(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۹؍ دسمبر ۲۰۱۷ء)
آپ [حضرت مسیح موعودؑ] دعا کی اہمیت بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں۔ تھکتے نہیں۔ کیونکہ ایک دن رہائی پائیں گے۔ مبارک وہ اندھے جو دعاؤں میں سست نہیں ہوتے کیونکہ ایک دن دیکھنے لگیں گے۔ مبارک وہ جو قبروں میں پڑے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خدا کی مدد چاہتے ہیں کیونکہ ایک دن قبروں سے باہر نکالے جائیں گے۔‘‘
پھر آپ ہمیں توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’مبار ک تم جب کہ دعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے۔‘‘ (کبھی تھکتے نہیں۔ سستی نہیں دکھاتے۔) ’’اور تمہاری روح دعا کے لئے پگھلتی اور تمہاری آنکھ آنسو بہاتی اور تمہارے سینہ میں ایک آگ پیدا کر دیتی ہے۔ اور تمہیں تنہائی کا ذوق اٹھانے کے لئے اندھیری کوٹھڑیوں اور سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہے۔ اور تمہیں بے تاب اور دیوانہ اور از خود رفتہ بنا دیتی ہے کیونکہ آخر تم پر فضل کیا جاوے گا‘‘۔ (یہ حالات ایک جیسے نہیں رہنے۔ ان دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کا فضل ان شاء اللہ آئے گا) ’’وہ خدا جس کی طرف ہم بلاتے ہیں نہایت کریم و رحیم، حیا والا، صادق، وفادار، عاجزوں پر رحم کرنے والا ہے۔ پس تم بھی وفادار بن جاؤ اور پورے صدق اور وفا سے دعا کرو کہ وہ تم پر رحم فرمائے گا۔ دنیا کے شور و غوغا سے الگ ہو جاؤ اور نفسانی جھگڑوں کا دین کو رنگ مت دو۔ خدا کے لئے ہار اختیار کر لو اور شکست کو قبول کرلو تابڑی بڑی فتحوں کے تم وارث بن جاؤ۔ دعا کرنے والوں کو خدا معجزہ دکھائے گا اور مانگنے والوں کو ایک خارق عادت نعمت دی جائے گی۔ دعا خدا سے آتی ہے اور خدا کی طرف ہی جاتی ہے۔ دعا سے خدا ایسا نزدیک ہو جاتا ہے جیسا کہ تمہاری جان تم سے نزدیک ہے۔ دعا کی پہلی نعمت یہ ہے کہ انسان میں پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ پھر اس تبدیلی سے خدا بھی اپنی صفات میں تبدیلی کرتا ہے اور اس کے صفات غیر متبدّل ہیں مگر تبدیلی یافتہ کے لئے اس کی ایک الگ تجلّی ہے۔‘‘ (خدا کی صفات میں تبدیلیاں نہیں ہوتیں بلکہ ان کا جو اظہار ہے وہ جب انسان اپنے اندر تبدیلی پیدا کرتا ہے تو بدل جاتا ہے) ’’جس کو دنیا نہیں جانتی‘‘۔ فرمایا کہ ’’گویاوہ اور خدا ہے۔ حالانکہ اور کوئی خدا نہیں مگر نئی تجلّی نئے رنگ میں اس کو ظاہر کرتی ہے۔ تب اس خاص تجلّی کے شان میں اس تبدیل یافتہ کے لئے وہ کام کرتا ہے جو دوسروں کے لئے نہیں کرتا۔ یہی وہ خوارق ہیں‘‘۔ (لیکچرسیالکوٹ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۲۲-۲۲۳)
افراد جماعت کونمازوں، دعاؤں اور نیک اعمال کی طرف توجہ دلاتے ہوئےاور اسی طرح اپنے نیک نمونے دکھانے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپؑ نے فرمایا کہ
’’ہماری جماعت کے لوگوں کو نمونہ بن کر دکھانا چاہئے۔ اگر کسی کی زندگی بیعت کے بعد بھی اسی طرح کی ناپاک اور گندی زندگی ہے جیسا کہ بیعت سے پہلے تھی اور جو شخص ہماری جماعت میں ہو کر برا نمونہ دکھاتا ہے اور عملی یا اعتقادی کمزوری دکھاتا ہے تو وہ ظالم ہے کیونکہ وہ تمام جماعت کو بدنام کرتا ہے اور ہمیں بھی اعتراض کا نشانہ بناتا ہے۔ برے نمونے سے اور وں کو نفرت ہوتی ہے اور اچھے نمونے سے لوگوں کو رغبت پیدا ہوتی ہے‘‘۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ’’انسان کا آج اور کل برابر نہیں ہونے چاہئیں۔‘‘ (یہ مثالیں پہلے بھی آ چکی ہیں۔) ’’جس کا آج اور کل اس لحاظ سے کہ نیکی میں کیا ترقی کی ہے برابر ہو گیا وہ گھاٹے میں ہے۔ انسان اگر خدا کو ماننے والا اور اسی پر کامل ایمان رکھنے والا ہو تو کبھی ضائع نہیں کیا جاتا بلکہ اس ایک کی خاطر لاکھوں جانیں بچائی جاتی ہیں۔‘‘(ملفوظات جلد ۱۰صفحہ ۱۳۷-۱۳۸۔ ایڈیشن ۱۹۸۴ء )
جیسا کہ مثال بھی دی کہ ایک ولی اللہ جہاز پہ تھے تو ان کی خاطر دوسرے بھی بچائے گئے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی اتنی غیرت رکھتا ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ ہمارا ہتھیار تو دعا ہے۔ اس لئے دعاؤں کی طرف ہی توجہ دینی چاہئے۔ فرمایا کہ ’’مسیح موعود کے متعلق کہیں یہ نہیں لکھا کہ وہ تلوار پکڑے گا اور نہ یہ لکھا ہے کہ وہ جنگ کرے گا بلکہ یہی لکھا ہے کہ مسیح کے دم سے کافر مریں گے۔ یعنی وہ اپنی دعا کے ذریعہ سے تمام کام کرے گا‘‘۔ اور فرمایا کہ ’’یہ سب مقاصد جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں صرف دعا کے ذریعہ سے حاصل ہو سکیں گے۔ دعا میں بڑی قوتیں ہیں‘‘۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک بادشاہ ایک ملک پر چڑھائی کرنے کے واسطے نکلا۔ راستے میں ایک فقیر نے اس کے گھوڑے کی باگ پکڑ لی‘‘۔ (یہ کہاوت بنی ہے۔) ’’اور کہا کہ تم آگے مت بڑھو ورنہ میں تمہارے ساتھ لڑائی کروں گا۔ بادشاہ حیران ہوا اور اس سے پوچھا کہ تُو ایک بے سروسامان فقیر ہے تُو کس طرح میرے ساتھ لڑائی کرے گا؟ فقیر نے جواب دیا کہ مَیں صبح کی دعاؤں کے ہتھیار سے تمہارے مقابلے میں جنگ کروں گا‘‘۔ (یعنی تہجد کی نمازوں سے، دعاؤں سے۔)’’بادشاہ نے کہا مَیں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ یہ کہہ کر وہ واپس چلا گیا‘‘۔ (تو اتنی طاقت ہے دعاؤں کی۔ اس بات کو آپ بیان فرما رہے ہیں۔) فرمایا کہ’’غرض دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں۔ خداتعالیٰ نے مجھے بار بار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہو گا دعا ہی کے ذریعہ سے ہو گا۔ ہمارا ہتھیار تو دعا ہی ہے اور اس کے سوائے اَور کوئی ہتھیار میرے پاس نہیں۔ جو کچھ ہم پوشیدہ مانگتے ہیں خدا تعالیٰ اس کو ظاہر کر کے دکھا دیتا ہے۔ گزشتہ انبیاء کے زمانے میں بعض مخالفین کو نبیوں کے ذریعہ سے بھی سزا دی جاتی تھی۔‘‘ (یعنی جنگوں کی صورت میں بھی دی گئی) ’’مگر خدا جانتا ہے کہ ہم ضعیف اور کمزور ہیں۔ اس واسطے اس نے ہمارا سب کام اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ اسلام کے واسطے اب یہی ایک راہ ہے جس کو خُشک مُلّا اور خشک فلسفی نہیں سمجھ سکتا۔ اگر ہمارے واسطے لڑائی کی راہ کھلی ہوتی تو اس کے لئے تمام سامان بھی مہیا ہو جاتے۔ جب ہماری دعائیں ایک نکتہ پر پہنچ جائیں گی تو جھوٹے خود بخود تباہ ہو جائیں گے‘‘۔ (پس یہ ایک نکتہ ہے جو سمجھنے والا ہے جو آپ نے فرمایا کہ ہماری دعائیں جب ایک نکتہ پر پہنچ جائیں گی، اس معیار پر پہنچ جائیں گی جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تو پھر تمام جھوٹے خود بخود تباہ ہو جائیں گے۔ آپ کے زمانے میں جتنے مخالفین تھے وہ آپ کے سامنے ذلیل و خوار ہی ہوئے اور آج بھی اگر دشمن پر اگر فتح پانی ہے تو ان دعاؤں کے ذریعہ سے ہی پائی جا سکتی ہے اور اس کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔)
آپ فرماتے ہیں کہ ’’ہمارے نزدیک دعا سے بڑھ کر اور کوئی تیز ہتھیار ہی نہیں۔ سعید وہ ہے جو اس بات کو سمجھے کہ خدا تعالیٰ اب دین کو کس راہ سے ترقی دینا چاہتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 9صفحہ 27-28۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس اللہ تعالیٰ نے دین کی ترقی کا جو ہتھیار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیا ہے وہی آپ کے ماننے والوں کو بھی استعمال کرنا ہو گا۔ یہی ہتھیار ہے جو ہمیں انشاء اللہ تعالیٰ مشکلات سے بھی نکالے گا اور باقی دشمن کو بھی خائب و خاسر کرےگا۔ پس اس طرف ہر احمدی کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک دعا ہے جو آپ نے مُسلم اُمہ کے لئے بھی کی۔ ہمارے جو غیر از جماعت مسلمان بھائی ہیں ان کے لئے بھی عمومی طور پر کی۔ آپ فرماتے ہیں: …اے میرے ربّ! میری قوم کے بارے میں میری دعا اور میرے بھائیوں کے بارے میں میری گریہ و زاری سن۔ مَیں تیرے نبی خاتم النبیین اور گناہگاروں کے شفیع جس کی شفاعت قبول کی جائے گی کے واسطے تجھ سے عرض کرتا ہوں۔ اے میرے رب انہیں ظلمات سے اپنے نور کی طرف نکال لے آ اور دُوری کے دشت سے اپنے حضور لے آ۔ اے میرے رب ان پر رحم کر جو مجھ پر لعنت کرتے ہیں اور جو میرے ہاتھ کاٹتے ہیں۔ اس قوم کو ہلاکت سے بچا اور اپنی ہدایت کو ان کے دلوں میں داخل فرما اور ان کی خطاؤں اور گناہوں سے درگزر فرما اور ان کو بخش دے اور ان کو عافیت عطا فرما اور ان کی اصلاح فرما اور ان کو پاک فرما۔ ان کو ایسی آنکھیں عطا فرما جن سے وہ دیکھ سکیں۔ ایسے کان عطا فرما جن سے وہ سن سکیں اور ایسے دل عطا فرما جن سے وہ سمجھ سکیں اور ایسے انوار عطا فرما جن سے وہ سمجھ سکیں اور ان پر رحم فرما اور جو کچھ وہ کہتے ہیں ان سے درگذر فرما کیونکہ وہ ایسی قوم ہیں جو جانتے نہیں۔ اے میرے ربّ! حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بلند مقام کے صدقے اور ان کے صدقے جو راتوں کو قیام کرتے اور صبح کے وقت جنگ کرتے ہیں اور ان سواریوں کے صدقے جو تیری (رضا کی) خاطر ر اتوں کو سفر کرنے کے لئے تیار کی جاتی ہیں اور ان سفروں کے صدقے جو اُمّ القریٰ کی طرف کئے جاتے ہیں ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے درمیان صلح کے سامان فرما۔ اور ان کی آنکھیں کھول۔ اور ان کے دلوں کو منور فرما۔ اور انہیں وہ کچھ سمجھا دے جو تُو نے مجھے سمجھایا ہے اور ان کو تقویٰ کے طریق سکھا اور جو کچھ گزر چکا اس سے درگذر فرما۔ ہماری آخری دعا یہی ہے کہ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جو بلند آسمانوں کا رب ہے۔ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 22-23)
مزید پڑھیں: اللہ تعالیٰ بےحساب دیتا ہے