عزیز خدا کی رحمت اور بخشش
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۶؍ اکتوبر ۲۰۰۷ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خداتعالیٰ کے حسن و احسان کا تصور سورۃ فاتحہ سے یوں پیش فرمایا ہے، آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’قرآن شریف میں تمام صفات کا موصوف صرف اللہ کے اسم کو ہی ٹھہرایا ہے‘‘ یعنی تمام صفات صرف اللہ کے نام میں ہیں ’’تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ اللہ کا اسم تب متحقق ہوتا ہے‘‘ یعنی صحیح، درست اور حقیقی ثابت ہوتا ہے ’’کہ جب تمام صفات کاملہ اس میں پائی جاویں۔ پس جبکہ ہر ایک قسم کی خوبی اس میں پائی گئی تو حسن اس کاظاہر ہے۔ اسی حسن کے لحاظ سے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ کا نام نور ہے، جیسا کہ فرمایا اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض(النور:۳۶) یعنی اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا نور ہے۔ ہر ایک نور اسی کے نور کا پَرتَو ہے‘‘۔ لیکن اس نور کو دیکھنے کے لئے تعصب کی عینکیں اتارنی ہوں گی۔ لیکن جو شیطان کی پیروی پر تلے ہوئے ہوں وہ اپنے کئے کاخمیازہ بھگتتے ہیں اور اللہ پھر انہیں نور کی بجائے اندھیروں کی طرف لے جاتا ہے۔ پس اگرقرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا حسن نظر نہیں آتا یا اللہ کی ہستی کی پہچان نہیں ہوتی تو یہ دیکھنے والے کا قصور ہے جو اپنے دل کے دروازے اور کھڑکیاں بند رکھتے ہیں۔ اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کا حسن دیکھنا ہو، اس تصور کو دیکھنا ہو جو اسلام پیش کرتا ہے تو اپنے دل کے دروازوں اور کھڑکیوں کو کھولنا ہو گا۔
پھر اللہ تعالیٰ کے احسان کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’احسان کی خوبیاں اللہ تعالیٰ میں بہت ہیں جن میں سے چار بطور اصل الاصول ہیں‘‘۔ چار بنیادی چیزیں ہیں ’’اور ان کی ترتیب طبعی کے لحاظ سے پہلی خوبی وہ ہے جس کو سورۃ فاتحہ میں ربّ العالمین کے فقرہ میں بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی ربوبیت یعنی پیدا کرنا اور کمال مطلوب تک پہنچانا‘‘ یعنی جہاں تک کسی چیز کی کوئی طلب ہو سکتی ہے، ضرورت کسی چیز کی ہو سکتی ہے، اس کو ضرورت کے مطابق وہاں تک، اس کی ضروریات کو پہنچانا۔ اور اس میں ہر ایک کی، مختلف چیزوں کی، مختلف اجسام کی اپنی اپنی طلب اور ضرورت ہے اگر جانوروں میں سے لیں تو جانوروں کی، جمادات کی، پودوں کی، درختوں کی تو جس چیز کی تمام چیزوں کو ضرورت ہو، اس کی انتہا تک پہنچنے کا انتظام کرنا یہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ تمام عالموں میں یہ جو ربوبیت کی صفت ہے وہ جاری ہے جس میں عالم سماوی بھی ہیں اور عالم ارضی بھی ہیں، زمین وآسمان کے تمام عالم میں جو بھی جس چیز کی بھی ضرورت ہے، جس چیز کی بھی مخلوق کے لئے اور اس کی پرورش کے لئے ضرورت ہے وہ اللہ تعالیٰ مہیّا فرماتا ہے۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’ربوبیت الٰہی اگرچہ ہر ایک موجود کی موجد اور ہر ایک ظہور پذیر چیز کی مُربی ہے‘‘یعنی جو بھی چیز موجود ہے، اس نے ہی اس کو پیدا کیا ہے اور جو بھی چیز ظاہر ہوئی ہے یا ہورہی ہے اس کی پرورش کرنے والی بھی خداتعالیٰ کی ذات ہے۔ لیکن بحیثیت احسان کے سب سے زیادہ فائدہ اس کا انسان کو پہنچتا ہے کیونکہ خداتعالیٰ کی تمام مخلوقات سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس لئے انسان کو یاد دلایا گیا ہے کہ تمہارا خداربّ العالمین ہے تا انسان کی امید زیادہ ہو اور یقین کرے کہ ہمارے فائدہ کے لئے خداتعالیٰ کی قدرتیں وسیع ہیں اور طرح طرح کے عالم اسباب ظہورمیں لا سکتا ہے‘‘۔
پھر فرمایا کہ دوسرے درجہ کا احسان رحمانیت ہے۔ فرمایا کہ ’’خداتعالیٰ کا نام رحمٰن اس وجہ سے ہے کہ اس نے ہر ایک جاندار کو جن میں انسان بھی داخل ہے، اس کے مناسب حال صورت اور سیرت بخشی‘‘۔ یعنی جس کی زندگی کسی جاندار کے لئے اللہ تعالیٰ نے بنائی، اس کے مناسب حال جن قوتوں اور طاقتوں کی ضرورت تھی وہ اسے مہیا کی گئیں، جس میں جسم کی بناوٹ اور اعضاء وغیرہ بھی شامل ہیں۔ مثلاً پرندے ہیں۔ ہوا میں اڑتے ہیں۔ ان کے جسم کی بناوٹ ایسی ہے کہ اونچا اڑنے والے، زیادہ سفر کرنے والے جوپرندے ہیں، جن کو تیز ہوا کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان کے سامنے کا سینہ انتہائی مضبوط بنایا گیا ہے، بڑا لمبا لمبا سفر کرکے مرغابیاں اور دوسرے پرندے دُور دراز علاقوں سے آتے ہیں۔ اسی طرح دوسری مخلوق ہے تو آپ ؑ فرماتے ہیں کہ اسی طرح انسان کے مناسب حال طاقتیں عنایت کی ہیں۔ ’’ انسان کو خداتعالیٰ کی رحمانیت سے سب سے زیادہ حصہ ہے، کیونکہ ہر ایک چیز اس کی کامیابی کے لئے قربان ہو رہی ہے‘‘۔
پھر فرماتے ہیں کہ ’’تیسری خوبی خداتعالیٰ کی، جو تیسرے درجے کا احسان ہے، رحیمیت ہے۔ … قرآن شریف کی اصطلاح کے روسے خدا تعالیٰ رحیم اس حالت میں کہلاتا ہے جبکہ لوگوں کی دعا اور تضرع اور اعمال صالحہ کو قبول فرما کر آفات اور بلاؤں اور تضییع اعمال سے ان کو محفوظ رکھتا ہے‘‘۔ یہ احسان صرف انسان کے لئے ہے ربوبیت اور رحمانیت سے تو دوسری مخلوق بھی فائدہ اٹھا رہی ہے لیکن رحیمیت صرف اور صرف انسان کے لئے مخصوص ہے اور اگر اس سے انسان فائدہ نہ اٹھائے، اپنے رحیم خدا کو نہ پہچانے تو وہ بھی جانوروں اور پتھروں کی طرح ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں، چوتھااحسان سورۃ فاتحہ میں فقرہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن میں بیان فرمایا گیا ہے۔ فرمایا کہ ’’اس میں اور صفت رحیمیت میں یہ فرق ہے کہ رحیمیت میں دعا اور عبادت کے ذریعہ سے کامیابی کا استحقاق قائم ہوتاہے۔ رحیمیت میں انسان اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتا ہے، دعا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ پھر اس کو کامیابی عطا فرماتا ہے۔ اس کی دعائیں سنتا ہے ’’اور صفتِ مَالکیت یوم الدین کے ذریعہ سے وہ ثمرہ عطا کیاجاتا ہے‘‘۔ (تفسیر سورۃ الفاتحہ از حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ ۸۳ تا ۸۵) یعنی ان دعاؤں کا پھر پھل ملتا ہے۔ پس اسلام کا تو یہ خدا کا تصور ہے کہ اس کی بنیادی صفات کو پہچانو تو اس کا حسن اور اس کا احسان ایک انسان پر ظاہر ہو جاتا ہے اور ایک مومن اپنے خدا کی صفات کا مزید فہم و ادراک حاصل کرتا ہے۔
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: دعا کی اہمیت