خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲؍دسمبر۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے)
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا: آج کل خطبات میں غزوۂ اُحد کا ذکر ہو رہا ہے۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جنگ احدمیں مشرکین کی شکست اورمسلمان تیراندازوں کےپہاڑی درہ چھوڑنےکی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: جب مشرکوں کے پرچم بردار ایک ایک کر کے قتل ہو گئے اور کوئی شخص بھی اب پرچم اٹھانے یا اس کے قریب آنے کی ہمت نہ کر سکا تو ایک دم مشرک پسپا ہونے لگے اور پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے۔ ان کی عورتیں بھی جو کچھ ہی دیر پہلے پُرمسرت لہجوں اور پورے جوش و خروش سے دف بجا بجا کر گا رہی تھیں، دف پھینک کر پہاڑ کی طرف بھاگیں۔ مسلمانوں نے دشمن کو بھاگتے دیکھا تو وہ ان کا پیچھا کرکے ان کے ہتھیار لینے اور مال غنیمت جمع کرنے لگے۔ اسی وقت مسلمانوں کا وہ تیر انداز دستہ جس کو آنحضرتﷺ نے پہاڑی پر تعینات کر کے حکم دیا تھا کہ کسی بھی حال میں اپنی جگہ سے نہ ہلیں وہاں سے مال غنیمت جمع کرنے کے لیے بھاگا۔ یہ کہا جاتا ہے۔ رسول اللہﷺ کی طرف سے اس دستے کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیرؓ نے ان کو سختی سے منع کیا کہ ان کو کسی حال میں بھی یہاں سے ہٹنے کا حکم نہیں ہے مگر وہ لوگ نہیں مانے اور کہنے لگے مشرکین کو شکست ہو گئی ہے، اب ہم یہاں ٹھہر کر کیا کریں گے؟ یہ کہہ کر وہ لوگ پہاڑ ی سے اتر آئے اور مالِ غنیمت جمع کرنے لگے۔ اگرچہ ان میں سے اکثر لوگ اپنی جگہ چھوڑ چکے تھے مگر ان کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیرؓ اور کچھ دوسرے صحابہؓ اپنی جگہ جمے رہے جن کی تعداد دس سے بھی کم ہو گی۔ انہوں نے نیچے جانے والوں سے کہا یعنی درّے سے جو نیچے اتر رہے تھے کہ میں رسول اللہﷺ کے حکم کی خلاف ورزی ہرگز نہیں کروں گا۔ ان کے امیر نے یہ کہا۔ اکثر مؤرخین اور سیرت نگار درہ چھوڑنے والے صحابہؓ کا ذکر کرتے ہوئے یہی بیان کرتے ہیں کہ ان کو مالِ غنیمت کی جلدی تھی اس لیے وہ اصرار کر رہے تھے کہ جب باقی سب لوگ مال غنیمت لُوٹ رہے ہیں تو ہم کیوں پیچھے رہیں جبکہ ان کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیرؓ انہیں روک رہے تھے کہ ہمیں نبی کریمﷺ کا یہی حکم تھا کہ جو بھی ہو تم لوگ اپنی جگہ، اس جگہ سے نہیں ہٹو گے اس لیے ہمیں یہیں رہنا چاہیے لیکن ان لوگوں کی اکثریت نے امیر کی بات سے اتفاق نہیں کیا اور مالِ غنیمت لُوٹنے کے لیے درے سے نیچے اتر آئے۔ اکثر مؤرخین نے یہ لکھا ہے اور کتب حدیث اور تفسیر میں بھی عمومی طور پر یہی ذکر ملتا ہے کہ یہ صحابہؓ مال غنیمت کی جلدی کی وجہ سے درہ چھوڑ کر چلے گئے اور سورہ آل عمران کی آیت ۱۵۳کہ مِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّرِیۡدُ الدُّنۡیَا وَ مِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّرِیۡدُ الۡاٰخِرَةَ کہ تم میں سے ایسے بھی تھے جو دنیا کی طلب رکھتے تھے اور تم میں ایسے بھی تھے جو آخرت کی طلب رکھتے تھے۔ اس کی تفسیر کرتے ہوئے اکثر مفسرین بھی یہی لکھتے ہیں کہ صحابہؓ مال غنیمت کے حصول کے لیے جلدی جانا چاہتے تھے لیکن صحابہؓ کے بارے میں اس دنیاوی خواہش کے لیے درّے کو چھوڑنے کی بات دل کو لگتی نہیں۔
سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صحابہ کرامؓ کےپہاڑی درہ چھوڑنےکی بابت کیاوضاحت فرمائی؟
جواب: فرمایا: اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ نے بھی ایک تفسیری نوٹ لکھا تھا جو غیرشائع شدہ ہے…پوری آیت اس طرح ہے کہ وَلَقَدۡ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ وَعۡدَہٗۤ اِذۡ تَحُسُّوۡنَہُمۡ بِاِذۡنِہٖ ۚ حَتّٰۤی اِذَا فَشِلۡتُمۡ وَتَنَازَعۡتُمۡ فِی الۡاَمۡرِ وَعَصَیۡتُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَرٰٮکُمۡ مَّا تُحِبُّوۡنَ ؕ مِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّرِیۡدُ الدُّنۡیَا وَمِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّرِیۡدُ الۡاٰخِرَۃَ ۚ ثُمَّ صَرَفَکُمۡ عَنۡہُمۡ لِیَبۡتَلِیَکُمۡ ۚ وَلَقَدۡ عَفَا عَنۡکُمۡ ؕ وَاللّٰہُ ذُوۡ فَضۡلٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ (آل عمران :۱۵۳)اور یقیناً اللہ نے تم سے اپنا وعدہ سچا ثابت کر دکھایا جب تم اس کے حکم سے ان کی بیخ کنی کر رہے تھے تاآنکہ جب تم نے بزدلی دکھائی اور تم اصل حکم کے بارے میں باہم جھگڑنے لگے اور تم نے اس کے باوجود بھی نافرمانی کی کہ اس نے تمہیں وہ کچھ دکھلا دیا جو تم پسند کرتے تھے۔ تم میں ایسے بھی تھے جو دنیا کی طلب رکھتے تھے اور تم میں ایسے بھی تھے جو آخرت کی طلب رکھتے تھے پھر اس نے تمہیں ان سے پرے ہٹا لیا تا کہ تمہیں آزمائے اور جو بھی ہوا وہ یقیناً تمہیں معاف کر چکا ہے (یعنی اللہ تمہیں معاف کر چکا ہے)اور اللہ مومنوں پر بہت فضل کرنے والا ہے۔ یہ ہے آیت جس کی تفسیر میں یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ مالِ غنیمت یا اس جنگ کے حوالے سے یہ آیت ہے۔ صحابہؓ کے بارے میں یہ کہنا بلکہ سوچنا بھی ان کی شان کے خلاف ہے کہ ان کو مال غنیمت کی پڑی ہوتی تھی۔ یہ لوگ تو اپنے بیوی بچے اور اپنی جانیں تک اپنے سب سے محبوب خدا اور اس کے رسولﷺ کے قدموں پر نچھاور کر چکے تھے اور اس سے پہلے وہ اپنے اموال و اسباب بھی اسی راہ میں لُٹا چکے تھے۔ شہادت کے شوق میں تو جیساکہ واقعات بیان ہوئے ہیں یہ لوگ باہر نکل کر جنگ کرنا چاہتے تھے اور یہ جنگیں مالِ غنیمت حاصل کرنے کے لیے نہیں لڑی جا رہی تھیں۔ یہ تو مسلمانوں پہ الزام ہے۔ ہاں فتح کی صورت میں اموال غنیمت مل جانا ایک ضمنی بات تو ہو سکتی ہے لیکن صحابہؓ کا مطلوب و مقصود مال غنیمت حاصل کرنا ہرگز نہیں ہو سکتا تھا۔ بہرحال تاریخ اسلام میں اور اسی طرح پر آنحضرتﷺ کی سیرت و سوانح بیان کرتے ہوئے جو مؤرخین ہیں یا جو سیرت نگار ہیں یا محدّث ہیں یا مفسّر ہیں لگتا ہے کہ ان بزرگوں کو کہیں غلطی لگی ہے اور محض کسی روایت کی سند وغیرہ پر اعتبار کر کے ان لوگوں نے اپنی سادگی میں یا اس پر یقین رکھ کے کہ یہ روایت صحیح ہو گی ایسا بیان کر دیا ہے کہ صحابہؓ مال غنیمت کے لیے نیچے اترے تھے۔ انہیں اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ عواقب اور اثرات کے لحاظ سے یہ بات کتنی زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے اور وہ بات رسول اکرمﷺ کی ذات بابرکات ہو یا آپؐ کی قوتِ قدسیہ سے فیضیاب ہونے والے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہوں، ان کی شان کے کتنی منافی ہو سکتی ہے۔ بہرحال صحابہؓ کی قربانی اور جذبۂ شہادت کو دیکھ کر یہ بات یقین کرنی مشکل ہے کہ صحابہؓ صرف مالِ غنیمت حاصل کرنے کے لیے اس درہ کو چھوڑنے کے لیے جلدی کر رہے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جب ان صحابہؓ نے دیکھا کہ مسلمانوں کو فتح ہو چکی ہے اور وہ دشمن کو بھگا رہے ہیں اور اس کا پیچھا کر رہے ہیں تو درے پر موجود صحابہؓ اس واضح فتح کی خوشی میں شامل ہونے کے لیے بے چین ہو گئے۔ اور فتح پر ختم ہوتی ہوئی اس جنگ کے آخری لمحات میں شامل ہونے کی تڑپ سے بے چین ہو رہے تھے کہ ہم بھی اس خوشی میں شامل ہو جائیں۔ وہ شاید سمجھ رہے ہوں کہ ہمارے دوسرے بھائی تو جہاد میں براہِ راست حصہ لے رہے ہیں اور ہم یہاں درّے میں کھڑے ہیں۔ تو جہاد میں شامل ہونے کا شوق جوش میں آیا کہ اب فتح تو ہو چکی ہے تو آج کے دن کے ختم ہوتے ہوئے جہاد میں عملاً بھی شامل ہو جائیں۔ اس فتح کی خوشی توکم از کم منالیں۔ لیکن ان کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیرؓ جو زیادہ صاحبِ فراست ثابت ہوئے ان کی نظر نبی کریمﷺ کے اس ارشاد پر تھی کہ خواہ کچھ بھی ہو یہاں سے نہیں ہٹنا یہ ان کا فیصلہ تھا اور درست فیصلہ تھا کہ جو بھی ہے ہمیں یہاں سے ہٹنا نہیں چاہیے۔
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے منکم من یریدالدنیا کےحوالے سےحضرت مصلح موعودؓ کی کیاتفسیربیان فرمائی؟
جواب: فرمایا: آپؓ نے لکھا ہے کہ’’مِنْکُمْ مَنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیا۔ اس جگہ دنیا سے مراد مال غنیمت نہیں بلکہ دنیا والی چیز مراد ہے اور آخرت سے مراد انجام اور آخری نتیجہ ہے۔ یہ خیال کرنا کہ انہیں یہ خیال آیا تھا کہ ہمیں مال غنیمت نہیں ملے گا واقعہ کے خلاف ہے کیونکہ بدر میں تو ان لوگوں کو بھی‘‘ مال غنیمت میں ’’حصہ ملا تھا جو بعض مجبوریوں کی وجہ سے جنگ میں شامل نہیں ہو سکے تھے اس لیے یہ خیال بالکل غلط ہے۔ صحابہؓ کے متعلق دنیاداری کا خیال کرنا درست نہیں‘‘اصل بات یہ ہے کہ ان کو یہ خواہش تھی کہ ہم بھی اس جنگ احد میں شریک ہوں۔ یہ بھی دنیوی خیال تھا کہ ہم اس غزوہ میں شامل ہوں اور کافروں کو ماریں۔ لُوٹ کے مال میں شامل ہونا اس جگہ مراد نہیں۔ فرماتا ہے کہ تم کو یہ خیال تھا کہ ہم غزوہ میں شامل ہونے والوں سے پیچھے نہ رہ جائیں مگر یہ بھی ایک دنیوی خیال ہے‘‘ دنیوی خیال اس لیے ہے کہ صرف لڑنا تو کوئی بات نہیں ہے۔ آنحضرتﷺ کے حکم کی تعمیل نہ کرنا یہ دنیوی خیال بن جاتا ہے۔ ’’تمہیں تو حکم کی تعمیل کرنی چاہئے تھی اور بس‘‘ کیونکہ آنحضرتﷺ کے حکم کی تعمیل نہ کرنا چاہے وہ دین کی خاطر جنگ ہو رہی ہو اور آپؐ نے اس سے منع کر دیا اور کہیں اَور جگہ ڈیوٹی لگا دی تو اس حکم کی تعمیل اصل میں دین ہے نہ کہ جنگ کرنا۔ پھر آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’وَمِنْکُمْ مَنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَة۔فرماتا ہے کہ تمہارا افسر اور اس کے ساتھی تو آخرت کو چاہتے تھے۔ ان کے مدِنظر انجام اور نتیجہ تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس کا نتیجہ اچھا نہ ہو گا۔ وہ نافرمانی کے بد نتیجہ کو دیکھ رہا تھا۔ اس طرح اس کے ساتھی بھی اسے حق پر سمجھتے تھے۔ افسر اور اس کے ساتھ متفق لوگوں کی نظر اس بات کے آخری نتیجہ پر پہنچ رہی تھی کہ وہ آنحضرتﷺ کے حکم کو جنگ میں شمولیت سے زیادہ اہم سمجھتے تھے۔ لیکن برخلاف اس کے تمہاری نظر سطحی بات پر پڑی ہوئی تھی۔ ‘‘ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’یہ معنے صحابہؓ کی اس شان کے مناسبِ حال ہیں جو ان کے کاموں اور ان کی قربانیوں سے ظاہر ہوتی ہے۔‘‘
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خالد بن ولیدکےپہاڑی درہ سےحملہ کرنےکی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: ایک طرف جب کفار کا لشکر بری طرح شکست کھا کر پیٹھ پھیر کر بھاگ رہا تھا اور دوسری طرف پہاڑی درے پر متعین پچاس میں سے چالیس کے قریب مجاہدین درہ چھوڑ کر نیچے اتر گئے تو اسی وقت خالد بن ولید نے دیکھا کہ وہ پہاڑی درہ جہاں تیر اندازوں کا دستہ جما ہوا تھا، خالی ہو چکا ہے، صرف چند آدمی باقی رہ گئے ہیں۔ خالد بن ولید اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے۔ یہ دیکھتے ہی وہ عکرمہ بن ابوجہل کو ساتھ لے کر اپنے گھڑ سوار دستے کے ساتھ پلٹے۔ انہوں نے پہاڑی پر پہنچ کر ان چند لوگوں پر حملہ کر دیا جو تیر انداز دستے میں سے بچے کھچے وہاں موجود تھے۔ ان کا یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ ایک ہی ہلے میں انہوں نے اس دستے کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیرؓ اور ان کے چند ساتھیوں کو قتل کردیا۔ ان لوگوں نے حضرت عبداللہ بن جبیرؓ کی لاش کا مثلہ کیا یعنی ہاتھ پاؤں اور جسم کے دوسرے اعضاء کاٹ ڈالے۔ اس کے بعد قریش کے اس دستے نے نیچے اتر کر اچانک مسلمانوں کو گھیر لیا۔ مسلمان اس وقت بے خبری کے عالم میں مال غنیمت جمع کرنے اور مشرکین کو قیدی بنانے میں مصروف تھے کہ اچانک مشرکوں کے گھڑ سوار دستے گھوڑے دوڑاتے ہوئے ان کے سروں پر پہنچ گئے۔ یہ لوگ عزیٰ اور ہبل کے نعرے لگا رہے تھے جو احد کے روز مشرکین کا شعار تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کے پاس پہنچتے ہی بے خبری میں ان کو تلواروں پر رکھ لیا۔ مسلمان بدحواس ہو گئے اور جدھر جس کا منہ اٹھا وہ اس طرف بھاگنے لگا۔ جو کچھ مالِ غنیمت انہوں نے جمع کیا تھا اور جتنے قیدی بنائے تھے ان سب کو چھوڑ کر مسلمان ہر طرف بکھر گئے۔ نہ ان کی صفیں باقی رہیں نہ ترتیب۔ ایک کو دوسرے کی کوئی خبر نہیں تھی۔ مشرکین کا پرچم اس وقت تک زمین پر پڑا ہوا تھا کہ اس نئی صورتحال کو دیکھ کر اچانک ایک عورت عمرہ بنت علقمہ نے اس کو اٹھا کر بلند کر دیا اور مشرکین کو اونچی آواز میں واپس بلانا شروع کیا۔ بھاگتے ہوئے مشرکین نے اپنے پرچم کو سربلند ہوتے دیکھا تو وہ سمجھ گئے کہ جنگ کا پانسہ پلٹ چکا ہے اور سب کے سب پلٹ کر پھر اپنے جھنڈے کے گرد جمع ہو گئے۔ایک مصنف نے لکھا ہے کہ قریش کے خاک و خون میں لت پت جھنڈے کو عمرہ بنت علقمہ نامی خاتون نے پکڑ کر بلند کر دیا۔ وہ زور زور سے اسے لہرانے لگی اور میدان سے فرار ہونے والوں کو ملامت کرنے لگی۔ وہ کفار مکہ کو پلٹ آنے کے لیے پکار رہی تھی۔ یوں شکست خوردہ کفار واپس میدان احد میں اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے آگے اور پیچھے کی طرف سے مسلمانوں کو گھیر لیا۔ مسلمان بے فکری کی بنا پر صف بندی ختم کرچکے تھے اس لیے اب ان کی کوئی ترتیب نہ تھی۔