الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

یہ تاج غلام قادر کے سر پر رکھ دو

(ملفوظات جلد ۵صفحہ۱۵۹،۱۵۸۔ایڈیشن۱۹۸۸ء)

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں مکرمہ نادرہ یاسمین رامہ صاحبہ کے قلم سے محترم مرزا غلام قادر شہید کا تفصیلی ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔

۱۴؍اپریل ۱۹۹۹ء کو چار بدباطن دہشتگردوں نے شہید مرحوم کو ان کی زمینوں سے اغوا کرلیا۔ ان کا مقصد شیعہ جلسے میں فتنہ فساد پیدا کرکے جماعت احمدیہ کو ملوث کرنا تھا۔ صاحبزادہ صاحب نے اغوا کنندگان کی باتوں سے اندازہ لگا کر اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے جان کی بازی لگا دی۔ اپنی ذہنی اور علمی طاقتیں تو وہ پہلے ہی خدمتِ دین میں لگاچکے تھے، ایک جان کا قرض باقی تھا سو وہ بھی ادا کر دیا۔

شہید مرحوم کی والدہ محترمہ صاحبزادی قد سیہ بیگم صاحبہ تحریر کرتی ہیں کہ پندرہ سال کی عمر سے بھی چھوٹی عمر میں اپنی نیک نسل کے لیے دعائیں مانگتی تھی کہ میری نسل سے حضرت مسیح موعودؑ کے وارث پیدا ہوں اور مَیں خواتینِ مبارکہ میں شامل ہوجاؤں۔ ہر وقت ذکرِ الٰہی اور درود شریف وردِ زبان رہتا۔ مکّہ مدینہ میں بھی تڑپ تڑپ کر خدا تعالیٰ سے بھیک مانگنا یاد ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے قبولیتِ دعا کی بشارتیں بھی عطا فرماتا تھا۔ ایک دفعہ شادی سے پہلے تہجد کی نماز پڑھ رہی تھی۔ میری عمر اس وقت بیس سال تھی اور ابھی میری شادی نہیں ہوئی تھی۔ نفل پڑھنے کے دوران دیکھا آسمان سے ایک روشن چیز تیزی سے نیچے آئی ہے اور میری گود میں آکر غائب ہو گئی۔مگر سب سے زیادہ روحانی سرور مجھے اس وقت حاصل ہوا جب میری شادی کے لیے حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ نے استخارہ کرنے کے بعد خط میں لکھا کہ صبح کی اذان کے بعد سنتیں ادا کر رہا تھا کہ اس حالت ہی میں حضرت مسیح موعودؑ بحالتِ کشف سامنے آگئے۔اور عجیب منظر دکھایا گیا کہ آپؑ کے وجودِ اقدس کی شکلیں قطار کی صورت میں میرے سامنے سے گزرنے لگیں گویا بجائے ایک وجود کے بہت سے وجود نظر آئے۔اس کے بعد یہ نظارہ عجیب پیش کیا گیا کہ آپ عزیز مجید احمد سلمہ اللہ کو اپنی بغل میں لے کر کھڑے ہیں اور آپ کے سامنے حضرت مسیحِ پاک عزیزہ قدسیہ کو اپنی بغل میں لے کر آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیںاور پھر بتایا جاتا ہے کہ عزیزہ قدسیہ کو خواتینِ مبارکہ میں داخل کردیا گیا ہے۔ مبارک مبا رک۔

یہ وہ مبارک ماں ہے کہ جس کی پیدائش سے پہلے اُن کی والدہ یعنی حضرت نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ کو بھی خداتعالیٰ نے بشارتیں عطا فرمائی تھیں۔ چنانچہ آپؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن دعا مانگ رہی تھی کہ آواز آئی ؎

حسنِ یوسف دمِ عیسٰیؑ یدِ بیضا داری

آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

مزید فرماتی ہیں کہ جب صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ کی پیدائش ہوئی تو کچھ اداسی ہوئی کیونکہ پہلے سے تین بیٹیاں تھیںاور خدا تعالیٰ سے بیٹے کے لیے دعا کیا کرتی تھیں۔لیکن اسی کیفیت میں یہ آواز آئی جیسے اللہ تعالیٰ تسلی دے رہا ہو کہ ’’بیٹا نہیں ہوا لیکن اس بیٹی کے ذریعہ خدا تعالیٰ ایک ہمہ تن موصوف بیٹا دے گا دعائیں ضائع نہیں ہوئیں۔‘‘

پھر ایک دن آپؓ کو دعا کرتے ہوئے یہ آواز آئی جیسے کوئی سورۃ مریم کی آیات ۳۲تا۳۴ پڑھ رہا ہے:’’اور میں جہاں کہیں بھی ہوں اس نے مجھے بابرکت (وجود) بنایاہے اور جب تک میں زندہ ہوں مجھے نماز اور زکوٰ ۃ کی تاکید ہے اور مجھے اپنی والدہ سے نیک سلوک کرنے والا بنایا ہے۔‘‘

۲۱؍جنوری۱۹۶۲ء جمعہ اور ہفتہ کی در میا نی رات یہ بچہ پیدا ہوا تو اس کے دادا حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے کان میں اذان دی اور غلا م قادر احمد نام رکھا۔ حضرت اقدس مسیح موعود ؑکے الہا مات کی کاپی میں آپؑ کے دستِ مبارک سے لکھا ہوا ایک الہام یو ں ہے:’’غلا م قادر آئے گھر نور اور برکت سے بھر گیا ردّاللّٰہ اِلیَّ۔‘‘

والدہ محترمہ رقمطراز ہیں کہ یہ ایک خوبصورت شاندار ماتھے والا بچہ تھا۔ بالوں اور چہرے کے رنگ کا خوبصورت امتزاج، گلابی رنگت، خوبصورت نقش۔ مجھے آج تک بچپن کا کو ئی واقعہ بھی یاد نہیں کہ کوئی ضد یا بری حرکت کی ہو شرمیلی سی مسکراہٹ سے فر مائش کر دیتا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے شہادت کے بعد خطبہ جمعہ میں فرمایا: شہید کے تعلیمی کوائف اس کی ذہنی اور علمی عظمت کو ہمیشہ خراجِ تحسین پیش کرتے رہیں گے۔لیکن اصل خراج تحسین تو ان کی وقف کی روح ہے جو انہیں پیش کرتی رہے گی اور ہمیشہ ان کو زندہ رکھے گی۔ان کی تعلیم پہلے ربوہ اور پھر ایبٹ آباد پبلک سکول میں ہوئی جہاں سے یہ F.Sc میں پشاور یونیورسٹی میں اوّل قرار پائے۔پھر انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے الیکٹریکل انجینئرنگ میں B.Scکی پھر امریکہ کی جارج میسن یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں M.Scکیا اور پھر پاکستان پہنچ کر اپنے عہد پر پورا اتر تے ہوئے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ربوہ میں کمپیوٹر شعبہ کا آغاز کرنے اور پھراسے جدید ترین ترقی یافتہ خطوط پر ڈھالنے کی ان کو توفیق ملی۔

شہید مرحوم کے بھائی صا حبزادہ مرزا محموداحمد صاحب لکھتے ہیں کہ اس نے امریکہ آتے ہی جاب کی تلاش شروع کردی اور تیسرے ہی روز مَیں نے اسے مخروطی ٹوپی پہنے ایک برگر شاپ پر Pattiesبنا تے دیکھا۔میں نے کئی اَور لوگ دیکھے ہیں جو یہاں امریکہ آئے تو انہیں اپنی انا کو جھکانے میں بڑی مشقّت کرنی پڑی اور وقت بھی کافی صرف ہوا۔

اسی بھائی نے اُن کی زندگی میں اپنی والدہ کے نام ایک خط میں شہید مرحوم کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ مَیں اس کا شمار خاندان کے بزرگوں میں کرتا ہوں بلکہ اگر یہ کوئی دعویٰ بھی کرے تو ایمان لے آؤں گا۔

انجینئرنگ یونیورسٹی کے دوسرے سال میں ۲۴؍ستمبر ۱۹۸۳ء کو شہید مرحوم نے اپنی زندگی وقف کردی۔ ان کی امی فرماتی ہیں کہ قادر کے وقف سے وہ خوشی میسر آئی کہ سات بادشاہتیں بھی مل جاتیں تب بھی نہ ملتی۔قادر نے خواب میں حضرت مسیح موعودؑ کو دیکھا تو آپؑ نے پو چھا: تم کس کے بیٹے ہو؟ جواب دیا: قدسیہ کا۔ مَیں نے خواب سن کر کہا: قادر! تم نے میرا نام اس لیے لیا ہے کیونکہ میں نے تمہارے وقف اور خادمِ دین ہونے کے لیے بےحد دعائیں کی ہیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے زندگی وقف کرنے کی درخواست پر فرمایا:’’تمہارے وقف کی پیشکش کی اتنی خوشی ہوئی کہ تم اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔خوشی کے آنسوؤں سے آنکھیں چھلک گئیں۔حضرت عموں صاحبؓ کی نسل میں سے جنہوں نے مجھے بہت پیار دیا اور جن سے مجھے بہت پیار تھا،تم دوسری سیڑ ھی کے بچوں میں غالباًپہلے ہو جسے وقف کی توفیق مل رہی ہے۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ۔ جس طر ح تم نے آج میرا دل راضی کیا ہے اللہ تعالیٰ تمہیں ہمیشہ اس سے بڑھ کر راضی رکھے…۔‘‘

شہید مرحوم نے اپنا عہد قا بلِ رشک انداز میں نبھا یا۔ جماعت کے کام کو جس طرح کمپیوٹرائزڈ کیا اس کے بیان کے لیے ایک کتاب چاہیے۔ اپنے دستورِ حیات میں اپنی ذات کے لیے کچھ نہیں تھا۔ ہر فعل سے رضائے باری تعا لیٰ مقصود رکھی۔ چندہ با قاعدگی سے ادا کرتے بلکہ بڑھا کر دیتے۔ ما لی قر با نی کی اہمیت کااندا زہ تو اسی سے بخوبی ہو جا تا ہے کہ آپ کی تعلیم اتنی تھی کہ اس وقت پاکستان میں ایسے تعلیم یا فتہ لوگ انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے مگر آپ نے دین کو دنیا پر مقدم رکھا۔

شہید مرحوم کی والدہ بیان فرماتی ہیں:ہم انجمن کے مکان میں رہتے تھے کافی عرصہ منجھلے ما موں جا ن اس مکان میں رہے تھے۔ بہت با برکت مکان تھا۔ بہت دعا ئیں ہوتی تھیں مَیں چلتے پھرتے یہ پڑ ھتی تھی ؎

میرا بیٹا جواں ہوگا خدا کا اک نشاں ہوگا

بڑھے پھولے گا گلشن میں وہ اس کا پاسباں ہوگا

سو چتی ہوں وہ جوان ہوا اور خدا کا نشان بھی ہوا (حضرت مسیح مو عو دؑ کے الہا م کا مصدا ق ٹھہرا )گلشن میں بڑھا پھولا اور گلشن کی پاسبانی کرتے ہوئے جان دی کہ یہی حق پاسبانی کا تھا۔ وہ میرے گھر کا چودھویں کا چاند تھا جو چودہ شہادت کو شہید ہوگیا۔چودہویں کے چاندکی طرح وہ بھی ہر لحاظ سے اپنے عروج پر تھا ؎

را ضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو

صاحبزادہ صاحب اپنے والدین کی احسا سِ ذمہ داری سے دیکھ بھال کرتے۔ چھوٹے چھوٹے کام بھی فکر سے کروا دیتے۔ زمینوں کاکاروبارآپ کے تجربےمیں شامل نہیں تھا۔ مگر والد کے کہنے پر ان کی فکر کو کم کرنے لیے اس عمدگی سے اس کام کو سنبھالا،اتنی انتھک محنت کی کہ چند سالوں کے اندر جو زمین پہلے خسارے میں جا رہی تھی اس نے خا صا منافع دینا شروع کر دیا۔ شہا دت سے صرف دو دن پہلے والدین کے گھر کے ہال کمرے میں ایک پرانا پنکھا اترواکر اس کی جگہ دو نئے پنکھے لگوادیے۔ جو تعز یت کے لیے آنے والوں کو گرمی میں ہوا دے رہے تھے مگر پنکھے لگوا نے والاابدی نیند سو ر ہا تھا ؎

اک نفسِ مطمئن لیے، اپنے لہو میں تر

قادر کا وہ غلام تھا قادر کے گھر گیا

اس کے لیے بھی دوستو کوئی دعائے صبر

جس دل شکستہ شخص کا نورِ نظر گیا

شہید مرحوم کے والد صا حبزاد ہ مرزا مجید احمد صاحب لکھتے ہیں :گھا ئو بہت گہرا ہے، دکھ اور اس کی کسک اَور بھی زیادہ گہری۔ بعض دفعہ تو مَیں ان خنجروں کے وار جو اُن ظا لموں نے اس معصو م پر چلائے اپنی پشت پر محسوس کرتا ہوںتو رات کی تنہائیوں میں میرا تکیہ آنسوؤں سے تر ہوجاتا ہے۔اس میدان میں جب نظر اٹھاکر دیکھتا ہوں تو حضرت صاحبزادہ عبداللطیف کی قربانی کے بعد بڑے بڑے عظیم الشان روشن میناروں سے شا ہرا ہِ قربانی منور نظر آتی ہے۔نوحہ کرنا ہو تو کس کس پرکریں۔ میں کیوں صرف قادر کی قربانی کا ہی تذکرہ کروں۔ دوسرے بھی تو کسی کے باپ، کسی کے بیٹے اور کسی کے بیوی بچے تھے۔ انہیں بھی ان سے اسی طرح محبت ہو گی جس طرح ہمیں قادر عزیز تھا۔ قادر کے خون کا رنگ دوسرے جاںنثاروں کے رنگ سے مختلف نہ تھا۔ اگر فرق تھا تو یہ کہ اس کی رگو ں میں مسیح موعود علیہ السلام کا لہو دوڑ رہا تھا۔ اس لہو کی اپنی قیمت ہے۔ جب تک تُو زندہ رہاتُو نے اس خون کی حرمت کو پہچا نا اور اس کی حفاظت کی اور آخر میں اسی کی راہ میں بہا کر اس کا حق ادا کر دیا اور ا
پنے کمزور اور عاصی والدین کے لیے باعثِ افتخا ر بنا ۔

شہید مرحوم کی اہلیہ محترمہ نصرت صاحبہ لکھتی ہیں کہ یہ جملہ اپنے نیک نصیب کے لیے دعا کرتے ہوئے میری دعا میں شامل رہتا کہ ’’مولا کریم میرے ہم عمروں میں جو تجھے سب سے پیارا ہو اس سے میرا نصیب با ند ھنا ۔‘‘ صاحبزادہ غلام قادرصاحب کا رشتہ آنے پر استخاروں کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے شرح صدر عطا فرما دی۔ چنا نچہ ۱۹۸۶ء میں اس نکا ح کا اعلان حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒنے مسجد فضل لندن میں فرما یا۔

مزید لکھتی ہیں:قادر کی طبیعت ایسی تھی کہ اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ مَیں اکثر اسے کہتی تھی قادر تم آدھا فرشتہ ہو اور وہ خا موشی سے مسکرا تا رہتا تھا۔ سادہ مزاج، بےتکلّف، سادگی پسند، سچا اور کھرا انسان تھا۔ اس نے ایک دن مجھے بیٹھ کر سمجھا یا تھا کہ اپنے گھر کو سادہ رکھنا مجھے زیادہ سجے سجا ئے گھر پسندنہیں۔ اس نے کوئی خواہشات نہیںپالی ہو ئی تھیں۔ جما عت سے بہت محبت رکھتا تھا۔ اس کی باتوں سے مَیں نے اندا زہ لگایا کہ اس نے انجینئرنگ کی لا ئن کو چھو ڑ کرکمپیوٹر میں M.Sکرنے کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کہ جماعت کو آئندہ اس کی ضرورت ہوگی۔ طبیعت میں مزاح بھی بہت تھا، بےساختہ بات کرتا تھا۔ اس کے بعض لطیفے تو میں یاد کرکے شا ید سا ری عمر ہنستی رہوں گی۔ وہ میرابہترین دوست تھا۔ میری خو شیو ں کو تر جیح دینے والا۔ اپنے بچو ں سے بےحدپیار کرنے والا باپ تھا۔ بچوں میں اس کی جا ن تھی۔ بچے اس کو اس قدر یا د کرتے ہیں کہ میں بیان نہیں کر سکتی۔ میں نے خود چھوٹی عمر سے یتیمی کا دکھ دیکھا ہوا ہے مَیں جانتی ہوں کہ یہ دکھ بعض دفعہ کس قدر بےقرار کردیتا ہے۔ ایک بیٹا سارا دن قادر کی تصویرساتھ لے کرپھر تا ہے۔ کر شن (بڑا بیٹا) چند دن ہوئے مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ ماما !قیامت کب آئے گی۔ ما ما !د عا کرو قیامت جلدی آجائے میرا با با سے ملنے کو بہت دل کرتا ہے۔ تین چار مہینوں سے قادر کی طبیعت میں نمایاں تبدیلی تھی۔گھر میں بھی زیادہ وقت دینے لگا تھا اور گھر کے جو کام رکے ہو ئے تھے وہ بھی کر دیے۔ آخری دو دن تو دفتر سے آنے کے بعداس نے تقریباًسارا وقت ہمارے ساتھ گزارا۔ شہادت کے بعد جو دشمن کو مات دینے والی فاتحا نہ مسکرا ہٹ اس کے چہرے پرتھی وہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔ خلیفۂ وقت نے اتنے پیار سے اس کا ذکر کیا اور مسیح مو عودؑ پر کیا ہوا الہام ’’غلام قادر آئے گھر نور اور برکت سے بھرگیا‘‘ اس پر چسپاں کیا۔ وہ یہ سب سن لیتا تو خوشی سے جھوم اٹھتا۔ اے خدا! قادر کے آنگن کے یہ چار پھول جن کی ذمہ داری اب مجھ پر آن پڑی ہے اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں میری راہنما ئی فرمانا۔ ان سب کو خادمِ دین بنانا اور اس کی طرح بہادربھی۔آمین

………٭………٭………٭………

پرندوں کا بادشاہ … عقاب (Eagle)

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ ۱۹؍دسمبر ۲۰۱۴ء میں شامل اشاعت ایک مضمون کے مطابق عقاب آج بھی دنیا کے ۲۵؍ممالک کا قومی نشان ہے لیکن قریباًچارہزار سال سے شاہی و جنگی نشان رہا ہے۔ یونان اور روم میں ہزاروں برس پرانے کھنڈرات، تمغوں اور سکّوں پر بھی اس کی تصاویر ملتی ہیں۔ نپولین اوّل، بازنطینی سلطنت، سلطنت عثمانیہ، سلطنت ایران وغیرہ نے عقاب کو بطور قومی و جنگی نشان کے استعمال کیا۔

عقاب شکاری پرندوں کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے لیکن اپنے طاقتور جسم، بھاری و مضبوط سر اور تیز چونچ کی وجہ سے دوسروں سے مختلف ہے۔ بہت مضبوط پروں کی وجہ سے بہت تیز اور سیدھا اڑتا ہے۔ اس کی ۶۰؍سے زائد اقسام ہیں۔ کچھ اقسام کا وزن صرف نصف کلو اور لمبائی ۱۶؍انچ ہوتی ہے جب کہ چند ۶؍کلو گرام سے زیادہ وزنی اور ۳۹؍انچ تک لمبے ہوتے ہیں۔ یہ ۳؍کلومیٹر کی بلندی سے بھی صاف اور واضح دیکھ سکتا ہے۔ یہ بہت کم آواز نکالتا ہے۔ عقاب ۲۰؍سے ۳۰؍سال تک زندہ رہتا ہے۔ اس کی چند مشہور اقسام یہ ہیں:

گنجا عقاب :یہ امریکہ کا قومی پرندہ اور نشان ہے۔ اس کے سر کے بال چونکہ سفید ہوتے ہیں اس لیے یہ دیکھنے میں گنجا معلوم ہوتا ہے۔ یہ کینیڈا، الاسکا، شمالی میکسیکو اور امریکا میں پایا جاتا ہے۔ یہ سب سے بڑا عقاب ہے اور اس کی جسمانی لمبائی ۲۷؍سے ۴۲؍انچ تک، پروں کا پھیلائو قریباً۵؍فٹ اور وزن ۳سے ۷؍کلوگرام تک ہوتا ہے۔

مچھلی خورافریقی عقاب: یہ زمبابوے کا قومی پرندہ ہے۔ اس کی جسمانی لمبائی قریباً ۲۴؍انچ، پروں کا پھیلائو قریباً ۷؍فٹ اور وزن ۳سے ۴؍کلو گرام تک ہوتا ہے۔

سنہرا عقاب : بھورے رنگ کے اس عقاب کی گردن پر سنہری پَر ہوتے ہیں۔ یہ بہت ماہر اور طاقتور شکاری ہے جو بعض اوقات پہاڑی بکری اور ہر ن وغیرہ کا بھی شکار کرلیتا ہے۔ قریباً دنیابھر میں پایا جاتا ہے۔ اس کی لمبائی قریباً ۳۰؍انچ، پَروں کا پھیلائو قریباً۶؍فٹ اور وزن ۳سے ۶؍کلوگرام ہوتا ہے۔

سفید بحری عقاب: جنوب مشرقی ایشیا اور آسٹریلیا کے ساحلی علاقوں میں پایا جانے والا یہ عقاب زیادہ تر مچھلی کھاتا ہے۔ اس کا سر، سینہ، پیٹ اور دُم سفید ہوتے ہیں جبکہ اوپری حصہ سیاہ اور بھورا ہوتا ہے۔ لمبائی قریباً۳۰؍انچ، پروں کا پھیلائو ۷؍فٹ اور وزن ۵؍کلو گرام ہوتا ہے۔

سیاہ عقاب :یہ ایشیا میں عموماً پہاڑی جنگلات میں پایا جاتا ہے، بہت آہستہ اُڑتا ہے اور پرندوں کا شکار ان کے گھونسلے میں کرتا ہے۔ اس کی جسمانی لمبائی تقریباً۳۰؍انچ ہوتی ہے۔

شاہین:دنیابھر میں عموماً شکار کے لیے پالا جاتا ہے۔ اس کے پنجے، جسم اور چونچ بہت مضبوط ہوتے ہیں۔ دنیا کا تیزترین پرندہ ہے جس کی رفتار ۳۸۹؍کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہوسکتی ہے۔ یہ اپنے شکار کا پیچھا کر کے اُسے پکڑتا ہے۔

باز : زیادہ تر بلند درختوں کی چوٹی پر گھونسلا بناتا ہے۔ اس کی دم لمبی اور نظر انتہائی تیز ہوتی ہے۔ یہ بلندی سے اچانک شکار پر جھپٹ کر اسے دبوچ لیتا ہے۔ بازپروری کا مشغلہ قدیم عراق میں تقریباً دو ہزار سال قبل مسیح میں شروع ہوا تھا اور پندرھویں صدی عیسوی میں یورپ، مشرق وسطیٰ اور منگولین سلطنت کے شرفاء کا مشغلہ اور وقار کی علامت تھا۔ عرب امارات میں دنیا کا پہلا جدید قسم کا باز ہسپتال قائم ہے۔

شِکرا :عقاب کے خاندان کا سب سے چھوٹا پرندہ ہے جو اپنی تیز آواز اور پروں کو پھڑپھڑائے بغیر لمبی اڑان کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس کی آنکھیں سرخ ہوتی ہیں اور یہ اپنے سے بڑی جسامت کے پرندوں کا بھی شکار کرسکتاہے۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ ۱۷؍ستمبر۲۰۱۴ء میں مکرم فاروق محمود صاحب کی شہدائے احمدیت کے حوالے سے ایک نظم شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے:

عشّاق دیتے آئے ہیں ہنس کر وفا میں خون
کابل میں ہو کہ ربوہ میں یا کربلا میں خون
ہو انڈونیشیا میں ، یا گھر کی فضا میں خون
جاتا نہیں ہے رائیگاں راہِ خدا میں خون
ہم تو دعا کے زور سے ہلکا یہ غم کریں
اور پھر بیاں عنایت و لطف و کرم کریں

جو صبر کا پہاڑ ہے کوہِ وقار ہے
جس کو بلا کا آنسوؤں پہ اختیار ہے
اس کا بشر کے آگے نہ رونا شعار ہے
اشکوں کے بند توڑتی سجدوں کی زار ہے
نقشِ قدم پہ ہم چلیں ، شب زندہ ہم کریں
اور پھر بیاں عنایت و لطف و کرم کریں

تُو ان کے خوں کا آپ ہی اب انتقام لے
میرے خدا شہیدوں کے بچوں کو تھام لے
ہم سے بھی زندگی میں کوئی ایسا کام لے
مرقد پہ آئے جو بھی محبت سے نام لے
سچی وفا شہیدوں کی مٹّی سے ہم کریں
اور پھر بیاں عنایت و لطف و کرم کریں

مزید پڑھیں: حاصل مطالعہ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button