متفرق مضامین

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب(دورہ امریکہ اور گوئٹے مالا۔ اکتوبر نومبر ۲۰۱۸ء کے چند واقعات۔ حصہ ہشتم)

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز

روحانی تبدیلی

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دورے کے دوران ایک افریقی نژاد امریکی نو مسلم، عبدالحئی داؤد باجوہ تھامس (عمر ۳۶؍سال) کو جو اورلینڈو جماعت سے تعلق رکھتے تھے، خدام کی سیکیورٹی ٹیم میں خدمت کا موقع ملا۔ دوپہر کے وقت جب ہم دونوں ہیوسٹن مسجد کے صحن میں بیٹھے توانہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے اسلام کیوں قبول کیا؟ جب انہوں نے اپنے ذاتی تجربات بیان کیے اور اسلام قبول کرنے کے بعد ان کے ساتھ کیا واقعات پیش آئے تو میں حیرت زدہ رہ گیا۔

عبدالحئی کا تعلق ڈیٹن، اوہائیو کے مضافاتی علاقے سے تھا، اور اپنی نوجوانی کے دوران وہ مذہبی نہیں تھے۔ وہ پریسبیٹیرین چرچ (Presbyterian Church)کے رکن کے طور پر پروان چڑھے لیکن کبھی بھی چرچ کے مذہبی عقائدخاص طور پر حضرت عیسیٰؑ کو خدا کا بیٹا ماننے کے عقیدے سے مطمئن نہیں ہوئے۔

انہوں نے مسیحیت کے بارے میں اپنے بڑوں سے سوالات کیے لیکن انہیں مناسب جواب نہیں دیے گئے بلکہ صرف یہی کہا گیا کہ ’’جو کچھ بائبل کہتی ہے اس پر ایمان لاؤ۔‘‘

مذہب کے بارے میں شکوک و شبہات رکھنے والے عبدالحئی نے میرے سامنے صاف گوئی سے اعتراف کیا کہ جب وہ جوانی میں داخل ہوئےتو وہ ایک ایسی زندگی گزار رہے تھے جو روحانیت اور ایمان سے مبرا تھی۔مغربی معاشرے کے دیگر نوجوانوں کی طرح وہ شراب نوشی اور دیگر برائیوں میں مبتلا ہو گئے۔ یہ سب کچھ ان کی انتیسویں سالگرہ کی رات تک چلتا رہا۔ مجھے بتاتے ہوئے کہ کیا ہو اعبدالحئی نے کہا:دن ، رات اپنی سالگرہ کا جشن منانے کے بعدمیں نشے کی حالت میں سو گیا۔ اچانک میں اس حالت میں جاگا کہ سانس نہیں لے پا رہا تھا۔ میں خوفزدہ ہو گیا اور گھبرا گیا۔ وہ لمحہ میری زندگی بدلنے والا تھا۔ میں اس طرح کی زندگی گزارنے سے تھک چکا تھا، اس لیے پہلی بار میں نے پورے دل سے دعا کی کہ اگر خدا واقعی موجود ہے تو وہ مجھے کوئی نشان دکھائے۔ اگلے چند ہفتوں تک میں یہی دعا کرتا رہا۔

چند ہفتوں کی دعا کے بعد عبدالحئی کی ملاقات اس سکول میں ایک احمدی مسلمان سے ہوئی جہاں وہ کام کرتے تھے۔ اس احمدی نے انہیں مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور کے بارے میں بتایا۔عبدالحئی نے کہا کہ میں نے اپنی جوانی میں امریکی فوج (marines) میں خدمات انجام دیں اور مجھے کینیا، جبوتی، پاکستان، افغانستان، عراق اور سعودی عرب میں تعینات کیا گیا، اس لیے میں پہلے بھی مسلمانوں سے مل چکا تھا لیکن مجھے کبھی معلوم نہیں ہوا کہ اسلام کیا ہے اور میرا تعارف احمدیت سے بالکل بھی نہیں تھا۔ میں نے کتاب ’ایلیمنٹری سٹڈی آف اسلام‘ پڑھی اور صرف چند سطور پڑھنے کے بعد ہی مجھے یقین ہوگیا کہ یہ حق ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ خدا نے میری دعائیں قبول کر لی ہیں۔ اسلام کی روشنی کو میں نے اس کتاب کے صفحات کی طرح محسوس کیا جو میں پڑھ رہا تھا۔

عبدالحئی نے بتایا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد ان کی زندگی مکمل طور پر بدل گئی۔ شراب نوشی چھوڑنے کے علاوہ ان کے دوستوں کا حلقہ بھی مکمل طور پر بدل گیا، کیونکہ وہ اب احمدیوں کے ساتھ دوستی کرنے لگےتھے۔ تاہم، ان کے ماضی کا ایک ایسا پریشان کن پہلو تھا جو ایسے انداز میں ان کے سامنے واپس آیا جس کی انہوں نے کبھی توقع نہیں کی تھی۔

عبدالحئی نے بتایا کہ جب میں ۲۰۰۳ء میں عراق میں تعینات تھا تو میری والدہ کو کریک کوکین کی عادت پڑ گئی۔ میں شدید غصے میں تھا اور قسم کھائی کہ اگر کبھی اس شخص سے ملا جس نے میری والدہ کو اس نشے پر لگایا ہے تو میں اسے قتل کر دوں گا۔

عبدالحئی نے جو کچھ بعد میں بتایا، اس نے مجھے حیران اور پریشان کر دیا۔ عبدالحئی نے کہاکہ ۲۰۱۳ء میں مَیں یوکے جلسہ میں گیا اور ایک اور نومسلم سے ملا اور وہ بھی امریکی وفد کا رُکن تھا۔ جب ہم نے گفتگو شروع کی تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ اسی شہر کا رہنے والا تھا جہاں میں بڑا ہوا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ کس طرح احمدیت نے اس کی زندگی بدل دی کیونکہ اس سے پہلے وہ جرائم کی زندگی گزار رہا تھا اور منشیات فروشی کر تا تھا۔ اس لمحےجب میں اس احمدی بھائی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا مجھے احساس ہوا کہ یہ وہی شخص تھا جو میری والدہ کو کریک کوکین فروخت کرتا تھا۔

اپنے بدترین خدشات کی تصدیق کے لیےعبدالحئی نے اس نومسلم کے ساتھ ایک تصویر لی اور اسے اپنی والدہ کو بھیجا اور پوچھا کہ کیا یہ وہی شخص ہے جو انہیں نشے کی عادت لگاتا تھا؟ جواب میں ان کی والدہ نے لکھا:ہاں یہ وہی ہے، لیکن اب وہ بہت مختلف لگ رہا ہے۔ پہلے وہ اندھیرے کی طرح لگتا تھا لیکن اب وہ روشنی کی طرح دکھائی دے رہا ہے۔

اپنے خدشات کی تصدیق کے بعدعبدالحئی اپنے جذبات کے ساتھ کشمکش میں مبتلا ہوگئے۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیسے ردعمل ظاہر کریں۔

عبدالحئی نے کہاکہ میں نے دل سے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس شخص کو معاف کرنے کی توفیق دےجسے میں جان سے مارنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ کچھ وقت لگا اور مزید دعاؤں کے بعدآخرکار میں نے اسے پورے دل سے معاف کر دیا۔ میں نے اس سے بات کی اور اس نے جو کچھ کیا تھااس کا اعتراف کیا اور مجھ سے معافی کا خواستگار ہوا۔ تب سے ہم دونوں نے خلیفۃالمسیح کے ہاتھ پر دو بار بیعت کی ہے ۔ یہ اسلام کی برکت کا بہترین خلاصہ ہے کیونکہ صرف اسلام ہی ایسی روحانی تبدیلی لا سکتا ہے اور صرف اسلام ہی ہمیں اپنے دل کھول کر معاف کرنے کی صلاحیت دے سکتا ہے۔

میں نے جو کچھ سنا تھا اس سے میں واقعی دنگ رہ گیا۔ احمدیت کے پیغام نے ان دونوں آدمیوں کو کس طرح امن کی حالت میں اکٹھا کیا تھا، کون جانتا ہے کہ اس کے علاوہ اگر کبھی ان کی راہیں ایک دوسرے سے ملتیں تو کیا نتیجہ نکلتا؟

روشنی اور محبت

اسلام کی جانب سفر کا ذکر کرتے ہو ئے عبدالحئی پہلے ہی جذباتی ہوچکے تھے اور جب انہوں نے خلافت کے ساتھ اپنے ذاتی تجربات شیئر کیے تو ان کی جذباتی کیفیت مزید بڑھ گئی۔عبدالحئی نے کہاکہ جب میں نے پہلی بار حضور انور سے ملاقات کی تو وہ بہت شفیق اور مہربان تھے لیکن پھر بھی میں نے وہ روحانی تعلق اور رشتہ خلافت کے ساتھ محسوس نہیں کیا جو کہ دوسروں نے مجھے بتایا تھا کہ میں محسوس کروں گا۔ میں الجھن کا شکار تھا اور پریشان تھا۔میں نے حضور کو خطوط لکھنےجاری رکھے اور حضور انور کے جواب مجھے موصول ہوتے رہے اور اسی ذریعے نے خلافت کے ساتھ میرا رشتہ استوار کیا۔ پھر ۲۰۱۳ء میں مَیں نے یوکے جلسہ سالانہ میں شرکت کی جہاں حضور نے نہایت شفقت کرتے ہو ئے میرا نکاح پڑھایا۔

عبدالحئی نے مزید کہاکہ چند دن بعد ہماری امریکی وفد کی حضور سے ملاقات ہوئی اور اس دن نے میری زندگی ہمیشہ کے لیے بدل دی ۔ جیسے ہی حضور اندر تشریف لائے میں مکمل طور پر مسحور ہو گیا۔ اچانک میں رونے لگا اور مجھے وہ گہرا تعلق اور محبت محسوس ہوئی جو ہر کوئی مجھے بتاتا تھا، بلکہ اس سے بھی زیادہ! اس لمحے میں مجھے احساس ہوا کہ خلافت ہی سب کچھ ہے اور اس کے بغیر میں زندہ لاش کی طرح تھا۔ میں نے حضور کے مبارک چہرے سے صرف روشنی اور محبت دیکھی۔ یہ میری زندگی کا بہترین لمحہ تھا۔ اس دن کے بعد سےمیں نے خلافت کی دعاؤں سے معجزات ہوتے ہوئے دیکھے ہیں۔

افسوس کہ عبدالحئی اور ان کی بیوی ماریہ کی پہلی بیٹی، حفیظہ باجوہ تھامس کی پیدائش مردہ (stillborn) ہوئی۔اس ذاتی غم کے بعد وہ لندن میں حضور سے ملاقات کے لیے چلے گئے۔عبدالحئی نے بیان کیا کہ کس طرح حضور کی محبت نے ان کو حوصلہ اور صبر کی طاقت دی۔موصوف نے کہا کہ حضور سب سے زیادہ محبت کرنے والے انسان ہیں۔ وہ رحم دل، ہمدرد اور بے لوث ہیں۔ ہمارے غم کے وقت حضور نے ہمیں تسلی دی اور ہماری بیٹی کے بارے میں بہت خوبصورتی سے فرمایاکہ وہ اللہ کی ہے۔اس بات نے ہمیں سکون، صبر اور راحت دی۔ ملاقات میں حضور نے ہمارے لیے دعا کی کہ اللہ ہمیں نیک اور صحت مند اولاد دے اور وہ دعا اس وقت پوری ہوئی جب حال ہی میں اللہ نے ہمیں ایک صحت مند اور خوبصورت بیٹی (نصیبہ باجوہ تھامس) سے نوازا۔ الحمدللہ۔

جب ہماری بات چیت ختم ہوئی تو عبدالحئی نے حفاظتِ خاص ٹیم کے رکن کے طور پر اپنے مشاہدات کا ذکر کیا۔ عبدالحئی نے کہاکہ حفاظت خاص ٹیم کے رکن کے طور پرمیں جہاں بھی حضور موجود ہوں وہاں جاتا ہوں اور میں پورے وثوق سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس کرۂ ارض پر کوئی اتنا محنتی اور مخلص شخص نہیں جتنے حضور ہیں۔ میری عمر چھتیس سال ہے اور میری جسمانی حالت بھی اچھی ہے لیکن صرف ایک دن حضور کے پیچھے چلنے کے بعد مجھے تھکن محسوس ہوئی۔ یہاں امریکہ میں ہم لنکن، جیفرسن جیسے عظیم آدمیوں اور راہنماؤں کی بات کرتے ہیں، لیکن ان کی محنت ان کوششوں کے مقابلے میں ذرّہ برابر بھی نہیں جو خلیفہ وقت انسانیت کی خدمت کے لیے کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے پچھلے پندرہ سالوں کو بغیر کسی رخصت کے گزارا ہے اور مسلسل حضرت مسیح موعودؑ کے مشن کو پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کی محبت نے میری زندگی کو بدل دیا ہے، مجھے صحیح راستے پر گامزن کر دیا ہے اور وہ یہی سب دنیا بھر میں ان گنت دیگر روحوں کے لیے بھی کر رہے ہیں۔

(مترجم:طاہر احمد۔ انتخاب:مظفرہ ثروت)

مزید پڑھیں: حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مصروفیات

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button