سب قسم کے گناہوں سے استغفار کرتے رہنا چاہیے
عزیزو! اس دنیا کی مجرد منطق ایک شیطان ہے اور اس دنیا کا خالی فلسفہ ایک ابلیس ہے جو ایمانی نور کو نہایت درجہ گھٹا دیتا ہے اور بے باکیاں پیدا کرتا ہے اور قریب قریب دہریت کے پہنچاتا ہے۔ سو تم اس سے اپنے تئیں بچاؤ اور ایسا دل پیدا کرو جو غریب اور مسکین ہو اور بغیر چون چرا کے حکموں کو ماننے والے ہو جاؤ جیسا کہ بچہ اپنی والدہ کی باتوں کو مانتا ہے۔ قرآن کریم کی تعلیمیں تقویٰ کے اعلیٰ درجہ تک پہنچانا چاہتی ہیں ان کی طرف کان دھرو اور اُن کے موافق اپنے تئیں بنا ؤ۔
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۵۴۹)
اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے استغفار کا التزام کرایا ہے کہ انسان ہر ایک گناہ کے لئے خواہ وہ ظاہر کا ہو خواہ باطن کا، خواہ اسے علم ہو یا نہ ہو اور ہاتھ اور پاؤں اور زبان اور ناک اور کان اور آنکھ اور سب قسم کے گناہوں سے استغفار کرتا رہے۔آجکل آدم علیہ السلام کی دعا پڑھنی چاہئےرَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(الاعراف: ۲۴)
(ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۲۷۵، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
شیطان انسان کو گمراہ کرنے کے لئے اور اس کے اعمال کو فاسد بنانے کے واسطے ہمیشہ تاک میں لگا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ نیکی کے کاموں میں بھی اس کو گمراہ کرنا چاہتا ہے اور کسی نہ کسی قسم کا فساد ڈالنے کی تدبیریں کرتا ہے۔نماز پڑھتا ہے تو اس میں بھی ریا وغیرہ کوئی شعبہ فساد کا ملانا چاہتا ہے۔ ایک امامت کرانے والے کو بھی اس بلا میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ پس اس کے حملہ سے کبھی بے خوف نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس کے حملے فاسقوں فاجروں پر تو کھلے کھلے ہوتے ہیںوہ تو اس کا گویا شکار ہیں۔ لیکن زاہدوں پر بھی حملہ کرنے سے وہ نہیں چوکتااور کسی نہ کسی رنگ میں موقعہ پا کر ان پر بھی حملہ کر بیٹھتا ہےجو لوگ خدا کے فضل کے نیچے ہوتے ہیں اور شیطان کی باریک در باریک شرارتوں سے آگاہ ہوتے ہیں وہ تو بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہیں لیکن جو ابھی خام اور کمزور ہوتے ہیں وہ کبھی کبھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔
(ملفوظات جلد ۶صفحہ ۴۲۶، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
مزید پڑھیں: صبر ہی ہے جودلوں کو فتح کر لیتا ہے