میری سمدھن۔ صفیہ خواجہ صاحبہ
سمدھیانے کا رشتہ ایسا ہے جس کا ذکر کم ہی خوشگوار ہوتا ہے۔ جو کسی نہ کسی لڑائی جھگڑے، اختلاف رائے یا کم از کم نامناسب الفاظ کی یاد دلا دیتا ہے۔ لیکن الحمد للہ مجھے ایسے تجربے سے اللہ تعالیٰ نے بچا لیا۔ میں نے ایسی سمدھن پائی جو میری ہم نام بھی تھیں اور ہم خیال بھی۔دل چاہتا ہے کہ ان کی کچھ خوبیوں کے بارے میں لکھ کر ان کی یاد کو تازہ کروں۔
میری سمدھن صفیہ خواجہ صاحبہ محترم محمد اصغر لون مرحوم اور محترمہ ممتاز بیگم لون کی بیٹی تھیں۔ مرحومہ کی پیدائش ۳؍ مارچ ۱۹۴۷ء کو تنزانیہ میں ہوئی۔ چھ بھائی اور چھ بہنوں پر مشتمل ان کا خاندان ٹبورا ( Tabora)میں مدت سے آباد تھا۔
میرے ددھیال میں میرے تایا، چچا میری پیدائش سے بھی پہلے نیروبی ایسٹ افریقہ چلے گئے تھے۔ میرے والد صاحب پارٹیشن کے بعد روزگار کے سلسلہ میں اپنے بھائیوں کے پاس تشریف لے گئے۔ اباجان کا افریقہ سے اکثر آ نا جانا رہتا تھا۔ ا ُن دنوں بینکوں کی معرفت یا منی آرڈر کی صورت میں رقم نہیں آتی تھی بلکہ ہمارے اباجان اکثر جو بھی افریقہ سے آتا ہمیں رقم بھجوا دیا کرتے تھے اور اس طرح افریقہ سے آنے والے بہت سارے لوگ ہمارے ہاں ایک دو بار ضرور تشریف لاتے۔ ہمیں ان کی دعوت کرنا اچھا لگتا۔ اُن میں زیادہ تر مکرم شیخ مبارک احمد صاحب مبلغ سلسلہ اور مکرم محمداصغر لون کی فیملی تو اکثر ہمارے ہاں مہمان ہوتے۔ اُن دنوں افریقہ سے پاکستان آنے کے لیے بحری جہاز پر سفر ہوتا تھا اورقریباً دس یا پندرہ دن جہاز میں ممباسہ سے کراچی تک اور آگے ریل گاڑی چناب ایکسپریس پر ربوہ پہنچتے تھے۔ میرے اباجان کا پاکستان آنے کا پروگرام بنا تو اتفاقاً اصغر لون صاحب کی بیوی اور بچے بھی اُسی جہاز میں پاکستان کے سفر کے لیے تیار تھے، خود اصغر صاحب ہمرا ہ نہیں تھے۔ محترم نے میرے اباجان کو درخواست کی کہ آپ میری فیملی کا سفر میں خیال رکھیں۔ اس طرح میرے اباجان کا جہاز میں کئی دن کا سفر لون صاحب کی فیملی کے ساتھ گزرا۔ میرے اباجان کو وہ سب بچے چچا کہتے تھے۔ بعد میں پہچان کے لیے چچا جہاز والےبن گئیں۔
ایسٹ افریقہ کے حالات بدلے تو زیادہ تر لوگ وہاں سے ہجرت کر کے لندن، کینیڈا اور امریکہ کی طرف چلے گئے۔ میرے اباجان کے پاس برطانیہ کا پاسپورٹ تھا وہ لندن تشریف لے آئے۔ میرا بھائی اور والدہ بھی لندن منتقل ہو گئے۔ ہم احمدی جہاں بھی جائیں سب سے پہلے اپنی جماعت کے لوگوں کو ڈھونڈتے ہیں۔ یہاں میری ملاقات صفیہ خواجہ صاحبہ سے ہوئی۔ تعارف ہوا تو بڑا لطف آیا۔ خوب گلے ملے کیونکہ یہ محترم اصغر لون صاحب کی بیٹی تھیں اور میرے اباجان کو چچا جہاز والے کہہ کر ہی یاد کر رہی تھیں۔ میرے اباجان خاص طور پر پٹنی سے ٹرین میں یا بس میں بیٹھ کر گرین سٹریٹ ان کی دکان سے سبزی خریدنے آتے تھے صرف اس لیے کہ یہ اُن کے دوست کی بیٹی صفیہ کی دکان ہے۔ اور ایک لفظ وہ ہمیشہ خواجہ صاحب کو کہتے یہ اس لڑکی صفیہ کی وجہ سے تمہاری دکان میں برکت ہے، یہ بہت محنتی لڑکی ہے۔ خواجہ صاحب ہمیشہ مسکرا کر جی ہاں کہہ کر جواب دیتے۔ کچھ عرصہ بعد خواجہ صاحب اور صفیہ صاحبہ نے سبزی چھوڑ کر کپڑے کا کاروبار شروع کر لیا۔
صفیہ سے بے تکلف دوستی ہوگئی۔ مجھے لجنہ کے اجلاس کے لیے اپنی کار میں ساتھ لے جانا اپنا فرض سمجھ لیا۔ جب بھی ہمارے گھرآتیں اُن کے ساتھ اُن کی گڑیا سی چھوٹی بیٹی ہوتی، دو پونی ٹیل بال بنائے اُچھلتے کُودتے بڑی پیاری لگتی۔ ہم قریباً چار سال ایک جگہ رہے اور ملنا جلنا رہا ۔ مگر پھر ہم وہاں سے سربیٹن کے علاقہ میں رہائش پذیر ہو گئے۔ اپنے بچوں کی مصروفیات میں وقت آگے بڑھتا رہا۔ میرے چار بچوں کی شادیاں ہو گئیں۔ میرے شوہر سامی صاحب اچانک بیمار ہوئے اور اللہ کو پیارے ہوگئے۔ مجھ پر اس صدمہ کا بہت اثر تھا۔ میرے ساتھ چھوٹا بیٹا عکاشہ رہتا تھا جو ابھی طالب علم تھا۔خیال آیا کہ اس کی شادی کردوں، گھر میں اکیلی رہتی ہوں گھر میں دلہن آجائے گی تو رونق ہو جائے گی۔اُ نہی دنوں ایک شادی میں جانے کا اتفاق ہوا۔ میرے ساتھ بیٹھی ہوئی ایک سہیلی نے کہا تم اپنے بیٹے کےلیے لڑکی ڈھونڈ رہی ہو وہ سامنے جو لڑکی ہے اُس کو دیکھ لو۔ میں نے نظر اُٹھائی بچی مجھے بہت اچھی لگی میں نے اُس سے ہی پوچھا کس کی بیٹی ہو ؟ جواب ملا صفیہ خواجہ کی…۔میری آنکھوں میں وہی پانچ چھ سال کی گڑیا سی دو پونیاں کیے اپنی ماں کا ہاتھ تھامے ہمارے گھر میں آنے والی بچی آگئی۔
میں نے دعا کی اور اپنی بہن صفیہ خواجہ کو رشتے کا پیغام بھیجا وہ بھی سُن کر بے حد خوش ہوئیں۔ میرے اباجان اور لون صاحب کی ساری فیملی اس رشتے سے بے حد خوش ہوئی کیونکہ سب ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ الحمد للہ بچوں کی شادی ہوگئی دونوں خاندانوں میں پھر سے ایک بہت ہی پیار بھرا رشتہ قائم ہو گیا۔ میرے بیٹے کا گھر آباد ہو گیا اور مجھے ایک بہت ہی پیار کرنے والی سمدھن بہن مل گئی، جو اپنی بیٹی کو ہمیشہ یہ نصیحت کرتیں کہ دیکھو کبھی تمہاری ساس کی آنکھ میں تمہاری وجہ سے آنسو نہ آئے۔ جب ہمارے گھر آتیں گھر سے ہی کھانوں کا بھرا ہوا بیگ لاتیں یہاں آ کر بھی مجھے کہتیں تم بیٹھ جاؤ اور کچن سنبھال لیتیں۔ اکثر میں عروج اپنی بہو کو کہتی مجھے اچھا نہیں لگتا تمہاری اُمی یہاں آ کر بھی کام میں لگ جاتی ہیں۔ وہ عجیب خلیق خاتون تھیں جب بھی اپنے گھر سے ہمارے ہاں آنے کا پروگرام بناتیں مجھے دکان سے فون کرتیں آپا جی میں آ رہی ہوں بتائیں کچھ سبزی یا کچھ بھی لانا ہو تو بتائیں۔ اور ساتھ ہی کہتیں عروج کو نہیں پوچھنا وہ آپ کو منع کر دے گی۔ لیکن یہ اُن کی عادت تھی کہ وہ لوگوں کی خدمت کر کے لوگوں کو کھانا کھلا کر خوشی محسوس کرتیں۔ مہمان نواز ی اُن کی رگوں میں بھری ہوئی تھی نہ صرف اپنے بہن بھائیوں کے لیے بلکہ اپنے تمام سسرالی رشتہ داروں کے لیے بھی ہر وقت در وازے کھلے رہتے تھے۔ وہ ایک سایہ دار درخت تھیں اپنے خاندان میں سب کے لیے ایک ماں کا درجہ رکھتی تھیں۔ سب کی خدمت اور مدد کے لیے وہ کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتیں۔ وہ ریڈ برج ساؤتھ (Redbridge south) جماعت کی ایک فعال ممبر تھیں۔ دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتیں۔ ایک لمبا عرصہ اپنی جماعت کی خدمت کی ۔ محترم خواجہ صاحب بھی اپنی جماعت کے کاموں میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور جماعتی جلسوں میں یاجو بھی جماعت کی تقریبات ہوتیں کچن میں کھانا بنانا اُن کی ہی ڈیوٹی رہی اُن کے ساتھ اُن کی بیگم مرحومہ نے ہمیشہ اپنے شوہر کے قدم سے قدم ملا کر جماعتی کاموں میں مدد کی۔ چندے باقاعدگی سے ادا کرتیں۔ صدقہ خیرات کرنا اُن کا معمول تھا۔ کسی کو خالی ہاتھ نہ جانے دیتیں۔ لوگوں کو دینا ہی اُن کی خوشی کا باعث تھا،باہمت عورت تھیں۔ ہمارے گھر آنے کے لیے انہیں دو تین جگہ سے ٹرین بدلنی ہوتی۔ ہاتھ میں کھانے سبزیوں اور بہت سی مختلف چیزوں سے بھری ہوئی ٹرالی ہوتی۔خواجہ صاحب کی بیماری کی وجہ سے اب کچھ کم آتی تھیں کیونکہ اُن کو اکیلے نہیں چھوڑ سکتی تھیں۔ بہت فکر اور خیال رکھنے والی بیوی تھیں۔ وہ دل کے مریض تھے۔ دو دفعہ اوپن ہارٹ سرجری (Open heart surgery) ہو چکی تھی، آ نکھوں میں آنسو بھر کر کہتیں آپا جی خواجہ صاحب کے لیے دعا کیا کریں مجھے بہت فکر رہتی ہے اللہ نہ کرے اگر ان کو کچھ ہو گیا تو میں کیا کروں گی۔ خواجہ صاحب ڈرائیو کرتے تو کوشش کرتیں کہ اُن کے ساتھ رہیں اُن کو اکیلے ڈرائیو نہیں کرنے دیتی تھیں۔ شوہر کے لیے فکر اور دل سے دعائیں کرنے والی کو اللہ نے سب فکروں سے آزاد کر کے اپنے پاس بلا لیا۔
دونوں میاں بیوی کو اللہ تعا لیٰ نے خوشحالی سے نوازا تھا اور دریا دلی بھی عطا فرمائی تھی۔ دونوں ہی ہر وقت چاہے وہ خواجہ صاحب کی فیملی ہو یا صفیہ کی سب کے لیے اپنے دل اورگھر کے دروازے کھلے رکھتے۔ سب کی مدد کے لیے تیار رہتے وہ اپنے بچوں کی شفیق ماں تھیں۔ بچوں کے ساتھ ایک دوست کی حیثیت بھی رکھتی تھیں خاص طور اپنے بیٹے ہارون کے لیے جب بھی مجھے ملتیں بیٹے کا نام لیتیں آنکھ میں آنسو آجاتے اور کہتیں وہ میرا بیٹا بھی ہے اور دوست بھی۔ میں اُس کے ساتھ اپنے ہر مسئلہ پر بات کرسکتی ہوں۔ وہ مجھے ہر جمعہ کے دن کھانا کھلانے لے جاتا ہے اور بعد میں شاپنگ کروانا اُس نے اپنا معمول بنا لیا ہے۔بیٹیوں کے ساتھ محبت کا یہ حال تھا کہ ہر روز دن میں ایک دو بار فون ضرور آتا۔ چھوٹی چھوٹی باتیں بتاتیں حتی کہ گھر کے پھولوں کے بارے میں بھی بتاتیں اسی طرح اپنے نواسے اور نواسیوں سے انتہائی محبت تھی بلکہ ایک بار اپنی نواسیوں کو ترکی سیرکے لیے بھی اپنے ساتھ لے کر گئیں کوئی نہ کوئی پروگرام بنا کے رکھتیں۔ خدا نخواستہ کسی کو کوئی تکلیف ہو یا ضرورت ہو سب سے پہلے پہنچتیں۔ میری سمدھن بہن کا دل بہت درد مند دل تھا۔ جب اُن کی کپڑے کی دکان تھی تو میں نے اُن سے اپنے کفن کا کپڑا خرید لیا جس کی قیمت لینے پر وہ کسی طرح راضی نہ تھیں بڑے اصرار سے اُن کو قیمت ادا کی۔اور ان سے وعدہ لیا کہ جب اللہ کی طرف سے میرا بلاوا آئے تو میرے آخری غسل میں آپ نے میرے بچوں کا ساتھ دینا ہوگا۔ جس پر اُنہوں نے مجھ سے وعدہ کیا۔ اور وہ خود بے وفائی کر کے مجھ سے پہلے چلی گئیں۔ میں نے بہت پیار و محبت کرنے والی بہن کو کھویااللہ پاک اُ ن کے درجات بلند فر مائے۔آ مین
وفات سے کچھ عرصہ قبل آپ اپنی نند کے بیٹے کی شادی میں شرکت کے لیےپاکستان گئیں۔ لندن پہنچتے ہی دو دن کے بعد پیٹ میں تکلیف ہوئی، ہسپتال لے کر گئے اور یہ اندوہناک خبر ملی کہ کینسر کی آخری سٹیج ہے اور وہ اپنی زندگی کے آ خری دن گزار رہی ہیں۔ یہ اچانک خبر بجلی کے جھٹکے سے کم نہیں تھی۔ جیسے ہی مرحومہ کو اپنی تکلیف سے آ گاہی ہوئی بچوں اور جان نثار خاوند کو بٹھا کر سمجھایا کہ الحمد للہ! میں نے بہت اچھی اور شاندار محبتوں بھری زندگی گزاری ہے کوئی خواہش اور خلش باقی نہیں سب خوشیاں دیکھ کر جا رہی ہوں ۔ اُس نے اپنے بچوں کو بہت تسلی دی اور کہا میں بہت پُرسکون ہو کر اپنے ربّ کے پاس جارہی ہوں آپ بس میرے لیے دعا کریں۔۱۵؍اپریل ۲۰۲۴ء کو یہ اللہ کی بندی اپنے اللہ کی رضا پر راضی ہونے والی دیندار مخلص، جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی شوہر اور بچوں پر جان نثار کرنے والی اپنے پیار کرنے والے ربّ کے ہاں حاضر ہو گئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
۱۸؍اپریل ۲۰۲۴ء کو مر حو مہ کا جنازہ زوار بٹ صاحب مربی سلسلہ نے پڑھایا۔ اور Roding Lane Cemetery میں تدفین ہوئی اور بعد تدفین مربی صاحب موصوف نے دعا کروائی۔
جنازہ میں ریڈ برج جماعت کے علاوہ بہت سے غیر از جماعت احباب جن کے ساتھ مرحومہ نے نیک سلوک کیا ہوا تھا جنازے میں شامل ہوئے مرحو مہ کو دعاؤں سے رخصت کیا۔
امیر جماعت احمدیہ مکرم رفیق حیات صاحب مع اہلیہ صاحبہ ، صدر مجلس انصار اللہ جماعت احمدیہ یوکے محترم صاحبزادہ مرزا وقاص احمد صاحب اور بہت سے احباب تعزیت کے لیے تشریف لائے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہ شفقت ۲۹؍جون ۲۰۲۴ء کو نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ یہ مرحومہ کے لیے بہت بڑی سعادت ہے۔ الحمد للہ
الفضل انٹرنیشنل ۱۳؍اگست ۲۰۲۴ء میں درج ہے:
صفیہ خواجہ صاحبہ اہلیہ مکرم عبد الکریم صاحب ( جماعت ریڈبرج یوکے ۱۵؍اپریل ۲۰۲۴ء کو ۷۷؍سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ اِنَا للہ واِنَا الیہ راجعون۔ مرحومہ مکرم محمد اصغر لون صاحب( آف ایسٹ افریقہ ) کی بیٹی تھیں۔ ۱۹۶۵ء میں آپ ہجرت کر کے یو کے آ ئیں۔ مرحومہ کا ابتدا سے ہی جماعت کے ساتھ پختہ تعلق تھا جس کو آ خری دم تک قائم رکھا۔ اپنے ریجن میں سیکرٹری ضیافت کے طور پر خدمت کرنے کا موقع ملتا رہا۔ مہمانوں کی تواضع بڑے شوق سے کرتیں۔ مرحومہ نماز اور روزہ کی پابند ایک نیک اور مخلص خاتون تھیں۔ پسماندگان میں شوہر کے علاوہ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ آپ مکرم سلطان لون صاحب ( نیشنل سیکرٹری مال جماعت احمدیہ یوکے) کی پھوپھو اور مکرم عکاشہ بدر صاحب ( نائب صدر مجلس انصاراللہ یوکے) کی خوش دامن تھیں۔
(صفیہ بشیر سامی ۔لندن)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: خلافتِ احمدیہ اور افرادِ جماعت مثلِ یک وجود