امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ اراکین نیشنل مجلس عاملہ و صدران لجنہ اما ء اللہ سوئٹزرلینڈ کی ملاقات
کام کریں گے، تو مشکلات ہوں گی۔ یہ کہنا کہ ہمیں ہر روز حلوہ پُوری پکی پکائی مل جایا کرے، یہ نہیں ملے گی۔کام کرنا ہے، محنت کرنی پڑے گی
اور حلوہ پکانے کے لیے گیہوں اُگانے سے لے کے حلوہ پکانے تک سارے پروسیس میں سے گزرنا پڑے گا
مورخہ۲۶؍جنوری ۲۰۲۵ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ اراکینِ نیشنل مجلسِ عاملہ لجنہ اماء الله و صدران سوئٹزرلینڈ کے ایک وفد کو بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔لجنہ نےخصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےسوئٹزرلینڈسے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔یہ ملاقات اسلام آباد (ٹلفورڈ)میں منعقد ہوئی۔

دورانِ ملاقات تمام عاملہ ممبرات کو حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کے حوالے سے تعارف پیش کرنے اور اپنے متعلقہ شعبہ جات میں کام کو مزید مؤثر اور احسن رنگ میں سر انجام دینے کی بابت بیش قیمت راہنمائی حاصل کرنے کا بھی موقع ملا۔
ایک عاملہ ممبر نے اس مشکل کا ذکر کیا کہ بعض لجنہ کی ممبرات لجنہ اماء اللہ کی طرف سے تیار کردہ پروگراموں میں شرکت نہیں کرتیں ، نیز اس ضمن میں حضورِ انور سے راہنمائی طلب کی۔
اس کے جواب میں حضورِ انور نے ایسی لجنہ ممبرات کی نفسیات اور رجحانات کو سمجھناضروری قرار دیتے ہوئے توجہ دلائی کہ سب سے پہلے یہ دیکھو کہ ان کے مزاج کیسے ہیں ۔ یہاں پیدا ہوئی اَور پلی بڑھی ہیں ، ان کے مزاج کیسے ہیں، وہ کس قسم کے پروگرام چاہتی ہیں؟
حضورِ انور نے واضح فرمایا کہ یہ تو آپ کی سیکرٹری تربیت کا کام ہے کہ ان سے پوچھیں کہ ہم تربیت کے پروگرام بنا رہے ہیں تو کس قسم کے بنائیں؟ ناصرات کے پروگرام ترتیب دینا سیکرٹری ناصرات کا کام ہے، ان سے پوچھیں کہ کس قسم کے پروگرام بنائیں، تو جو اُن کے انٹرسٹ(دلچسپی) کے پروگرام ہوتے ہیں، ان کو بنائیں، تو اس میں ان کاانٹرسٹ ڈیویلپ (پیدا)ہوگا۔ پھر آہستہ آہستہ باقی کاموں میں بھی وہ آپ کے ساتھ تعاون کریں گی۔
سیکرٹری تربیت نے دورانِ ملاقات ایک اہم مسئلے کی جانب نشاندہی کی کہ جب لجنہ ممبرات سے ماہانہ تربیتی جائزے کے لیے نمازوں کی ادائیگی، تلاوتِ قرآن کریم یا خطبہ جمعہ سننے سے متعلق رپورٹ طلب کی جاتی ہے تو بعض ممبرات یہ جواب دیتی ہیں کہ یہ ہمارا اور خدا کا معاملہ ہے، آپ ہمیں کیوں بار بار تنگ کرتی ہیں ؟ نیز حضورِ انور سے راہنمائی کی درخواست کی کہ ایسی صورت میں کس طرح مؤثر تربیت کی جا سکتی ہے؟
حضورِ انور نے اس پر فرمایا کہ ان کو کہیں کہ خدا کا معاملہ تو ہے، مگر جماعت کا بھی ایک نظام ہے، تا کہ ہمیں پتالگے کہ ہمارا جماعتی نظام ترقی کر رہا ہے یا نیچے جا رہا ہے۔ اس لیےہم انفارمیشن (معلومات)لیتے ہیں کہ آپ لوگ نمازوں میں باقاعدہ ہیں کہ نہیں، آپ لوگوں کی قرآن شریف کی طرف توجہ ہے کہ نہیں؟
حضورِ انور نے توجہ دلائی کہ اس کا تو قرآنِ شریف میں بھی حکم ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ نے یہی حکم دیا تھا کہ نصیحت کرتے جاؤ اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جماعت کے ساتھ وابستہ رہو اور جماعت جو نصیحت کرتی ہے، اس کے اوپر چلو گے تو تمہارے اندر اکائی پیدا ہو گی اور جب تم یہ ساری باتیں کر رہے ہو گے تو تبھی فائدہ ہو گا۔
حضورِ انور نے دینی امور کے حوالے سے پند و نصیحت کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ اب اگر کوئی کہہ دے کہ ہمیں کچھ نہ کہو تو پھر اللہ تعالیٰ کو مردوں کو یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ نماز باجماعت ادا کرو یا عورتوں کو کیوں کہنے کی ضرورت تھی کہ تم لوگ قرآنِ کریم بھی پڑھو، نمازیں بھی پڑھو، گھر کے فرائض بھی ادا کرو ، حقوق اللہ بھی ادا کرو ، حقوق العباد بھی ادا کرو اوراس کی تلقین کرنے کا ذکر ہے اور یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہے کہ نصیحت کرو اور کرتے چلے جاؤ، تمہیں نصیحت کرنے والا بنایا ہے، کہو کہ اس لیے ہم کرتے ہیں۔
حضورِ انور نے مزید وضاحت کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ فرمایا کہ باقی یہ جماعت کی اکائی کے لیے ضروری ہے کہ آپ لوگوں سے پوچھا جائے تا کہ ہمیں پتا لگے کہ ہم ترقی کررہے ہیں یا نیچے جا رہے ہیں اور ہم اس کے مطابق پروگرام بناتے ہیں۔
حضورِ انور نے سوال کے نفسِ مضمون کی روشنی میں توجہ دلانے کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ تو یہ کہہ دینا کہ ہمارا اورخدا کا معاملہ ہے ، یہ ٹھیک نہیں ہے، اگر اتنی ہی بات تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں فرمایا تھا کہ جو لوگ نمازیں پڑھنے نہیں آتے، عشاء کی نماز پر نہیں آتے یافجر پر نہیں آتے تو میرا دل چاہتا ہے کہ کسی کو امام مقرر کر کے جاؤں اور ان کے گھروں کو آگ لگا دوںحالانکہ آپؐ تو بڑے رحم دل تھے۔ یہ بات بتاتی ہے کہ توجہ دلانا اور یہ کہنا کہ تم لوگ نمازیں پڑھو اور یا جماعتی کاموں میں شامل ہو یا قرآنِ کریم پڑھو اور اس کی تعلیم پر عمل کرو، یہ ضروری ہے۔ قرآنِ کریم کی تعلیم بھی یہ کہتی ہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی یہ کہتا ہے کہ آپؐ صحابہؓ کو بار بار نصیحت کروایا کرتے تھے ۔ اس زمانے میں اگر ہم نےحضرت مسیحِ موعودعلیہ السلام کو مانا ہے تو آپؑ بھی باربار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت کی پیروی میں یہی کہتے ہیں کہ نصیحت پر عمل کرنا چاہیے اور جماعتی تعاون کرنا چاہیے تاکہ جماعت کی مضبوطی شاملِ حال ہو۔
حضورِ انور نے توجہ دلائی کہ باجماعت نمازیں پڑھنے کا بھی حکم اس لیے ہے، اپنے مردوں اور بچوں کو بھی کہیں کہ نمازیں پڑھا کرو ۔بصورتِ دیگرحضورِ انور نے متنبّہ فرمایا کہ کل کو پھر بچے بھی بگڑ جائیں گے، وہ بھی کہیں گے کہ ٹھیک ہے ہم آزاد ہیں، ہمیں دین کے معاملے میں کچھ نہ کہو۔ پھر یہ بعد میں روتے ہوئے آتے ہیں کہ ہماری لڑکی فلاں جگہ چلی گئی یا لڑکا فلاں جگہ چلا گیا ، اِس میں یہ برائی پیدا ہو گئی اور اُس میں فلاں برائی پیدا ہو گئی تو پھر یہ شکایتیں بھی نہ کیا کرو۔پھر ٹھیک ہے بچوں کو بھی آزادی دو ، وہ جو چاہے مرضی کریں، چاہے وہ شراب پیئیں یا جُوا کھیلیں یا زنا کریں یا جو چاہے مرضی کرتے رہیں، پھر کیوں روکتے ہو؟
آخر میں حضورِ انور نے تاکید فرمائی کہ لیکن بات پیار اور حکمت سے کرنی ہےنہ کہ bluntly (سختی سے)۔اگر آپ ایسا کریں گی تو پھرلوگ آپ کا گلا کاٹنے لگ جائیں گے۔
ایک لجنہ ممبر نے حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ سوئٹزرلینڈ میں اکثر لوگ اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کو غیر مطلوب میل یعنی ڈاک کو اپنے لیٹر باکس میں پوسٹ کرنا پسند نہیں ہے، ممبرانِ جماعت اکثر تبلیغی leaflets (لیف لیٹس) کو پوسٹ کرتے ہیں، نیز استفسار کیا کہ آیا ایسا کرنا درست ہے یا نہیں؟
حضورِ انور نے اس پر استفہامیہ انداز میں تبصرہ فرمایا کہ کیوں ڈالتے ہو، کوئی نہیں پسند کرتا تو وہ لیف لیٹس نکالے گا اور پھاڑ کے پھینک دے گا ، اس کا فائدہ کیا ہے؟
اس پر سائل نے اس کی تائید میں عرض کیا کہ ایسے لوگ ہماری مسجد میں فون کرتے ہیں اور پھر برا بھی مناتے ہیں۔ تو حضورِ انور نے فرمایا کہ تو وہ ٹھیک کرتے ہیں ۔
حضورِ انور نے مؤثر اور حکمت سے بھرپور تبلیغ کی جانب راہنمائی کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ اس کی بجائے سڑک پر کھڑے ہو کر سٹال لگاؤ اور کہو کہ یہ اسلام کی تعلیم ہے، یہ ہم دے رہے ہیں، اگر تمہیں دلچسپی ہے تو ہمارایہ پمفلٹ لو اور پڑھ لو۔ تو جو خوشی سے لے کے جاتا ہے، اس کو دو، کوئی یہ تو نہیں ہے کہ ہم نے دو لاکھ پمفلٹ تقسیم کرنا ہے، اس لیے لیٹر باکس میں ڈال دیا اور آسان کام کر دیا۔ ایک مہم بنا کے لڑکےاوربچے اور اطفال نکل آئے اور کہہ دیا کہ ہم نے بڑا کام کر لیا۔یہ توکوئی کام نہیں ہے، جس کام کا نتیجہ اچھا نہیں ہے، اس کام کو کرنے کا فائدہ کوئی نہیں۔اس لیے انہی کو دو جو خوشی سے لینا چاہتے ہیں۔ دروازے پر جاکے ان سے کہو کہ یہ ہمارا پمفلٹ ہے ، آپ کے لیٹر بکس پر تو لکھا ہوا ہے کہ نہیں ڈالنا، اگر آپ پسند کریں تو یہ لے لیں۔ نہیں تو السلام علیکم ، وعلیکم السلام اور ہم جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے۔ تو اچھی wishes (خواہشات)کے ساتھ ان سے چھٹی لے کے آ جاؤ تو وہ لوگ خوش ہو جائیں گےیاکہیں گے کہ آپ بڑے با اخلاق لوگ ہیں ، کم از کم ہمارے سے پوچھ کر تو کام کر رہے ہیں ۔
آخرمیں حضورِانور نے فرمایا کہ یہ بھی ایک تبلیغ ہے، بلکہ اس پمفلٹ سے زیادہ اچھی تبلیغ ہے کہ تم contact(رابطہ)کر کے لوگوں کو السلام علیکم کر لیا کرو۔
ایک لجنہ ممبر نے دریافت کیا کہ ہم ان لڑکیوں کی کیسے مدد کر سکتی ہیں جوbullying یاسماجی تنہائی کا شکار ہو کر دوسروں سے دُور ہو گئی ہیں اور اس وجہ سے مسجد بھی آنا چھوڑ دیتی ہیں؟
حضورِ انور نے اس کا جواب دیتے ہوئے استفہامیہ انداز میں دریافت فرمایا کہ اگر سکول میں bullying کرتے ہیں اور تم لوگ ان کو ویلکم کرتے ہو اور ان کے جذبات کا خیال رکھتے ہو، ان کے سر پر ہاتھ رکھتے ہو، ان کو گلے لگاتے ہو، تو وہ تمہارے پاس آنا کیوں چھوڑیں گی؟
حضورِ انور نے ایسی لڑکیوں کے ذہن میں پائے جانے والے خدشہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کو یہ شک ہے کہ ہم تمہارے پاس جائیں گے تو تمہاری طرف سے بھی اسی طرح bullying ہوگی جس طرح ہمیں سکول میں ہوتی تھی۔
اس حوالے سے حضورِ انور نے تاکید فرمائی کہ ان کے گھر جاؤ ، ان کو سمجھاؤ ، ان سے پیار سے بات کرو اور ان سے کہو کہ تم ہمارے پاس آؤ۔ سکول میں تمہارا ماحول ایسا ہے، وہ تو دنیا داری کا ماحول ہے اوراس طرح ہوتا ہے ، تم یہاں آؤ ۔ ہم تمہیں welcomeکرتے ہیں، ہم تمہیں پیار کرتے ہیں، ہم تمہیں جو activities (سرگرمیاں)ہیں ان میں حصّہ داربناتے ہیں۔ اس لیے تم بغیر خوف کے ہمارے پاس آیا کرو۔ حضورِانور نے دوبارہ اس نصیحت کا اعادہ فرمایا کہ ان کے گھر جا کے یا ان کو فون کر کے یہ کہو اور سمجھاؤ، ان کی اصلاح کرو اوران کا شک اور خوف دُور کرو۔
حضورِ انور نے دریافت فرمایا کہ تمہارے ہاں کوئی psychiatrist (ماہرِ نفسیات) نہیں ہے ؟ جس پر عرض کیا گیا کہ کچھ ایسی لجنہ ہیں کہ جنہوں نے سائیکالوجی (نفسیات) پڑھی ہوئی ہے۔یہ سماعت فرما کر حضورِ انور نے فرمایا کہ سائیکاٹرسٹ سے ان کا علاج کرواؤ کہ کس طرح ہم نے ان کے دلوں میں سے شکوک نکالنے ہیں؟
بایں ہمہ حضورِ انور نے تلقین فرمائی کہ اور ان کو کمپنی دو، ان کو زیادہ احساس دلاؤ کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں تو وہ تعاون کریں گی۔ نیزجواب کے آخر میں حضورِ انور نے اس بات پر زور دیا کہ پیار سے سب کچھ جیتا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ دشمن سے بھی پیار سے بات کرو تو اس کا بھی دل نرم ہو جاتا ہے۔ تو یہ تمہارے اپنے لوگ ہیں، ان سے پیار سے بات کرو گی تو کیوں نہیں دل نرم ہو گا؟ الله میاں تو کہتا ہے کہ جو دشمن تھے وہ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ ہو گئے ، ایک دوسرے کے دوست بن گئے ۔
اسی تناظر میں ایک اور لجنہ ممبر نے اپنے ذاتی مشاہدہ کا ذکر کرتے ہوئے عرض کیا کہ ایسی لڑکیاں کئی دفعہ اس بات سے بھی گھبراتی ہیں کہ اگر شاذ و نادر وہ آ بھی جائیں گی تو انہیں بڑی عمر کی خواتین آنٹیوں کی تنقیدی نگاہوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس پرحضورِ انور نے ہدایت فرمائی کہ ان آنٹیوں کو کہو کہ اپنی آنکھیں بند کریں، اپنی حالت کو دیکھیں ، اِستغفار کریں اور اپنی اصلاح کریں۔
حضورِ انور نے متنبّہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے پھر کہنا ہے کہ تم نے ان کو دوڑایا ہے ، تمہیں تو مَیں سزا دیتا ہوں۔
حضورِ انور نے اس بات پر زور دیا کہ آنٹیوں کو کہو کہ وہ خدا نہ بنیں اور پیار و محبّت سے پیش آ ئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تواللہ تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں یہی کہا ہے کہ ان لوگوں سے نرمی ، پیار اورمحبّت سے سلوک کرو جو تیرے پر ایمان لانے والے ہیں، اگر تم نے ان سے سختی کی تو یہ لوگ دوڑ جائیں گے۔ تو آنٹیوں سے کہو کہ تم دوڑانے والی نہ بنو، محبّت و پیار کر کے لانے والی بنو۔
[قارئین کی معلومات کے لیے عرض ہے کہbullying (تضحیک یا بدسلوکی) ایک انگریزی اصطلاح ہے اوراس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی کو جان بوجھ کر تنگ کرنا، اذیت دینا، تمسخر اُڑانا، ہنسی اور ٹھٹھے کا نشانہ بنانا یا تکلیف پہنچانا۔ یہ عمل جسمانی، ذہنی یا جذباتی طور پر اثر اندازہو سکتا ہے، جیسے مار پیٹ، گالیاں دینا ، کسی کو گروپ سے الگ کرنا، اس کے بارے میں افواہ پھیلانا یا جھوٹ کی تشہیر کرنایا اسے سماجی سطح پر بدنام کرنا ، سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ پرتذلیل یا ہراساں کرناوغیرہ وغیرہ۔ اس کا بنیادی مقصد کسی کی عزت نفس کو مجروح کرنا، اس کی تذلیل کرنا یا اسے کمزور بنانا ہوتا ہے۔ یہ عموماً طاقت کے فرق کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس تحقیرکے نتیجے میں متاثرہ شخص سماجی تنہائی کا شکار ہو سکتا ہےاور ساتھ ہی اسے خود اعتمادی کی کمی، ڈپریشن یا ذہنی پریشانی جیسے مسائل کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے عصرِ حاضر کے نام نہاد آزادی پسند معاشروں میں یہ رجحان تکلیف دہ حد تک رواج پا چکا ہے۔]حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا جانے والا اگلا سوال یہ تھا کہ والدین کی بہت کوشش اور توجہ کے باوجود بعض بچے نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی محض اپنے آپ کو اس معاشرے میں integrate (ضمّ) کرنے کے لیے غلط ایکٹیوٹیز (سرگرمیوں) میں مبتلا ہو جاتے ہیں، جن میں بعض اوقات حلال و حرام کا فرق بھی نہیں رہتا ، حالانکہ ان بچوں کو بچپن ہی سے اچھائی اور برائی نیز حلال و حرام کا فرق سکھایا جاتا ہے، ایسی صورت میں بہترین اقدام کیا ہے؟
اس پر حضورِ انور نے مفصّل راہنمائی فرمائی کہ بات یہ ہے کہ بچپن میں آپ لوگ حلال و حرام سکھاتے ہیں اور زیادہ ڈرانے والی باتیں کرتے ہیں۔ ڈرانے کی بجائے ان میں پیار سے محبّت والی باتیں پیدا کریں کہ یہ بات صحیح ہے اور اس لیے ہم نے کرنی ہے اور یہ بات غلط ہے، اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے، اسلام کو پسند نہیں ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا۔اس زمانے میں مسیح ِموعود علیہ السلام کو مانا ہےتو انہوں نے کہا کہ یہ بات نہ کرو ، جماعت کی جو ایک تعلیم ہے اس کے یہ خلاف ہے، اس لیے ہم یہ باتیں نہیں کرتے اور دنیا والے بہت سارے کرتے ہیں۔ حضورِ انور نے اس بات پر زور دیا کہ اور یہ نہیں کہنا کہ دنیا والے جو ایسا کرتے ہیں تم ان سے نفرت کرو۔ جویہ کرتے ہیں تو وہ غلط کرتے ہیں اور ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ سے ہے۔
حضورِ انور نے تاکید فرمائی کہ اس لیے آہستہ آہستہ ان کے ذہنوں میں ڈالتے جاؤ۔پندرہ سال کی لڑکی یا لڑکا جب ہوجاتا ہے، خاص طور پر لڑکے جب باہر جاتے ہیں تو زیادہ متاثر ہوتے ہیں تو ان کو بتاؤ کہ یہ برائیاں ہیں، ان سے تم نے بچ کے رہنا ہے اور یہ باپوں کا بھی کام ہے کہ بچوں کو اپنے ساتھattach (منسلک) کریں اور ان کو سمجھاتے رہیں۔
حضورِ انور نےعمدہ ذاتی نمونے پیش کرنے کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئےتوجہ دلائی کہ اگر باپ بھی نمازیں نہیں پڑھ رہے اور سارا دن اپنی مجلسوں میں بیٹھے آوارہ گردی کررہے ہیں یا گھر بیٹھ کے انٹرنیٹ پرفضول قسم کے پروگرام دیکھتے جا رہے ہیں تو پھر بچوں پر کیا اثر ہوگا؟ تو پہلے اپنے گھر کے ماحول کو بھی تو پاکیزہ بنائیں ۔ نصیحت کچھ ہے اور عمل کچھ ہے تو پھر بچے کہتے ہیں کہ اچھا !پھر ہم بھی یہی کریں گے، جو ہماری مرضی ہے۔
حضورِ انور نے نصیحت فرمائی کہ پہلے اپنا جائزہ لیں کہ آپ کے گھر میں خاوند اور بیوی اس تعلیم کے مطابق عمل کر رہے ہیں، جو اسلامی تعلیم ہے، گھر کا رہن سہن اور معاشرتی زندگی ، وہ پاک صاف ہے؟ اگر ہے تو بچوں پر بھی اچھا نیک اثر پڑے گا، نہیں تو پھر نصیحت تو کرنی نہیں چاہیے۔ اللہ تعالیٰ تو قرآنِ شریف میں بھی کہتا ہے جو تم خود نہیں کرتے تو پھر اس کی نصیحت بھی نہ کرو۔
ایک لجنہ ممبر نے راہنمائی طلب کی کہ مغربی اقوام کی مذہب سے دُوری اور لادینیت کے باوجود ان کا سائنس ، ٹیکنالوجی، معاشیات اور تحقیق کے میدان میں دنیا پر حکومت کرنا ، کیا خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک انعام ہے یا آزمائش نیز بچوں کی تعلیم و تربیت میں اس پہلو کو بیان کرنے کے لیے کیا حکمت اختیار کی جائے؟
حضورِ انور نے اس پر راہنمائی فرمائی کہ سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو خود کہہ دیا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی بڑی وضاحت فرمائی کہ یہ جو دنیاوی قومیں ہیں، جو دجّال ہیں، اس کی دائیں آنکھ کمزور ہو گی اور بائیں آنکھ بڑی تیز ہو گی۔
حضورِ انور نے وضاحت فرمائی کہ بائیں آنکھ کون سی ہے، یہ دنیا داری ہے ، بزنس ہے ، تجارت ہے اور سائنس ہے، اس میں تو ترقی کرتے جائیں گے اور کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کومَیں بہت کچھ نوازوں گا ، لیکن جو اِن میں سے غلط کاموں میں پڑیں گے، ان کو سزا بھی بڑی دوں گا۔ تو اس دنیا میں الله تعالیٰ سزا نہیں دےگا ، تواگلے جہان میں دے دے گا ، ہمیں تو نہیں پتا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک ہونا ہے ؟اور دین کا علم دائیں آنکھ ہے، اس کے لیے مسلمانوں سے وعدہ ہے کہ تم لوگ اگر عمل کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس دنیا میں بھی رِیوارڈ (اجر)دے گا اور اگلے جہان میں بھی دے گا۔ اب آپ کا دین کا کام ہے، اللہ تعالیٰ نے ریوارڈ دیا ہوا ہے ، دنیا کا بھی دیا ہوا ہے اور دین پربھی قائم ہیں۔ اگلے جہان میں بھی اللہ تعالیٰ کرے کہ بہتر ریوارڈ دے۔
حضورِ انور نے تاکید فرمائی کہ جو پڑھی لکھی عورتیں یا لڑکیاں ہیں تو یہ اپنی مثال دیا کریں کہ ڈاکٹر ہیں، انجینئر ہیں، وکیل ہیں، سائنٹسٹ ہیں کہ دیکھو! یہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم ہے اور اس پر عمل کر کے ہم یہ کر رہے ہیں۔ ان کو تو اس دنیا میں ہی اللہ تعالیٰ نے دے دیا ، لیکن اگلے جہان میں اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مَیں ان کو اچھی طرح پکڑوں گا۔ البتہ جو مومن ہے اگر کسی فیلڈ میں جا رہا ہے اور محنت کر رہا ہے تو اسے یہاں رِیوارڈ تو ملے گا، لیکن کم محنت سے اس کو زیادہ ریوارڈ مل جائے گا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے۔ یا کم محنت سے اس کے اچھے نتائج نکل آئیں گے اور اگلے جہان جا کے تو اس کی موجیں ہی موجیں ہیں جو کہ دوسروں کی نہیں ہیں۔ تو اس طرح سمجھایا کریں۔
حضورِ انور نے اس بات کا اعادہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تو کہہ دیا تھا کہ مَیں ان کو دنیاوی ترقی دوں گا، تو اللہ تعالیٰ اس کے مطابق ان کو دنیاوی ترقی دے رہا ہے ۔
حضورِ انور نے اس حقیقت کی جانب بھی توجہ مبذول کرائی کہ حضرت عیسیٰؑ نے جب ان کے لیےروٹی مانگی تو الله تعالیٰ نے کہا کہ ٹھیک ہے ان کو سارا کچھ دے دوں گا ، لیکن جب میری پکڑ آئے گی وہ بھی سخت ہو گی، تو یہ پکڑ نہیں ہو رہی تو اور کیا ہو رہا ہے کہ کبھی کہیں برف کا طوفان آ رہا ہے، کہیں لاس اینجلس میں آگیں لگ رہی ہیں، کہیں اور طوفان آ رہے ہیں۔ اس کے بدلے وہ مسلمانوں سے یہ لیتے ہیں کہ بم مارتے ہیں اور مسلمانوں کے بھی عمل کوئی نہیں ہیں، اس لیے وہ بھی اپنے عملوں کا نتیجہ دیکھ رہے ہیں ۔
حضورِ انور نے نشاندہی فرمائی کہ تو غلطیاں تو ہماری بھی ہیں، ہم کون سے صحیح طرح مومن بن کے رہ رہے ہیں؟ اگر صحیح مومن بن کے رہیں تو پھر الله تعالیٰ سے شکوہ نہ کریں کہ ان کو یہ ملا ہے اور ہمیں نہیں ملا۔
حضورِ انور نے آخر میں ذاتی اصلاح اور مثبت سوچ پیدا کرنے کے حوالے سے راہنمائی فرمائی کہ پہلے ان سے پوچھو کہ تم نے اللہ کا حق ادا کیا ہے ؟ پانچ وقت نماز تو ہم پڑھتے نہیں، کسی سے پوچھو تو کہتا ہے کہ مَیں بس کوئی تین نمازیں پڑھ لیتا ہوں اور باقی کی کوشش کرتا ہوں، کوشش کیا کرتا ہوں، کبھی کھانے کے بارے میں بھی کہتے ہو کہ مَیں کوشش کرتا ہوں؟ تواگر انسان سوچ رہا ہو، عقل ہو، تو ہر چیز میں سےاچھا پہلو اور سبق نکال سکتا ہے۔
ایک لجنہ ممبر نے ابتدائی اسلامی عہد کی مسلم خواتین کی مثالیں پیش کرتے ہوئے دریافت کیا کہ احمدی مسلمان خواتین کیسے حجاب اور مناسب پردے کا خیال رکھتے ہوئے خدمتِ اسلام کے لیے آگے آ سکتی ہیں؟
حضورِ انور نے اس کے جواب میں واضح فرمایا کہ بعض ایکٹیوٹیز(سرگرمیاں) ایسی ہیں، جو جوائنٹ(مشترکہ) پروگرام ہوتے ہیں، تو ان میں ہم لجنہ کو اجازت دے دیتے ہیں کہ وہ اپنے مہمانوں کو لے آئیں، لیکن جب کھانے کا وقت آتا ہے ، کیونکہ تب منہ ننگا ہو جاتا ہے اور انسان زیادہrelaxہوا ہوتا ہے ، تو اس لیےمَیں نے کہا تھا کہ کھانے کے لیے عورتوں کی علیحدہ ڈائننگ کا انتظام ہونا چاہیے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ ہم یہاں بھی جب کھاناکرتے ہیں تو لوکل(مقامی) لوگوں کو کہتے ہیں کہ ہم کھانے کے لیے علیحدہ جا رہے ہیں، تم نے ہمارے ساتھ آنا ہے تو آ جاؤ تو وہ بھی preferکرتے ہیں کہ چلے جائیں۔
حضورِ انور نے توجہ دلائی کہ باقی رہ گئیں پرانی مثالیں تو اگر حضرت اُمّ عمّارہ رضی الله عنہا یا دیگر نے جنگوں میں حصّہ لیا تو ان کو کوئی پہچان تو نہیں سکتا تھا۔ اب وہ ایک جنگ کا ہی قصّہ ہے کہ ایک سوار، جس کے بھائی کوقید کر لیا گیاتھااوردشمن لے کے جا رہے تھے، گھوڑے پر سوار ہے اور دائیں بائیں تلوار چلا رہا ہے۔ جو اسلامی فوج کا کمانڈر تھا، وہ کہہ رہا تھا کہ پتا نہیں یہ کون ہے کہ جو اتنی بے جگری اور بڑی ہمت سے لڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تم کون ہو؟ وہ سوار خاموش رہا، آخر جب انہوں نے بہت پوچھا تو اس نے کہا کہ مَیں ایک عورت ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ ڈھکی ہوئی تھی، پورے حجاب ، پورےپردے اور پورےلباس میں تھی کہ پہچانی نہیں گئی کہ عورت ہے کہ مرد ؟ تب وہ لڑ رہی تھیں، جنگ میں حصّہ لے رہی تھیںتو جو بھی جو ڈریس کوڈ یا پردہ تھا ، اس کی پوری پابندی کرکے حصّہ لیتی تھیں۔تو آپ بھی اس طرح سے خدمتِ دین میں حصّہ لے سکتی ہیں۔ ہاں! بعض جگہ غیروں کے ایسے پروگرام ہوتے ہیں، جہاں وہ مسلمانوں کو بھی invite (مدعو)کرتے ہیں کہ سٹیج پرآ کے ویمن رائٹ( حقوقِ نسواں) کے متعلق کوئی تقریر کرنی ہے۔ جرمنی میں، یہاں بھی اور بھی جگہ ایسا کرتے ہیں۔ تو ہم کہتے ہیں کہ ایک تو یہ ہے کہ بالکل ینگ(نوجوان) لڑکی نہ ہو، mature(بالغ)عورت ہو اور حیادار لباس کے اندر رہ کے پردے کا جو کوڈ ہے اس کے اندر رہتے ہوئے سٹیج پر جا کے تقریر کرو، وہ ایساکرتی ہیں اور اس کالوگوں پر اثر بھی ہوتا ہے۔ ابھی کل ہی کسی نے رپورٹ دی کہ ایک عورت بھی وہاں آئی ہوئی تھی ، جوویمن رائٹ (حقوقِ نسواں) کے حق میں اور مسلمانوں کے خلاف بولتی ہے، اس نے سٹیج پر ہماری لڑکی کی تقریر سنی، غیروں کا آرگنائزڈ(منعقدہ) فنکشن تھا، تو غیروں کے سامنے وہ آ کے پھر اس کو گلے ملی اور رونے لگی کہ پہلے مَیں مخالف تھی اور اب مَیں حق میں ہوں کیونکہ مجھے تم لوگوں کی تعلیم سمجھ آ گئی ہے کہ تم لوگ خود اپنی مرضی سے پردہ یا حجاب کرتے ہو ۔
حضورِ انور نے اس بات کی اہمیت پر روشنی ڈالی کہ اگر ہم یہ کہہ دیں کہ ہم بڑے oppressed یا suppressed (مظلوم یا دباؤ کا شکار)ہیں اور پتا نہیں کہ کیا کچھ ہمارے ساتھ ظلم و زیادتی ہو رہی ہے تو پھر تو اگلا سوال اُٹھائے گا ۔اگر تم لوگ کہو کہ ہم خوشی سے پردہ کرتے ہیں ، ہمارے dress code (لباس کے قواعد و ضوابط) ہیں، ہماری حیا ہے، یہ یہ ہمارے پروٹوکول ہیں تو اس کے اندر رہتے ہوئے ہم پردہ کرتے ہیں اور اپنی خوشی سے کرتے ہیں تو پھر ان کو سمجھ آجاتی ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ تو کئی مثالیں میرے سامنے ہر روز آ جاتی ہیں، تو اس لیے منع نہیں ہے،mature (بالغ) عورتیں جا کے سٹیج پر بولتی ہیں ۔ جرمنی میں بھی بول رہی ہیں، یہاں بھی بولتی ہیں۔
آخر میں حضورِ انور نے حیا اور مکمل پردے کے ساتھ خدمتِ اسلام کے مواقع کی بابت راہنمائی کرتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ جو پرانی مثال آپ دے رہی ہیں تو وہ بھی پوری حیا کے ساتھ بولتی تھیں۔ تو اس لیے کس نے کہا ہے کہ آپ کو opportunity نہیں ملتی، جہاں موقع میسر ہو تو صدر لجنہ کو انفارم کر کے اور اگر یہاں سے اجازت لینی ہے تو لے کے آپ سٹیج پر جا سکتی ہیں ۔ اب چند ایک عورتوں کو مَیں نےجرمنی میں مقرر کر دیا ہوا ہے کہ جایا کریں، mature ہیں، مجھے پتا ہے کہ ان کو علم بھی ہے اور سٹیج پر جا کے جماعت کا موقف اچھا پیش کر سکتی ہیں۔ یو کے میں ہیں ، وہ کر سکتی ہیں، امریکہ میں ہیں ، وہ کر دیتی ہیں تو اس طرح اَور ملکوں میں بھی آپ لوگ بھی اگر ایسی ہیں تو کر سکتی ہیں، کس نے روکا ہے؟ لیکن اجازت لینی پڑے گی۔ ایک وعدہ دینا پڑے گا کہ ہم اپنے پورے ڈریس کوڈ اور مکمل حیادار لباس کے اندر رہتے ہوئے اپنا کام کریں گی۔
ایک لجنہ ممبر نے استفسار کیا کہ جماعتی پروگراموں میں جہاں مرد اور عورتیں الگ الگ بیٹھے ہوتے ہیں ، مسجد میں اگر سیرت النبی صلی الله علیہ وسلم وغیرہ کا جلسہ ہو تو کیا لجنہ اپنی طرف سے تقریر کر سکتی ہے کہ جو مرد اپنی طرف سن سکیں؟
حضورِ انور نے اس پر راہنمائی فرمائی کہ جلسہ مردوں کا ہو رہا ہے، اس لیے عورتوں کواجازت دی ہوئی ہے کہ عورتیں اپنا جلسہ علیحدہ کریں۔ جیسا کہ سیرت النبی صلی الله علیہ وسلم کے جلسہ میں آپ نے اپنے عورتوں کے حقوق کے مطابق باتیں کرنی ہیں، تو سیرت میں جو عورتوں کے حقوق کے پہلو ہیں، وہ بتائیں۔
حضورِ انور نے تاکید فرمائی کہ اس لیے خیال رکھو کہ اپنے پروگرام رکھو ، اپنےفنکشن رکھو، اپنی تربیت کرو اور جو سنو اور سیکھو، وہی اپنے مردوں کو بھی جا کےبتا ؤ ۔
آخر میں حضورِ انور نےواضح فرمایا کہ باقی خلیفۂ وقت کی باتیں عورتوں کی تقریروں میں جو ہو رہی ہوتی ہیں ، وہ مردوں کو بھی پہنچ جاتی ہیں ، جو نصائح عورتوں کو کر رہے ہوتے ہیں تو وہ مردوں کو بھی ساتھ ساتھ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اپنی اصلاح کرو۔ اگر اصلاح کرنی ہے تووہ اصلاح کے لیے کافی ہوتا ہے ۔
حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا جانے والا اگلا سوال یہ تھا کہ اگر والدین کی رضامندی نہ ہو یا خاوند اجازت نہ دے تو کیا تب بھی وصیّت کر سکتے ہیں؟
حضورِ انور نے اس پر راہنمائی فرمائی کہ اگر تو سٹوڈنٹ ہے ، والدین سے پاکٹ منی (جیب خرچ)مل رہی ہے اور اس کے اوپر ہی وصیّت کرنی ہے تو اپنی مرضی سے کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر بیوی ہے اور خاوند کچھ بھی نہیں دے رہا اور اس کی اپنی انکم(آمد) نہیں ہے تو پھر خاوند کی مرضی شامل کر لینی چاہیے۔
حضورِ انور نے وضاحت فرمائی کہ اگر خود کما رہی ہے تو پھر خاوند کو کہہ سکتی ہے کہ میری اپنی کمائی ہے اور میں تم سے کچھ نہیں لے رہی تو اپنی کمائی کے اوپر وصیّت کرتی ہوں۔ اگر اس کیٹگری میں آ جاتی ہے کہ جس میں اس کی وصیّت منظور ہو، تو کر سکتی ہے۔حضورِ انور نے بایں ہمہ اس امر کی جانب بھی توجہ مبذول کرائی کہ لیکن گھر کے جھگڑوں کوavoidکرنے کے لیے بہتر ہے کہ پہلے خاوند کو confidence (اعتماد) میں لے لو ، ضرور لڑنا ہے؟ پہلے ہی لڑائیاں کم ہو رہی ہیں جو مزید اضافہ کرنا ہے۔روز کوئی نہ کوئی خلع یا طلاق کا کیس آیا ہوتا ہے۔
حضورِ انور نے آخر میں اپنی اوّل الذکر فرمودہ نصیحت کا اعادہ فرمایا کہ اس لیے بہتر یہ ہے کہ گھر کے ماحول کو صاف اور پُرامن رکھو اور خاوند کو کانفیڈنس میں لے کے تو پھر وصیّت کرو۔ کہو کہ مَیں تمہارے سے کچھ نہیں لیتی، اپنی کمائی میں سے دے رہی ہوں، تمہیں اس سے کیا؟
ایک لجنہ ممبر نے اس سلسلہ میں راہنمائی طلب کی کہ کچھ والدین دوسرے ممالک کے مربیان سے آن لائن کلاس میں بچوں کو قرآنِ شریف پڑھواتے ہیں اور اس کے لیے فیس ادا کی جاتی ہے ، کیا جماعت کی طرف سے اس کی اجازت ہے؟
اس پر حضورِ انور نے توجہ دلائی کہ قرآنِ شریف پڑھانے والوں کو پڑھانے کے لیے فیس تو نہیں لینی چاہیے۔ وہ تو مَیں کئی دفعہ پہلے منع بھی کر چکا ہوں۔ جو لیتے ہیں ، اس کی رپورٹ کریں۔حضورِ انور نے و ضاحت فرمائی کہ باقی!اگر لوگ کسی سے اچھی قراءت ، تلفظ یا ترتیل وغیرہ سیکھنے کے لیے بچوں کو پڑھواتے ہیں تو ان کی اپنی مرضی ہے اور وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ لیکن جہاں تک پیسے لینے کا سوال ہے تووہ غلط طریقہ ہے۔ ان سے ان کو معاوضہ نہیں لینا چاہیے، سوائے جس کو جماعت نے مقرر کیا ہو۔
اس پر سائل نے مزید استفسار کیاکہ اگر والدین کچھ خوشی سے دیں تو کیا اس کی اجازت ہے؟ جس پر حضورِ انور نے ہدایت فرمائی کہ اگر کوئی خوشی سے تحفے کے طور پر دینا چاہتا ہے، تو دے دیں، لیکن پہلے مقرر نہ کریں۔
ایک لجنہ ممبر نے ذکر کیا کہ ابھی آپ نے شعبہ تربیت کے حوالے سےفرمایا تھا کہ بچیوں سے مشورے کرنے کے بعد پروگرام بنائیں تاکہ ان کا تعلق مضبوط ہو ، وہ ان میں شامل ہوں اور ان کو دلچسپی بھی ہو۔ نیز عرض کیا کہ ہم نے اس پر بہت کام اور کوشش بھی کی ہے، لیکن ہماری presence (حاضری) اس طرح سے ہونہیں پاتی۔
حضورِ انور نے اس پر توجہ دلائی کہ بچیوں سےذاتی تعلق پیدا کریں۔ ان کا اجلاس جہاں ہوتا ہے، وہاں کوئی ایکٹیوٹیز(سرگرمیاں) ایسی بنائیں، جن میں ان کو دلچسپی ہو۔ اگر لڑکیاں پڑھی لکھی ہیں توپڑھے لکھے لوگوں کے لیے کسی ٹاپک پر کوئی سیمینار کریں اور بُک کلب بنائیں، یہاں بھی لجنہ نے بنایا ہوا ہے، ڈسکشن پروگرام بنائیں، Contemporary Issues (عصرِ حاضر کے مسائل)پر مبنی پروگرام بنائیں۔ اور دوسروں کے لیے کوئی ایسے پروگرام ، جیسا کہ کوئی چھوٹا موٹا مینا بازار ٹائپ چیز یا کچھ ایسی چیزیں کریں ، جس پر وہ آجائیں، ساتھ چھوٹا سا اجلاس بھی اور نصیحت بھی ہو جائے۔
حضورِ انور نے اس بات پر زور دیا کہ تو یہ تو دیکھ لیں کہ آپ کس قسم کے پروگرام بنا سکتی ہیں، جس میںattraction (کشش)پیدا کر سکتی ہیں۔ آہستہ آہستہ قریب لائیں تو پھر ان کوعادت پڑ جائے گی۔
حضورِ انور نےمسلسل کوشش کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے مایوسی سے بچنے کی تلقین فرمائی کہ یہ تو آپ نے خود حالات کے مطابق سوچنا اور exploreکرنا ہوتا ہے، پھر frustrate (مایوس) ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، کوشش کرتے جانا ہے، ہمارا کام کوشش کرنا ہے۔ اللہ میاں نے کہیں نہیں کہا کہ تم ایک جگہ اگر کامیاب نہیں ہوتے تو بیٹھ جاؤ۔ تربیت کے لیے بھی اور تبلیغ کے لیے بھی ہمارا کام کوشش کرنا اورکرتے چلے جانا ہے۔آسان رستے نہ ڈھونڈیں، مشکل راستے پرچلنا ، یہی اصل کام ہے۔
حضورِ انور نے اس عمومی رجحان کی بھی تردید فرمائی کہ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اب اس طرح کا پروگرام نہ رکھیں کہ جس میں حاضری کم ہوتی ہے۔اسی طرح ہدایت فرمائی کہ ان سے کہو کہ ہم تو پروگرام رکھیں گے، ہم نے حاضری بڑھانی ہے ، آپ لوگ آیا کریں ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کب کہا ہے کہ جہاں جماعت میں پچاس آدمی رہتے ہیں اور پانچ باجماعت نماز پڑھنے آتے ہیں، اس لیے وہاں نمازیں پڑھنی بند کر دو، پھر کہو گے کہ مسجدیں بند کر دو۔ ہمارے ہاں تو بعض جگہ مسجدوں میں ظہر اورعصر پر دو سے تین آدمی ہوتے ہیں، تو کیا اس وقت نماز پڑھنی چھوڑ دیں؟ یہ تو کوئی دلیل نہیں ہے۔
ملاقات کے اختتام پر صدر صاحبہ لجنہ اما ءالله نے حضورِ انور کی خدمت میں شعبہ رشتہ ناطہ کو درپیش مشکلات کے حوالے سے راہنمائی کی درخواست کی۔
اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ کام کریں گے، تو مشکلات ہوں گی۔یہ کہنا کہ ہمیں ہر روز حلوہ پُوری پکی پکائی مل جایا کرے، یہ نہیں ملے گی۔کام کرنا ہے، محنت کرنی پڑے گی اور حلوہ پکانے کے لیے گیہوں اُگانے سے لے کے حلوہ پکانے تک سارے پروسیس میں سے گزرنا پڑے گا۔
حضورِ انور نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پانچ سے دس فیصد ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ اچھے گھروں میں رشتے ہوتے اورٹوٹ جاتے ہیں کہ یہ رشتہ competent (موزوں)نہیں، ہمیں پہلے پتا نہیں لگا تھا۔ تومَیں ان کو یہی کہا کرتا ہوں کہ پہلے تم لوگوں کو کچھ پتا نہیں لگتا، سوچ سمجھ کے اور دعا کر کے فیصلہ کرنا چاہیے۔
خود احتسابی اور اپنی کمزوریوں کا ادراک حاصل کرنے کی جانب توجہ دلاتے ہوئے حضورِ انور نے واضح فرمایا کہ باقی! پرفیکٹ تو کوئی بھی نہیں ہوتا۔ اس لیے پہلے ہی دیکھ لینا چاہیےکہ دونوں اطراف کمزوریاں بھی ہوتی ہیں اور ان کمزوریوں کے ساتھ ہی گزارہ کرنا پڑتا ہے ۔ باقی ان سے کہو کہ اگر تم لوگوں کو لڑکی میں یہ کمزوری نظر آرہی ہے یا لڑکی والوں کو لڑکے میں یہ کمزوری نظر آرہی ہے تو کیا تمہارے اندر یہ نہیں ہے؟ کمزوریاں تمہارے اندر بھی ہیں، اپنی حالت کو دیکھو، اگر اپنا جائزہ لینے کی عادت پڑ جائے تو پھر لوگوں کے عیب نظر نہیں آتے۔
اختتام پر حضورِ انور نے اس امر پر زور دیا کہ اصل میں بات یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو بڑا پرفیکٹ سمجھتے ہیں حالانکہ ہمارے اندر بہت سی کمزوریاں ہوتی ہیں۔ تربیت یہ ہے کہ یہ بھی روح پیدا کریں کہ اپنے حال کی بھی خبر رکھو۔ اس دنیا میں کوئی انسان بھی پرفیکٹ نہیں ہوتا ، انسانِ کامل ایک ہی پیدا ہوا اَور وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم ہیں، باقی سب میں کمزوریاں ہیں ۔ اس لیے ایک دوسرے کی کمزوریوں کو نظر انداز کرو۔
آخر پرحضور انور نے الوداعی دعائیہ کلمات ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ چلو، پھر اللہ حافظ! اور یوں یہ ملاقات بفضلہ تعالیٰ بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔
٭…٭…٭