کیا مذاہب، جرائم اور نفرتوں کا سبب ہیں؟
اللہ تعالیٰ کے فرستادے دنیا میں اس لیے آتے ہیں تاکہ وہ معاشرے میں امن قائم کر سکیں اور لوگوں کے درمیان جو اختلافات پیدا ہوں ان کو ختم کر سکیں۔ انبیاء دنیا میں اسی وقت آتے ہیں جب دنیا میں جرائم اور فتنہ و فساد اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے اور سب دنیاوی حیلے ان کو ختم کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں
لا مذہب لوگوں کی طرف سے یہ اعتراض بار بار اٹھایا جاتا ہے کہ دنیا میں نفرتوں اور جرائم کا باعث مذہب ہے۔ اگر مذہب نہ ہو تو دنیا میں امن قائم ہو جائے۔ لامذہب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے وقت کے ساتھ اچھے اخلاق کا پتا لگا لیا ہے اور دنیا داروں کی اکثریت کے اخلاق مذہب کے ماننے والوں کے اخلاق سے زیادہ بہتر ہیں۔ اس لیے ان کو مذہب کی ضرورت نہیں۔ اور چونکہ دنیا میں مذہب کے ماننے والے جرائم اور نفرتوں کا سبب بن رہے ہیں اس لیے ان سے دُوری ہی بہتر ہے۔گویا کہ یہ لوگ مذہب کو جرائم کا باعث ٹھہراتے ہیں۔
لیکن اگر غور کیا جائے تو ان کا دعویٰ عقل اور حقیقت کے خلاف ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے یہ کہہ دیا جائے کہ جن ملکوں میں جرائم کے خلاف کوئی قوانین نہیں ہیں وہاں جرائم نہیں ہوتے اور جہاں قوانین ہیں وہاں جرائم زیادہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ جرم تب ہی ثابت ہوگا جب وہ کسی قانون کے خلاف ہوگا۔ یہی حال مذہب اور غیر مذہب والوں کا ہے۔ جو لوگ کسی مذہب کو نہیں مانتے در اصل وہ لوگ مذہبی قانون سے اپنے آپ کو بالا تر سمجھتے ہیں۔
کسی بھی مذہبی کتاب میں اس کے ماننے والوں کو جرائم کا ارتکاب کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ بلکہ جرم بیان کیے گئے ہیں اور ان کی سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ کسی بھی غلط فعل کو جرم قرار دینا اور اس سے روکنے کے لیے سزا تجویز کرنے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اس فعل کی مذمت کی جائے اور لوگوں کو اس کو سرزد کرنے سے روکا جائے۔ ہر ملک کے قوانین بھی اسی اصول کے تحت بنائے جاتے ہیں۔
عربی زبان میں مذہب کے معنی راستے یا طریق کے ہیں۔ مذہب کو مذہب بھی اسی لیے کہتے ہیں کہ اس طریق پر چل کر انسان کامیاب ہو سکتا ہے اور فلاح پا سکتا ہے۔ عربی کی مشہور لغت تاج العروس میں لکھا ہے:المَذْهَب: الطَّرِيْقَةُ يُقَال: ذَهَبَ فلَانٌ مَذْهَبًا حَسَنًا، أَيْ طَريْقَة حَسَنَةً، (تاج العروس)یعنی مذہب کا مطلب راستہ ہے۔ جب یہ کہا جائے کہ فلاں اچھے مذہب پرچلا تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اچھے راستے پر چلا
المَذْهَبُ: المُعْتَقَد الَّذِي يُذْهَبُ إِليه (لسان العرب)مذہب کا مطلب اس راستے کے ہیں جس پر چلا جاتا ہے۔
گویا مذہب اللہ تعالیٰ کی طرف سے دکھایا گیا وہ سیدھا راستہ ہے جو انسان کو برائیوں اور جرائم سے بچاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے ملاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسے یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کی راہنمائی کے لیے جو اصول اور قوانین دنیا میں لاگو کرتا ہے تاکہ لوگ جرائم سے بچ سکیں اور معاشرے میں امن اور محبت قائم ہو سکے اس کا نام مذہب ہے۔ انسانوں کو یہ راستہ دکھانے کے لیے انبیاء دنیا میں آتے ہیں جو اپنے عملی رویہ سے اس کے قابل عمل ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے مذہب کی یہ تعریف بیان فرمائی ہے کہ الدِّيْنُ النَّصِيْحَةُ(بخاری و مسلم)یعنی دین تو ہر ایک کی خیر خواہی چاہنے کا نام ہے۔ اس تعریف کے ہوتے ہوئے کیسے یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ مذہب نفرت یا جرائم کی تعلیم دیتا ہے؟ مذہب ہر ایک سے محبت و پیار کرنے اور اس کے لیے خیر خواہی رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔ چنانچہ احایث میں آتا ہے کہ رسول اللہﷺ جب بیعت لیتے تو اس بیعت میں النُّصْحُ لِكُلِّ مُسْلِمٍ کے الفاظ بھی ہوتے یعنی بیعت کرنے والا ہر ایک کی خیر خواہی چاہے گا نہ کہ کسی سے نفرت کرے گا۔
لا مذہب لوگوں کی طرف سے یہ اعتراض بھی پیش کیا جاتا ہے کہ انسانوں نے وقت کے ساتھ ساتھ یہ جان لیا کہ یہ عمل غلط ہیں اور یہ صحیح اور اس کے مطابق قوانین بھی بنا لیے ہیں اس وجہ سے اب ہمیں کسی مذہب کی ضرورت نہیں اور مذہبی قوانین نئے دَور کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے۔ لیکن ذرا سا بھی غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ بات درست نہیں۔ کیونکہ آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے ہر ملک میں قوانین بنتے اور تبدیل ہوتے رہتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ انسانوں کے بنائے قوانین حتمی نہیں ہیں۔ بعض اوقات یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک قانون بنایا جاتا ہے اور پھر اس کو تبدیل کر دیا جاتا ہے لیکن وقت گزرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے والا پرانا قانون ہی ٹھیک تھا اس لیے دوبارہ اس کو لاگو کر دیا جاتا ہے۔ گویا یہ اس بات کا عملی ثبوت ہوتا ہے کہ انسانوں کے قوانین بھی سو فیصد درست نہیں ہوتے۔ لیکن اس کے برعکس کیا وہ ہستی قوانین بنانے کے زیادہ حق دار نہیں جس نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جو انسان کی ہر عادت و خصلت سے واقف ہے؟ مذہب در اصل اسی ہستی کے بنائے ہوئے قوانین ہیں جو انبیاء کے ذریعہ دنیا میں متعارف کروائے جاتے ہیں۔ جس ہستی نے انسان اور دنیا کو پیدا کیا ہے اور جو انسان کی نس نس سے واقف ہے اس کے بنائے ہوئے قوانین ایسے ہیں جو ہر زمانہ کے مطابق ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے قرآن کریم اور اسلام وہ قوانین پیش کرتا ہے جن میں ہر زمانہ اور ہر حالات کے مطابق لچک موجود ہے۔
اب ہم مذاہب کی تعلیم کا موازنہ کرتے ہیں کہ کیا واقعی مذاہب جرائم اور نفرتوں کا باعث ہیں۔ قرآن کریم تو یہ بات بیان کرتا ہے کہ تمام انبیاء جو دنیا میں آتے ہیں وہ دنیا کو اللہ تعالیٰ جو مخلوق کا پیدا کرنے والا ہے اس کی طرف بلاتےہیں تاکہ لوگ پراگندہ ہونے کی بجائے ایک امت بن جائیں اور آپس میں محبت و اتفاق سے رہیں۔ حضرت آدم سے حضرت محمد ﷺ تک جو بھی انبیاء آئے وہ ایک ہی تعلیم لے کر آئے اور تعلیم یہ تھی کہ معبود حقیقی کو مانا جائے اور آپس میں اتفاق و محبت سے رہا جائے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا نُوۡحِیۡۤ اِلَیۡہِ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعۡبُدُوۡنِ۔ (الانبياء: ۲۶)اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر ہم اُس کی طرف وحی کرتے تھے کہ یقیناً میرے سوا کوئی معبود نہیں پس میری ہی عبادت کرو۔
ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ اسی مضمون کو ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے کہ جو انبیاء بھی دنیا میں آئے وہ سب یہی تعلیم دیتے تھے کہ آپس میں مل جل کر رہو اور تفرقہ بازی اختیار نہ کرو۔ چنانچہ فرمایا: شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا وَّالَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَمَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَمُوۡسٰی وَعِیۡسٰۤی اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ(الشوریٰ:۱۴)اُس نے تمہارے لیے دین میں سے وہی احکام جاری کیے ہیں جن کا اس نے نوح کو بھی تاکیدی حکم دیا تھا۔ اور جو ہم نے تیری طرف وحی کیا ہے اور جس کا ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو بھی تاکیدی حکم دیا تھا، وہ یہی تھا کہ تم دین کو مضبوطی سے قائم کرو اور اس بارہ میں کوئی اختلاف نہ کرو۔
اس کے برعکس اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں یہ بیان فرماتا ہے کہ لوگوں میں اختلاف کی وجہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو مذہب کو نہیں مانتے۔ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے بھیجے ہوئے رسولوں کو نہیں مانتے اور ان کی مخالفت کرتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہاِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡفُرُوۡنَ بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَیُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّفَرِّقُوۡا بَیۡنَ اللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَیَقُوۡلُوۡنَ نُؤۡمِنُ بِبَعۡضٍ وَّنَکۡفُرُ بِبَعۡضٍ ۙ وَّیُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یَّتَّخِذُوۡا بَیۡنَ ذٰلِکَ سَبِیۡلًا۔ (النساء:۱۵۱)یقیناً وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لائیں گے اور بعض کا انکار کر دیں گے اور چاہتے ہیں کہ اس کے بیچ کی کوئی راہ اختیار کریں۔
نبی کریم ﷺ نے بھی یہی بات بیان فرمائی ہے۔ آپؐ نے فرمایا:الْأَنْبِيَاءُ إِخْوَةٌ لِعَلَّاتٍ، أُمَّهَاتُهُمْ شَتَّى وَدِيْنُهُمْ وَاحِدٌ(صحیح البخاری كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ (بَابُ قَوْلِ اللّٰهِ وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا حدیث نمبر: 3443)انبیاء ؑ علاتی بھائیوں کی طرح ہیں۔جن کی مائیں تو مختلف ہوتی ہیں لیکن دین سب کاایک ہی ہے۔
یعنی اگرچہ تمام انبیاء مختلف شریعتیں لے کر مختلف زمانے میں آئے اور اس زمانے اور اس علاقے کے لوگوں کے مسائل کے مطابق قوانین اور شریعتیں سکھائیں لیکن ان سب کا اصل اور دین ایک ہی تھا اور وہ خدا کی توحید اور حقوق اللہ کی ادائیگی اور معاشرے میں امن قائم کرنا تھا۔ اسی وجہ سے تمام انبیاء کی تعلیمات کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آئے گی کہ ہر نبی خواہ وہ دنیا کے کسی خطہ میں آیا ہو وہ اس علاقہ اور اس زمانے کے مسائل کا حل ہی لے کر آیا ہے۔ ہر نبی کے زمانہ میں جرائم اور نفرتیں عروج پر تھیں اور ان کا خاتمہ تب ہی ہوا جب اس نبی کے لائے ہوئے مذہب کی پیروی اختیار کی گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرستادہ دنیا میں اس لیے آتے ہیں تاکہ وہ معاشرے میں امن قائم کر سکیں اور لوگوں کے درمیان جو اختلافات پیدا ہوں ان کو ختم کر سکیں۔ انبیاء دنیا میں اسی وقت آتے ہیں جب دنیا میں جرائم اور فتنہ و فساد اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے اور سب دنیاوی حیلے ان کو ختم کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ مذہب اور انبیاء کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ انبیاء اور مذاہب کے آنے سے قبل جرائم اور فتنہ و فساد اپنی انتہا کو پہنچے ہوتے ہیں لیکن انبیاء جب دنیا میں آتےہیں تو وہ ان کو ختم کرنے کا باعث بنتےہیں اور وہی لوگ اس زمانہ میں جرائم سے دور ہوتے ہیں جو ان کے لائے ہوئے مذہب کو مانتے ہیں اور اس پر عمل شروع کرتے ہیں۔ دنیا میں ہر مذہب کی کامیابی کی وجہ یہی ہے کہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مذہب آتا ہے تو وہ جرائم اور نفرت کا خاتمہ کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اور ہر زمانے میں سب سے زیادہ محبت و امن کا پرچار کرنے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جو مذہب کو ماننے والے ہوتے ہیں اور اس کے لائے ہوئے قوانین پر عمل کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں بھی یہ بات اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان کی ہے کہ مذہب اور انبیاء کی بعثت سے قبل لوگ فسق و فجور میں پڑے ہوتے ہیں۔ اچھے اور برے میں تمیز ختم ہو گئی ہوتی ہے اور سب لوگ ایک ہی طرح کی برائیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ انسان کی راہنمائی کے لیے انبیاء بھیجتا ہے جو اچھائی اور برائی میں تمیز کر کے دکھاتے ہیں۔ اور ہدایت اور کامیابی کا وہ راستہ مذہب کے ذریعہ دکھاتے ہیں جو سیدھا اور درست ہوتا ہے۔ جس پر عمل کرکے دنیا سے اختلافات اور نفرتوں کا خاتمہ ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ۟ فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیۡنَ وَمُنۡذِرِیۡنَ ۪ وَاَنۡزَلَ مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ لِیَحۡکُمَ بَیۡنَ النَّاسِ فِیۡمَا اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ ؕ وَمَا اخۡتَلَفَ فِیۡہِ اِلَّا الَّذِیۡنَ اُوۡتُوۡہُ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡہُمُ الۡبَیِّنٰتُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ۚ فَہَدَی اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَا اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ مِنَ الۡحَقِّ بِاِذۡنِہٖؕ وَاللّٰہُ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍٍ۔(البقرہ:۲۱۴)تمام انسان ایک ہی امت تھے۔ پس اللہ نے نبی مبعوث کیے اس حال میں کہ وہ بشارت دینے والے تھے اور انذار کرنے والے تھے۔ اور ان کے ساتھ حق پر مبنی کتاب بھی نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان امور میں فیصلہ کرے جن میں انہوں نے اختلاف کیا۔ اور اس (کتاب) میں اختلاف نہیں کیا مگر باہم بغاوت کی بنا پر انہی لوگوں نے، جنہیں وہ دی گئی تھی، بعد اس کے کہ کھلی کھلی نشانیاں اُن کے پاس آچکی تھیں۔ پس اللہ نے ان لوگوں کو اپنے اِذن سے ہدایت دے دی جو ایمان لائے تھے بسبب اس کے کہ انہوں نے اس میں حق کے باعث اختلاف کیا تھا اور اللہ جسے چاہے صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت دیتا ہے۔
اس پر یہ اعتراض بھی کیا جا سکتا ہے کہ پھرایک مذہب والے دوسرے مذہب سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟
اس اعتراض کا جواب بالکل سادہ ہے کہ کسی بھی مذہب کی حقیقی تعلیم میں نفرت نہیں۔ بلکہ ہر مذہب صلح اور امن کی تعلیم دیتا ہے۔ لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ جب لوگوں میں عمل کی کمی ہو جاتی ہے اور وہ حقیقی تعلیم سے دور ہو جاتے ہیں تو مذہبی راہنما اپنی غلطیوں کو چھپانے کے لیے نفرت پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ مذہب کی حقیقی تعلیم جو انبیاء لے کر آتے ہیں اس میں نفرت ہوتی ہے۔ ہر گز نہیں۔ ہجرت حبشہ کے موقعہ پر مسلمان جب نجاشی کے سامنے پیش ہوئے اور نجاشی نے اسلامی تعلیمات اور حضرت عیسیٰ ؑ کے متعلق پوچھا تو اس نے بھی یہی جواب دیا کہ ان کا عقیدہ بھی وہی ہے جو مسلمانوں کا ہے۔ قرآن کریم بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ تمام مذاہب اور انبیاء خدا ہی کی طرف سے تھے۔ اور کسی سے نفرت کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ سب کو اپنے اپنے وقت کا راہنما قرار دیتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:قُلۡ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَمَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡنَا وَمَاۤ اُنۡزِلَ عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ وَاِسۡمٰعِیۡلَ وَاِسۡحٰقَ وَیَعۡقُوۡبَ وَالۡاَسۡبَاطِ وَمَاۤ اُوۡتِیَ مُوۡسٰی وَعِیۡسٰی وَالنَّبِیُّوۡنَ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۪ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ ۫ وَنَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ(آل عمران:۸۵)تُو کہہ دے ہم ایمان لے آئے اللہ پر اور اس پر جو ہماری طرف اتارا گیا اور جو ابراہیم پر اتارا گیا اور اسماعیل پر اور اسحٰق پر اور یعقوب پر اور (اس کی) نسلوں پر اور جو موسیٰ اور عیسیٰ کو اور جو نبیوں کو اُن کے ربّ کی طرف سے دیا گیا۔ ہم ان میں سے کسی کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے اور ہم اسی کی فرمانبرداری کرنے والے ہیں۔
نفرت پیدا کرنا تو دور کی بات اسلام تو یہ کہتا ہے کہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو ایک جگہ جمع کیا جائے اور ان میں جو چیزیں مشترک ہیں اس پر سب اکٹھے ہو جائیں اور آپس میں صلح و صفائی سے امن کی زندگی گزاریں۔ چنانچہ اسلام تو یہ اعلان کرتا ہے کہ تمام مذاہب میں خدا کی وحدانیت کی تعلیم ہے اس پر سب اکٹھے ہو جائیں۔ اسلام تو یہ اعلان کرتا ہے:قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَبَیۡنَکُمۡ اَلَّا نَعۡبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَلَا نُشۡرِکَ بِہٖ شَیۡئًا وَّلَا یَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُوۡلُوا اشۡہَدُوۡا بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ (آل عمران: ۶۵)تُو کہہ دے اے اہل کتاب! اس کلمہ کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی چیز کو اُس کا شریک ٹھہرائیں گے اور ہم میں سے کوئی کسی دوسرے کو اللہ کے سوا ربّ نہیں بنائے گا۔ پس اگر وہ پھر جائیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہنا کہ یقینا ًہم مسلمان ہیں۔
اسلام تو یہ تعلیم دیتا ہے کہ صرف مذاہب ہی نہیں بلکہ تمام رنگ و نسل کے لوگ اور دنیا کے تمام کونوں میں آباد لوگوں میں کسی کو کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ بحیثیت انسان سب لوگ برابر ہیں۔ مختلف جگہوں پر آباد مختلف رنگ و نسل کے لوگ صرف پہچان کی غرض سے ہیں ورنہ دنیا کے تمام لوگ برابر ہیں۔ فرمایا:یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّاُنۡثٰی وَجَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡۡ(الحجرات: ۱۴)اے لوگو! یقیناً ہم نے تمہیں نر اور مادہ سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بلا شبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متّقی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے بھی حجۃ الوداع کے موقع پر یہی تعلیم دی کہ تمام بنی آدم بحیثیت انسان برابر ہیں، کوئی انسان کسی پر فضیلت نہیں رکھتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:يَاأَيُّهَا النَّاسُ، أَلَا إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ، وَإِنَّ أَبَاكُمْ وَاحِدٌ، أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى عَجَمِيٍّ، وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ، وَلَا أَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ، وَلَا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ، إِلَّا بِالتَّقْوَى۔ أَبَلَّغْتُ؟ لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے، غور سے سنو! کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی گورے کو کالے پر اور کسی سیاہ کو گورے پر کوئی فضیلت و برتری حاصل نہیں۔
اسلام تو نفرتوں کو ختم کرنے کے لیے یہاں تک تعلیم دیتا ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے جذبات کا ہر طرح سے خیال رکھا جائے۔ ان کی معزز شخصیات اور ان کے معبودوں پر بھی سَب و ستم نہ کیا جائے۔ ان کے جذبات کا ہر طرح سے خیال رکھنے کا حکم دیتا ہے کجا یہ کہ مختلف مذاہب والوں کے درمیان نفرت پیدا کی جائے۔ چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے:وَلَا تَسُبُّوا الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدۡوًۢا بِغَیۡرِ عِلۡمٍٍ (الانعام:۱۰۹)اور تم ان کو گالیاں نہ دو جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ورنہ وہ دشمنی کرتے ہوئے بغیر علم کے اللہ کو گالیاں دیں گے۔
اسلام جس حسین معاشرے کی تلقین کرتا ہے وہ تو ایسا ہے جس میں سب امن و محبت کےساتھ رہیں اور جہاں کسی قسم کا تعصب، حسد اور نفرت نہ ہو۔ اسلام مومنوں کو آپس میں مل جل کر رہنے اور بھائی چارہ اخیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ فرمایا: اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَۃٌ فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَ اَخَوَیۡکُمۡ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ (الحجرات: ۱۱)مومن تو بھائی بھائی ہوتے ہیں۔ پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کروایا کرو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔
ایک دوسری جگہ صحابہ کی مثال دے کر فرماتا ہے کہ وہ آپس میں رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ کی مثال ہوتے ہیں۔ آپس میں شدید محبت و الفت کے رشتہ میں بندھے ہوئے ہوتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنی بعثت کا مقصد یہی بیان فرمایا ہے کہ تا لوگوں سے نفرتوں اور جرائم کا خاتمہ کیا جائے اور اعلیٰ ترین اخلاق قائم کیے جائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ۔یعنی میں دنیا میں اسی لیے مبعوث کیا گیا ہوں تاکہ اعلیٰ اخلاق قائم کر سکوں۔
اس بیان کے بعد کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ انبیاء یا مذہب دنیا میں جرائم یا نفرت کا موجب ہوتے ہیں؟ اور یہ صرف دعویٰ نہیں بلکہ انبیاء کی زندگیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ لوگ دنیا میں اعلیٰ اخلاق قائم کرتے ہیں۔ تمام تر مخالفتوں اور زیادتیوں کے باوجود خدا کے یہ بندے ہمیشہ صلح کی بنیاد رکھتے ہیں اور نفرتوں کے بدلے میں محبتوں کے پیغام بھیجتے ہیں۔ ان کے خلاف قتل اور دیگر جرائم کا ارتکاب کیا جاتا ہے لیکن یہ لوگ صبر سے کام لیتے ہیں اور ظلم کا بدلہ ظلم سے لینے کی بجائے اعلیٰ اخلاق کا ثبوت دیتے ہوئے عفو و درگزر سے کام لیتے ہیں۔ اور اس تعلیم پر عمل پیرا ہوتے ہیں کہ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَلَاتُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَاللّٰہُ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (النور: ۲۳) کہ پس چاہئے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں۔ کیا تم یہ پسندنہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
دنیامیں تمام مذاہب نے ایسی ہی تعلیم دی ہے۔ مختلف مذاہب کی تعلیم کا بغور جائزہ لیا جائے تو صبر اور عدم تشدد سے بھری پڑی ہیں۔ لیکن ان سب میں اسلام ایسا مذہب ہے جس کی تعلیم سب سے اعلیٰ درجہ پر فائز ہے۔ رسول اللہؐ نے تو مسلمان کی تعریف ہی یہ فرمائی کہ مسلمان وہ ہوتا ہے جو جرائم سے دُور رہتا اور لوگوں کے لیے سلامتی کا باعث بنتا ہے۔ آپﷺ نے مسلمان کی تعریف یوں بیان فرمائی کہالمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ۔مسلمان (یعنی حقیقی اسلامی مذہبی تعلیم پر عمل کرنے والا) وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ رہیں۔ یعنی جو جرائم کا ارتکاب کرتا اور نفرت رکھتا ہے وہ مذہبی تعلیم پر عمل کرنے والا ہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ مذہب اسلام تو ان چیزوں سے روکتا ہے۔
ایک اور موقعہ پر آپ ﷺ نے فرمایا: لَا يَزْنِي الزَّانِيْ حِيْنَ يَزْنِيْ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَسْرِقُ حِيْنَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ۔جب زنا کرنے والا زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا اور اسی طرح جب چور چوری کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔
ایک دوسری حدیث میں ان الفاظ کا بھی اضافہ ہے کہ وَلَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِيْنَ يَشْرَبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ۔ یعنی جب کوئی شراب پیتا ہے تو وہ بھی مومن نہیں رہتا یہاں تک کہ توبہ کر لیتا۔
ان احادیث سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کوئی بھی جرم خواہ کتنا چھوٹا ہی کیوں نہ ہو وہ دراصل مذہب کی تعلیم کے خلاف ہے۔ اور اس کے ارتکاب کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس مذہب پر عمل نہیں ہو رہا۔ مذہب تو یہ پابندیاں اس وجہ سے لگاتا ہے کہ لوگ جرائم سے دور رہیں اور معاشرے میں امن قائم رہے۔ ان احادیث سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام یا مذہب جرائم کی ترغیب نہیں دیتا بلکہ ان سے روکتا ہے۔
ایک حسین معاشرہ کے قیام اور رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ کا مصداق بننے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے جو تعلیم دی ہے اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ مذہب کی اصل غرض اعلیٰ اخلاق کا قیام اور جرائم و نفرت کا خاتمہ ہے۔اسلام کی تعلیم پیار اور محبت کی تعلیم ہے۔ آپس میں صلح و آشتی کی تعلیم ہے۔ چند حدیثیں پیش کرتا ہوں جن سے یہ واضح ہوگا کہ اسلام نفرت نہیں بلکہ پیار و محبت کی تعلیم دیتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُس شخص کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں جو چھوٹے پر رحم نہیں کرتا، بڑوں کا احترام نہیں پہچانتا۔(سنن الترمذی کتاب البر و الصلۃ باب ما جاء فی رحمۃالصبیان حدیث نمبر۱۹۲۰)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کی عیال ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوقات میں سے وہ شخص پسند ہے جو اُس کے عیال کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے۔ اور اُن کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔ (الجامع لشعب الایمان للبیہقی جلدنمبر۹ صفحہ نمبر۵۲۳ کتاب التاسع والأربعون من شعب الایمان و ھو باب فی طاعۃ أولی الأمر بفصولھا حدیث نمبر۷۰۴۸ مکتبۃ الرشد ۲۰۰۴ء)
حضرت عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: رحم کرنے والوں پر رحمان خدا رحم کرے گا۔ اہلِ زمین پر رحم کرو تو آسمان پر اللہ تم پر رحم کرے گا۔ (سنن الترمذی کتاب لابر و الصلۃ باب ما جاء فی رحمۃ المسلمین حدیث نمبر۱۹۲۴)
پھر اسی طرح حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: تین باتیں جس میں ہوں اللہ تعالیٰ اُسے اپنی حفاظت اور رحمت میں رکھے گا اور اُسے جنت میں داخل کرے گا۔ پہلی یہ کہ وہ کمزوروں پر رحم کرے۔ دوسری یہ کہ وہ ماں باپ سے محبت کرے۔ تیسری یہ کہ خادموں اور نوکروں سے اچھا سلوک کرے۔ (سنن الترمذی کتاب القیامۃ و الرقائق باب ۱۱۳/۴۸حدیث نمبر۲۴۰۴)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے۔ نرمی کو پسند کرتا ہے۔ نرمی کا جتنا اجر دیتا ہے اُتنا سخت گیری کا نہیں دیتا بلکہ کسی اور نیکی کا بھی اتنا اجر نہیں دیتا۔(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب باب فضل الرفق حدیث نمبر۶۶۰۱)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے روایت کی ہے کہ کسی چیز میں جتنا بھی رِفق اور نرمی ہو اُتنا ہی یہ اُس کے لیے زینت کا موجب بن جاتا ہے۔ اُس میں خوبصورتی پیدا ہوتی ہے اور جس سے رفق اور نرمی چھین لی جائے وہ اتنی ہی بدنما ہو جاتی ہے۔ سختی جو ہے وہ(عمل کو بھی) بدنما کر دیتی ہے۔ (صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب باب فضل الرفق حدیث نمبر۶۶۰۲) اور لوگ پھر اُس سے دور بھاگتے ہیں۔ یعنی رِفق اور نرمی میں حُسن ہی حُسن ہے۔
حضرت ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: کیا مَیں تم کو بتاؤں کہ آگ کس پر حرام ہے؟ وہ حرام ہے ہر اُس شخص پر جو لوگوں کے قریب رہتا ہے۔ (سنن الترمذی کتاب القیامۃوالرقائق حدیث نمبر۲۴۸۸) یعنی لوگوں سے نفرت نہیں کرتا۔ اُن سے نرم سلوک کرتا ہے۔ اُن کے لیے آسانی مہیا کرتا ہے اور سہولت پسند ہے۔
پھر حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ایک دوسرے سے بُغض نہ رکھو۔ حسدنہ کرو۔ بے رُخی اور بے تعلقی اختیار نہ کرو۔ باہمی تعلقات نہ توڑو بلکہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض رہے اور اُس سے قطع تعلق رکھے۔ (صحیح البخاری کتاب الادب باب الھجرۃ حدیث نمبر۶۰۷۶)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ ایک دوسرے سے حسدنہ کرو۔ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لیے بڑھ چڑھ کر بھاؤ نہ بڑھاؤ۔ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو۔ ایک دوسرے سے پیٹھ نہ موڑو۔ یعنی بے تعلقی کا رویہ اختیار نہ کرو۔ ایک دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔ مسلمان اپنے بھائی پر ظلم نہیں کرتا۔ اُس کی تحقیر نہیں کرتا۔ اُس کو شرمندہ یا رُسوا نہیں کرتا۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے سینہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔ تقویٰ یہاں ہے۔ اور یہ الفاظ آپؐ نے تین دفعہ دہرائے۔ پھر فرمایا۔ انسان کی بدبختی کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقارت کی نظر سے دیکھے۔ ہر مسلمان کا خون، مال اور عزت اور آبرو دوسرے مسلمان پر حرام اور اُس کے لیے واجب الاحترام ہے۔ (صحیح مسلم کتاب البر والصلۃوالآداب باب تحریم ظلم المسلم و خذلہ و احتقارہ و دمہ وعرضہ ومالہ حدیث نمبر۶۵۴۱)
حضرت ابوہریرہؓ بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا۔ کہاں ہیں وہ لوگ جو میرے جلال اور میری عظمت کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ آج جبکہ میرے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں۔ مَیں اُنہیں اپنے سایہ رحمت میں جگہ دوں۔ (صحیح مسلم کتاب البر و الصلۃوالآداب باب فی فضل الحب فی اللّٰہ تعالیٰ حدیث نمبر۶۵۴۸)
بعض لوگ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ دین اور مذہب زبردستی اپنے رستے پر چلاتے ہیں ۔ انسان کی آزادی کو سلب کرتے ہیں اور بے وجہ پابندیاں لگاتے ہیں۔ دراصل یہ اعتراض بھی حقیقت کے خلاف ہے۔ کیونکہ دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں جہاں پر قوانین نہ ہوں اور اس کی گورنمنٹ ان قوانین پر عمل درآمد نہ کرواتی ہو۔ لیکن اس کے باوجود مذہب انسان کو اختیار دیتا ہے اور کسی پر زور زبردستی نہیں کرتا۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہوَمَا جَعَلَ عَلَیۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ مِنۡ حَرَجٍ(الحج: ۷۹) یعنی دین کی تعلیم میں تم پر کوئی بھی تنگی کا پہلو نہیں ڈالا گیا بلکہ شریعت کی غرض تو انسان کے بوجھوں کو کم کرنا اور صرف یہی نہیں بلکہ اسے ہر قسم کے مصائب اور خطرات سے بچانا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں واضح کیا گیا ہے کہ مذہب یعنی دین اسلام جو تمہارے لیے نازل کیا گیا ہے اس میں کوئی بھی ایسا حکم نہیں جو تمہیں مشکل میں ڈالے بلکہ چھوٹے سے چھوٹے حکم سے لے کر بڑے سے بڑے حکم تک ہر حکم رحمت اور برکت کا باعث ہے۔
دوسری جگہ اسی حکم کو یوں بھی بیان کیا گیا ہے کہ لَآاِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ دین میں کوئی جبر نہیں۔
لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ انسان کو جرائم کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی جائے۔ کیونکہ انسان لامحدود نہیں ہے اس لیے اس کو لا محدود آزادی بھی حاصل نہیں ہے۔ انسان جس قدر بھی آزاد ہو جائے وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے کھانے کی حاجت نہیں رہی۔ میں کھائے پیئے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہوں۔ یا مجھے قضائے حاجت کا قانون پسند نہیں اس وجہ سے میں اس سے آزاد ہو جاؤں۔ یا میں جس مرضی کے ساتھ جیسا مرضی رویہ رکھوں کوئی مجھے پوچھ نہیں سکتا۔ یہ ناممکن ہے۔ اسی طرح مذہب کی تعلیم کو اختیار کرنا یا کرنے کا اختیار تو انسان کو حاصل ہے لیکن وہ ذاتی حیثیت تک محدود ہے۔ جہاں بات جرائم کی آ جائے یا معاشرے کے امن میں نقص پیدا ہو وہاں مذہب لازماً قدغن لگاتا ہے اور ان جرائم کی روک تھام کے لیے اقدامات کرتا ہے۔ پس انسان کی سوچ غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا مذہب اوراس کے قوانین ہرگز غلط نہیں ہو سکتے۔
ان تمام مندرجہ بالا دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ مذہب انسان کی اصلاح کے لیے ہے اور مذہب ہی انسان کو اعلیٰ اخلاق تک لے جانے والا اور جرائم و نفرتوں سے دُور کرنے کا سبب بنتا ہے۔ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے تمام خوبیاں رکھ تو دی ہیں لیکن مذہب ہی انسان کو بتاتا ہے کہ کب ان کا استعمال درست ہے اور کب غلط۔ اور مذہب ہی انسان کو ان اعلیٰ اخلاق کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: ’’پس جب انسان ان تمام قوتوں کو موقع اور محل کے لحاظ سے استعمال کرتا ہے تو اس وقت ان کا نامُ خلق رکھا جاتا ہے۔ اللہ جلشانہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کرکے فرماتا ہے۔ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ(القلم:۵) یعنی تو ایک بزرگ خُلق پر قائم ہے۔ سو اسی تشریح کے مطابق اس کے معنے ہیں یعنی یہ کہ تمام قسمیں اخلاق کی سخاوت، شجاعت، عدل، رحم، احسان، صدق، حوصلہ وغیرہ تجھ میں جمع ہیں۔ غرض جس قدر انسان کے دل میں قوتیں پائی جاتی ہیں جیسا کہ ادب، حیا، دیانت، مروت، غیرت، استقامت، عفت، زہادت، اعتدال، مؤاسات یعنی ہمدردی۔ ایسا ہی شجاعت، سخاوت، عفو، صبر، احسان، صدق، وفا وغیرہ جب یہ تمام طبعی حالتیں عقل اور تدبر کے مشورہ سے اپنے اپنے محل اور موقع پر ظاہر کی جائیں گی تو سب کا نام اخلاق ہوگا۔اور یہ تمام اخلاق درحقیقت انسان کی طبعی حالتیں اور طبعی جذبات ہیں اور صرف اس وقت اخلاق کے نام سے موسوم ہوتے ہیں کہ جب محل اور موقعہ کے لحاظ سے بالارادہ ان کو استعمال کیا جائے۔ چونکہ انسان کے طبعی خواص میں سے ایک یہ بھی خاصہ ہے کہ وہ ترقی پذیر جاندار ہے اس لئے وہ سچے مذہب کی پیروی اور نیک صحبتوں اور نیک تعلیموں سے ایسے طبعی جذبات کو اخلاق کے رنگ میں لے آتا ہے۔ اور یہ امر کسی اور جاندار کیلئے نصیب نہیں۔‘‘(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰صفحہ ۳۳۳)
نیز فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے یہ ارادہ کیا ہے کہ وہ دنیا کو تقویٰ اور طہارت کی زندگی کا نمونہ دکھائے اس غرض کے لئے اس نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے وہ تطہیر چاہتا ہے اور ایک پاک جماعت بنانا اس کا منشاء ہے‘‘۔(ملفوظات جلد سوم صفحہ۸۳ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
(’م۔ف۔ملک‘)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: وسعتِ کائنات