیا جائے تو جیسا کہ نمک کی کان میں پڑ کر ہر ایک چیز نمک ہی ہو جاتی ہے۔ ایسا ہی یہ تمام حالتیں اخلاقی ہی ہو جاتی ہیں اور روحانیت پر نہایت گہرا اثر کرتی ہیں۔(اسلامی اصول کی فلاسفی،روحانی خزائن جلد ۱۰صفحہ ۳۱۹)

نیز فرمایا:ایسا ہی تجربہ ہم پرظاہر کرتا ہے کہ طرح طرح کی غذاؤں کا بھی دماغی اور دلی قوتوں پر ضرور اثر ہے مثلاً ذرا غور سے دیکھنا چاہئے کہ جو لوگ کبھی گوشت نہیں کھاتے رفتہ رفتہ ان کی شجاعت کی قوت کم ہوتی جاتی ہے۔یہاں تک کہ نہایت دل کے کمزور ہو جاتے ہیں اور ایک خداداد اور قابل تعریف قوت کو کھو بیٹھتے ہیں۔ اس کی شہادت خدا کے قانون قدرت سے اس طرح پر بھی ملتی ہے کہ چار پایوں میں سے جس قدر گھاس خور جانور ہیں کوئی بھی ان میں سے وہ شجاعت نہیں رکھتا جو ایک گوشت خور جانور رکھتا ہے۔ پرندوں میں بھی یہی بات مشاہدہ ہوتی ہے۔ پس اس میں کیا شک ہے کہ اخلاق پر غذاؤں کا اثر ہے۔ ہاں جو لوگ دن رات گوشت خواری پر زور دیتے ہیں اور نباتی غذاؤں سے بہت ہی کم حصہ رکھتےہیں وہ بھی حلم اور انکسار کے خلق میں کم ہو جاتے ہیں اور میانہ روش کو اختیار کرنے والے دونوں خلق کے وارث ہوتے ہیں۔اسی حکمت کے لحاظ سے خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا یعنی گوشت بھی کھاؤ اوردوسری چیزیں بھی کھاؤ مگر کسی چیز کی حد سے زیادہ کثرت نہ کرو تا اس کا اخلاقی حالت پر بد اثر نہ پڑے اور تا یہ کثرت مضر صحت بھی نہ ہو اور جیسا کہ جسمانی افعال اور اعمال کا روح پر اثر پڑتا ہے ایسا ہی کبھی روح کا اثر جسم پر جا پڑتا ہے۔ جس شخص کو کوئی غم پہنچے آخر وہ چشم پُر آب ہو جاتا ہے اور جس کو خوشی ہو آخر وہ تبسم کرتا ہے۔ جس قدر ہمارا کھانا،پینا،سونا، جاگنا،حرکت کرنا، آرام کرنا، غسل کرنا وغیرہ افعال طبعیہ ہیں۔ یہ تمام افعا ل ضروری ہمارے روحانی حالات پر اثر کرتے ہیں۔(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰صفحہ ۳۲۰تا۳۲۱)

یہ خدا تعا لیٰ کا ان (عرب کے لوگوں) پر اور تمام دنیا پر احسان تھا کہ حفظان صحت کے قواعد مقرر فرمائے۔ یہاں تک کہ یہ بھی فرما دیاکہ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا یعنی بیشک کھاؤ پیئو مگر کھانے پینے میں بے جا طور پر کوئی زیادت کیفیت یا کمیت کی مت کرو۔(ایام صلح، روحانی خزائن جلد ۱۴صفحہ ۳۳۲)

(نعمان احمد طاہر)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: آیت کریمہ وَمَنۡ اَوۡفٰی بِمَا عٰہَدَ عَلَیۡہُ اللّٰہَ فَسَیُؤۡتِیۡہِ اَجۡرًا عَظِیۡمًامیں عَلَیْہُ پر پیش کیوں؟

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button