مکرم رشید احمد صاحب
سابق معاون ناظر امور عامہ ربوہ
’’کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ‘‘کے مطابق ہر جان کو موت سے ہمکنار ہونا ہے۔ قضا و قدر کے اسی اصول کے تحت خاکسار کے پیارے بھائی رشید احمد صاحب مورخہ یکم جولائی ۲۰۲۴ء بروز سوموار،بعمر۸۶؍ برس ربوہ میں اِس دارِ فانی سے رخصت ہو کر اپنے خالق حقیقی کے حضور حاضر ہوگئے۔اناللہ واناالیہ راجعون
بلانے والا ہے سب سے پیارااسی پہ اے دل تُو جاں فدا کر
اُذْکُرُوْا مَحَاسِنَ مَوْتَاکُمْکے تحت آج اپنے ذہن کے گوشوں میں محفوظ بھائی صاحب مرحوم کی کچھ یادیں اور چند محاسن بیان کروں گا۔
آپ پیدائشی احمدی تھے۔ ۶؍جون ۱۹۳۸ء کو گورداسپور انڈیا میں نور حسین صاحب مرحوم کے ہاں پیدا ہوئے جو ۱۹۲۴ء میں حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرکے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم قادیان سے حاصل کی اور قیام پاکستان کے بعد تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ سے میٹرک کرنے کے بعد جماعتی خدمات کا آغاز کیا اور عمر عزیز کے ۸۶؍ برسوں میں سے تقریباً ۶۵؍ سال جماعت کی خدمت کی توفیق پائی۔ فجزاہم اللہ احسن الجزاء
پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ کی وفات پر از راہ شفقت اپنے خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ ۱۲؍جولائی ۲۰۲۴ء میں آپ کا ذکرِ خیر فرمایا اور نماز جنازہ غائب پڑھائی۔
رشید صاحب گوناگوں صفات کے مالک ایک باوقار شخصیت اور ہردلعزیز انسان تھے اور جماعت میں ’رشید صاحب امور عامہ والے‘کے طور پر معروف تھے۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں مستعد اور ایتاءِذی القربیٰ کے حکم کی ادائیگی میں حتی المقدور کوشش کرنے والے ایک مثالی انسان تھے۔ دوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتے، سائل کی دادرسی میں اپنی انتہائی کوشش کرتے اور معاملات میں صلح جوئی کے لیے اپنے حق کو چھوڑنے میں ذرا بھی تامل نہ کرتے۔آپ کا قلب نمود و نمائش سے بالکل پاک تھا۔ ہمیشہ سفید شلوار قمیض زیب تن کرتے۔ آپ کو کبھی دوسرے رنگ یا انگریزی لباس میں نہ دیکھا گیا۔ ایک دفعہ عید کے موقع پر بھابھی صاحبہ مرحومہ نے آپ کے لیے بڑے شوق سے ہلکے نیلے رنگ کا شلوار قمیض تیار کروایا اور اسے پہننے کی درخواست کی۔آپ نے بھابھی صاحبہ کی دِل جوئی کے لیے اُسے گھر میں ہی پہنا تو ضرور لیکن نماز کے لیے روانہ ہونے سے قبل دوبارہ سفید لباس زیب تن کرلیا۔
آپ موصی تھے۔ ۱۸؍ سال کی عمر میں نظام وصیت میں شامل ہوئے اور اوائل عمری میں ہی اس آسمانی تحریک کا حصہ بننے پر ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرتے اور اسے اپنی سعادت سمجھتے ہوئے اس میں مضمر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو پانے میں کوشاں رہتے۔ آپ بیان کرتے تھے کہ جب آپ نے نظام وصیت میں شامل ہونے کا ارادہ کیا تو دو وصیت فارم گھر لے کر آئے اور محترم والد صاحب کو اپنے ارادے سے آگاہ کیا اور اجازت طلب کی تو محترم والد صاحب نے خوشی کا اظہار کیا اور فرمایا ضرور شامل ہو۔ اس پر آپ نے عرض کی کہ میں آپ کے بغیر کیسے نظام وصیت میں شامل ہوسکتا ہوں۔ جس پر والد صاحب نے بھی آمادگی کا اظہار کیا اور دونوں وصیت فارم پُر کردیے گئے۔ اس طرح آپ اپنے والد صاحب کے بھی اس تحریک میں شامل ہونے کا ذریعہ بنے۔ اس واقعہ کو یاد کرتے وقت ہمیشہ شکر کے جذبات سے مغلوب رہتے اور اس شکر کو عملی رنگ میں بھی آپ کو اس طرح نبھانے کی توفیق ملی کہ والد صاحب کی وفات کے بعد، جو ۱۹۷۱ء میں ہوئی تھی آپ اپنی عمر کے آخری لمحات تک والد صاحب کی طرف سے تحریکات کا چندہ اپنی جیب سے ادا کرتے رہے۔
قرآن کریم کی تلاوت کرتے تو بڑے دھیمے انداز میں حضور قلب اور تدبر سے کرتے۔ گویا اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَکا مضمون جاری ہو۔ آپ کے اس انداز کا مسحور کُن اثر آج بھی دل و دماغ میں سرور کی ایک خاص کیفیت کے ساتھ محفوظ ہے۔ ترجمہ قرآن اور تفسیر کا بھی بڑے انہماک سے مطالعہ کرتے اور بعض نکات کو ہمارے ساتھ ڈسکس کرتے اور اس بات کو یقینی بناتے کہ گھر کے تمام افراد باقاعدگی سے تلاوت قرآن کریم پر کاربند ہوں۔ اور وقتاً فوقتاً حفظ قرآن کا بھی جائزہ لیتے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ نے جب مجلس اطفال الاحمدیہ کو سورۃ البقرہ کی پہلی سترہ آیات حفظ کرنے کی تحریک فرمائی تو اُس وقت خاکسار کی عمر دس یا گیارہ سال ہوگی۔ آپ نے مجھے بلایا اور اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں چاہتا ہوں کہ تم اپنے محلہ میں پہلے طفل ہو جو سب سے پہلے سترہ آیات حفظ کرے۔ چنانچہ خاکسار نے حفظ کرکے آپ کی اس خواہش کو پورا کیا جس پر آپ نے بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا اور انعام سے نوازتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں خط لکھ کر اطلاع دینے اور دعا کی درخواست کرنے کی نصیحت کی۔
خلافت سے آپ کو عشق تھا۔ محبت اور عقیدت کا یہ عالم تھا کہ روئے سخن خلیفۃالمسیح کی طرف ہوتا تو آنکھیں نیم وا کرلیتے، گردن احتراماً ذرا سی جھکا لیتے اور القاب کو پورے ہجوں کے ساتھ ادا کرتے ہوئے واضح طور پر’حضرت صاحب‘ کہتے۔
آپ کو چار خلفاء کے ادوار دیکھنے اور اُن کے زیر سایہ بڑی وفا اور اطاعت کے ساتھ جماعتی خدمات بجا لانے کی توفیق ملی۔ اطاعت کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے ایک ضروری کام کی انجام دہی کے لیے کراچی بھیجا اور تاکید فرمائی کہ جلدی واپس آنا۔ آپ نے کراچی پہنچ کر اُسی دن اپنا کام مکمل کیا اور بنا آرام کیے اگلی ہی گاڑی سے واپس ربوہ پہنچ گئے۔
ڈرافٹنگ میں آپ کو کمال حاصل تھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ آپ کی تحریر کردہ رپورٹ پر خوشنودی کا اظہار فرماتے اور بعض امور میں لکھ بھیجتے کہ رشید رپورٹ پیش کرے اور آپ بڑی مستعدی سے فوراً حضور رحمہ اللہ کی خدمت میں رپورٹ پیش کر دیتے۔
۱۹۷۴ء اور ۱۹۸۴ء کے پُرآشوب دَور کے شدید مخالفانہ حالات میں آپ کو بڑی ہمت اور استقامت کے ساتھ کام کرنے کی توفیق ملی۔ ۱۹۷۴ء میں پولیس نے آپ کوگرفتار کرلیا اور ہتھکڑی لگا کر بس کے ذریعہ ربوہ سے فیصل آباد کے لیے روانہ ہوئے۔ چنیوٹ میں مخالفین کے ہجوم نے بس پر حملہ کردیا اور آپ کو چاقوئوں اور ڈنڈوں سے مارنا شروع کردیا۔ پولیس اور دیگر مسافر بھاگ گئے۔ آپ نے ہتھکڑی لگے ہاتھوں سے اپنے آپ کو بڑی ہمت سے چاقوئوں اور ڈنڈوں کے وار سے بچانے کی کوشش کی لیکن شدید زخمی ہوئے جس کی وجہ سے آپ کی انگلیاں بھی کٹ گئیں اور چہرے پر بھی بڑے شدید زخم آئے اور کچھ عرصہ تک تو بولنے میں بھی دشواری پیش آتی رہی۔ معجزانہ طور پر جان بچ گئی اور پولیس کی حراست میں ہی کئی ہفتے فیصل آباد کے ہسپتال میں زیر علاج رہے اور پھر جیل میں ڈال دیے گئے۔ خاکسار جیل میں آپ سے ملنے گیا تو پہچان نہ سکا۔بے وضع لباس میں ملبوس ایک لاغر جسم اور دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں میں نمک کے ڈھیلے پکڑے ہوئے (جو غالباً ہاتھوں میں لگے ٹانکوں کو انفیکشن سے بچانے کے لیے تھے)۔ آپ میرے سامنے آئے تو میں چکرا کر رہ گیا۔ آپ ہمارا حال احوال پوچھ رہے تھے اُدھر میں سوچ رہا تھا کہ آپ تو بہت نازک طبیعت کے مالک تھے اتنے مصائب برداشت کرنے کی آپ میں ہمت کہاں سے آگئی ؟ یقیناً یہ ہمت وہ ہمت تھی جو مسیح پاک کے غلاموں کو مصائب و آلام کے وقت اپنے عہد پر صدق و وفا کے ساتھ قائم رہنے سے ملتی ہے۔ آپ یقیناً اس اعزاز کو پانے میں بھی کامیاب رہے۔ الحمد للہ
ستمبر۱۹۷۹ء میں ربوہ میں بےبنیاد الزام کے تحت حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ و دیگر عہدیداران کے خلاف ایک مقدمہ درج ہوا جس میں آپ کا نام بھی شامل تھا اور ایک لمبا عرصہ اس مقدمہ کی پیروی ہوتی رہی۔
۱۹۸۷ء میں آپ کے خلاف ایک اور مقدمہ دیگر تین جماعتی عہدیداروں کے ہمراہ ربوہ پولیس سٹیشن میں قائم ہوا اور کئی سال تک آپ کو عدالتوں کے چکر لگانے پڑے۔ علاوہ ازیں آپ کو اکثر دیگر جماعتی مقدمات میں بھی عدالتی کارروائی میں حصہ لینے کی توفیق ملتی رہی جس کی وجہ سے آپ اکثر سفر میں رہتے اور آرام کی پروا نہ کرتے۔ ضلعی سول عہدیداروں اور پولیس افسران سے آپ کے تعلقات بہت اچھے تھے جن کو آپ بہت عمدگی سے جماعتی فائدہ کے لیے استعمال کرتے۔
خاکسار نے جب سے شعور سنبھالا آپ کو ہمیشہ جماعتی کاموں میں مصروف پایا۔ صبح ہو، شام ہو یا رات کا کوئی پہر، ضرورت پڑنے پر وہ اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے دفتر میں موجود ہوتے اور آج کے کام کو کل پر کبھی مؤخر نہ کرتے۔ آپ کی یہ صفت اس قدر نمایاں تھی کہ آپ کے دفتر کے دوسرے کارکنان آپ پر رشک کرتے اور آج بھی اس خوبی کابرملا اظہار کرتے ہیں۔سالانہ چھٹیوں کا تصور بھی آپ کے ہاں مفقود تھا۔ خاکسار نے یہ کبھی نہیں دیکھا کہ آپ نے کبھی آرام یاسیر وتفریح کی غرض سے چھٹی لی ہو۔ ہاں، اگر کبھی شدید بیمار ہوجاتے تو مجبور ہوکر رخصت کی رعایت حاصل کرتے۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے میں آپ ایک مضبوط ارادہ کے مالک تھے۔
جماعتی امور کی رازداری میں بھی آپ کو کمال حاصل تھا۔ اخفائے راز میں احتیاط کا یہ عالم تھا کہ بعض معمولی نوعیت کی خبر سے بھی گھر میں آگاہی نہ دیتے۔ ایسی ہی کسی خبر سے اگر کبھی محترمہ بھابھی صاحبہ مرحومہ کو کسی دوسرے سے اطلاع ملتی توآپ سے گلہ کرتیں کہ آپ نے تو نہیں بتایا جبکہ فلاں نے بتادیا جس پر آپ بڑی بے نیازی سے جواب دیتے کہ میرا فعل میرے لیے اور اس کا فعل اس کے لیے ہے۔
کھانے میں بھی اُن کی سادگی کا معیار بہت عمدہ تھا۔ کچھ بھی پکا ہو بے تکلفی سے کھاتے۔ اللہ کا شکر ادا کرتے اور کبھی نقص نہ نکالتے۔ ہاں زیادہ اہتمام کو اسراف کے زمرے میں شمار کرتے اور توازن قائم رکھنے کی تلقین کرتے۔ ایک مرتبہ جرمنی تشریف لائے تو خاکسار نے حتی المقدور میزبانی کافرض ادا کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان واپس جا کر شکریہ کا خط لکھا اور ساتھ دو نصیحتیں بطور خاص لکھیں ۔ اوّل یہ کہ جماعت کے ساتھ اپنے تعلق کو اور بھی مضبوط کریں اور دوسری یہ کہ گوشت خوری کی مقدار کو کم کردیں زیادہ گوشت کھانے سے دل سخت ہو جاتا ہے۔
آپ کو متعدد دفعہ جلسہ سالانہ یوکے میں شمولیت کی توفیق ملی اور ہر دفعہ اپنے محبوب آقا حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ اور پھر حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کرکے آنکھیں ٹھنڈی کرنے کا موقع ملتا اور خلفاء کے روحانی فیض سے سیراب ہوکر بڑے نازاں اور شادمان پاکستان واپس لوٹتے۔
جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۱۶ء آپ کا وہ آخری جلسہ تھا جس میں آپ نے شرکت کی۔ جلسے کے بعد حضور سے ملاقات کا وقت طے تھا۔ جوں جوں دربار خلافت میں حاضر ہونے کا وقت قریب آرہا تھا توں توں آپ پر گھبراہٹ کے آثار نمایاں ہورہے تھے۔ خاکسار جانتا تھا کہ یہ حالت خلافت کے رعب اور انتہائی عقیدت کا نتیجہ ہے۔ دھیان بٹانے کے لیے خاکسار نے کچھ کوشش کی تو کہنے لگے میرے لیے دعا کرنا۔ مَیں نے عرض کی کہ دعائوں کے چشمہ سے سیراب ہونے تو آپ خود جارہے ہیں، مجھے کیوں کہہ رہے ہیں ؟ کہنے لگے ۱۹۹۸ء سے ریٹائرمنٹ کے بعد مجھے ہر سال Extension مل رہی ہے اور میری صحت پہلے جیسی نہیں رہی۔ کہیں حضور یہ ہی نہ کہہ دیں کہ رشید صاحب بوڑھے ہوگئے ہیں، اب بس کریں اور آرام کریں اور میں تو کام کے بنا رہ ہی نہیں سکتا۔ ملاقات کے بعد جب باہر آئے تو چہرے پر گھبراہٹ کی بجائے بشاشت اور سکون نمایاں تھا۔ پوچھنے پر بتایا کہ حضرت صاحب نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا کہ رشید صاحب آپ تو بالکل ویسے کے ویسے ہی ہیں اور آپ کی صحت بھی بہت اچھی ہے۔ حضور کے اس جملہ سے آپ کو اتنی توانائی ملی اور خلافت کی محبت سے اس طرح سیراب ہوئے کہ مزید چھ سال پوری تندہی سے ۲۰۲۱ء تک کام کرنے کی خواہش کی تکمیل کرتے رہے۔ تا آنکہ شوگر اور دوسرے عوارض کے باعث جسم میں مدافعت نہ رہی۔ اور کچھ عرصہ علالت کے بعد اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے۔
میری یہ سطور اس وقت تک مکمل نہ ہوں گی جب تک کہ بھائی جان کو یہ خراجِ تحسین نہ پیش کردوں کہ آپ نے صرف ایک بھائی کا ہی نہیں بلکہ ایک باپ کا کردار ادا کرتے ہوئے ہمیں بہت شفقتوں اور محبتوں سے نوازا، ہمارے نان نفقہ اور تعلیم و تربیت کا خیال رکھا اور کبھی باپ کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ آپ کی یہ شفقتیں ہمیشہ دعائیں بن کر دل میں زندہ رہیں گی۔
اللہ تعالیٰ بھائی جان مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور درجات بلند فرمائےاور آپ کے بچوں اور نسل کو بھی آپ کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آپ کی وفات سے خاندان میں جو خلا پیدا ہوا ہے اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے اس خلا کو پُر فرمائے۔ آمین
(ادریس احمد۔ جرمنی)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: محترمہ مسعودہ اخترصاحبہ