کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

والدین ربوبیت کے مظہرہیں

جوشخص اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کرتا اور امور معروفہ میں جو خلاف قرآن نہیں ہیں ان کی بات کو نہیں مانتا اور ان کی تعہد خدمت سے لاپروا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔

(کشتی ٔنوح۔ روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ۱۹)

فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّلَا تَنۡہَرۡہُمَا وَقُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا (بنی اسرائیل:۲۴) یعنی اپنے والدین کو بیزاری کا کلمہ مت کہو اور ایسی باتیں ان سے نہ کر جن میں ان کی بزرگواری کا لحاظ نہ ہو۔ اس آیت کے مخاطب توآنحضرتﷺ ہیں لیکن دراصل مرجع کلام امت کی طر ف ہے کیونکہ آنحضرتﷺ کے والداور والدہ آپ کی خوردسالی میں ہی فوت ہوچکے تھے۔ اور اس حکم میں ایک راز بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس آیت سے ایک عقلمند سمجھ سکتاہے کہ جبکہ آنحضرتﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا گیاہے کہ تو اپنے والدین کی عزت کر اور ہر ایک بول چال میں ان کے بزرگانہ مرتبہ کا لحاظ رکھ تو پھر دوسروں کو اپنے والدین کی کس قدر تعظیم کرنی چاہئے۔ اور اسی کی طر ف یہ دوسری آیت اشارہ کرتی ہے۔ وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَبِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا (بنی اسرائیل:۲۴) یعنی تیرے رب نے چاہا ہے کہ تو فقط اسی کی بندگی کر اور والدین سے احسان کر۔ … اگر خدا جائز رکھتا کہ اس کے ساتھ کسی اور کی بھی پرستش کی جائے تو یہ حکم دیتا کہ تم والدین کی بھی پرستش کرو۔ کیونکہ وہ بھی مجازی رب ہیں۔ اور ہر ایک شخص طبعاً یہاں تک کہ درند چرند بھی اپنی اولاد کو ان کی خوردسالی میں ضائع ہونے سے بچاتے ہیں۔ پس خدا کی ربوبیت کے بعد ان کی بھی ایک ربوبیت ہے اور وہ جوش ربوبیت کا بھی خداتعالیٰ کی طرف سے ہے۔

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۲۱۳، ۲۱۴)

عارضی اور ظلی طور پر دو اور بھی وجود ہیں جو ربوبیت کے مظہرہیں۔ایک جسمانی طور پر، دوسرا روحانی طور پر۔ جسمانی طور پر والدین ہیں اور روحانی طور پر مرشد اور ہادی ہیں دوسرے مقام پر تفصیل کے ساتھ بھی ذکر فرمایا ہے۔ وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَبِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا۔(بنی اسرائیل:۲۴) یعنی خدا نے یہ چاہاہے کہ کسی دوسرے کی بندگی نہ کرو اور والدین سے احسان کرو۔ حقیقت میں کیسی ربوبیت ہے کہ انسان بچہ ہوتا ہے اور کسی قسم کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس حالت میں ماں کیاکیا خدمات کرتی ہے اور والد اس حالت میں ماں کی مہمات کا کس طرح متکفل ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ناتواں مخلوق کی خبرگیری کے لیے دو محل پیدا کر دیئے ہیں اور اپنی محبت کے انوار سے ایک پر تو محبت کا اُن میں ڈال دیا، مگر یاد رکھنا چاہیے کہ ماں باپ کی محبت عارضی ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت حقیقی ہے۔ اور جبتک قلوب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا القاء نہ ہو تو کوئی فرد بشر خواہ وہ دوست ہو یا کوئی برابر کے درجہ کا ہو یا کوئی حاکم ہو، کسی سے محبت نہیں کر سکتا اور یہ خدا کی کمال ربوبیت کا راز ہے کہ ماں باپ بچوں سے ایسی محبت کرتے ہیں کہ اُن کے تکفل میں ہر قسم کے دکھ شرح صدر سے اُٹھاتے ہیں یہاں تک کہ اُن کی زندگی کے لیے مرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ پس خدا تعالیٰ نے تکمیل اخلاق فاضلہ کے لیے رب الناس کے لفظ میں والدین اور مرشد کی طرف ایما فرمایا ہے تا کہ اس مجازی اور مشہود سلسلہ شکر گذاری سے حقیقی رب اور ہادی کی شکر گذاری میں لے لئے جائیں۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ ۳۱۵۔ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

مزید پڑھیں: مسجدوں کی اصل زینت نمازیوں کے ساتھ ہے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button