بنیادی مسائل کے جوابات(قسط ۹۰)
٭…کیا حیض کے دوران عورت قرآن کریم کی تلاوت کر سکتی ہے؟
٭… کیا حیض کے دوران چھوٹ جانے والے روزوں کی قضا ضروری ہے؟
٭… پراپرٹی کو کرایہ پر دینے کے بارے میں راہنمائی
٭… سورت نور کی آیت ۲۷ (پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں) کے بارے میں راہنمائی
٭…ایسی Beer جس پر Non alcoholic لکھا ہو، پینا جائز ہے جبکہ اس میں معمولی سی مقدار میں الکوحل موجود ہو؟
٭…کیا ہم مہندی کےساتھ Tattoo کے ڈیزائن بنا سکتے ہیں؟
٭…غیر مسلم ہو اور آپ کے مذہب کو Supportکرتا ہو تو کیا اس کے ساتھ شادی کرنا جائز ہے؟
سوال: امریکہ سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ یہ مجھے معلوم ہے کہ حیض کے دوران عورت قرآن کریم کی تلاوت نہیں کر سکتی۔ مگر ایک آڈیو ریکارڈنگ میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒنے فرمایا ہے کہ کسی کپڑے میں قرآن کریم پکڑ کر پڑھا جا سکتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ خلیفۂ وقت کی رائے جاننا زیادہ ضروری ہے، ا س لیے میں حضور سے یہ بات پوچھ رہی ہوں۔ نیز میں یہ بھی جاننا چاہتی ہوں کہ حیض کے دوران عورت کے جو روزے چھوٹ جائیں تو کیا وہ روزے بعد میں رکھنے پڑتے ہیں یا فدیہ ادا کرنا چاہیے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۳۱؍مئی ۲۰۲۳ء میں ان مسائل کے بارے میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: خواتین کے ایام حیض میں قرآن کریم پڑھنے کے متعلق میرا موقف قرآن کریم،احادیث نبویہ ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں یہ ہے کہ ایام حیض میں عورت کوقرآن کریم کا جو حصہ زبانی یاد ہو، وہ اسےایام حیض میں ذکر و اذکار کے طور پر دل میں دہرا سکتی ہے۔ نیز بوقت ضرورت کسی صاف کپڑے میں قرآن کریم کو پکڑ بھی سکتی ہے اور کسی کو حوالہ وغیرہ بتانے کے لیے یا بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کے لیے قرآن کریم کا کوئی حصہ پڑھ بھی سکتی ہے لیکن باقاعدہ تعبدی تلاوت نہیں کر سکتی۔
اسی طرح ان ایام میں عورت کوکمپیوٹر وغیرہ پر جس میں اسے بظاہر قرآن کریم پکڑنا نہیں پڑتا باقاعدہ تلاوت کی تو اجازت نہیں لیکن کسی ضرورت مثلاً حوالہ تلاش کرنے کے لیے یا کسی کو کوئی حوالہ دکھانے کے لیے کمپیوٹر وغیرہ پر قرآن کریم سے استفادہ کر سکتی ہے۔اس میں کوئی حرج نہیں۔
باقی جہاں تک حیض کی وجہ سے رمضان کے چھوٹ جانے والے روزوں کی قضاء کا معاملہ ہے تو جس طرح رمضان کے روزے رکھنا فرض ہیں اسی طرح ان چھٹے ہوئے روزوں کی قضاء بھی فرض ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ۔(سورۃ البقرہ:۱۸۵) یعنی تم میں سے جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو تو (اسے) اور دنوں میں تعداد (پوری کرنی واجب) ہوگی۔اور ان چھوٹے ہوئے روزوں کی تکمیل کے لیے آئندہ رمضان تک کا وقت ہوتا ہےجس میں ان روزوں کو رکھا جاسکتا ہے اور رکھنا چاہیے۔چنانچہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ماہ رمضان کے رہ جانے والے روزے میں اگلا رمضان آنے سے پہلے ماہ شعبان میں رکھا کرتی تھی۔(صحیح بخاری کتاب الصوم بَاب مَتَى يُقْضَى قَضَاءُ رَمَضَانَ) لیکن اگر کسی عورت کو کوئی ایسی مجبوری ہو کہ وہ رمضان کے بعد ان روزوں کو نہ رکھ سکتی ہو تو وہ مریض کے زمرہ میں آئے گی اور اسے رمضان کے چھوٹے ہوئے روزوں کا فدیہ دینا چاہیے۔
سوال: کینیڈا سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے استفسار کیا کہ کیا احمدی اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے ایسی پراپرٹی خرید سکتے ہیں جس میں وہ خود نہ رہیں۔ یا ایسی پراپرٹی جس میں وہ خود بھی رہیں اور اس کا کچھ حصہ کرایہ پر دے کر آمدنی میں اضافہ کر یں۔ کیا ایسی آمدنی پر چندہ کی ادائیگی کر دی جائے تو ٹھیک ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۲؍جون۲۰۲۳ء میں اس بارے میں درج ذیل راہنمائی فرمائی۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: اسلام میں جائیداد خریدنے یا اسے کرایہ پر دینے پر شرعاً کوئی ممانعت نہیں۔ لہٰذااگر کسی شخص کو اللہ تعالیٰ نے مالی وسعت دی ہے تو وہ اپنے پیسوں سے جتنی چاہے جائیداد بنائے اور جتنی چاہے کرایہ پر بھی دے، اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔
لیکن اگر آپ کی مراد مارگیج کے طریق پر یہ جائیدادیں خریدنے سے ہے تو اس بارے میں جماعتی موقف یہ ہے کہ ان مغربی ممالک میں چونکہ ہر انسان اپنے رہنے کے لیے بھی آسانی سے مکان نہیں خرید سکتا، اس لیے یا تو اسے ساری زندگی کرایہ کے مکان میں رہنا پڑتا ہے، جس میں اسے زندگی بھر ادا کیے گئے کرایہ کا اس مکان میں رہنے کے علاوہ اور کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ کرایہ کی اتنی بڑی رقم ادا کرنے کے باوجود یہ مکان کبھی بھی اس کی ملکیت نہیں ہوتا۔ یا پھر وہ مارگیج کی سہولت سے فائدہ اٹھا کر اپنی رہائش کے لیے ایک گھر خرید لیتا ہے جس پر اسے تقریباً اتنی ہی مارگیج کی قسط ادا کرنی پڑتی ہے جس قدر وہ مکان کا کرایہ دے رہا ہوتا ہے۔ لیکن مارگیج میں اسے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان اقساط کی ادائیگی کے بعد یہ مکان اس کی ملکیت ہو جاتا ہے۔
پس مارگیج کے ذریعہ سے مکان خریدنا ایک مجبوری اور اضطرار کی کیفیت ہے جو حضورﷺ کے ارشاد ’’الْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لَا يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ فَمَنِ اتَّقَى الْمُشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِيْنِهِ وَعِرْضِهِ وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ كَرَاعٍ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ۔(صحیح بخاری کتاب الایمان بَاب فَضْلِ مَنْ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ)یعنی حلال ظاہر ہے اور حرام (بھی ظاہر ہے) اور دونوں کے درمیان میں کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ پس جو شخص ان مشتبہ چیزوں سے بچا اس نے اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچالیا اور جو شخص ان مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہوا تو(اس کی مثال ایسی ہے) جیسے کہ کوئی شخص اپنے جانور شاہی چراگاہ کے بالکل قریب چرا رہا ہو جس کے متعلق اندیشہ ہو کہ وہ جانور اس چراگاہ کے اندر بھی داخل ہو جائیں۔‘‘کے تحت مشتبہ اشیاء میں سے قرار دی جا سکتی ہے۔ اور جس کے ذریعہ صرف اپنی رہائش کے لیے ایک مکان کی خرید تک فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
لیکن مارگیج کے اس طریق کار کے ذریعہ کاروبار کے طور پر مکان در مکان خرید کر انہیں کرایہ پر دیتے جانا مناسب نہیں اور جماعت اس امر کی ہرگز حوصلہ افزائی نہیں کرتی، بلکہ اس سے منع کرتی ہے۔ اگر کوئی شخص بغیر مارگیج کے مکان خریدنے کی مالی استطاعت رکھتا ہو تو اسے اپنی رہائش کے لیے بھی مارگیج کے اس مشتبہ طریق سے اجتناب کرنا چاہیے۔ کیونکہ مجبوری اور اضطرار کی یہ ایسی ہی مثال ہے جیسا کہ قبولیت حج کے ضمن میں بیان ہونے والے واقعہ میں کئی دنوں کی فاقہ کشی میں مبتلا خاندان کے لیے اپنی جان بچانے کے لیے مردہ گدھے کا گوشت وقتی طور پرجائز تھا لیکن اس کے پڑوسی، جس کے پاس مالی استطاعت تھی اور اس نے حج پر جانے کے لیے رقم بھی جمع کر رکھی تھی، کے لیے یہ گوشت جائز نہیں تھا۔ (تذکرۃ الاولیاء صفحہ ۱۲۳، مطبوعہ مئی ۱۹۹۷ء ناشر الفاروق بک فاؤنڈیشن)
باقی عصر حاضر کے مختلف مالی معاملات از قسم بینکوں کے قرض، سٹاک مارکیٹ اور مارگیج وغیرہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کہ’’اب اس ملک میں اکثر مسائل زیروزبر ہو گئے ہیں۔کل تجارتوں میں ایک نہ ایک حصہ سود کا موجود ہے۔اس لیے اس وقت نئے اجتہاد کی ضرورت ہے۔‘‘ (البدرنمبر ۴۱ و ۴۲، جلد ۳، مورخہ یکم و ۸؍نومبر۱۹۰۴ء صفحہ۸) کی روشنی میں ایک مرکزی کمیٹی ان مسائل پر غور کر رہی ہے۔فیصلہ ہونے پر افراد جماعت کو ان شاء اللہ اس سے آگاہ کر دیا جائے گا۔
سوال: جرمنی سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النور کی آیت نمبر ۲۷ کے ترجمہ میں لکھا ہے کہ ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لیے ہیں اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کے لیے ہیں۔ اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں۔ اس پر سوال یہ ہے کہ اگر کسی نیک عورت کی شادی کسی ایسے مرد کے ساتھ ہو جائے جو پارسا نہ ہو تو کیا عورت ناپاک ہوتی ہے، جو ایسا مرد اس کے حصہ میں آیاہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ ایسی Beer جس پر Non alcoholic لکھا ہو، پینا جائز ہے جبکہ اس میں معمولی سی مقدار میں الکوحل موجود ہو؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۲؍جون۲۰۲۳ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: عموماً دیکھا گیا ہے کہ پاک لوگوں کے پاک لوگوں سے ہی رابطے اور تعلقات ہوتے ہیں۔اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ناپاک مرد پاک عورتوں کے حصہ میں آئے ہوں۔ حضور ﷺ نے شادی کے لیے جو خاص طور پر یہ نصیحت فرمائی کہ شادی کے وقت دوسرے فریق کے مال، خاندان اور خوبصورتی کو دیکھنے کی بجائے اس کے دین کو پیش نظر رکھا جائے کیونکہ دین والے انسان سے شادی کرنے میں ہی حقیقی کامیابی ہے۔(صحیح بخاری کتاب النکاح بَاب الْأَكْفَاءِ فِي الدِّينِ) اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ تا دیندار شخص آپ کا ساتھی بنے۔
لیکن اگر کہیں اچھے اور بُرے مرد و عورت کا رشتہ قائم ہو جائے تو یا تو نیک فریق کی دعا اور کوشش سے بُرے فریق کی اصلاح ہو جاتی ہے یا پھر ان میں خلع یا طلاق کے ذریعہ علیحدگی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اگر کہیں ایسا رشتہ قائم ہو جائے تو مرد یا عورت مجھے لکھ بھی دیتے ہیں اور میں انہیں کہتا ہوں کہ وہ دعا کر کے فیصلہ کر لیں۔
پس مرد و خواتین دونوں کو ہی دین سیکھنے اور اس کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے تا کہ زیادہ سے زیادہ نیک مرد نیک عورتوں کے حصہ میں اور نیک عورتیں نیک مردوں کے حصہ میں آئیں۔ اور ان امور کی طرف میں اپنے خطبات میں بھی کئی دفعہ توجہ دلا چکا ہوں۔
باقی جہاں تک اس آیت کے ترجمہ کی بات ہے تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نےاس آیت کا جو ترجمہ کیا ہے وہ سابقہ مفسرین سے بھی ثابت ہے۔ نیز حضورؒ نے حاشیہ میں اس ترجمہ کی وضاحت بھی فرمائی ہے کہ یہاں ایک عمومی قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ جو گندے لوگ ہیں وہ عموماًگندی عورتوں سے ہی شادی کرتے ہیں۔ لیکن یہ قاعدہ کلیہ نہیں۔اس میں استثناء بھی ہیں۔اور جو پاکباز ہیں وہ پاکباز عورتوں ہی سے شادی کیا کرتے ہیں۔ اس میں بھی بعض دفعہ استثناء ہوتے ہیں۔(ترجمہ قرآن از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ ۵۹۹ حاشیہ)
علاوہ ازیں اس آیت کا ایک ترجمہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے یہ فرمایا ہے کہ خبیث باتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں اور خبیث مرد خبیث باتوں کے لیے ہیں اور پاک باتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک باتوں کے لیے ہیں۔ اور اپنے اس ترجمہ کی وضاحت کرتے ہوئے حضورؓ فرماتے ہیں کہ عام طور پر مفسر اس آیت کے یہ معنے کرتے ہیں کہ خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے ہیں اور خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے۔ مگر یہ درست نہیں۔ باتیں اور اعمال بھی مؤنث استعمال ہوتے ہیں اور انہی کا یہاں ذکر ہے۔ ورنہ ایک بدکار عورت کسی شریف سے دھوکا دے کر بیاہ کر لے تو اس میں مرد کا کیا قصور؟ اسی طرح اس کا الٹ سمجھ لو۔ قرآن مجید تو صرف یہ کہتا ہے کہ جو نیکی میں مشہور ہوں۔ ان پر بدی کا الزام نہ لگاؤ کیونکہ عقلاً نیک شہرت رکھنے والا مرد یا عورت نیک کام ہی کریں گے۔(تفسیر صغیر صفحہ ۴۴۸ و حاشیہ)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس آیت کے جو معانی بیان فرمائے ہیں ان سے اس ترجمہ کی تائید ہوتی ہے جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:انبیاء علیہم السلام اور اللہ تعالیٰ کے مامور خبیث اور ذلیل بیماریوں سے محفوظ رکھے جاتے ہیں مثلاً جیسےآتشک ہو، جذام ہو یا اور کوئی ایسی ہی ذلیل مرض۔ یہ بیماریاں خبیث لوگوں ہی کو ہوتی ہیں۔ اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبْیِثْیِنَ (النور:۲۷) اس میں عام لفظ رکھا ہے اور نکات بھی عام ہیں۔(ملفوظات جلد دوم صفحہ ۲۳، مطبوعہ یوکے ۲۰۲۲ء)
اسی طرح فرمایا: اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ متقی کو ایسی مشکلات میں نہیں ڈالتا۔ اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ۔اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ متقیوں کو اللہ تعالیٰ خود پاک چیزیں بہم پہنچاتا ہے اور خبیث چیزیں خبیث لوگوں کے لیے ہیں اگر انسان تقویٰ اختیار کرے اور باطنی طہارت اور پاکیزگی حاصل کرے جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں پاکیزگی ہے تو وہ ایسے ابتلاؤں سے بچا لیا جاوے گا۔ ایک بزرگ کی کسی بادشاہ نے دعوت کی اور بکری کا گوشت بھی پکایا اور خنزیر کا بھی۔ اورجب کھانا رکھا گیا تو عمداً سور کا گوشت اس بزرگ کے سامنے رکھ دیا اور بکری کا اپنے اور اپنے دوستوں کے آگے۔ جب کھانا رکھا گیا اور کہا کہ شروع کرو تو اللہ تعالیٰ نے اس بزرگ پر بذریعہ کشف اصل حال کھول دیا۔ انہوں نے کہا ٹھیرو یہ تقسیم ٹھیک نہیں اور یہ کہہ کر اپنے آگے کی رکابیاں ان کے آگے اور ان کے آگے کی اپنے آگے رکھتے جاتے تھے اور یہ آیت پڑھتے جاتے تھے کہ اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ۔الآیۃ۔ غرض جب انسان شرعی امور کو ادا کرتا ہے اور تقویٰ اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے اور بُری اور مکروہ باتوں سے اس کو بچا لیتا ہے اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ کے یہی معنی ہیں۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۲۲۱، مطبوعہ یوکے۲۰۲۲ء)
پس دونوں ترجمے ہی درست ہیں لیکن دونوں کی الگ الگ تشریحات ہیں۔
آپ کے دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ حضور ﷺ کی بڑی واضح ہدایت ہے کہ جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ پیدا کرے اس کی تھوڑی سی مقدار بھی حرام ہے۔(سنن ابی داؤد کتاب الاشربۃ بَاب النَّهْيِ عَنْ الْمُسْكِرِ)لہٰذا کسی بھی چیز سے تیار ہونے والی Beer اگر اس سے نشہ پیدا ہوتاہو یا اس میں الکوحل یا کسی ایسے مشروب کی آمیزیش ہو جس کی زیادہ مقدار نشہ پیدا کرتی ہو تو اگرچہ اس ملاوٹ شدہ Beer کے پینے سے نشہ نہ بھی پیدا ہو تا ہو تو ایسی Beer اسلامی تعلیمات کے مطابق بہرحال حرام ہے۔ اور اس سے ہر احمدی مسلمان کو اجتناب کرنا چاہیے۔
سوال: پاکستان سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار بھجوایا کہ کیا ہم مہندی کےساتھ Tattoo کے ڈیزائن بنا سکتے ہیں؟ نیز یہ کہ اگر آپ کسی سے پیار کرتے ہوں لیکن وہ (لڑکایا لڑکی) غیر مسلم ہو اور آپ کے مذہب کو Support کرتا ہو تو کیا اس کے ساتھ شادی کرنا جائز ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۳؍جون۲۰۲۳ء میں اس مسئلہ کے بارے میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: اسلام نے عورتوں کو مہندی کے ذریعہ بناؤ سنگھار کی اجازت دی ہے اور مردوں کے لیے بھی جائزٹھہرایا ہے کہ وہ سر اور داڑھی کے بال مہندی سے رنگ سکتے ہیں۔ مہندی اور Tattoo میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ مہندی کا رنگ ایک دو ہفتوں میں ختم ہو جاتا ہے جبکہ اکثر Tattoo مستقل طور پر جسم پر منقش ہو جاتے ہیں۔ اور جسم کے جن حصوں پر ٹیٹو بنوایا جاتا ہے، اس جگہ جلد کے نیچے پسینہ لانے والے گلینڈ بُری طرح متاثر ہوتے ہیں اور ٹیٹو بنوانے کے بعد جسم کے ان حصوں پر پسینہ آنا کم ہو جاتا ہے، جو طبی لحاظ سے نقصان دہ ہے۔ اور بعض اوقات اس وجہ سے جلد کا کینسر بھی ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بعض قسم کے ٹیٹو چونکہ مستقل طور پر جسم کا حصہ بن جاتے ہیں، اس لیے جسم کے بڑھنے یا سکڑنے کے ساتھ ٹیٹو کی شکل میں بھی تبدیلی آ جاتی ہے، جس سے ٹیٹو بظاہر اچھا لگنے کی بجائے بد صورت لگنے لگتا ہے اور کئی لوگ پھر اسے وبال جان سمجھنے لگتے ہیں لیکن اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ لہٰذا ان وجوہات کی بنا پر ٹیٹو بنوانا ایک لغو کام ہے۔ یہ سب باتیں چونکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھیں اس لیے اس نے اپنے رسولﷺ کے ذریعہ اس کام کی ممانعت فرما دی۔ (صحیح بخاری کتاب اللباس بَاب الْمُسْتَوْشِمَةِ)
باقی خواتین کے بناؤ سنگھار کی خاطر مہندی کے ساتھ جسم کے ان حصوں پر جو ستر کے دائرہ میں نہیں آتے، خود یا دوسری خواتین سے ایسے ڈیزائن بنوانے میں کوئی حرج نہیں جن میں کوئی شرکیہ پہلو نہ پایا جاتا ہو۔ نیز یہ بھی ضروری ہے کہ اس بناؤ سنگھار کی پھر اس طرح کھلے عام نمائش نہ ہو جس سے پردہ کے بارے میں اسلامی حکم کی نافرمانی ہو۔
آپ کے دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ اسلام نے مومنوں کو مشرکوں کے ساتھ شادی کرنے سے منع فرمایاہے۔(سورۃ البقرہ:۲۲۲)اس لیے آپ کے سوال میں بیان لڑکا یا لڑکی اگر مشرک ہیں تو ان سے شادی جائز نہیں۔
(مرتبہ:ظہیر احمد خان۔انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)
مزید پڑھیں: خدا کے لیے کوشش کرنے والا ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے