محترمہ مسعودہ اخترصاحبہ
اہلیہ محترم حاجی سید جنود اللہ صاحب آف ترکستان
میری امی جان کا تعلق قادیان کے نیک اور بزرگ خاندان سے تھا۔ آپ کے نانا، نانی اور ابا نے حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ پر بیعت کا شرف پایا۔ آپ کی خالہ حضرت سارہ بیگم اہلیہ مولاناعبدالرحیم درد صاحبؓ لجنہ اما اللہ کی ابتدائی ممبرات میں سے تیرھویں نمبر پر تھیں، جبکہ ماموں حضرت عبدالرحیم صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تھے اور انہیں کتب حضرت مسیح موعودؑ کی جلدیں بنانے کا اعزاز حاصل ہے۔
میری پیاری امی جان نانی جان کی شادی کے پانچ سال بعد پیدا ہوئیں اس لیے اپنے ماں باپ کی بے حد لاڈلی تھیں۔ اس دعاؤں سے مانگی بیٹی کو خدا نے فطرتاََ نیک، صالحہ دعا گواور باحیا وجودبنایا تھا۔بچپن ہی سے خشوع و خضوع سے نمازیں پڑھنا اور پھر لمبے لمبے سجدے کرنا ان کا معمول تھا۔اکثر نانا جان یہ سمجھتے کہ سجدے میں سو گئی ہے مگر وہ اپنے خدا سے دعائیں کرتیں۔ نہایت کم عمری میں ضد کر کے برقع بنوایا اور پھر نہ صرف پہنا بلکہ شرعی طور پر اسے اپنایا۔ آپ نے دینیات کلاس میں داخلہ لیا اور وہاں سے یہ کورس مکمل کیا۔
آپ کی شادی ڈاکٹر حاجی سید جنود اللہ صاحب سے ہوئی جن کا تعارف کراتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا: ان کا خاندان بھی احمدیت کے نشانات میں سے ایک نشان ہے اور ایک ایسا نشان ہے جس کا تعلق براہِ راست حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ایک پیش گوئی اور نصیحت سے ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم امام مہدی کے ظاہر ہونے کی خبر سنو تو برف کے تودوں پر سے گھٹنوں کے بل بھی تمہیں چل کر جانا پڑے تو ان تک پہنچو اور اسے میرا سلام کہو اور دوسری حدیث میں آتا ہے کہ اس کی بیعت کرو۔ حاجی سید جنود اللہ صاحب مرحوم اور ان کے بڑے بھائی سید آل احمد صاحب اوران کی والدہ کو روسی ترکستان میں جب خبر پہنچی کہ امامِ وقت ظاہر ہو گئے ہیں تواحمدی ہو گئےاور پھر وہاں سے ہجرت کر کے واقعتاََ برف کے تودوں سے گزر کر آئے اور انتہائی مشکلات برداشت کیں۔ راستے کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن اس عزم سے پیچھے نہیں ہٹےکہ ہم دیار مہدی تک پہنچیں گے اور سلام کہیں گے۔(الفضل انٹرنیشنل ۲۲؍ جنوری ۲۰۱۶ء) میرے پیارےابا جان کو ترکستان کا پہلا احمدی ہونے کا اعزاز حاصل ہے آپ شہر کاشغر کے ایک نہایت معزز سید خاندان سے تعلق رکھتے تھے یہ خاندان گدی نشین بھی تھا۔
قادیان میں میری امی میری دادی جان اور میری نانی جان کی دوستی ہو گئی۔ میری دادی جان کہا کرتی تھیں جب میں محمودہ (میری نانی جان ) کے گھر گئی تو امی جان قرآن مجید پڑھ رہی تھیں۔ میری امی کی آواز بہت پیاری تھی جسے سن کر میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کاش یہ میری بہو ہو اور اسی خواہش کے تحت دادی جان نے امی جان کا رشتہ مانگ لیا اور ابھی رشتے کی بات چل رہی تھی کہ بعض غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں۔میری نانی جان نے رشتہ دینے سے انکار کر دیا۔ اس پر میرے ابا جان نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو اپنے رشتے کے بارے میں تفصیلاََ لکھا اور دعا کی درخواست کی۔ حضورؓ کا جواب یہ آیا کہ جہاں تک میرے علم میں ہے رشتے میں کوئی عیب نہیں خدا اس رشتے کو مبارک و بابرکت کرے۔ حضورؓ کا یہ خط لے کر ابا جان نانی جان کے پاس گئے اور رشتے پر نظر ثانی کے لیے کہا۔شام کا وقت تھا سورج ڈھل رہا تھا ابا جان نے خط دکھا کر نانی جان سے کہا والدہ میں ان دو وقتوں کی قسم کھاتا ہوں اب اگر شادی کروں گا تو مسعودہ سے کروں گا ورنہ کبھی نہیں کروں گا۔میری نانی جان بھلا کیسے انکار کر سکتی تھیں۔ کچھ عرصے بعد دونوں کی شادی ہو گئی اور باوجود مختلف ماحول اور زبان کے دونوں نے کامیاب زندگی گزاری۔ ابا جان نے امی جان سے اردو زبان سیکھی ان کے ماحول کو اپنایا اور کچھ کچھ رنگ اپنا بھی دیا۔ مزیدار ترکی کھانے بنانے امی جان نے ابا جان سے ہی سیکھے۔ مثلاََ ترکی پلاؤ، سوکش، منتو، شوربا برنج، یخلازہ اور خوشے یہ کھانے اب بھی ہمارے گھروں میں بڑے شوق سے پکائے اور کھائے جاتے ہیں بلکہ جب بھی ہم بہن بھائی اکٹھے ہوں تو زیادہ اہتمام سے یہ کھانے تیار کیے جاتے ہیں۔
خدا تعالیٰ نے آپ کو ۱۱؍ بچوں سے نوازا۔ میرے ابا جان ۵۶؍ سال کے تھے جب ان کی وفات ہوئی۔ امی جان کی عمر اس وقت ۴۵؍ سال تھی اور بچوں میں سے اس وقت کوئی بھی شادی شدہ نہ تھا۔میرے ابا جان کو دل کا پہلا حملہ ہوا تو آپ نے کلینک ختم کروا کر نیچے دکانیں اور اوپر گھر تعمیر کروانا شروع کر دیا۔ جب ہمارا گھر زیر تعمیر تھا تو امی جان نے ایک فٹ چوڑا اور ڈیڑھ فٹ لمبا سوراخ مسجد کی طرف رکھوایا تاکہ دیکھ سکیں کہ میرے تمام بچے نماز میں حاضر ہیں یا نہیں۔
باوجود اس عمر میں بیوہ ہونے اور ذمہ داریوں کے ہماری امی جان زندہ دل خاتون تھیں۔ ہم سب بہن بھائی گھر میں کھیلتے دوڑتے کبھی ہمیں روکا نہیں۔شام کو قرآن پڑھنے ڈھیر سارے بچے ہمارے گھرآتے جنہیں سبق پڑھا کر خود بھی ہم سب کے ساتھ کھیل میں شریک ہوتیں ۔ دھیمی طبیعت کی مالک تھیں بار بار بات کو دہرانا پسند نہیں کرتی تھیں صرف ایک بار سرزنش کرتیں۔اگر کسی بات سے منع کرتیں تو سب ہی خاموش ہو جاتے۔اس پرکبھی کبھی اپنے بڑے بچوں کو کہتیں جائز سفارش کرنا اسلام میں جائز ہے تم اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے سفارش کر دیا کرو۔کھانے کے بعد کھانے کی ٹیبل پر سب بہن بھائی امی کے ساتھ بیٹھتے اور ڈھیروں باتیں کرتے سب اپنی اپنی باتیں بتاتے کچھ پڑھا ہوتا تو سب کے ساتھ شیئر کرتے ہنسی مذاق کرتے۔ہمارا گھر مہمانوں سے بھرا رہتا۔ ابا جان کی زندگی میں بڑی بڑی دعوتیں ہوتیں تو خود کھانا تیار کرتیں ہاتھوں میں بڑا ذائقہ تھا۔ترکی کھانے اور دیسی کھانے زبردست تیار کرتیں نرگسی کوفتے ان کے ہاتھ کے مشہور تھے۔ اس لیے جب بھی حضرت چھوٹی آپا سرگودھا تشریف لاتیں امی جان ضرور ان کے لیے خاص بناتیں۔
قرآن مجید سے والہانہ عشق تھا اللہ تعالیٰ نے خوبصورت آواز سے نوازا تھا اکثر لوکل اجتماعات اور ربوہ کے اجتماعات میں تلاوت کی سعادت پائی۔ کبھی قرآن پڑھتے پڑھتے روتیں اور کبھی مسکرا دیتیں۔
ہم سب بچوں کو قرآن مجید کا کچھ نہ کچھ حصہ ترجمہ کے ساتھ ضرور پڑھایا۔آخری وقت تک رمضان میں قرآن مجید کا درس اپنے گھر دیا۔
درثمین اور کلام محمود کے اشعار ازبر یاد تھے جنہیں کام کرتے وقت اونچی آواز میں خوش الہانی سے پڑھتیں اسی لیے ہمیں بھی سن سن کر یاد ہو گئے۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ نظم
یوں اندھیری رات میں اے چاند تو چمکا نہ کر
بڑے سرور سے گا رہی تھیں مجھے بڑا مزہ آیا اور بے ساختہ کہا واہ واہ حضور نے کتنی پیاری شاعری کی ہے تو فوراً بولیں غلط نہ لینا یہ عشق حقیقی ہے عشق مجازی نہیں۔ اللہ سے باتیں ہو رہی ہیں۔
رمضان میں ہم بچوں نے روزہ رکھنا ہوتا یا نہیں ضرور تہجد پڑھتے دوپہر کو کھانے کے بعد الفضل پڑھتیں اور اکثر پہلا صفحہ ہم بہن بھائیوں میں سے کسی سے پڑھواتیں اور ساتھ ساتھ تلفظ اور اتار چڑھاؤ بتاتی رہتیں۔ مجھے یاد نہیں کہ امی جان نے ہمیں سختی سے ڈانٹا ہو یا ہاتھ اٹھایا ہو فقط ایک نظر اٹھا کر دیکھتیں اور مجھے سمجھ آ جاتا اب وہ کیا چاہتی ہیں۔
ہمارے گھر کا معمول تھا کہ گندم چاول دالیں پورے سال کی خرید لیتے تھے جب بھی گندم پس کر آتی اور چاول آتے امی جان ضرور اس میں سے کچھ نہ کچھ حصہ نکال کر کام والی کو دے دیتیں۔
تاریخ احمدیت میں ۳۰؍مئی۱۹۷۴ء تاریک دن کے طور پر لکھا جائے گا جب پاکستان میں اس دن بہت سے احمدیوں کے گھروں کو نشانہ بنا کر لوٹا گیا، آگ لگائی گئی اور نفرت انگیز مہم کا آغاز ہوا۔ سرگودھا میں دیگر بہت سے احمدیوں کے ساتھ ساتھ ہمارا گھر بھی نشانے پر تھا۔ میرے کزن اور بہنوئی سیدنصیر شاہ ربوہ سے ہمیں ملنے سرگودھا آئے اور امی سے کہنے لگے ممانی جان میرے ایک دوست نے بتایا ہے کہ سرگودھا میں حالات مزید خراب ہوں گے اس لیے آپ عورتوں اور بچوں کو گھر سے نکال لیں۔اس پر امی جان نے مجھے میرے بھائی اور باجی کو ان کے ساتھ ربوہ روانہ کر دیا اور خود بھائیوں کے ساتھ سرگودھا میں رہیں۔چند دنوں کے بعد واقعی حالات مزید بگڑگئے محاصرے کا دور شروع ہوا کوئی ہمارے کلینک میں مریضوں کو آنے نہیں دیتا تھا بھائی باہر جا کر سودا سلف لا نہیں سکتے تھے۔آخر امی نے ہمت کی اور اپنا بھیس بدل کر پرانا سا برقع اور پاؤں میں پھٹی پرانی چپل پہن کر بازار جاتیں اور دودھ، دہی، سبزی، گوشت لاتیں۔چند دن یوں ہی چلتا رہا کہ ایک دن چائے کی پتی لینے گئیں اور نام لے کر دکاندار سے کہا مجھے رچ برو چائے چاہیے اس پر اسے شک ہو گیا اس نے حیرت سے امی کو دیکھا سامان بھی نہیں دیا اور آپ کے پیچھے غنڈے لگا دیے۔ مزید حالات کے خراب ہونے پر امی جان کو بھی ربوہ آنا پڑا جبکہ میرے بھائی سرگودھا ہی رہے۔ستمبر میں اقلیت قرار دیے جانے کے بعد کچھ حالات بہتر ہوئے تو سرگودھا واپس آگئے اور زندگی کی گاڑی آگے چلنے لگی مگر پھر اچانک ۵؍اکتوبر ۱۹۷۴ء کو اعلان ہونے لگے کہ صبح ہڑتال ہوگی۔ میرے بھائی سید محبوب جنود ربوہ ٹی آئی کالج میں پڑھتے تھے۔ پانچ اکتوبر بروز ہفتہ واپس جانے کے لیے صبح صبح نماز فجر کے بعد گھر سے نکلے، امی جان نے چھوٹے بھائی سید اویس جنود کو سٹیشن تک چھوڑنے کا کہا یوں دونوں بھائی چل دیے مگر جب دو تین گھنٹے تک اویس بھائی واپس نہیں آئے تو وہی پرانا برقع اور سلیپر پہن کر خالہ کے ساتھ اپنے بیٹے کو ڈھونڈنے نکلیں اور ابھی تھوڑی دُور ہی گئی ہوں گی کہ چند لڑکوں کے گروہ سے یہ کہتے سنا کہ آج صبح صبح ہم نے دو مرزائی پکڑے ہیں۔بس یہ سنتے ہی یہ کہتے ہوئے واپس آگئیں کہ یہ میرے ہی بیٹے ہیں اور حقیقتاً یہ میرے ہی بھائی تھے جنہیں جلوس نے پکڑ لیا منہ کالے کیے مارا پیٹا کپڑے پھاڑے۔ پھر دس بجے کے قریب ایک بہت بڑے جلوس نے ہمارے اور ڈاکٹرحافظ مسعود صاحب (چچا جان ) کے گھر دھاوا بول دیا۔ پتھر پھینکنے لگے چچا جان کے گھر کو آگ لگا دی۔ آگ پھیلنے لگی ہمسایوں کوبھی خطرہ محسوس ہونے لگا۔ ہمارا گھر دھوئیں آگ پتھروں سے بھر گیا۔ اس موقع پر ہمارے کلینک میں کام کرنے والے کچھ لڑکوں نے اُسی چھوٹے سےسوراخ کو ہتھوڑیاں مار مار کر بڑا کیا جو امی جان نے مسجد کی طرف رکھوایا تھا کہ اپنے بیٹوں کو نماز پڑھتے دیکھ سکیں اور ہمیں کہا کہ یہاں سے دوسری طرف کود جائیں چنانچہ میری دو بڑی بہنیں، خالہ، خاکسار، میرا بھائی اور میری دو بھانجیاں وہاں سے مسجد کی طرف کود گئے لیکن جاتے کہاں ؟باہر جلوس تھا اور اندر آگ۔مگر خدا کی حکمت دیکھیں بالکل اُسی وقت ہمسائے کی عورتیں برقع پہن کر باہر نکلیں تاکہ محفوظ مقام پر جا سکیں جنہیں دیکھ کر جلوس میں موجود لوگ اُن عورتوں کی طرف بھاگے کہ یہ ’مرزینیں ‘ہیں۔ مگر میری بہنوں کی طرف کسی نے آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اس گھر کی عورتیں بغیر پردہ کے ہو سکتی ہیں۔بس اسی موقع سے فائدہ اٹھا کر میری خالہ گلی کے آخرمیں ایک گھر جس کے آگے پردے لگے ہوئے تھے وہاں لے گئیں اور ہم سب کو چھپا دیا۔میرے بڑے بھائی جنود احمد جلوس کے ہاتھ لگ گئے جلوس والوں نے انہیں مار مار کر شدید زخمی کر دیا خون بہنے لگا۔اس تمام افرا تفری میں نامعلوم کیوں اور کیسے بڑے بھائی جان امی جان اور میرا بھائی سید شعیب جنود گھر میں رہ گئے۔ کسی کو کچھ ہوش نہ تھا۔قیامت کا سماں تھا۔ مگر میری امی جان بہت حوصلہ والی اور قوت ایمانی سے لبریز خاتون تھیں۔ جب ہمارا گھر آگ، دھوئیں اور پتھروں کی بارش سے بھرا ہوا تھا۔ خوف اور دہشت کے اس عالم میں امی جان بڑے بھائی محمود جنود اور شعیب جنود کو پاس بٹھا کر یہی کہتی رہیں۔دیکھو! مال و گھر کی خیر ہے ایمان سلامت رہے دیکھو! ایمان کو سلامت رکھنا اور بآواز بلند ایمان کی سلامتی کی دعائیں کرتی رہیں۔
جب حالات قدرے بہتر ہوئے تو سرگودھا کا اےسی کلیار اور انسپکٹر پولیس سرگودھا فائر برگیڈ کی سیڑھی لگا کر ٹوٹی کھڑکیوں سے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ہمارے گھر میں داخل ہوا۔ امی جان اور میرے دو بھائی چھت پر جانے والی سیڑھیوں پر بیٹھے تھے کہ صرف اور صرف وہاں سانس صحیح آرہا تھا۔ گھر دھوئیں دھول سے ڈوبا ہوا تھا امی جان نے اسے دیکھتے ہی بڑے رعب سے کہا۔آپ کو جرأت کیسے ہوئی میرے گھر میں بغیر اجازت داخل ہونے کی ؟آپ کو معلوم نہیں میں پردے دار خاتون ہوں ؟ اس پر اے سی کلیارآپ کے قدموں میں بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ میں آپ کا بیٹا ہوں آپ تو میری ماں ہیں۔ اس پرامی نے فورًا جواب دیا نہیں نہیں آپ میرے بیٹے کیسے ہو سکتے ہیں۔میرا بیٹا اس وقت کہاں تھا؟جب میرے گھر کو آگ لگائی جا رہی تھی؟ میرا بیٹا کہاں تھا جب میرے بچے پکڑے گئے ؟بتائو میری بیٹیاں اور باقی بچے کہاں ہیں؟ آپ میرے بیٹے ہرگز نہیں۔اے سی نے بہت منت کی کہ آپ یہاں سے میرے ساتھ چلیں یہاں رہنا ٹھیک نہیں مگر امی جان نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ میرے سب بچے یہیں واپس آئیں گے میں یہیں بیٹھ کر ان کا انتظار کروں گی۔ پھراےسی کے جانے کے بعد اٹھیں صحن ہی سے پتھر اٹھا کرچولہا بنایا، آگ جلائی، دال پکنے کے لیے رکھی اور آٹا گوندھنے لگیں۔میرے بھائی کہتے ہیں ہم نے پوچھا کیا کر رہی ہیں؟تو کہنےلگیں کھا نا بنا رہی ہوں۔ابھی میرے بچے واپس آئیں گےصبح کے بھوکے ہوں گے۔بھائی کہتے ہیں یہ سن کر ہم رو پڑےاورہمیں یقین ہو گیا کہ شدت غم سے آپ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی ہیں۔بس یہی توکل اپنے خدا پر کامل یقین اور ایمان کی ادا خدا کو پسند آئی اور واقعی ایک ایک کر کےآپ کے سب بچے واپس آنے لگے۔
میرے بڑے بھائی جو جلوس کےہاتھ لگ گئے تھے شدید زخمی حالت میں تھے۔کوئی پُرسان حال نہ تھا۔اس بےبسی کے عالم میں خدا کا یہ فضل ہواکہ ڈی سی سرگودھا جو وہاں دورے پر آیا تھا اس نے بھائی کو پہچان لیا اور اپنی نگرانی میں ہسپتال پہنچا دیا۔ جہاں بھائی کے سر پرشدید چوٹ کی وجہ سے ٹانکے لگے اور ٹانگ فریکچر ہو گئی تھی۔جبکہ دونوں بھائی محبوب اور اویس مغرب کے بعد حوالات سے رہا ہوئے۔ انہیں پولیس گھر چھوڑ گئی۔میرے بھائی بتاتے ہیں ہم چچا جان کا اور اپنا جلا ہوا گھر دیکھ کر پریشان ہو گئے ہمیں یقین تھا کہ گھر میں کوئی زندہ نہیں ہے۔ہم سیڑھیاں چڑھ کر جب اوپر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا تو امی جان نے پوچھا کون ہے ؟ہم نے بتایا محبوب اور اویس ہیں اس پر بجائے دروازہ کھولنے کے پوچھنے لگیں پہلے بتاؤ ایمان بیچ کر تو نہیں آئے ؟ میرے بھائی رو پڑے اور کہنے لگے امی ہماری حالت تو دیکھیں منہ کالے ہیں کپڑے پھٹے ہیں مار کھائی ہوئی ہے اگر ایمان بیچا ہوتا تو پھولوں کے ہار پہنے ہوتے اس پر امی نے دروازہ کھول دیا۔ نہ کوئی واویلا کیا نہ شور۔ جب رات ہوئی تو ہمارے محسنوں نے بتایا (جن کے گھر ہم چھپے ہوئے تھے)کہ ہم نے بڑے بھائی کو دیکھا ہے اس پر میری باجی نے فوراً ایک رقعہ لکھا کہ امی مونا پارو کے فیڈر بنا کر بھیج دیں۔ یہ دراصل اشارہ تھا جاننے کا کہ کیا امی جان ٹھیک ہیں؟ اور یہ بھی کہ ہم بخیریت ہیں۔ ان کے بیٹے نے موقع جان کا یہ رقعہ بھائی جان کی طرف اچھال دیا اور بھائی جان کومل بھی گیا ۔ امی جان نے فیڈر بنا دیے اور بھائی جان نے باہر رکھ دیے جنہیں ان کا بچہ اٹھا لایا اور ہمیں پتا چل گیا کہ ہماری امی خیریت سے ہیں۔لیکن حالات ایسے نہ تھے کہ ہم گھر جا سکیں۔آخر آدھی رات کو وہی اے سی دوبارہ امی کے پاس حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اور حضرت مرزا عبدالحق صاحب امیر جماعت احمدیہ سرگودھا کا پیغام لے کر آیاکہ فوراً بچوں کو لے کر عورتیں گھر سے نکل آئیں۔ میری امی جان نے جب حکم سنا تو فوراً کہا میرے خلیفہ اور میرے امیر کا حکم ہے میں لبیک کہتی ہوں۔دراصل وہ اے سی جب پہلے آیا تو امی جان کے انکار پر مرزا صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر بتایا کہ جنود اللہ صاحب کی فیملی میں سے خاتون ایک بچہ اور ایک نوجوان جلے گھر میں موجود ہیں جو خطرناک ہے۔ مگر وہ خاتون گھر سے نکلنے کو تیار نہیں۔اس پر مرزا صاحب نے ربوہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کو اطلاع دی جہاں سے حکم ہوا کہ فوراً عورتوں اور بچوں کو بحفاظت ربوہ لانے کا انتظام کیا جائے۔چنانچہ حضرت مرزا صاحب کی کوشش سے ایک فوجی ٹرک بمع اے سی کے حضور اور مرزا صاحب کا پیغام لے کر امی جان کے پاس پہنچا۔بھائی جان کی نشاندہی پر ہمیں کچھ نوجوان ہمسایوں کے گھر سےلائے۔امی جان دیا لے کر کھڑی تھیں باجی کہتی ہیں امی جان نے ہمیں دیکھ کر کہا۔جلدی جلدی اپنے بچوں کی چیزیں اٹھاؤ ہمیں جانا ہے اور یوں ہم رات کے اندھیرے میں پہلے مرزا صاحب کے گھر اور پھر وہاں سے ربوہ چلے گئے۔میرے بھائی اویس نے بتایا ہماری حالت بہت بری تھی۔سارے دن کے بھوکے تھے۔ رات کو ہم نے امی کا بنایا ہوا کھانا کھایا نماز ادا کی۔ جلوس والوں کی مارسے جسم دردوں سے ٹوٹ رہا تھا۔تھک ہار کر جو نہی لیٹے سو گئے اور جب صبح اٹھے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ امی گھر پر نہیں ہیں۔ کہاں تو امی جان گھر چھوڑنے کو تیار نہیں تھیں اور کہاں خلیفہ وقت کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے اپنے زخمی بچوں کو اللہ کے حوالے کر کے جلے ہوئے پتھروں اور دھوئیں سے بھرے ٹوٹے گھر میں چھوڑ کر چلی گئیں
کچھ سال بعد جب صدر ضیاء الحق نے کلمہ طیبہ مٹانے کی تحریک شروع کی تو خدام کو ہدایت تھی کہ سینے پر کلمہ طیبہ لگائیں۔سرگودھا میں سب سے پہلے گرفتاری میرے بھائی سید اویس نے دی اس کے بعد دیگر خدام کے علاوہ میرے بیک وقت چار بھائیوں کو اسیران کلمہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔اس پر ہماری منہ بولی بہن آپا رقیہ جو کہ احمدی نہ تھیں روتے ہوئے امی جان کے پاس آئیں اور کہنے لگیں ہائے آپا یہ کیا ہوا؟ اس کے رونے پر امی جان ناراض ہوئیں اور بولیں میں تو سمجھی تھی تم مجھے مبارکباد دینے آئی ہو رونے کی کیا ضرورت ہے؟ خوشی کا مقام ہے میرے بچے خدانخواستہ کسی جرم میں نہیں کلمہ طیبہ لگانے کے اعزاز میں گرفتار ہوئےہیں
خلافت احمدیہ سے دلی محبت اور عقیدت تھی امی جان نے حضرت مصلح موعودؓ کا زمانہ قادیان سے دیکھا ہوا تھا بتایا کرتی تھیں کہ جب حضرت ام طاہر کے گھر آپؓ کی باری ہوتی نانی جان خالص مکھن آپ کے ہاتھ ان کے گھر بھجواتیں۔ایک مرتبہ نانی جان نے لڈو بنائے اور کہا ایک پلیٹ حضور کی خدمت میں پیش کرنا اور دوسری کو کہنا حضور تبرک کر دیں پھر بھرائی ہوئی آواز میں کہتیں صدقے جاؤں حضور نے ایک ایک لڈو تبرک کیا۔
خلیفہ وقت کی طرف سے کسی بھی مالی تحریک پر ضرور لبیک کہتیں۔ ساری عمر خدمت دین کی توفیق پائی۔ سیکرٹری مال بھی رہیں۔ غربا ءکی مدد اس طرح کرتیں کہ دوسرے ہاتھ کو پتا نہ چلتا۔ سرگودھا میں جگہ جگہ مسجدیں بن رہی ہوتیں اگر پاس سے گزرتیں ضرور کچھ نہ کچھ ڈبے میں ڈال دیتیں۔ایک دفعہ میں نے کہا غیر احمدیوں کی مسجد ہے تو فوراً بولیں مسجد تو ہے ناں۔اسلام آباد کی فیصل مسجد دیکھی تو بہت خوش ہوئیں صحن میں آکر مجھے کہنے لگیں انہیں ہم نے ہی آباد کرنا ہے۔
سمدھیوں سے ہمیشہ بہت اچھا تعلق رہا۔ سب لوگ آپ کی بے حد عزت کرتے۔ خاندان میں آپا مسعودہ کے نام سے مشہور تھیں۔ ہر رشتہ دار سے ضرور ملتیں۔شادی بیاہ میں ضرور شامل ہوتیں۔ معمولی باتوں کو کبھی اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔کوئی آئے نہ آئے ہر رشتہ دار کے گھر ضرور جاتیں۔کبھی خالی ہاتھ نہیں جاتی تھیں ہمیشہ پھل یا مٹھائی ساتھ لے کر جاتیں۔ہمیشہ کہا کرتی تھیں الصلح خیر۔ بہنوں کی شادیاں بھائیوں کی شادیوں سے پہلے کردیں۔ سب بہنیں سال میں ایک دو بارسرگودھا چکر لگاتیں۔ ان کی آمد سے پہلے تیاریاں شروع کر دیتیں اور ساتھ ہی مجھے ضرور نصیحت کرتیں کہ دیکھو! بہنیں آ رہی ہیں گھر کی کوئی بات ان سے نہیں کرنی خوشی خوشی آئیں خوشی خوشی جائیں۔ جب کبھی سب بہنیں مل کر بیٹھتیں تو کہتیں اپنی بھابھیوں کو بھی شامل کیا کرو اکیلے نہیں بیٹھنا۔ خاکسار سب سے چھوٹی تھی کبھی کبھی بھابھیوں کی دیکھا دیکھی فرمائش کر دیتی تو فوراً سمجھاتیں تم ابھی چھوٹی ہو اپنی بھابھیوں سے مقابلہ نہیں کرنا ماشاءاللہ وہ تو شادی شدہ ہیں۔
اپنے تمام بچوں کے رشتے محض خدا تعالیٰ سے مشورہ اور تقوی کی بنیاد پر کیے۔ یہاں صرف اپنی مثال پیش کرتی ہوں۔ جب میری شادی کا موقع آیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خدمت میں دعا کی درخواست کا خط لکھا اور ساتھ ہی یہ بھی تحریر کیا کہ حضور! حاجی سید جنود اللہ صاحب کی وصیت تھی کہ لڑکیوں کی شادی صرف سیدوں میں کی جائے آپ سے بہترین فیصلے کی درخواست کرتی ہوں۔جواباً حضور کا خط موصول ہوا جس میں دعا کے ساتھ تحریر تھا۔ حاجی جنود اللہ صاحب کی وصیت سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے آپ سید کی شرط ختم کر دیں اور نیکی اور تقویٰ پر عمل کرتے ہوئے نگہت کا رشتہ کر دیں۔میری بھابھی عذرا جنود نے جب یہ خط پڑھا تو فوراً امی جان سے کہا، امی جان اگر سیدوں سے باہر رشتہ کرنا ہے تو میرے بھائی کو پہلے مد نظر رکھیں۔ امی جان نے حضورؒ کی نصیحت اور حضور انور کے حکم پر ہمیشہ کی طرح لبیک کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مشورہ یعنی استخارہ کیا اور خدا نے بھی پیار سے جواب دیا۔ میرے رشتے کے سلسلے میں حضرت صاحبزادی امۃالحکیم صاحبہ نے بھی استخارہ کیا یوں امی جان نے اس رشتے کی رضامندی دے دی۔
ہمارے خاندان میں یہ ایک انہونی بات تھی۔سب لوگ حیران تھے مگر میری امی کا یہی جواب تھا کہ یا میں اپنے اللہ سے مشورہ نہ کرتی، اب کر لیا ہے تو دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے نگہت کا رشتہ یہیں کروں گی۔عجیب اتفاق تھا یا اللہ نے ابھی میری ماں کا امتحان لینا تھا کہ میں منگنی کے بعد شدید بیمار ہو گئی۔اب لوگوں کو اور باتیں کرنے کا موقع مل گیا کہ دیکھا منگنی راس نہیں آئی باہر رشتہ کیا ہے۔ یہاں تک کہ ایک موقع پر تنگ آ کر میں نے بھی انکار کر دیا۔ مجھے یاد ہے میرے انکار کا سن کر امی خاموش ہو گئیں اور اگلے ہی دن ناشتے کے بعد کہنے لگیںکہ میں نے تمہارے لیے بہت دعائیں کی ہیں۔ بلکہ جب جب میرا دل دکھا میں مزید خدا کے آگے جھکی اور پیارے خدا نے ہمیشہ فوراً ہی مجھے جواب دیا۔ میری شادی سے چند دن پہلے کہنے لگیں دیکھو نگہت زاہد کی امی کو اب آنٹی نہیں کہنا امی جان کہہ کر بلانا ہے۔میرے حیرت سے دیکھنے پر کہنے لگیں تم امی جان کہو گی تو تمہارے دل میں ماں کی محبت جاگے گی اور وہ امی جان سنیں گی تو ان کے دل میں بیٹی کا پیار آئے گا۔اپنی بہوؤں سے بھی امی جان کہلوایا۔آپ نےاپنی زندگی میں آٹھ بچوں کی شادیاں کیں۔میری شادی کے بعد محترمہ خالہ صالحہ بیگم قریشی محمود الحسن نے بڑے پیار سے زاہد اور مجھے اپنے گھر چائے پر بلایا، پُرتکلف چائے کے بعد خالہ جان نے انتہائی قیمتی تحفہ تبرک حضرت مسیح موعودؑ ہمیں تحفہ دیا ۔ پھر کہنے لگیںکہ جب حاجی جنود اللہ صاحب فوت ہوئے تم چھوٹی سی تھیں۔تمہیں تو معلوم ہی نہیں تھا کہ تمہارے ساتھ ہو کیا گیا ہے۔تم ادھر ادھر بھاگتی پھرتی تھی۔ تب میں نے سوچا یا اللہ!اس کی ماں کیا کرے گی ؟کب یہ بڑی ہوگی؟ اور دل میں عہد کیا کہ جب اس کی شادی ہوگی تبرک حضرت مسیح موعودؑ اسے ضرور تحفۃً دوں گی۔ میں نے یہ سن کر بے ساختہ کہا۔دیکھا خالہ جان وقت کتنی تیزی سے گزر گیا۔یہ سن کر خالہ جان کچھ دیر خاموش رہیں اور پھر کہنے لگیں۔یہ تو تم اپنی امی سے پوچھنا کہ وقت کتنی جلدی گزرا؟
اب سوچتی ہوں واقعی بیوگی کے اتنے سال امی نے کیسے گزارے ہوں گے ؟ ہمیں تو گھر میں کبھی احساس بھی نہیں ہوا تھا۔ لوگ کہا کرتے تھے اس گھر کے تو در و دیوار ہنستے ہیں۔
امی جان کا گھونسلہ آہستہ آہستہ خالی ہونے لگا۔ہم بہنوں کی شادیاں ہو گئیں تین بھائیوں نے اپنے اپنے گھر بنائے اور ماشاءاللہ اپنے گھروں میں شفٹ ہو گئے۔ میرے تین بھائی کلمہ طیبہ کے کیس کی وجہ سے ہر وقت عدالت کے چکر لگاتے جس کی وجہ سے پڑھائی اور ہر کسی کام میں مشکل تھی۔ چنانچہ طاہر جاپان، شعیب اور اویس لندن چلے گئے اور حضور کی ہدایت پر وہیں رہ گئے پھر بعد میں شعیب کینیڈا شفٹ ہو گئے۔اس پر مزید یہ کہ جنوری ۱۹۸۹ء میں میرے بڑے ماموں مسعود احمد عاطف جبکہ جون ۱۹۸۹ء میں چھوٹے ماموں حمید احمد انتقال کر گئے۔ بس یہ جدائیاں امی جان کو اداس کر گئیں۔شکوہ پھر بھی نہیں کیا۔ مگر کبھی کبھی اداسی کا اظہار مجھ سے کرنے لگیں۔ آخر اگست ۱۹۸۹ء میں ۶۶؍سال کی عمر میں معمولی بیماری کے بعد اللہ نے بے حد پیار سے انہیں اپنے پاس بلالیا کہ پاس بیٹھے میرے بھائی اور خالہ کو بھی پتا نہ چلا
میرے بھائی سید شعیب جنود جب یہ خبر لے کر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور نے معانقہ کا شرف بخشا اور پھر فرمایاکہ تمہاری امی نے حاجی جنود اللہ صاحب کی وفات کے بعد تم بچوں کی اس طرح حفاظت کی ہے جیسے ایک مرغی اپنے بچوں کی کرتی ہےاور اپنے بچوں کو اپنے پروں میں چھپا لیتی ہے۔ پھر فرمایا اب رونا نہیں ہے دعا کرو اور ہمیں بھی پھر صبر آگیا۔
امی جان موصیہ تھیں اپنی زندگی میں ہی زیور، گھر اور دکانوں کی ادائیگی کر دی تھی۔ بلکہ اپنے تمام چندے اگلے چھ ماہ کے ادا کیے ہوئے تھے اسی دن رات کو بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔
بلانے والا ہے سب سے پیارا
اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر
ہزاروں ہزار رحمتیں ہوں ہمارے ماں باپ اور بزرگوں پر جنہوں نے اپنا سب کچھ اسلام احمدیت پر قربان کیا اور ہمیں احمدیت کی گود میں دیا۔ پیارا خدا میرے ان بزرگوں کی قربانیوں کو کبھی بھی ضائع نہ کرے۔ ان کی نسلوں میں جنوداللہ، مسعودہ اختر جنم لیتے رہیں۔ آخر میں میں بزبان امی جان یہ شعر اپنے بہن بھائیوں کے نام کرتی ہوں جو وہ اکثرہم بچوں کے لیے گنگناتی تھیں
پھولا رہے یا رب چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں
(سیدہ نگہت زاہد بیگ۔ کینیڈا)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات جمعہ میں بیان فرمودہ بعض تاریخی مقامات کا جغرافیائی تعارف