سیرت النبی ﷺ

رَحۡمَۃٌ لِّلۡعٰلَمِیۡنَﷺ بیٹیوں کے لیے رحمت

(بشریٰ نذیر آفتاب بنت نذیر احمد خادم، سسکا ٹون، کینیڈا)

وہ رحمت عالم آتا ہے تیرا حامی ہوجاتا ہے

تو بھی انساں کہلاتی ہے سب حق تیرے دلواتا ہے

بھیج درود اُس محسن پر تو دن میں سو سو بار

پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار

(درّعدن)

رحمت وشفقت کے پیکر اعظم ہمارے محبوب رسولﷺ جن کی شانِ رحمت کے بارے میں اللہ تبارک تعالیٰ فرماتاہے: وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ (الانبیاء:108) اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت کے طور پر۔

اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو رَحۡمَۃٌ لِّلۡعٰلَمِیۡنَ کے لقب سے نواز کر ماں، بہن، بیٹی، بیوی،غلام، خادم، یتیم ومسکین، بے کس و بے بس کے لیے رحیم اور کریم بنادیا۔ آپؐ کی شانِ رحمت ہرجاندار اور نباتات کے لیے وسیع سے وسیع ترتھی۔ آپﷺ کی بعثت سے قبل عربوں میں بیٹی کی پیدائش پرسوگ منایا جاتا تھا اور اسے تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتا۔ بعض قبائل میں تویہ رواج تھا کہ بیٹی کی پیدائش پراسے زندہ دفن کردیتے تھے۔ اُس معاشرے میں عورت اور بیٹیوں کی کوئی قدر و منزلت نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس جاہلانہ سوچ اور بیٹیوں کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کا ذکر قرآن کریم میں ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے:

وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمۡ بِالۡاُنۡثٰی ظَلَّ وَجۡہُہٗ مُسۡوَدًّا وَّہُوَ کَظِیۡمٌ یَتَوَارٰی مِنَ الۡقَوۡمِ مِنۡ سُوۡٓءِ مَا بُشِّرَ بِہٖ اَیُمۡسِکُہٗ عَلٰی ہُوۡنٍ اَمۡ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِ اَلَا سَآءَ مَا یَحۡکُمُوۡنَ (سورۃ النحل:59-60)  

ترجمہ: اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی بشارت دی جائے تو اس کا چہرہ غم سے سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ (اسے) ضبط کرنے کی کوشش کررہا ہوتا ہے۔ وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس (خبر) کی تکلیف کی وجہ سے جس کی بشارت اُسے دی گئی۔ کیا وہ رسوائی کے باوجود (اللہ کے) اُس (احسان) کو روک رکھے یا اسے مٹی میں گاڑ دے؟ خبردار! بہت ہی بُرا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں۔

اس آیت میں خالقِ کائنات نے بیٹی کی پیدائش کوبشارت“ اور ”احسان الہٰی“ قرار دیا ہے۔ مگر دنیا دار، عقل سے عاری، متکبر اور خدا سے دُور لوگ اللہ کی طرف سے عطاکردہ اس خوشخبری کو اپنے لیے رسوائی خیال کرتے ہیں اور اس ننھی جان کو اپنی تذلیل کاباعث سمجھتے ہیں۔ میرے آقا و مولاﷺ نے زمانہ جاہلیت میں ستائی جانے والی اس نحیف جان،اللہ کے اس” احسان “یعنی بیٹیوں کی اچھی تعلیم وتربیت پرزوردیاہےاور ان کےکھوئے ہوئےحقوق قائم فرمائے۔ آپؐ نے اُسےنہ صرف رائے کی آزادی کا حق دیا بلکہ اُس کی رائے کا احترام بھی کیا اور وراثت میں اُسے حصہ دار بنادیا۔ اپنی چاروں بیٹیوں کی بہترین تربیت کرکے دنیا کے لیے اور خاص طور پر اپنے ماننے والوں کے لیے نمونہ بنے۔ آپؐ نے اپنی بیٹیوں کوبڑے نازونعم سےپالا، اُنہیں خداکی عبادت کے طریق اور زندگی گذارنے کے اسلوب سکھائے۔ حضرت فاطمہؓ جب آپؐ کے ہاں تشریف لاتیں تو آپ ؐ اپنی لاڈلی بیٹی کی آمدپر اپنے پیار کا اظہار کھڑے ہوکر کرتے، آپ کی پیشانی پر بوسہ دیتے اور اپنے پاس بٹھاتے۔ آپﷺ نے اپنی امت کوبھی اپنے اسوۂ حسنہ پر چلنے کی تلقین کی اور بیٹیوں کی اچھی تعلیم وتربیت کے عوض ماں باپ کوجنت کی خوشخبری سناتے ہوئےفرمایا: جس نے اپنی دوبیٹیوں کی پرورش وتربیت کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں تو وہ روز قیامت اس حال میں آئے گا کہ میں اور وہ، (یہ کہہ کر) آپﷺ نے اپنی انگلیوں کو آپس میں ملا لیا یعنی ان دو انگلیوں کی طرح (قریب قریب) ہوں گے۔ (صحيح مسلم، باب فضل الإحسان إلى البنات)

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:تم میں سے کسی کے پاس تین لڑکیاں یاتین بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو وہ ضرورجنت میں داخل ہوگا۔ (سنن الترمذی، باب ماجاء في النفقة على البنات والأخوات)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جوشخص لڑکیوں کی پرورش سے دوچار ہو، پھر ان کی پرورش سے آنے والی مصیبتوں پر صبرکرے تو یہ سب لڑکیاں اس کے لیے جہنم سے آڑ بنیں گی (سنن الترمذی۔ باب ماجاء في النفقة على البنات والأخوات) آپؐ نے شادی جیسے اہم فیصلہ میں بھی بیٹی اورعورت کی رضامندی کوضروری قراردیا۔ ( مشکوٰة۔ کتاب النکاح) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سےروایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جس شخص کے ہاں بیٹی پیدا ہو اور وہ اسے زندہ درگور نہ کرے، اُسے ذلیل نہ سمجھے اور اپنے بیٹے کو اس پر ترجیح نہ دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔   

(ابوداؤد ۔ کتاب الادب، باب فی فضل من عال یتیماً)

اتنی اعلیٰ اورزندگی بخش تعلیم کے باوجود آج بھی بعض مسلمان گھرانوں میں لڑکوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور بیٹیوں کو کمتر جانا جاتا ہے۔ بلکہ لڑکے حاصل کرنے کے لیے شرک جیسے ظلمِ عظیم کا ارتکاب کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ مزاروں اور پیروں فقیروں کو سجدے کیے جاتے ہیں اور منتیں مانگی جاتی ہیں حالانکہ بیٹے اور بیٹیاں صرف خدا تعالیٰ کی ذات عطا کرتی ہے:

لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ ؕ یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ ؕ یَہَبُ لِمَنۡ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّیَہَبُ لِمَنۡ یَّشَآءُ الذُّکُوۡرَ (سورۃ الشوریٰ: 50)

ترجمہ:آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اللہ ہی کی ہے۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے لڑکیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے عطا کرتا ہے۔

بیٹیوں کے ساتھ بُراسلوک کرنے والوں کو قرآن مجید نے سخت تہدید کی ہے۔ ترجمہ: اور جب زندہ درگور کی جانے والی (اپنے بارہ میں) پوچھی جائے گی۔ (کہ) آخر کس گناہ کی پاداش میں قتل کی گئی ہے (التکویر:۹-۱۰)

ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا: یا رسول اللہﷺ! میری ایک بیٹی تھی، جب وہ کچھ بڑی ہوئی اور اس کا یہ حال تھا کہ جب میں اسے بلاتا تو وہ میرے بلانے سے خوش ہوتی تھی، تو ایک دن میں نے اسے بلایا، وہ میرے پیچھے چلی آئی ، میں چلا یہاں تک کہ اپنے قبیلے کے ایک کنویں پر آیا جو زیادہ دُور نہیں تھا، پھر میں نے اس کا ہاتھ پکڑا، اور اسے کنویں میں ڈال دیا، اور آخری الفاظ جو اس نے مجھے کہے وہ یہ تھے: ”اے میرے ابا، اے میرے ابا“ نبی کریمﷺ کو یہ واقعہ سن کربے انتہادکھ پہنچا، یہاں تک کہ آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، اس پر ان صاحب سے مجلس میں بیٹھے ایک دوسرے شخص نے کہا کہ آپ نے نبی کریمﷺ کو غمگین کردیا۔ اس کہنے والے سے حضورﷺ نے فرمایا: اسے کچھ نہ کہو، یہ اس چیز کے بارے میں پوچھ رہا ہے جس نے اسے پریشان کیا ہوا ہے۔ پھر حضورؐنے ان قصہ سنانے والے صاحب سے کہا کہ اپنا واقعہ مجھے دوبارہ سناؤ۔ انہوں نے واقعہ دوبارہ سنایا، آپﷺ پھر روئے یہاں تک کہ آپ ؐکے آنسو آپ کی داڑھی پر بہہ پڑے۔ پھر اس شخص سے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اہل جاہلیت کے تمام بُرے افعال (اسلام لانے کی وجہ سے) معاف فرما دئے ہیں، لہٰذا اب نئے سرے سے اعمال کرو۔ (سنن الدارمي ۔باب ما كان عليه الناس قبل مبعث النبي صلى الله عليه وسلم من الجهل والضلالة)

یہ تھا میرے نبی ﷺ کا بیٹیوں سے پیار کا انداز۔ آج بھی یہ بات ہمارے معاشرے میں عام ہے کہ اگر کسی کے ہاں اولاد نہ ہو تو ہماری بڑی عمر کی عورتیں یہ کہتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ اللہ اس کو اولاد دے دے، خواہ لڑکی ہی کیوں نہ ہو۔ آنحضرتﷺ کے عاشقِ صادق حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بھی اپنی بیٹیوں کے ساتھ بہت پیار، نرمی اور ملاطفت کا سلوک فرمایا کرتے تھے۔ آپ ؑ نےافرادِ جماعت کو بھی یہی تلقین فرمائی ہے۔”ایک روایت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ساتھیوں کے ساتھ سیر کے لیے تشریف لے جانے لگے تو خادمہ نے آکر اطلاع دی کہ حضرت اماں جانؓ فرماتی ہیں کہ امۃ الحفیظ رو رہی ہیں اور بضد ہیں کہ اپنے ابا جان کے ساتھ باہر جانا ہے۔ اس پر حضرت صاحب نے فرمایا: اس کو لے آؤ چنانچہ خادمہ امۃ الحفیظ بیگم کو باہر لے کر آئی تو آپ نے ان کو گود میں اُٹھا لیا اور آپ اپنی گود میں اُٹھائے سیر کرنے کے لئے تشریف لے گئے۔“   (دُختِ کرام۔صفحہ 317-318)       

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بیعت میں شامل ہونےکی برکت سےہماری سوچوں میں مثبت تبدیلی آنی چاہیے، بہوؤں اور بیٹیوں کولڑکی پیدا کرنے پر طعن و تشنیع کانشانہ بنانے سے گریز کرنا چاہئے۔ ہم عورتوں کواس بات پر فخر کرنا چاہیے کہ عورتوں ہی کی کوکھ سے انبیاء اور رسول پیدا ہوئے۔ بیٹیاں تو سراپا وفا ہوتی ہیں، اپنے ماں باپ کی ذراسی تکلیف پرتڑپ اٹھتی ہیں۔ان کو پریشان دیکھ کر بےچین ہوجاتی ہیں۔ والدین کی غمخوار اور ہمدردہوتی ہیں۔ بیٹیاں ہمارے گلشن کی رونق ہیں یہ ان رنگ برنگی تتلیوں کی مانند ہیں جن کی موجودگی سے گلشن کی خوبصورتی دوبالا ہوجاتی ہے اور اُن کے دم قدم سے گھرکی فضا خوشبو سے مہک اٹھتی ہے۔ ان کے قہقہے، ان کی پیاربھری دل موہ لینےوالی ادائیں، ان کی والدین سےمحبت، والدین کے لئے فکر مندی، ماؤں کے ساتھ ان کی راز و نیازکی باتیں ہمارے گھروں کوباغ وبہار بنا دیتی ہیں۔ پھر ایک وقت آتاہے جب یہ نازونعم میں پلی چہکتی مہکتی کلیاں شادی کی عمرکو پہنچتی ہیں تو اللہ اور اس کے پیارے رسولﷺ کے حکم کے مطابق ماں باپ اپنی لاڈلیوں کو خوشی اور اداسی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ ڈھیروں دعاؤں کے سائے تلے شادی جیسا مقدس فَریضَہ اداکرتے ہوئے رخصت کردیتے ہیں  ؎

لوجاؤتم کوسایہ رحمت نصیب ہو

بڑھتی ہوئی خداکی عنایت نصیب ہو

(درّعدن)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button