حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ میونخ،جرمنی کےایک وفد کی ملاقات

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اپنی حالت کو بہتر بناؤ، وقفِ نَو کاٹائٹل نہیں ہونا چاہیے، اس کا خدا تعالیٰ سے کوئی تعلق بھی ہونا چاہیے۔اپنی نمازوں کی حفاظت کرو،
نمازوں کامعیار اونچا کرو،قرآن کریم پڑھو، قرآن کریم کا ترجمہ پڑھو اور اس کو سمجھو کہ احکام کیا ہیں؟ احکام پر عمل کرو تو پھر صحیح وقفِ نَو تبھی بنتا ہے

مورخہ۲۵؍جنوری ۲۰۲۵ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ میونخ جرمنی کے ایک تیرہ (۱۳)رکنی وفد کو بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ خدام نےخصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےجرمنی سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔یہ ملاقات اسلام آباد (ٹلفورڈ)میں منعقد ہوئی۔

قارئین کی معلومات کے لیے تحریر کیا جاتا ہے کہ میونخ جرمنی کے صوبہ بائرن(Bayern) کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے نیز جرمنی بھر کے اعتبار سے تیسرا بڑا شہر ہے۔ اس کی تاریخ بارہویں صدی میں شروع ہوتی ہے ، تیرہویں صدی میں اسے باضابطہ طور پر ایک شہر کا درجہ ملا اور ۱۵۰۶ء میں یہ بائرن کا دارالحکومت بنا۔

سولہویں اور سترہویں صدی میں میونخ آرٹ، ثقافت اور تعمیرات کا ایک اہم مرکز بن گیا۔ تاہم تیس سالہ جنگ (۱۶۱۸ء تا۱۶۴۸ء) اور طاعون کی وبا نے اس شہر کو بہت نقصان پہنچایا۔ انیسویں صدی میں، جب بائرن ایک خودمختار ریاست بنی، تو میونخ نے جدید ترقی کا آغاز کیا اور یہ ثقافتی اور سائنسی سرگرمیوں کا گہوارہ بن گیا۔ بیسویں صدی میں میونخ نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران شدید تباہی کا سامنا کیا، لیکن جنگ کے بعد اس کی تعمیرِنَو کی گئی اور آج یہ نہ صرف جرمنی کے ترقی یافتہ اور خوشحال شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ بلکہ دنیا کی مشہور یونیورسٹیوں، عجائب گھروں،کھیل، سائنس و ٹیکنالوجی اور کاروبار کا بھی اہم مرکز ہے۔

جماعتی تاریخ کے تناظر میں بھی یہ شہر خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ میونخ شہر کی ایک منفرد خصوصیت یہ ہے کہ اس کے ایک مضافاتی علاقہPasing(پاسنگ) میں آباد ایک جرمن خاتون مسزCarola Mann(کیرولا من) صاحبہ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں ایک عقیدت بھرا خط تحریر کیا تھا۔ یہ خط اخبار البدر کے مورخہ ۱۴؍ مارچ۱۹۰۷ء کے شمارے میں ’’جرمنی سے ایک اخلاص بھرا خط‘‘ کے عنوان سے صفحہ نمبر ۲پرشائع ہوا تھا۔موصوفہ نے جو اپنے خط میں تحریر کیا تھا وہ خلاصۃً پیشِ خدمت ہے: مَیں کئی ماہ سے آپ کا پتہ تلاش کر رہی تھی تاکہ آپ کو خط لکھ سکوں۔ آخرکار! اللہ کے فضل سے مجھے ایک شخص ملا ، جس نے آپ کا ایڈریس دیا۔مَیں معذرت چاہتی ہوں کہ مَیں آپ کو لکھ رہی ہوں، لیکن کہا گیا ہے کہ آپ خدا کے بزرگ رسول ہیں اور مسیح ِموعود کی قوت میں ہو کر آئے ہیں۔ مَیں دل سے مسیح کو پیار کرتی ہوں…مجھے بڑی خوشی ہوگی کہ اگر آپ چند سطور اپنے اقوال کے مجھے تقریر فرماویں…اگر ممکن ہو تو مجھے اپنا ایک فوٹو ارسال فرماویں۔ کیا دنیا کے اس حصّہ میں آپ کی کوئی خدمت کر سکتی ہوں؟ پیارے مرزا! آپ یقین رکھیں کہ مَیں آپ کی مخلصہ دوست ہوں۔(ماخوذ از تاریخ احمدیت جرمنی کا ایک ورق، الفضل انٹرنیشنل۲۵؍اکتوبر۲۰۱۹ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرّابع رحمہ الله نے جرمنی کے اس تیسرے بڑے شہر میونخ میں مشن ہاؤس کھولنے کی ہدایت ۱۹۸۴ء کے اواخر میں فرمائی، جماعت نے جگہ کی تلاش شروع کی اور ۱۹۸۶ءمیں Neufahrn (نوئے فارن) میں تین منزلہ عمارت حاصل کی، جسے مسجد، دفاتر اور مربی ہاؤس کے لیے ترتیب دیا گیا۔ مورخہ ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۸۶ء کو حضور رحمہ الله نے اس عمارت کا افتتاح فرمایا اور اسے مسجد المہدی کا نام عطا فرمایا نیز یہ جگہ طویل عرصہ بطور سینٹر استعمال ہوتی رہی۔ ۲۰۱۳ء میں مشن ہاؤس کی اس عمارت کو باقاعدہ مسجد کی شکل میں تبدیل کرنے کا کام شروع ہوا ، اس میں مزید توسیع کی گئی اور الله تعالیٰ کے فضل سے پھر مورخہ ۹؍جون ۲۰۱۴ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے دستِ مبارک سےمسجد المہدی کاافتتاح فرمایا۔ اس موقع پر اپنے افتتاحی خطاب میں بھی آپ نے اس امر کا تذکرہ فرمایا تھا کہ گو کہ پہلے یہاں ایک سینٹر قائم تھا، لیکن مسجد کی شکل دے کر اب اسے باقاعدہ اس شکل میں لایا گیا ہے۔

٭٭٭٭٭٭
جب حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مجلس میں رونق افروز ہوئےتو آپ نے تمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ ع
نایت فرمایا۔

دورانِ ملاقات حضورِ انور نے ہر خادم سے انفرادی گفتگو فرمائی اور ان سے ان کے پیشہ جات اور خاندانی پس ِمنظر وغیرہ کے بارے میں دریافت فرمایا۔

بعدازاں خدام کو حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں سوالات کرنے اور ان کی روشنی میں بیش قیمت راہنمائی حاصل کرنے کا موقع بھی ملا۔

ایک خادم نے ذکر کیا کہ حال ہی میں ان کے خسر شہید کیے گئے تھے، جس کی وجہ سے ان کی اہلیہ فکر مند اور دکھی رہتی ہیں، انہوں نے اپنی اہلیہ کو تسلی دینے کے حوالے سے حضورِانور سے نصائح کی عاجزانہ درخواست کی۔

حضورِ انور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ ان کو اللہ تعالیٰ کی رضا کی توامید ہے، ان شاء الله تعالیٰ حاصل ہو ہی گئی ہے۔ کل ہی مَیں نے واقعہ سنایا کہ ایک صحابیؓ نے خواب کا ذکر کیا تو حضرت ابوبکر رضی الله عنہ نے تشریح کی کہ مبارک ہو!تم شہید ہو جاؤ گے، تو پہلے تو اس طرح ہوتا تھا۔ تو شہادت کا مقام تو بڑا اُونچا مقام ہے۔

حضورِ انور نے اُن کی اہلیہ کے لیے تجویز فرمایا کہ باقی یہ ہے کہ دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ ان کے مقام کو بلند کرتا رہے اور آپ لوگ، جو ان کے بچے ہیں، وہ نیکیوں پر قائم رہیں۔یہ نہ ہو کہ جو انہوں نے قربانی دی ہے، وہ قربانی ، ان کی اگلی نسل کے غلط کاموں کی وجہ سے ضائع ہو جائے۔

حضورِ انور نے وضاحت فرمائی کہ ضائع تو نہیں ہوتی، لیکن ان کو وہ اجر نہ ملے، تو اس لیے یہ دعا اپنے لیے کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صبر اور حوصلہ دے اور ان کے مقام کو بلند کرتاچلا جائے۔ ہمیں نیکیاں قائم کرنے کی توفیق دے اور صبر اور سکون عطا کرے۔

آخر میں حضورِ انور نے فرمایا کہ اس طرح اللہ تعالیٰ آپ ہی تسلی دے دیتا ہے، نمازوں میں دعا کرے۔

[قارئین کے استفادہ کے لیے تحریر کیا جاتا ہے کہ حضورِ انور نے جن صحابی کے خواب کا ذکر کیاہے، وہ حضرت محرز بن نَضْلَہؓ اَخرم اسدی رضی اللہ عنہ ہیں، آپؓ نے غزوۂ بدر، غزوۂ اُحد اور غزوۂ خندق میں شرکت کی تھی۔ آپؓ کا تعلق مکّہ کے قبیلہ بنو غنم بن دُودان سے تھا، جو بعد ازاں مسلمان ہو گیا، اسی قبیلے کے مَردوں اور عورتوں کو مدینہ ہجرت کرنے کی توفیق نصیب ہوئی۔

آپؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوۂ ذی قَرَد (جو کہ غزوۂ غابہ کے نام سے بھی معروف ہے) میں شریک ہوئے اور اسی غزوہ میں آپؓ نے جامِ شہادت نوش فرمایا۔عَمروبن عثمان جَحْشِی اپنے آباء سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت محرز بن نَضْلَہ غزوۂ بدر میں شامل ہوئے تو ۳۱ یا ۳۲؍ سال کے تھے اور جب آپؓ شہید ہوئے تو آپؓ ۳۷ یا ۳۸؍ سال کے قریب تھے۔

حضورِ انور نے اپنے خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ مورخہ ۲۴؍ جنوری ۲۰۲۵ء میں غزوۂ ذی قَرَد کی تفصیلات میں آپؓ کی شہادت کے واقعہ کے متعلق ایک خواب کا ذکر کرتے ہوئےبیان فرمایا تھا کہ حضرت اَخْرَم ؓنے دشمن سے نبرد آزما ہونے سے ایک روز قبل خواب میں دیکھا تھا کہ میرے لیے آسمان کھل گیا ہے اور مَیں آسمان میں داخل ہو گیا ہوں، حتّی کہ مَیں ساتویں آسمان تک پہنچ گیا ہوں، پھر سِدْرَۃُالمُنْتَھیٰ تک پہنچ گیا، مجھے کہا گیا کہ یہی تمہاری منزل ہے۔ مَیں نے یہ خواب حضرت ابوبکرؓ  کو بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ تمہیں شہادت مبارک ہو! اور اس کے ایک روز بعد انہیں شہید کر دیا گیا۔

یہاں سِدْرَۃُالمُنْتَھیٰ کا ذکر گزرا ہے، یا دہے کہ قرآنِ کریم کی سورۃ النّجم کی آیت پندرہ میں بھی اس کا ذکر ہوا ہے اور حضرت خلیفۃ المسیح الرّابع رحمہ الله نے مذکورہ سورہ کے تعارف میں اس حوالے سے یوں بیان فرمایا ہے کہ یہاں ایک سِدْرَۃ کا ذکر ہے، جوالله تعالیٰ اوربندوں کے درمیان ایک سرحدیں تقسیم کرنے والی باڑ کی طرح ہے۔درحقیقت پہلے بھی عربوں میں یہی رواج تھا اور آج بھی یہ رواج ملتا ہے کہ جب ایک زمیندار کی ملکیت کی حدّ ختم ہو تی ہے تو دوسرے زمیندار اور اس کے درمیان حدِّ فاصل کے طور پر کانٹے دار بیریاں لگا دی جاتی ہیں۔ پس آسمان پر ہرگز کوئی بیری کا درخت نہیں اُگا ہوا تھا جس سے پرے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نہیں جا سکتے تھے۔ یہ ایک انتہائی مضحکہ خیز تفسیر ہے جو از منۂ وسطیٰ کے مفسّرین نے کی ہے۔ مراد صرف اتنی ہے کہ حضورِ اکرم صلی الله علیہ وسلم اس ارفع مقام تک الله تعالیٰ کا قرب پا گئے کہ جس کے ورے کسی بندے کی رسائی ممکن نہیں تھی، کیونکہ اس کے بعد پھر الله تعالیٰ کی صفاتِ تنزیہی کا مضمون شروع ہو جاتا ہے۔

آپؓ کو شہید کرنے والے کے نام کے بارے میں اختلاف پایا جاتاہے۔ ایک روایت میں ذکر ہے کہ آپؓ کو عبدالرّحمٰن بن عُیَیْنَہ حِصْن فزاری نے نیزہ مار کر شہید کیا، جبکہ دوسری روایت کے مطابق آپؓ کواوبارنے شہید کیا اور ایک تیسری روایت میں مَسْعَدَہ بن حکمہ فزاری کا ذکر ہے۔]

ایک خادم نے حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ وہ وقفِ نَو کی بابرکت تحریک میں شامل ہے، نیز راہنمائی طلب کی کہ وہ وقفِ نَو کی ذمہ داریوں کو کیسے نبھا سکتا ہے؟

حضورِ انور نے اس کا جواب دیتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ اگر جماعت کہتی ہے کہ ہمیں وقف کی ضرورت نہیں ہے، تب بھی فی الحال اپنا کام کرو، تو پھر جو زائد وقت ہے وہ جماعت کو دو۔ ویک اینڈ پر volunteerکرو اور جماعت کووقت دو۔ تبلیغ کے کام کرو۔

حضورِ انور نے وقفِ نَو کے حقیقی مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اپنی حالت کو بہتر بناؤ، وقفِ نَو کاٹائٹل نہیں ہونا چاہیے، اس کا خدا تعالیٰ سے کوئی تعلق بھی ہونا چاہیے۔اپنی نمازوں کی حفاظت کرو، نمازوں کامعیار اونچا کرو،قرآنِ کریم پڑھو، قرآن کریم کا ترجمہ پڑھواور اس کو سمجھو کہ احکام کیا ہیں؟ احکام پر عمل کرو تو پھر صحیح وقفِ نَو تبھی بنتا ہے۔

مزید برآں حضورِ انور نے توجہ دلائی کہ پھر اس تعلیم کو آگے پھیلاؤ، تبلیغ کے کام میں آگے آؤ، فرائض پورے کرنے کے لیے اگر نوکری کر رہے ہیں یا اپنا کوئی کام بھی کر رہے ہیں تو ویک اینڈزپر جماعت میں وقت دیں۔تربیت اور تبلیغ کے لیے وقت دیں تا کہ تربیت کر سکو ، جو کچھ سیکھا ہے ان کو سکھاؤ اور غیروں کو تبلیغ کر کے اسلام احمدیت کا پیغام پہنچاؤ۔

[حضور ِانور کی یہ بصیرت افروزعملی راہنمائی یقینی طور پرہر وقفِ نَو کے لیے ایک مشعلِ راہ کا درجہ رکھتی ہے، جو انہیں اپنی ذمہ داریوں کو مزید احسن رنگ میں نبھانے کی ترغیب دلاتی ہے۔]

ایک خادم نے میونخ کے خدام کو درپیش ایک چیلنج کا تذکرہ کیا کہ ہمارے خدام مسجد سے دُور رہتے ہیں، نیز راہنمائی طلب کی کہ اس چیلنج کو ہم کیسے سب سے بہترین فیس (face)کر سکتے ہیں؟

حضورِ انور نے اس حوالے سے راہنمائی فرمائی کہ ان سے کہو کہ کم از کم ایک نماز تو مسجد میں پڑھنے کے لیے آیا کریں۔ سوائے اس کے کہ کوئی بالکل غریب ہے، وہ affordنہیں کر سکتا اور سفر زیادہ ہے تو وہاں پھر ان کے قریب جو چند ایک لوگ اکٹھے رہتے ہوں گے، ان کو کہو کہ کوئی سینٹر بنا لیں یا کسی گھر میں وہاں اکٹھے ہو کے نماز پڑھ لیا کریں، اگر ان کے لیے مسجد میں آنا مشکل ہوتا ہے۔

حضورِ انور نے تاکید فرمائی کہ باجماعت نماز کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اگر دُور کے فاصلے ہیں تو پھر کہیں کہیں جوقریب قریب رہتے ہوں گے، وہ اپنے اپنے گروپ بنا لیں، وہاں نمازیں پڑھ لیا کریں۔

حضورِ انور نے ربوہ کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ ربوہ ایک چھوٹا سا شہر ہے، ایک سرے سے دوسرے سرے تک جاؤ تو ڈیڑھ میل کا فاصلہ ہے، آدمی پیدل بھی جائے تو آدھے پونے گھنٹے میں سارا ربوہ ختم کر لیتا تھا۔ چوڑائی میں بھی اتنا ہی ہے، اس کے باوجود ربوہ کے ہر محلے میں مسجد بنی ہوئی ہے، وہاں پچاس ، ساٹھ مسجدیں ہیں۔ قریب قریب رہنے والوں کے لیے مسجدیں بنائی گئی ہیں ، تو اس طرح یہاں مسجدیں تونہیں بن سکتیں لیکن کم از کم سینٹر تو بن سکتے ہیں۔

ملاقات کے اختتام پر تمام حاضرینِ مجلس کو از راہِ شفقت حضورِ انور کے ہمراہ گروپ تصویر بنوانے کی بھی سعادت حاصل ہوئی۔ آخر پر حضور انور نے الوداعی دعائیہ کلمات ادا کرتے ہوئے فرمایا، اللہ حافظ!

مزید پڑھیں: امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ لجنہ اماء اللہ ناروے کی مجلس Nordre Follo کےایک وفد کی ملاقات

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button