مکتوب

مکتوب شمالی امریکہ(جنوری ۲۰۲۵ء)

شمالی امریکہ کےچند اہم واقعات و تازہ حالات کا خلاصہ

کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نےاستعفیٰ دے دیا

مورخہ ۶؍جنوری ۲۰۲۵ء کو کینیڈا کے وزیرِاعظم جسٹن ٹروڈو نے لبرل پارٹی کی قیادت اور وزیرِاعظم کے عہدے سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا۔ یہ فیصلہ عوام کی حمایت میں کمی اور پارٹی کے اراکین کی طرف سے اندرونی دباؤ کے بعد کیا گیا۔

وزیراعظم ٹروڈو کے قریباً دس سالہ دورِ حکومت میں ماحولیاتی تبدیلی کی پالیسیوں پر زور دینے اور کینیڈا کو کووِڈ۱۹ وبا کے دوران سنبھالنے جیسے اہم اقدامات شامل تھے۔ تاہم، یہ فیصلہ کووِڈ ۱۹ کے بعد خصوصاً حال میں ملک کے معاشی مسائل، مہاجرین کی کثرت اور اس سے متعلقہ مسائل نیز صوبائی حکومتوں کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کی بنا پر کیا گیا۔

وزیراعظم ٹروڈو اپنی پارٹی کے نئے راہنما کے انتخاب تک اُسی عہدے پر رہیں گے۔ پارٹی کے نئے انتخابات ۹؍ مارچ ۲۰۲۵ء کو ہوں گے۔

یہ استعفیٰ لبرل پارٹی کے مستقبل کے رویے، خاص طور پر ماحولیاتی تبدیلی، بین الاقوامی تجارت اور ملکی ترجیحات کے حوالے سے سوالات اٹھاتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے بطور امریکی صدر دوسری مدت کے لیے حلف اٹھالیا

ڈونلڈ ٹرمپ نے مورخہ ۲۰؍ جنوری ۲۰۲۵ء کو ۴۷؍ویں امریکی صدر کے طور پر حلف اٹھایا۔ اور اس طرح ٹرمپ انیسویں صدی کے بعد پہلے صدر بن گئے جنہوں نے غیرمتواتر طور پر دو مرتبہ صدارت حاصل کی۔ ٹرمپ کی افتتاحی تقریر میں قومی خودمختاری، معاشی ترقی، اور سخت امیگریشن پالیسیوں پر زور دیا گیا۔ ان کی اہم ترجیحات میں ملکی صنعتوں کی بحالی، غیر ملکی درآمدات پر انحصار کم کرنا اور سرحدی سلامتی کو مضبوط بنانا شامل تھا۔

یہ تقریب شدید سرد موسم کی وجہ سے واشنگٹن ڈی سی میں Capitol عمارت کے اندر، اس کے گول ایوان میں منعقد کی گئی۔ ٹرمپ کی حکومت تجارتی، امیگریشن اور بین الاقوامی تعلقات میں نمایاں تبدیلیاں لانے کا ارادہ رکھتی ہے، جن کے عالمی معیشت پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ناقدین اور حمایتی دونوں ٹرمپ کی پالیسیوں میں تبدیلی کے امکانات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔

کینیڈا اور میکسیکو پر امریکی محصول (ٹیرف) کی دھمکیاں

صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ یکم فروری ۲۰۲۵ءسے کینیڈین اور میکسیکندرآمدات پر ۲۵؍ فیصد ٹیرف یعنی محصول عائد کریں گے، جس کا مقصد تجارتی عدم توازن اور غیر قانونی امیگریشن کو حل کرنا ہے۔ یہ ٹیرف خاص طور پر آٹوپارٹس، زرعی مصنوعات، اور معدنیات کو نشانہ بنائیں گے۔ کینیڈا کے وزیراعظم ٹروڈو اور کینیڈا کے صوبہ اونٹاریو کے وزیرِاعلیٰ ڈگ فورڈ نے اس اقدام کو تحدی سے تنقید کا نشانہ بنایا اور ممکنہ جوابی اقدامات کی طرف اشارہ دیا، جن میں امریکی توانائی کی برآمدات پر ٹیرف شامل ہو سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ کینیڈا کے دیگر وزرا اور سیاستدانوں نے اس دھمکی کے خلاف آواز اٹھائی۔

میکسیکو کے حکام نے بھی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ اقدامات USMCA یعنی امریکہ، میکسیکو اور کینیڈا کے درمیان تجارتی معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہ ٹیرف شمالی امریکی تجارتی تعلقات کو خراب کر سکتے ہیں اور دونوں ممالک کے صارفین اور کاروباروں پر اثر ڈال سکتے ہیں۔

امریکہ میں ٹِک ٹاک پر پابندی

مورخہ ۱۹؍جنوری ۲۰۲۵ء سے نافذ ہونے والے ایک نئے امریکی قانون کے تحت، سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹِک ٹاک کو کہا گیا کہ اسے کسی امریکی ادارے کو فروخت کرنا ہوگا ورنہ اسے مکمل پابندی کا سامنا ہوگا۔ یہ پابندی اس کی چینی مالک کمپنی ، بائیٹ ڈانس، کی جانب سے معلومات کے تحفظ کے خدشات کی وجہ سے لگائی گئی ۔

اس پابندی سے لاکھوں صارفین اور اس پرمواد ڈالنے والوں نے غم و غصہ کا اظہار کیا۔

بائیٹ ڈانس نے جواباً ٹِک ٹاک کے امریکی حصہ کو فروخت کرنے کے مطالبے کی مخالفت کی ہے اور دعویٰ کیا کہ صارفین کے معلومات اور ڈیٹا وغیرہ محفوظ ہے۔ امریکی ٹیک کمپنیوں نے ٹِک ٹاک کے آپریشنز خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

بالآخر ٹِک ٹاک ایک دن کے لیے امریکی صارفین کے لیے بند کیا گیا لیکن بقول ٹِک ٹاک کے امریکی صدر ٹرمپ کے حوصلہ افزا بیان کے پیشِ نظر دوبارہ سروِس کھول دی گئی۔ ایک بیان میں ٹِک ٹاک نے کہا کہ ’’ہم صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے ہمارے سروس فراہم کرنے والوں کو ضروری وضاحت اور یقین دہانی فراہم کی کہ انہیں ٹک ٹاک کو ۱۷۰؍ملین سے زائد امریکیوں تک فراہم کرنے پر کسی قسم کی سزا کا سامنا نہیں ہوگا، اور ۷ ملین سے زیادہ چھوٹے کاروباروں کو پھلنے پھولنے کی اجازت دی۔‘‘

بہر حال ٹِک ٹاک کے متعلق امریکی قانون سوشل میڈیا کے منظر کو بدل سکتا ہے اور امریکہ؍چین تعلقات کو کشیدہ کرسکتا ہے، کیونکہ چینی حکومت نے اس اقدام کو فری مارکیٹ کے اصولوں کے خلاف قرار دیا ۔

امریکہ میں’’ٹائٹل ۴۲‘‘ شِق کی بحالی

’’ٹائٹل ۴۲‘‘ امریکہ کے عوامی صحت قانون(پبلک ہیلتھ سروس ایکٹ) کی ایک شِق ہے جو کہ ۱۹۴۴ء میں قائم کی گئی۔ یہ قانون وفاقی حکومت کو متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ اس شق کے تحت امریکی حکومت ان افراد یا اشیاء کے داخلے پر پابندی لگا سکتی ہے جو عوامی صحت کے لیے خطرہ بن سکتے ہوں۔

مارچ ۲۰۲۰ء میں کووِڈ ۱۹ کی وبا کے دوران صدر ٹرمپ نے ’’ٹائٹل ۴۲‘‘ کو نافذ کیا تھا تا کہ سرحدی نقل و حرکت کو محدود کیا جاسکے ۔ اور اس کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ کووڈ ۱۹ کے پھیلاؤکو کم کرنے کے لیے مہاجرین، بشمول پناہ گزینوں کو معمول کی کارروائی یا سماعت کے بغیر ملک سے نکالا جاسکے۔یہ قدم عوامی صحت کے تحفظ کے تحت امیگریشن کے معمول کے قوانین کو نظرانداز کرنے کی اجازت دیتا تھا۔

اگرچہ یہ شق اصل میں صحت سے متعلق اقدامات کے لیے بنائی گئی تھی، لیکن اس شق کو امیگریشن کی تعداد میں حدبندی کرنے کے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا گیا، جس کی وجہ سے یہ تنقید کا نشانہ بنا ۔ صدر بائیڈن نے اپنے دور حکومت کی شروعات میں تو حالات کے پیشِ نظر اسے بحال رکھا مگر پھر تدریجاً اسے ختم کرنے کے لیے اقدامات لیے اور بالآخر ٢٠٢٣ء میں اس کو باضابطہ طور پر ختم کر دیا گیا ۔

اب، صدر ٹرمپ نے ’’ٹائٹل ۴۲‘‘ کو دوبارہ نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ قدم ۱۵۰۰؍ فوجی دستوں کی امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر تعیناتی کے ساتھ اٹھایا گیا ہے تاکہ کارروائی میں مدد کی جا سکے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی غیرقانونی امیگریشن کو کم کرنے اور عوامی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔ تاہم، اس پالیسی کے خلاف قانونی مشکلات متوقع ہیں، اور بعض گروہوں نے عدالت میں اس کے خلاف لڑنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

ماحولیاتی پالیسیوں سے امریکی حکومت کا انحراف

صدر ٹرمپ نے امریکی صدارت کا حلف اٹھاتے ہی متعدد ایگزیکٹو احکامات پر دستخط کیے، جن میں سے ایک کے تحت امریکہ کو پیرس ماحولیاتی معاہدے سے نکال لیا گیا اور سمندر کے ساحل کے قریب تیل نکالنے کی خاطر کھدائی پر عائد پابندیاں ختم کر دی گئیں۔ یہ اقدامات پچھلی حکومت کی ماحولیاتی پالیسیوں سے ایک نمایاں انحراف کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ ان اقدامات کا مقصد توانائی کی خودمختاری کو فروغ دینا اور فوسل فیول انڈسٹری میں روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔ ماحولیاتی تحفظ کے حامیوں نے خبردار کیا ہے کہ ان اقدامات سے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہوسکتا ہے اور ساحلی علاقوں کے ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ کئی ریاستوں، بشمول کیلیفورنیا اور نیویارک نے اپنی سخت ماحولیاتی پالیسیوں کو نافذ کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے، جو کہ وفاقی اور ریاستی حکومتوں کے درمیان تصادم کا باعث بن سکتی ہیں۔

(فرحان احمد قریشی۔کینیڈا)

مزید پڑھیں: ندامت کے چراغوں سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button