الفضل کی توسیع اشاعت کے حوالے سےحضرت مصلح موعودؓ کی خواہش
۱۹۵۳ء کی ملک گیر مخالف تحریک کے بعد حکومت پنجاب نے ۲۷؍فروری ۱۹۵۳ء کو الفضل اخبار کو ایک سال کے لیے بند کردیا۔ اس موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت کے احباب کو ہفت روزہ الفاروق کی اشاعت ۴؍مارچ ۱۹۵۳ء میں فرمایا: ’’الفضل کو ایک سال کے لئے بند کر دیا گیاہے۔ احمدیت کے باغ کو جو ایک ہی نہر لگتی تھی اس کا پانی روک دیا گیا ہے۔ پس دعائیں کرو اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو اس میں سب طاقت ہے ہم مختلف اخباروں میں یا خطوں کے ذریعہ سے آپ تک سلسلہ کے حالات پہنچانے کی کوشش کرتے رہیں گے اور انشا ءاللہ آپ کو اندھیرے میں نہیں رہنے دیں گے۔ آپ بھی دعا کرتے رہیں میں بھی دعا کرتا ہوں، انشا ءاللہ فتح ہماری ہے۔ کیا آپ نے گذشتہ چالیس سال میں کبھی دیکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے چھوڑ دیا؟ تو کیا اب وہ مجھے چھوڑ دے گا؟ ساری دنیا مجھے چھوڑ دے مگر وہ انشا ءاللہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا سمجھ لو کہ وہ میری مدد کے لئے دوڑا آ رہا ہے۔ وہ میرے پاس ہے وہ مجھ میں ہے۔ خطرات ہیں اور بہت ہیں مگر اس کی مدد سے سب دور ہو جائیں گے۔ تم اپنے نفسوں کو سنبھالو اور نیکی اختیار کرو۔ سلسلہ کے کام خدا خود سنبھالیگا۔‘‘ (خاکسار مرزا محمود احمد ۳؍مارچ ۱۹۵۳ء۔ہفت روزہ الفاروق لاہور۴؍مارچ۱۹۵۳ء)
بعد ازاں بھی حکومت پنجاب کی طرف سے الفضل کو متعدد بار بندش اور دیگر ظلموں کا نشانہ بنایا گیا۔ ۱۹۸۴ء میں ۴ سال، ۱۹۹۰ء میں ۲ ماہ، ۲۰۰۵ء اور ۲۰۰۶ء میں بھی پابندی لگائی گئی اور ۳۰؍دسمبر ۲۰۱۶ء میں اس پر مستقل پابندی لگا دی گئی اور جبراً اس کی طباعت روک دی گئی۔
سیدنا حضرت مصلح الموعود ؓ نے ایک موقع پر فرمایا:’’آج لوگوں کے نزدیک ‘‘الفضل ‘‘کوئی قیمتی چیز نہیں ۔مگر وہ دن آ رہے ہیں اور وہ زمانہ آنے والا ہے جب الفضل کی ایک جلد کی قیمت کئی ہزار روپیہ ہو گی۔ لیکن کوتاہ بین نگاہوں سے یہ بات ابھی پوشیدہ ہے‘‘۔ ( الفضل ۲۸ مارچ ۱۹۴۶ء صفحہ۳)
اسی طرح سیدنا حضرت مصلح الموعودؓ نے ایک موقع پر فرمایا: ’’میرے سامنے جب کوئی کہتا ہے ہے کہ ’’الفضل‘‘میں کوئی ایسی بات نہیں ہوتی جس کی وجہ سے اسے خریدا جائے تو میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ مجھے تو اس میں کئی باتیں نظر آ جاتی ہیں آپ کا علم چونکہ مجھ سے زیادہ وسیع ہے اس لئے ممکن ہے کہ آپ کو اس میں کوئی بات نظر نہ آتی ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ جب کسی کے دل کی کھڑکی بند ہو جائے تو اس میں کوئی نور کی شعاع داخل نہیں ہو سکتی پس اصل وجہ یہ نہیں ہوتی کہ اخبار میں کچھ نہیں ہوتا بلکہ اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کے اپنے دل کا سوراخ بند ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اخبار میں کچھ نہیں ہوتا۔ اس سستی اور غفلت کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری اخباری زندگی اتنی مضبوط نہیں جتنی کہ ہونی چاہئے حالانکہ یہ زمانہ اشاعت کا زمانہ ہے اور اس زمانہ میں اشاعت کے مراکز کو زیادہ سے زیادہ مضبوط ہونا چاہئے‘‘۔ (انوار العلوم جلد ۱۴ صفحہ ۵۴۶)
اسی طرح حضورؓ نے اپنی ایک خواہش کا اظہار فرمایا: ’’میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر اخبارات کے متعلق ہماری جماعت کی وہی حالت ہو جائےجو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں تھی تو اخبار ’’الفضل‘‘ کے روزانہ ہونے کے باوجود کم از کم پانچ ہزار خریدار پیدا ہو سکتے ہیں‘‘۔ (انوار العلوم جلد ۱۴ صفحہ ۵۴۶)
نیز فرمایا: ’’الفضل ہمارا مرکزی اخبار ہے لیکن اس کی اشاعت بھی ابھی دو ہزار ہے حالانکہ ہماری جماعت بہت بڑھ چکی ہے۔ اگر جماعت کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے پانچ فیصدی بھی اخبار کی اشاعت ہوتی تو دس ہزار اخبار چھپنا چاہئے تھا۔ اور صرف مردوں میں اس کی خریداری ہوتی تب بھی پانچ ہزار خریدار ہونے چا ہئے تھے‘‘۔(مشعل راہ جلد اول صفحہ ۷۰۱)
(مرسلہ:مینیجر روزنامہ الفضل انٹرنیشنل)
مزید پڑھیں: الفضل کے اجراء کا پس منظر