قرآن کہتاہے کہ والدین کی عزت و احترام کرو
اس آیت [بنی اسرائیل:۲۴، ۲۵]میں سب سے پہلے یہ بات بیان فرمائی کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور وہ خدا جس نے تمہیں اس دنیا میں بھیجا اور تمہیں بھیجنے سے پہلے قسما قسم کی تمہاری ضروریات کا خیال رکھااور اس کا انتظام بھی کردیا۔ اور پھر یہ کہ اس کی عبادت کرکے اور اس کا شکر اداکرکے تم اس کے فضلوں کے وارث ٹھہروگے اور سب سے بڑا فضل جو اس نے ہم پر کیاوہ یہ ہے کہ تمہیں ماں باپ دئے جنہوں نے تمہاری پرورش کی، بچپن میں تمہاری بے انتہاء خدمت کی، راتوں کو جاگ جاگ کر تمہیں اپنے سینے سے لگایا۔ تمہاری بیماری اور بے چینی میں تمہاری ماں نے بے چینی اور کرب کی راتیں گزاریں، اپنی نیندوں کو قربان کیا، تمہاری گندگیوں کو صاف کیا۔ غرض کہ کون سی خدمت اور قربانی ہے جو تمہاری ماں نے تمہارے لئے نہیں کی۔ اس لئے آج جب ان کو تمہاری مدد کی ضرورت ہے تم منہ پرے کر کے گزر نہ جاؤ، اپنی دنیا الگ نہ بساؤاور یہ نہ ہو کہ تم ان کی فکر تک نہ کرو۔ اور اگر وہ اپنی ضرورت کے لئے تمہیں کہیں تو تم انہیں جھڑکنے لگ جاؤ۔ فرمایا :نہیں، بلکہ وہ وقت یاد کرو جب تمہاری ماں نے تکالیف اٹھاکر تمہاری پیدائش کے تمام مراحل طے کئے۔ پھر جب تم کسی قسم کی کوئی طاقت نہ رکھتے تھے، تمہیں پالا پوسا، تمہاری جائز وناجائز ضرورت کو پورا کیا۔ اور آج اگر وہ ایسی عمر کو پہنچ گئے ہیں جہاں انہیں تمہاری مدد کی ضرورت ہے جو ایک لحاظ سے ان کی اب بچپن کی عمر ہے، کیونکہ بڑھاپے کی عمر بھی بچپن سے مشابہ ہی ہے۔ ان کو تمہارے سہارے کی ضرورت ہے۔ تو تم یہ کہہ دو کہ نہیں، ہم تو اپنے بیوی بچوں میں مگن ہیں ہم خدمت نہیں کرسکتے۔ اگر وہ بڑھاپے کی وجہ سے کچھ ایسے الفاظ کہہ دیں جو تمہیں ناپسند ہوں تو تم انہیں ڈانٹنے لگ جاؤ، یا مارنے تک سے گریز نہ کرو۔ بعض لوگ اپنے ماں باپ پر ہاتھ بھی اٹھا لیتے ہیں۔ مَیں نے خود ایسے لوگوں کودیکھاہے، بہت ہی بھیانک نظارہ ہوتاہے۔ اُف نہ کرنے کا مطلب یہی ہے کہ تمہاری مرضی کی بات نہ ہوبلکہ تمہارے مخالف بات ہوتب بھی تم نے اُف نہیں کرنا۔ اگر ماں باپ ہر وقت پیار کرتے رہیں، ہربات مانیں، ہروقت تمہاری بلائیں لیتے رہیں، لاڈ پیار کرتے رہیں پھرتو ظاہر ہے کوئی اُف نہیں کرتا۔ فرمایا کہ تمہاری مرضی کے خلاف باتیں ہوں تب بھی نرمی سے، عزت سے، احترام سے پیش آنا ہے۔ اور نہ صرف نرمی اور عزت و احترام سے پیش آنا ہے بلکہ ان کی خدمت بھی کرنی ہے۔ اور اتنی پیار، محبت اور عاجزی سے ان کی خدمت کرنی ہے جیسی کہ کوئی خدمت کرنے والا کرسکتاہو۔
(خطبہ جمعہ ۱۶؍ جنوری ۲۰۰۴ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۲؍ مارچ ۲۰۰۴ء)
مزید پڑھیں: ہماری مساجد امن کا نشان ہیں