حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
دادی جان: السلام علیکم! کیا حال ہے بچو!
احمد ، گڑیا اور محمود یک زبان بولے: وعلیکم السلام۔ ٹھیک ہیں دادی جان!
احمد: مجھے سیرت حضرت ابو بکرؓ پر اطفال الاحمدیہ کا سہ ماہی مضمون لکھنا ہے ۔
محمود: دادی جان! آج ہمیں حضرت ابوبکر صدیقؓ کی کہانی سنائیں۔
دادی جان: جی اچھا بچو! حضرت ابوبکرؓ کانام عبداللہ تھا۔ کنیت ابوبکر تھی اور آپؓ کے لقب ’عَتِیق‘ اور ’صِدِّیق‘ تھے۔ آپؓ کی ولادت عام الفیل کے دو سال چھ ماہ بعد 573ء میں ہوئی۔ آپؓ کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو تَیم بن مُرَّہ سے تھا۔ جاہلیت میں آپؓ کا نام عبدالکعبہ تھا جسے رسول اللہﷺنے تبدیل کر کے عبداللہ رکھ دیا۔ آپؓ کے والد کا نام عثمان بن عامر تھا اور ان کی کنیت ابوقُحافہ تھی اور والدہ کا نام سلمیٰ بنت صَخْربن عامِر تھا اور ان کی کنیت اُمُّ الخیر تھی۔ حضرت ابوبکرؓ کا شجرۂ نسب ساتویں پشت میں مُرَّہ پر جا کر رسول اللہ ﷺ سے ملتا ہے
حضرت ابوبکرؓ کے دو لقب مشہور ہیں۔ ایک ’عتیق‘ اور ایک ’صدیق‘۔ زمانہ جاہلیت میں آپؓ کو شراب سے نفرت تھی۔ حِلف الفُضُول میں حضرت ابوبکرؓ کی بھی شمولیت تھی۔ جو غریبوں اور کمزوروں کی مدد کے لیے ایک عہد تھا۔ ایک روایت میں ذکر ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی حضرت ابوبکرؓ رسول کریم ﷺ کے دوست تھے۔
احمد: آپؓ سب سے پہلے ایمان لائے تھے ناں؟
گڑیا: جی ہاں بھائی! دادی جان آپؓ کے قبولِ اسلام کا واقعہ تو بتائیں۔
دادی جان: جی ہاں! حضرت مصلح موعودؓ نے ایک جگہ حضرت ابوبکرؓ کے قبول اسلام کا واقعہ اس طرح بیان کیا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے جب دعویٰ نبوت فرمایا تو اس وقت حضرت ابوبکرؓ کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔ واپس تشریف لائے تو آپؓ کی ایک لونڈی نے آپ سے کہا کہ آپ کادوست تو(نعوذباللہ) پاگل ہوگیا ہے اور وہ عجیب عجیب باتیں کرتا ہے۔ کہتا ہے کہ مجھ پر آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ حضرت ابوبکر ؓ اسی وقت اٹھے اور رسول کریم ﷺ کے مکان پر پہنچ کر آپؐ کے دروازے پر دستک دی۔ رسول کریمﷺ باہر تشریف لائےتو حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ میں آپ سے صرف ایک بات پوچھنے آیا ہوں۔ کیا آپ نے یہ کہا ہے کہ خدا کے فرشتے مجھ پر نازل ہوتے ہیں اور مجھ سے باتیں کرتے ہیں؟ رسول کریمﷺ نے اس خیال سے کہ ایسا نہ ہوکہ ان کو ٹھوکر لگ جائے تشریح کرنی چاہی۔مگر حضرت ابوبکرؓ نے کہا۔ آپؐ تشریح نہ کریں اور مجھے صرف اتنا بتائیں کہ کیا آپؐ نے یہ بات کہی ہے؟ رسول کریم ﷺ نے پھر اس خیال سے پہلے کچھ تمہیدی طور پر بات کرنی چاہی مگر حضرت ابوبکرؓ نے پھر کہا کہ نہیں نہیں ۔ آپؐ صرف یہ بتائیں کہ کیا یہ بات درست ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ ہاں درست ہے۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ میں آپؐ پر ایمان لاتا ہوں۔ اور پھر انہوں نے کہا یارسول اللہؐ ! میں نے دلائل بیان کرنے سے صرف اس لئے روکا تھا کہ میں چاہتا تھا کہ میرا ایمان مشاہدے پر ہو۔ دلائل پر اس کی بنیادنہ ہو کیونکہ آپؐ کو صادق اور راستباز تسلیم کرنے کے بعد کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ غرض جس بات کو مکہ والوں نے چھپایا تھا اسے حضرت ابوبکرؓ نے اپنے عمل سے واضح کر کے دکھادیا۔
گڑیا: تو کیا مکہ والوں نے آپؓ پر بھی ظلم کیا؟
دادی جان: جی ۔ قریش کے مظالم کا آغاز ہوا تو آپؓ نے مسلمان غلاموں کو آزاد کروایا۔ مسلمانوں کے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد حضرت ابوبکرؓ کو بھی ایذا پہنچائی گئی جس پر انہوں نے بھی حبشہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا لیکن ایک سردار کی امان میں یمن سے واپس آگئے۔ پھر آپ نے اپنے گھر میں ایک مسجد بنائی جہاں انتہائی رقّت سے تلاوت کرتے کہ مکہ کے لوگ دیواروں کے اوپر سے دیکھنے لگ جاتے۔ پھر قریش نے سب مسلمانوں کا بائیکاٹ کیا تو آپؓ دارِاَرقم میں رسول اللہﷺ کے ساتھ ہی رہے۔ رسول اللہﷺکے ساتھ آپ نے مدینہ ہجرت کی۔ ہجرت کاواقعہ تفصیل سے میں پھر کبھی بتاؤں گی۔ اسی ہجرت میں آپؓ کو ثانی اثنین یعنی دو میں سے دوسرا کا خطاب ملا۔ پھر آپؓ غزوات اور سرایا میں بھی شامل ہوئے اور رسول اللہﷺ کے قریب سب سے مشکل یعنی خطرناک مقام پر موجود رہتے۔ رسول اللہﷺ نے آپؓ کو امیر بنا کر حج کے لیے وفد روانہ فرمایا۔ جب رسول اللہﷺ بیمار ہوئے تو حضرت ابو بکرؓ کو نماز کی امامت کا ارشاد فرمایا۔ پھر رسول اللہﷺ کے وصال کے بعد آپ خلیفہ منتخب ہوئے۔ آپﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ حضرت ابو بکر ؓ کی صاحبزادی تھیں۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ابوبکر سب لوگوں سے افضل اور بہتر ہے سوائے اس کے کہ کوئی نبی ہو۔دَورِ جاہلیت میں حضرت ابوبکرؓ کو قریش کے سرداروں اور ان کے اشراف و معزز لوگوں میں شمار کیا جاتا تھا۔
محمود: دادی جان کچھ واقعات بھی تو سنائیں۔
دادی جان: جی بالکل! ایک روایت ہے کہ خلافت کے منصب پر متمکن ہونے سے پہلے آپؓ ایک لاوارث کنبہ کی بکریوں کا دودھ دوہا کرتے تھے۔ جب آپؓ خلیفہ بن گئے تو اس کنبے کی ایک بچی کہنے لگی کہ اب تو آپ ہماری بکریوں کا دودھ نہیں دوہا کریں گے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کیوں نہیں۔ اپنی جان کی قسم! میں تمہارے لیے ضرور دوہوں گا اور مجھے امید ہے کہ میں نے جس چیز کو اختیار کیا ہے وہ مجھے اس عادت سے نہ روکے گی جس پر مَیں تھا۔ چنانچہ آپ حسبِ سابق ان کی بکریوں کا دودھ دوہتے رہے۔ جب وہ بچیاں اپنی بکریاں لے کر آتیں تو آپؓ ازراہِ شفقت فرماتے دودھ کا جھاگ بناؤں یا نہ بناؤں؟ اگر وہ کہتیں کہ جھاگ بنا دیں تو برتن کو ذرا دُور رکھ کر دودھ دوہتے حتیٰ کہ خوب جھاگ بن جاتی۔ اگر وہ کہتیں کہ جھاگ نہ بنائیں تو برتن تھن کے قریب کر کے دودھ دوہتے تا کہ دودھ میں جھاگ نہ بنے۔
اسی طرح حضرت عمرؓ مدینہ کے کنارے پر رہنے والی ایک بوڑھی اور نابینا عورت کا خیال رکھا کرتے تھے۔ آپؓ اُس کے لیے پانی لاتے اور اُس کا کام کاج کرتے۔ ایک مرتبہ آپؓ جب اُس کے گھر گئے تو یہ معلوم ہوا کہ کوئی شخص آپ سے پہلے آیا ہے جس نے اس بڑھیا کے کام کر دیے ہیں۔ اگلی دفعہ آپؓ اس بڑھیا کے گھر جلدی گئے تا کہ دوسرا شخص پہلے نہ آ جائے۔ حضرت عمرؓ چھپ کر بیٹھ گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ یہ حضرت ابوبکرؓ ہیں جو اس بڑھیا کے گھر آتے تھے اور اُس وقت حضرت ابوبکرؓ خلیفہ تھے۔اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا اللہ کی قسم! یہ آپؓ ہی ہو سکتے تھے۔
رسول کریم ﷺ نے جب صحابہ کرامؓ کو غزوۂ تبوک کی تیاری کے لیے حکم دیا تو آپ ﷺ نے امراء کو اللہ کی راہ میں مال اور سواری مہیا کرنے کی تحریک بھی فرمائی۔ اس پر سب سے پہلے حضرت ابوبکرؓ آئے اور اپنے گھر کا سارا مال لے آئے جو کہ چار ہزار درہم کے برابر تھا۔ رسول اللہﷺ نے حضرت ابوبکرؓ سے دریافت فرمایا کہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے تو انہوں نے عرض کیا کہ گھر والوں کے لیے اللہ اور اس کا رسول چھوڑ آیا ہوں۔
پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے کسی مال نے کبھی وہ فائدہ نہیں پہنچایا جو مجھے ابوبکر کے مال نے فائدہ پہنچایا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ یہ سن کے رو پڑے اور عرض کیا یا رسول اللہؐ! مَیں اور میرا مال تو صرف آپؐ ہی کے لیے ہے، اے اللہ کے رسولؐ!
احمد: دادی جان۔ مجھے کافی مواد مل گیا ہے۔ اب میں مضمون لکھ سکتا ہوں۔ جزاکم اللہ خیراً
دادی جان: آمین
(ماخوذاز خطبہ جمعہ 26؍ جون 2020ء، خطبہ جمعہ3 و 10؍ دسمبر2021ء، 25؍ نومبر 2022ء)