غزوۂ خیبرکےتناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان نیز دعاؤں کی تحریک۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۷ فروری ۲۰۲۵
٭… دورانِ سفر بعض ایسے واقعات بھی پیش آئے ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے ہنگامی حالات میں بھی نبیٔ اکرمؐ صحابہؓ کی تربیت کا کتنا خیال فرماتے تھے اور نظم و ضبط اور اطاعت و فرمانبرداری جیسی صفات پیدا کرنے کی طرف توجہ دلاتے رہتے تھے
٭… جنگ شروع ہونے سے پہلے آنحضرتؐ نے صحابہؓ سے ایک مختصر خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمن سے سامنا ہونے کی تمنّا مت کرو، الله تعالیٰ سے عافیت طلب کرو، تم کو معلوم نہیں کہ تم کس ابتلا میں ڈال دیے جاؤ
٭… فلسطینیوں کے لیے خصوصاً اور مسلمان دنیا کے لیے عموماً نیز پاکستان اور بنگلہ دیش کے احمدیوں کے لیےدعاؤں کی تحریک
٭… عرب ممالک اب بھی اپنی آنکھیں کھولیں اور اتحاد قائم کرنے کی کوشش کریں ورنہ فلسطین ہی نہیں باقی عرب ممالک بھی سخت مشکلات کا سامنا کریں گے
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۷؍فروری ۲۰۲۵ء بمطابق ۷؍ تبلیغ ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۷؍فروری۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مکرم صہیب احمد صاحب (مربی سلسلہ)کے حصے ميں آئي۔ تشہد،تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعدحضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:
غزوۂ خیبر کا ذکر ہو رہا تھا۔
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے خیبر کی طرف روانہ ہونے کی تفصیل یوں ہے کہ آپؐ کی قیادت میں سولہ سو جاںنثاروں کا لشکر مدینہ سے روانہ ہوا۔ اِس میں دو سو گھڑ سوار تھے۔ لیکن روانگی سے قبل آپؐ نے ایک خبر رساں دستہ آگے روانہ فرمایا، جس کا کام تھا کہ لشکر کے آگے آگے راستوں کی دیکھ بھال کرے اور حالات کو بھی معلوم کرتا رہے۔ اِس دستے کے قائد حضرت عباد بن بشر انصاری رضی الله عنہ تھے۔
خیبر کے راستوں سے آگاہی کے لیے دو رہبر یعنی گائیڈ بیس صاع (پچاس کلو)کھجور کی اجرت پر لیے گئے، اِن کے نام حسیل بن خارجہ اشجعی اور عبدالله بن نُعَیْم بیان کیے جاتے ہیں اور یہ دونوں اشجع قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔
مدینہ سے خیبر کی طرف جاتے ہوئے، مختلف مقامات پر پڑاؤ کرتے ہوئے، صہباء مقام پر پڑاؤ کیا۔ یہاں نماز کا وقت ہوا تو نماز یہاں ادا کی گئی۔ چنانچہ بخاری کی روایت میں ہے کہ صہباء کے مقام پر آپؐ نے عصر کی نماز پڑھی، پھر اِس کے بعد کھانے کے لیے کچھ منگوایا گیا، لشکر والوں کے پاس صرف ستّو ہی تھے اور رسول اللهؐ اور صحابہؓ نے وہی تناول فرمائے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر آپؐ مغرب کی نماز کے لیے کھڑے ہو گئے اور آپؐ نے کُلی کی اور ہم نے بھی کُلی کی، پھر آپؐ نے نماز پڑھی اور وضو تازہ نہیں کیا۔
دورانِ سفر بعض ایسے واقعات بھی پیش آئے ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے ہنگامی حالات میں بھی نبیٔ اکرمؐ صحابہؓ کی تربیت کا کتنا خیال فرماتے تھے اور نظم و ضبط اور اطاعت و فرمانبرداری جیسی صفات پیدا کرنے کی طرف توجہ دلاتے رہتے تھے۔
اِسی طرح کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے کہ ایک رات لشکر کے آگے آگے کوئی چمکتی ہوئی چیز چلتی دکھائی دی ، رسول اللهؐ کو فکر ہوا اَور پتا کرنے پر معلوم ہوا کہ اسلامی لشکر کا ایک سپاہی تھا جو لشکر چھوڑ کے سب سے آگے آگے چلا جا رہا تھا اور اِس کے سر کا خَود چاندی کی وجہ سے چمک رہا تھا اور اِس کا نام ابو عبس تھا۔ اُن کو جب رسول اللهؐ کی خدمت میں لایا گیا تو آپؐ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ لشکر کے ساتھ ساتھ چلنا چاہیے۔
یہ اُن نادار صحابہؓ میں سے ایک تھے کہ جن کے پاس اِس جنگ میں آنے کے لیے کوئی زادِراہ نہ تھا اور یہ نبیٔ اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے کہ یا رسول اللهؐ! میرے پاس کوئی زادِ راہ نہیں ہے اور نہ ہی اہلِ خانہ کے لیے نان و نفقہ گھر میں موجود ہے۔اِس پر نبیٔ اکرمؐ نے اپنی ایک چادر اِنہیں عطا فرمائی، یہ دانا صحابی اِس چادر کو لے کر بازار گئے اور آٹھ دِرہم میں اُسے بیچ دیا، دو دِرہم سے گھر کا نان نفقہ لیا، دو دِرہم سے زادِ راہ لیا اور چار دِرہم کی اپنے لیے چادر خرید لی اور لشکر میں شامل ہو گئے۔دورانِ گفتگو رسول اللهؐ کے دریافت فرمانے پر اُنہوں نے چادر کے متعلق عرض کیا کہ وہ تو مَیں نے فروخت کر دی تھی نیز مذکورہ بالا ساری تفصیل بیان کی تو ابو عبس کی یہ بات سن کر رسول اللهؐ مسکرائے اور فرمایاکہ
اَے ابوعبس! تم لوگ اب بہت تنگ دست ہو، مجھے اُس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر تم زندہ رہے اور لمبی عمر پائی تو تھوڑے ہی عرصے بعد تم دیکھو گے کہ تمہارے زادِ راہ میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔ تمہارے اہلِ خانہ کے لیے نان و نفقہ بھی بہت زیادہ ہو جائے گا۔ تمہارے ہاں دِرہم و دینار کی بہت کثرت ہو جائے گی اور غلاموں کی بھی فراوانی ہو جائے گی، لیکن یہ سب کچھ تمہارے لیے زیادہ اچھا نہیں ہو گا۔
حضرت ابوعبسؓ نے رسول اللهؐ کی یہ پیشگوئی اپنی آنکھوں سے پوری ہوتی ہوئی دیکھی اور وہ کہا کرتے تھے کہ الله کی قسم! سب کچھ اُسی طرح ہوا، جیسے آپؐ نے فرمایا تھا۔
آنحضرتؐ نے بنو غطفان کی طرف صلح کا پیغام بھی بھیجا تھا، جیسا کہ ابھی بیان ہوا ہے کہ خیبر کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے صہباء مقام پر آپؐ نے پڑاؤ فرمایا اور نمازِ عصر، مغرب و عشاء وہیں ادا فرمائیں۔ نمازوں سے فارغ ہو کر آپؐ نے دونوں رہبروں کو بلایا اور اپنا جنگی منصوبہ اُن کو بتاتے ہوئے فرمایا کہ مَیں خیبر پر اِس طرح حملہ کرنا چاہتا ہوں کہ ایک طرف تو اہلِ خیبر اور مُلکِ شام کے درمیان حائل ہو جاؤں تاکہ وہ وہاں سے بھاگ کر شام کی طرف نہ نکل جائیں۔ اور ساتھ ہی قبیلہ بنو غطفان کے درمیان بھی حائل ہو جاؤں کہ وہ اِن یہود کی مدد کو نہ پہنچ سکیں۔حسیل نامی رہبر لشکر کو لے کر چلنے لگا اور ایسی جگہ پہنچ کر رُک گیا، جہاں سے مختلف راستے خیبر کی اُس وادی تک جاتے تھے، حضورؐ نے اُس سے اِن سب راستوں کے نام پو چھے تو اُس نے حزن، شاش، حاطب وغیرہ نام بتائے جو اپنے معنوں کے اعتبار سے تنگی، سختی غم و اندوہ پر دلالت کرتے تھے۔ ایک نام مرحب بتایا جو کہ کشادگی اور فراخی کے معنی رکھتا تھا تو
آپؐ نے خدائی راہنمائی کے مطابق نیک فال لیتے ہوئے اِسی مرحب نامی راستے کا انتخاب فرمایا۔
آنحضرتؐ کو بھی یہ خبر ہو چکی تھی کہ بنو غطفان نے اہلِ خیبر کی مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے اور اب وہ مزید چار ہزار کا لشکر لے کر اِس ارادہ سے چل پڑے ہیں کہ وہ اسلامی لشکر کے خیبر تک پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں اِس پر حملہ کر دیں۔بنو غطفان نے اپنے نامور جنگجو سرداروں کی قیادت میں کم و بیش ایک ہزار کا لشکر پہلے ہی خیبر کی طرف بھیج دیا تھا اور وہ خیبر کے قلعوں تک پہنچ چکا تھا اور اب چار ہزار کا یہ لشکر اسلامی لشکر کو روکنے اور اپنی دانست میں اِس کا خاتمہ کرنے کے لیے راستے میں تھا۔ آنحضرتؐ نے بنو غطفان سے رابطہ فرمایا اور اُنہیں ایک خط بھیجا، جس میں لکھا کہ وہ خیبر کے ساتھ ہونے والی جنگ سے غیر جانبدار رہیں، اور اُن کو واضح فرمایا کہ یہ الله تعالیٰ کا میرے ساتھ وعدہ ہے کہ وہ مجھے فتح دے گا۔بعض مؤرّخین کے مطابق آپؐ نے یہ بھی پیغام دیا کہ وہ یہود کا ساتھ دینے سے ہٹ جائیں اور اسلام قبول کر لیں تو خیبر فتح کرنے کے بعد اِن قبائل کو دے دیا جائے گا۔ بعض کے نزدیک آپؐ نے اسلام قبول کرنے کی شرط نہیں رکھی تھی۔لیکن سولہ سو مسلمانوں کے مقابل پر پندرہ ہزار جنگجوؤں کی فوج اور مضبوط قلعوں کا غرور اُن کے سروں میں سمایا ہوا تھا، جس کی وجہ سے اُنہوں نے آپؐ کی اِس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
اِس پر آپؐ نے خزرج قبیلہ کے سردار اور مخلص صحابی حضرت سعدبن عبادہؓ کو بنوغطفان کے سپہ سالار عیینہ بن حِصْن کی طرف بھیجا۔ یہ بنو غطفان کی اُس ایک ہزار فوج کی قیادت کرتا ہوا اُس وقت خیبر کے یہودی سردار مرحب کے قلعہ میں تھا۔ عیینہ کو جب معلوم ہوا کہ آپؓ نبیٔ اکرمؐ کے نمائندہ کی حیثیت سے آئے ہیں، تو وہ اِنہیں قلعہ کے اندر لانے کے ارادہ سے جانے لگا، تو مرحب نے اعتراض کیا کہ مسلمانوں کے اِس نمائندہ کو قلعہ کے اندر نہیں لانا چاہیے کہ کہیں وہ قلعوں کے اندر آنےکے راستوں وغیرہ کو نہ دیکھ لیں۔ جبکہ عیینہ کا یہ کہنا تھا کہ مَیں چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے نمائندہ کو اندر لاؤں تاکہ وہ ہماری طاقت اور تیاریوں کے بہترین فوجی ساز و سامان کودیکھ لیں لیکن مرحب نہ مانا۔جس پر وہ آپؓ کو قلعہ سے باہر ملا، آپؓ نے اُسے نبیٔ اکرمؐ کا پیغام دیا ۔اِس پر عیینہ نے آپؓ سے کہا کہ ہم اپنے حلیف کو کسی صورت نہیں چھوڑیں گے اور ہم جانتے ہیں کہ تم لوگوں کی طاقت ہی کتنی ہے؟ اگر تم نے مقابلہ کیا تو تم سب لوگ ہلاک ہو جاؤ گے اور یہ قریش وغیرہ کی طرح کے لوگ نہیں ہیں کہ جن پر تم نے فتح پا لی تھی۔ اور ساتھ یہ بھی کہا کہ میرا یہ پیغام محمد(صلی الله علیہ وسلم) کو بھی دے دینا۔
حضرت سعدؓ نے اُس کے اِس متکبرانہ جواب پر اُسے کہا کہ مَیں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی الله علیہ وسلم ضرور تیرے پاس اِس قلعے میں آئیں گے اور اب اِس وقت جو پیشکش ہم نے تجھے کی ہے، اُس وقت تم ہم سے اِس کا مطالبہ کرو گے، لیکن تب تجھے تلوار کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ اور اَے عیینہ! مَیں دیکھ چکا ہوں کہ ہم مدینہ کے یہودیوں کے صحن میں بھی اُترے تھے اور وہ بُری طرح تباہ ہو گئے تھے۔
خدائی رُعب اور غطفانیوں کے فرار کا بھی ذکر ملتا ہے۔
آنحضرتؐ نے فرمایا تھا نُصِرْتُ بِالرُّعْبِکہ مجھے رُعب سے مدد دی گئی ہے۔ یہ واقعہ یہاں عملاًایک مرتبہ پھر غطفانی فوجوں کے لیے رونما ہوا۔جیسا کہ ذکر ہوا ہے کہ اِن کا چار ہزار کا لشکر اسلامی فوج پر حملہ کرنے کے لیے تعاقب کر رہا تھا تاکہ یہ مسلمانوں کو خیبر پہنچنے سے روک دے۔ لیکن
کوئی ایسی خدائی تقدیر ظاہر ہوئی کہ اِن کا یہ لشکر اچانک واپس پلٹا اور اپنے گھروں کی جانب لَوٹ گیا۔
بہرحال رسول اللهؐ نےخیبر کی طرف اپنا سفر جاری رکھا اور شام کے اندھیروں میں جب خیبر کے قلعے دکھائی دیے، تو آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ ٹھہر جاؤ، پس وہ سب ٹھہر گئے تو آپؐ نے دعا کی کہ
اَے ساتوں آسمان کے ربّ!اور ہر اِس چیز کے جس پر اِس کا سایہ ہے۔ اور ساتوں زمین کے ربّ! اور جو کچھ اُنہوں نے اُٹھایا ہے۔ اور شیاطین کے ربّ! جن کو اُنہوں نے گمراہ کیا ہے۔ اور ہواؤں کے ربّ! اور جو کچھ وہ اُڑاتی ہیں۔ اَے الله! ہم اِس بستی کی بھلائی کا سوال کرتے ہیں اور اِس کے اہل کی اور
اِس بستی اور اِس کے اہل کے شرّ سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
پھر آپؐ نے فرمایا کہ الله تعالیٰ کا نام لے کر آگے بڑھو۔پھر آپؐ روانہ ہوئے، یہاں تک کہ منزلہ پہنچے، جو کہ خیبر کا بازار تھا اور جنگ کے بعد یہ حضرت زید بن ثابتؓ کے حصے میں آیا تھا، آپؐ نے رات کا کچھ حصّہ یہیں گزارا۔
یہود کو یہ گمان نہ تھا کہ آپؐ اُن پر حملہ کریں گے کیونکہ اُنہیں اپنے قلعوں ، اسلحہ اور کثرتِ افراد پر گھمنڈ تھا۔ جب یہود کو یہ معلوم ہوا کہ آپؐ اُن کی طرف آ رہے ہیں تو ہر دن دس ہزار جنگجو آدمی صفیں باندھ کر باہر نکلتے اور کہتے کہ ذرا دیکھو! کیا محمد(صلی الله علیہ وسلم) ہم پر لشکر کشی کریں گے؟ یہ ناممکن ہے۔
جب آنحضرتؐ اِن کے پاس پہنچے، تو اِن کو خبر نہ ہوئی، یہاں تک کہ سورج طلوع ہو گیا۔ پس صبح جب یہود اپنے قلعوں سے باہر نکلے ، اُن کے ہاتھوں میں کدال اور ٹوکریاں تھیں، جب اُنہوں نے آپؐ کودیکھا تو بھاگ کر اپنے قلعوں میں چھپ گئے۔
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ جب اُنہوں نے آپؐ کو دیکھا تو کہنے لگے کہ محمد(صلی الله علیہ وسلم) ، الله کی قسم! محمد(صلی الله علیہ وسلم) اور لشکر! نبیؐ نے فرمایا:
خَرِبَتْ خَيْبَرُ!اِنَّا اِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِیْنَ کہ خیبر برباد ہو گیا!
جب ہم کسی قوم کے صحن میں اُترتے ہیں تو ڈرائے جانے والوں کی صبح بُری ہوتی ہے۔
حضورِ انور نے وضاحت فرمائی کہ منزلہ میں مستقل پڑاؤ نہیں رکھا گیا۔ حضرت حباب بن منذرؓ آپؐ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللهؐ! آپؐ کا اِس جگہ ٹھکانا بنانا اگر الله تعالیٰ کے حکم سے ہے تو ہم کچھ نہیں کہتے۔ اگر آپؐ کی رائے ہے تو ہم مشورہ دینا چاہتے ہیں۔آپؐ نے اِسے اپنی رائے قرار دیا تو حضرت حبابؓ نے عرض کی کہ یارسول اللهؐ! آپؐ اِن کے قلعوں کے قریب ہو گئے ہیں اور اِن کے باغوں کے سامنے ہیں اور زمین شور والی ہے اور مَیں اہلِ نطاہ کو جانتا ہوں کہ اِن کے تیر بہت دُور پہنچتے ہیں اور تیر اندازی میں اِن کے برابر کوئی نہیں ہے اور وہ ہم سے اونچی جگہ پر بھی ہیں۔اِن کے تیر ہماری طرف بہت آسانی سے پہنچ سکتے ہیں اور اِن کے رات کے حملے سے بھی ہم محفوظ نہیں ہیں۔ وہ کھجوروں کے جُھنڈ میں چھپ سکتے ہیں۔ لہٰذا میری درخواست کہ آپؐ یہاں سے ایک دوسری جگہ منتقل ہو جائیں۔آپؐ نے فرمایا کہ
تم نے اچھی رائے دی ہے، لیکن ہم اُن سے آج جنگ بہرحال کریں گے۔
لیکن ساتھ ہی محمد بن مسلمہ ؓکو بلوایا، جو آپؐ کے حفاظتی دستہ کے انچارج تھے اور فرمایا کہ اِن کے قلعوں سے کچھ دُور ہمارے لیے جگہ تلاش کرو۔آپؓ چلتے چلتے رجیع کے مقام پر پہنچے جو خیبر اور غطفانی قبائل کے درمیان واقع تھا اور پھر واپس لَوٹ کر عرض کیا کہ یا رسول اللهؐ! مَیں نے آپؐ کے لیے ایک جگہ دیکھ لی ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ الله تعالیٰ کی برکت کے ساتھ چلو! مگر اِس سے پہلے آپؐ فرما چکے تھے کہ آج تو جنگ اِسی جگہ سے ہو گی، چنانچہ شام کو جنگ ختم ہونے کے بعد اِس نئی جگہ پر سارا اسلامی لشکر منتقل ہو گیا۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ خیبر کے مختلف قلعے تھے، اُن کی تفصیل کے بارے میں بھی بیان ضروری ہے، خیبر کی جغرافیائی تقسیم کے حوالے سے اِس کے قلعوں کا تذکرہ یوں ہے کہ کیونکہ یہ جنگ قلعوں سے ہی متعلق رہی جو یکے بعد دیگرے فتح ہوئے، نہ صرف اِن قلعوں کی تعداد کے بارے بلکہ اِن کے ناموں میں بھی اختلاف ہے۔تمام کُتب کو دیکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ خیبر کا علاقہ تین حصّوں نطاہ، شق اور کتیبہ میں منقسم تھا اور اِن تینوں میں آٹھ قلعے درج ذیل تقسیم کے مطابق تھے۔ نطاہ میں تین ناعم، صعب اور زبیر ، شق میں اُبیّ اور ایک بعض کے نزدیک نزار اور کتیبہ میں تین قموص، وطیح اور سلالم قلعے تھے۔
جنگ شروع ہونے سے پہلے آنحضرتؐ نے صحابہؓ سے ایک مختصر خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ
دشمن سے سامنا ہونے کی تمنّا مت کرو، الله تعالیٰ سے عافیت طلب کرو، تم کو معلوم نہیں کہ تم کس ابتلا میں ڈال دیے جاؤ۔ جب تم دشمن کے سامنے آؤ تو یہ دعا کرو کہ اَے الله! تُو ہمارا ربّ ہے اور اُن کا ربّ ہے، اُن کی پیشانیاں اور ہماری پیشانیاں تیرے ہاتھ میں ہیں، تُو ہی اِن کو قتل کرے گا۔
قلعہ ناعم یہود کا سب سے مضبوط قلعہ تھا اور خیبر کا بہادرترین اور مشہور جنگجو مرحب اِس قلعے کے دفاع کی قیادت کر رہا تھا ۔روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتؐ دس دن تک مسلسل جنگ کرتے رہے۔بار بار کی ناکامی اور صحابہؓ کے زخمی ہونے اور دو صحابہؓ کی شہادت سے یہود کے حوصلے اَور بڑھ رہے تھے۔ آخر ایک رات آپؐ نے فرمایا کہ
کل مَیں اُس شخص کے ہاتھ میں جھنڈا دُوں گا، جس کے ہاتھ پر الله تعالیٰ فتح عطا فرمائے گا، وہ الله اور اُس کے رسول سے محبّت کرتا ہے۔
حضرت بریدہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے وہ رات بڑی خوشی میں گزاری کہ کل فتح ہو جائے گی اور لوگوں نے یہ سوچتے سوچتے رات گزاری کہ کل کس کو جھنڈا دیا جائے گا؟ تو پھر صبح ہوئی تو سارے لوگ آپؐ کے پاس آئے اور ہر شخص یہ امید اور تمنّا کر رہا تھا کہ جھنڈا اُس کو دیا جائے۔ حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے اِس روز سے پہلے کبھی بھی امارت کو پسند نہ کیا تھا۔
حضرت سلمہؓ اور حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ رسول اللهؐ سے پیچھے رہ گئے تھے، سفرِ خیبر میں بیماری کی وجہ سے ساتھ نہیں آئے تھے اُن کی آنکھوں میں شدید درد تھا لیکن بعد میں بے چین ہو کر چلے آئے۔
حضرت مصلح موعودؓ نے اِس حوالے سے یوں بیان فرمایا ہے کہ ایک دن رسول اللهؐ کو خدا تعالیٰ نے بتایا کہ اِس شہر کی فتح حضرت علیؓ کے ہاتھ پر مقدر ہے۔ آپؐ نے حضرت علیؓ کو بُلایا اور جھنڈا اُن کے سپرد کیا۔ جنہوں نے صحابہؓ کی فوج ساتھ لے کر قلعے پر حملہ کیا،
باوجود اِس کے کہ یہودی قلعہ بند تھے، الله تعالیٰ نے حضرت علیؓ اور دوسرے صحابہؓ کو اُس دن ایسی قوت بخشی کہ شام سے پہلے پہلے قلعہ فتح ہو گیا۔
مسلمانوں کے قلعہ ناعم پر قبضہ کرنے کے بیان میں کسی مؤرّخ نے اِس بات کا ذکر نہیں کیا کہ اِس کی فتح کے وقت ، جو خیبر کا مضبوط ترین قلعہ تھا، مسلمانوں نے کتنی غنائم اور کس قدر ہتھیاروں پر قبضہ کیا؟ ممکن ہے کہ مسلمانوں کو کوئی قابلِ ذکر چیز نہ ملی ہو، کیونکہ یہود نے ہنگامی حالات کے پیشِ نظر عورتوں اور بچوں کو پہلے ہی دوسرے قلعوں میں منتقل کر دیا تھا اور جب یہود شکست کھا گئے اور قلعہ ناعم پر مسلمانوں کا حملہ روکنے سے عاجز آگئے تو وہ خود بھی سہولت کے ساتھ قلعہ صعب بن مُعَاذ میں منتقل ہو گئے اور قلعہ ناعم کے معرکہ میں کوئی ایک یہودی بھی مسلمانوں کے ہاتھ قید نہیں ہوا۔
آخر پر حضورِ انور نے ارشاد فرمایا کہ باقی قلعوں کے واقعات کی مزید تفصیل بھی ہے جو انشاءالله آئندہ بیان ہوگی۔
خطبۂ ثانیہ سے قبل حضورِ انور نے دنیا اور مسلمانوں کے حالات کے بارہ میں دعائیہ تحریک فرمائی جس کی تفصیل درج ذیل لنک پرموجود ہے:
https://www.alfazl.com/2025/02/07/116183/
٭…٭…٭