امرِت دھارا۶۰؍پاؤنڈ اور سیرالیون میں پہلا باقاعدہ مبلغ

آج ہم خدا تعالیٰ کے لیے جہاد کرنے اور اسلام کو مغربی افریقہ میں پھیلانے کے لیے جا رہے ہیں۔ موت فوت انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ ہم میں سے اگر کوئی فوت ہو جائے تو آپ لوگ یہ سمجھیں کہ دنیا کا کوئی دُور دراز حصہ ہے جہاں تھوڑی سی زمین احمدیت کی ملکیت ہے۔ احمدی نوجوانوں کا فرض ہے کہ اس تک پہنچیں اوراس مقصد کو پورا کریں جس کی خاطر اس زمین پر ہم نے قبروں کی شکل میں قبضہ کیا ہوگا۔ پس ہماری قبروں کی طرف سے یہی مطالبہ ہوگاکہ اپنے بچوں کو ایسے رنگ میں ٹریننگ دیں کہ جس مقصد کے لیے ہماری جانیں صرف ہوئیں اسے وہ پورا کریں

This Week With Huzoorکے دوپروگرامز (۶؍ و ۱۳؍ دسمبر ۲۰۲۴ء)میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہندوستان کی ایک مشہور دیسی دوا’’امرِت دھارا‘‘ کا ذکر فرمایا۔ مجلس اطفال الاحمدیہ یوکے کے ایک وفد نے ۲۱؍تا ۲۸؍اکتوبر ۲۰۲۴ء گھانا کا دورہ کیا۔ واپسی پر حضور انور ایدہ اللہ سے ملاقات کی اور اس میں دورہ کی تصاویر دکھائیں۔ حضور انور نے سالٹ پانڈ کی مسجد دیکھ کر فرمایا کہ ’مولانا نذیر مبشر صاحب اور دوسرے لوگ یہاں رہتے تھے۔ مولانا نذیر مبشر صاحب یہاں رہتے تھے جب، اس زمانے میں جماعت کے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے الاؤنس نہیں ملتا تھا،پھر وہ ایک دیسی دوائی ہے، امرت دھارا اُسے کہتے ہیں آج کل آبِ شفا کے نام سے بھی مشہور ہوئی وہ بیچتے تھے۔ پانچ پاؤنڈ الاؤنس ملا کرتا تھا مشنری کو۔ آج پانچ پاؤنڈ میں تم برگر بھی نہیں کھا سکتے ‘۔(This Week With Huzoor۔ ۶؍دسمبر ۲۰۲۴ء)

پھر مورخہ ۱۳؍دسمبر۲۰۲۴ء کو جرمنی کے مبلغین و واقفین سے ملاقات میں وسائل کی کمی کا شکوہ کیے بغیر حقیقی وقف اور قربانی کی روح کو ہر حال میں برقرار رکھنے کی بابت نصیحت کرتے ہوئے حضور انور نے تاکید فرمائی کہ ’’پھر یہ خیال نہیں آنا چاہیےکہ میرے پاس فلاں فلاں سہولت نہیں ہے۔ پرانے مربیان، مبلغین جنہوں نے افریقہ میں بھی کام کیے، ان کو تو اس زمانے میں پانچ پاؤنڈ الاؤنس ملتا تھا اور وہ بھی مشکلوں سے پہنچایا جاتا تھا اور یہ نہیں کہ پرانا زمانہ سستا تھا، اس لیے پانچ پاؤنڈ میں گزارا ہو جاتا تھا، گزارا نہیں ہوتا تھا۔ مثلاً مولانا نذیر مبشر صاحب کس طرح لٹریچر لکھتے تھے؟ مشن کے پاس پیسے نہیں تھے۔ پھر وہ ایک دوائی امرت دھارا منگوایا کرتے تھے اور بیچتے تھے۔ اس کی فروخت سے پھر پیسے کماتے تھے اور پھر انہوں نے لٹریچر شائع کیا۔ پھر بڑے مشہور مربی اور مبلغ کے طور پر مولانا نذیر احمد علی صاحب مشہور ہیں، وہ بھی وہاں رہے۔ یورپ میں کرم الٰہی ظفر صاحب سپین میں رہے، انہوں نے بھی عطر بیچ بیچ کے گزارا کیا، بلکہ اب recentزمانے تک ہمارے زمانے تک الاؤنس ایسا ہوتا تھا کہ پندرہ دن میں الاؤنس ختم ہو جاتا تھا تو مشکلوں سے گزارا ہوتا تھا، لیکن کبھی شکوہ نہیں آیا کہ ہم نے وقف چھوڑنا ہے یا regret کیا یا یہ ضرورت کی چیز فلاں کو مل رہی ہے اور فلاں کو نہیں مل رہی۔ بلکہ یہ ہوتا تھا کہ اللہ کا احسان ہے کہ اس نے وقف کی توفیق دی۔ تو یہ روح ہر مربی میں ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور ہم نے وقف کیا‘‘۔(الفضل انٹرنیشنل ۱۹؍دسمبر ۲۰۲۴ء صفحہ ۲)

امرت دھارا تقسیم ہند سے قبل کی ایک ہاضمے کی معروف دوا ؍تیل ہے جسے پیپر منٹ، کافور اور ست اجوائن وغیرہ ملا کر تیار کیا جاتا تھا۔ اس کے موجد پنڈت ٹھاکر دت شرما تھے۔ پنڈت ٹھاکر دت کی کوششوں سے ’’امرت دھارا‘‘ کا نام زبان زد عام ہی نہ ہوا بلکہ روزمرہ کی بول چال کا محاورہ بن گیا۔ پنڈت جی نے اسے ہڈی ٹوٹنے تک کی بیماریوں کی اکسیرِ اعظم قرار دیا اور لوگ اس پر یقین بھی رکھتے تھےلیکن اس کی اصل بنیاد ہیضہ کے علاج کے لیے تھی۔ یہ ہندوستان کے ہر گھر میں ہوتا تھا۔

پنڈت صاحب کا الفضل سے ایک تاریخی تعلق یہ ہے کہ ان کا ایک مضمون سیرت خاتم النبیینﷺ نمبر ۳۱؍مئی ۱۹۲۹ء میں شائع ہوا۔ اور دوسرا اس دوا کا تعلق گھانا اور افریقہ کی تاریخ جماعت احمدیہ سے بھی ہے۔

اس سے مجھے امرِت دھارا کے حوالے سے سیرالیون کا ایک واقعہ ذہن میں آگیا۔ اس سے پہلے کہ وہ واقعہ بیان ہو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے بیان فرمودہ گھانا کے واقعہ پر تفصیلی نظر ڈالتے ہیں۔

حضرت مصلح موعودؓ نے خطبہ جمعہ مورخہ ۲۵؍ستمبر ۱۹۴۲ء میں جنگ کے دوران مختلف مبلغین کی دینی مصروفیات اور خدمات کو سراہا۔ مولانا نذیر احمد مبشر صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :’’مولوی نذیر احمد مبشر صاحب سیالکوٹی آج کل گولڈ کوسٹ میں کام کر رہے ہیں۔ یہاں گو جماعتیں پہلے سے قائم ہیں مگر وہ اکیلے کئی ہزار کی جماعت کو سنبھالے ہوئے ہیں پھر ان کی قربانی اس لحاظ سے بھی خصوصیت رکھتی ہے کہ وہ آنریری طور پر کام کر رہے ہیں۔ جماعت ان کی کوئی مدد نہیں کرتی وہ بھی سات آٹھ سال سے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے جدا ہیں بلکہ تبلیغ پر جانے کی وجہ سے وہ اپنی بیوی کار خصتانہ بھی نہیں کراسکے۔‘‘ (الفضل قادیان یکم اکتوبر ۱۹۴۲ء بحوالہ خطبات محمود جلد ۲۳ صفحہ ۴۰۹)

۱۹۴۷ء میں مولانا نذیر احمد مبشر صاحب کی گیارہ سال بعدرخصت پہ واپسی پر وکالت تبشیر کی جانب سے ایک اعزازی پارٹی دی گئی جس میں ان کا تعارف کرایا گیا۔ جس میں درج ذیل ذکر موجود ہے کہ ’’ مولوی نذیر احمد علی صاحب اور مولوی نذیر احمدصاحب مبشر ایک ساتھ روانہ ہوئے ۲۳؍اپریل۱۹۳۶ء کو مولوی نذیر احمد علی صاحب گولڈ کوسٹ پہنچے اور کام پر لگ گئے۔ مولوی نذیر احمد علی صاحب نے انہیں چار ماہ کا خرچ بیس پاؤنڈ مقامی چندہ سے دیا مگر کچھ دنوں بعد ناظر صاحب بیت المال نے وہ رقم واپس طلب کی کیونکہ وہ چندہ کی رقم تھی۔ اس وقت مولوی صاحب کو حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے وہ الفاظ یاد آئے کہ ’’تجارت کی طرف بھی توجہ دینا‘‘۔ چنانچہ مولوی صاحب نے صرف دس روپیہ سے تجارت شروع کی۔ جس میں بعد کو مولوی نذیر احمد علی صاحب بھی شامل ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں ایسی برکت ڈالی کہ چھ ماہ تک انہوں نے وہ بیس پاؤنڈ واپس کر دیے اور اپنے اخراجات خود چلاتے رہے۔ جب ایک سکول کا استاد فو ت ہوگیا تو مولوی صاحب کو اپنے مبلغین کلاس کے علاوہ مدرسہ میں بھی پڑھانا پڑتا تھا۔ عصر کے بعد فراغت ہوتی تو تجارت کا کام نمازِمغرب سے پہلے تک کر لیا کرتے۔

اکتوبر ۱۹۳۷ء میں مولوی نذیر احمد علی صاحب کو سیرالیون مشن کھولنے کے لیے جانے کا حکم ہوا۔ تو مولوی نذیر احمد صاحب مبشر نے اسی اپنی تجارت سے مبلغ پینسٹھ۶۵پائونڈ اُنہیں کرایہ جہاز اور اس ضمانت کے لیے دیئے(باقی حوالہ جات میں ۶۰؍ پائونڈ کا ذکر ہے)۔ جو سیرالیون داخل ہونے پر دی جاتی تھی۔ اور اس کے بعد بھی اسی تجارت کے منافع سے انہیں اور رقم بھی سیرالیون بھیجی۔ جب جنگ کی وجہ سے تجارت بند ہوگئی تو اس وقت ان کو پانچ پاؤنڈ ماہوار مرکز کے الاؤنس سے ملنا شروع ہو ئے۔(الفضل ۱۸؍جنوری ۱۹۴۷ء )

کس چیز کی تجارت کرتے تھے!

مولانا نذیر احمد مبشر صاحب فرماتے ہیں کہ افریقہ میں اصل مقصد اور مشن تو دعوت الی اللہ کا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ مجھے گزراوقات کرنے کے لیے بھی کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا تھا۔ میں نے اپنے والد کو لکھا کہ مجھے سپورٹس کا کچھ سامان فٹ بال و غیرہ ادھار لے کر بھجوا دیں۔ اس طرح میرے والد محترم نے سامان بھجوا دیا جسے میں نے ایک شامی تاجر کو فروخت کر کے اپنی روزمرہ زندگی کی ضروریات کا سامان کر لیا۔ اور سارا وقت دعوت الی اللہ میں صَرف کرتا رہا۔ اس کے علاوہ لاہور کی امرت دھارا ایجنسی سے بعض دوائیاں منگواتا اور عصر سے مغرب تک مشن ہاؤس میں ہی کام کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے میری اس معمولی تجارت میں بہت برکت ڈالی کہ میری ضروریات پوری ہونے کے ساتھ ساتھ ۱۹۳۷ء میں جب مولوی نذیر احمد علی صاحب کا سیرالیون میں تبادلہ ہوا تو ان کا کرایہ جہاز اور دوسرے ضروری اخراجات کی ۶۰؍پاؤنڈ کی رقم اس تجارت کی آمدنی سے میں نے ادا کی۔ مولوی صاحب نے بتایا کہ میری روانگی کے وقت ملاقات کے دوران حضرت مصلح موعودؓ نے مجھے اشارتاً تجارت کی طرف توجہ دلائی تھی۔ (الفضل ۱۴؍جون ۲۰۰۶ء)

تجارت سے تبلیغی اخراجات کا حصول

اسی تجارت کے بارے میں حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں کہ مولانا مبشر صاحب کلیةً میری ذمہ داری پر میرے ہمراہ آئے تھے۔ اور بوقتِ روانگی حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی ؓ نے ہمیں تجارت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا تھا کہ دار التبلیغ کے اخراجات ایک حد تک تجارت کے ذریعہ پیدا کئے جائیں۔ خاکسار نے پہلے سے بعض فرموں سے بعض اشیاء کی ایجنسیاں حاصل کی ہوئی تھیں۔ برادرم مبشر صاحب نے بھی مختلف قسم کے سامان کی خرید و فروخت کا مکمل انتظام کر لیا۔ لیکن گولڈ کوسٹ پہنچ کر یہ زیادہ مناسب سمجھا گیا کہ اکٹھا کاروبار کیا جائے چنانچہ یہ سمجھوتہ ہوا کہ نصف منافع مولوی صاحب کا ہو۔ اور نصف میری معرفت تبلیغ احمدیت پر خرچ کیا جائے۔ چنانچہ اس معاہدہ کے ماتحت اس وقت تک کام ہو رہا ہے دو ملازمین اس واسطے رکھے ہوئے ہیں کہ وہ کام میں امداد دیں، اگر چہ تا حال کاروبار نے مستقل حیثیت اختیار نہیں کی۔ تاہم جولائی ۳۷ء میں مولانا مبشر صاحب نے فیصلہ کر لیا کہ اگست سے وہ اپنا الاؤنس مبلغ پانچ پاؤنڈ ماہوار جو لو کل جماعت کی طرف سے انہیں دیا جاتا ہے بند کردیں گے۔ اور آئندہ ان شاء الله العزیز کوئی رقم لو كل جماعت سے نہ لیں گے۔ بلکہ اپنے جملہ اخراجات کاروبار کے منافع سے پورا کریں گے۔ یہ ان کے غیر معمولی اخلاص کا ثبوت ہے۔ میں نے ان کی پیشکش قبول کرتے ہوئے یہ تجویز کی کہ علاوہ نصف منافع کے جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے۔ وہ تین پاؤنڈ ماہوار بطور الاؤنس مشترکہ تجارت کی آمد سے قبول فرمائیں۔ چنانچہ اگست سے اس پر عمل ہورہا ہے۔

میں نے اس ڈیڑھ سال کے عرصہ میں قریباً چالیس پاؤنڈ بطور منافع وصول کئے۔ جن میں سے ۹ پاؤنڈ تحریک جدید کے لیے بھیجے گئے۔ اور اکتیس پاؤنڈ سیرالیون میں تبلیغی اخراجات کے لیے لایا۔ اگر میرے پاس یہ روپیہ نہ ہوتا۔ تو میرے لیے سیرالیون میں داخل ہونا نا ممکن تھا۔ کیونکہ جہاز سے اترنے سے پہلے گورنمنٹ ۶۰ پاؤنڈ بطور ضمانت وصول کرتی ہے۔(الفضل قادیان ۱۴جنوری ۱۹۳۸ء )

گھانا کی تجارت کی سیرالیون میں برکات

مسیح محمدیؑ کے ان غریب الوطن مبلغین کی اس تجارت سے گھانا میں ذاتی اور جماعتی سطح پر انہیں کئی برکات حاصل ہوئیں۔ اور سیرالیون میں اس کی برکت میں وہ ٹیکس بھی ختم ہونا شامل ہے جو سیرالیون میں داخل ہونے کے لیے ضروری تھا۔ مولانا نذیر احمد علی صاحب لکھتے ہیں کہ سیرالیون میں ہمارے مبلغوں پر بھی دیگر نوواردوں کی طرح یہ پابندی عائد تھی کہ جہاز سے اترنے سے پہلے ساٹھ پاؤنڈ نقد بطور ضمانت جمع کرائیں۔ میں نے گذشتہ سال اس روک کو دُور کرنے کی بہت کوشش کی تھی۔ اور پولیس کے اعلیٰ ترین افسر سے کئی بار ملاقات بھی کی تھی۔ اس وقت تو نہیں لیکن بحمد اللہ اس سال جب روکوپُر سے کوشش کی گئی تو کامیابی ہوئی۔ اور گورنر کے حکم سے ہمارے مصدّقہ مبلغین کو اس پابندی سے آزاد کر دیاگیا۔ گویا بفضلہ تعالیٰ حکومت نے سیرالیون میں ہماری مستقل حیثیت کو تسلیم کر لیا ہے۔ (تابعین اصحابِ احمد جلد چہارم صفحہ ۷۲)

پس خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے کی گئی یہ تجارت کتنی باثمر ہوئی ہے۔ یَرۡجُوۡنَ تِجَارَۃً لَّنۡ تَبُوۡرَ۔(فاطر:۳۰) یعنی وہ ایسی تجارت کی امید لگائے ہوئے ہیں جو کبھی تباہ نہیں ہوگی۔ اس تجارت کے منافع سے ایک ملک میں اسلام احمدیت کا مبلغ داخل ہوتا ہے۔ اور ملک کو مغرب، شمال، جنوب اور مشرق میں فتح کرتا چلا جاتا ہے۔ اس للہی تجارت کے سبب ہزاروں ایسی سعید روحیں عطا ہوئیں جنہوں نے ہزار ہزار پاؤنڈ یکمشت چندہ میں ادا کر دیے۔ لاکھوں پاؤنڈز مالیت کی زمین ومکان خدا کی خاطر جماعت کو ہبہ کردیے۔ پس یہ وہ تجارت ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ بلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ۔ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوۡلِہٖ وَتُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَاَنۡفُسِکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ۔(الصف: ۱۱، ۱۲) یعنی اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت پر مطلع کروں جو تمہیں ایک دردناک عذاب سے نجات دے گی؟ تم (جو) اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہو اور اللہ کے راستے میں اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرتے ہو، یہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

دعا اور امرت دھارا کا کمال پہلے احمدی پیراماؤنٹ چیف کو مزمن بیماری سے معجزانہ شفا

وہ بات جس کا ذکرشروع میں ہواتھا کہ امرت دھارا کے حوالے سے ایک واقعہ ذہن میں آیا وہ درج ذیل ہے۔

مولانا نذیر احمدعلی صاحب نے اس واقعہ کا مختصر احوال اپنی رپورٹ میں درج کیا، جو الفضل قادیان ۲۲؍ ستمبر ۱۹۴۰ء میں شائع ہوا۔ لیکن اس واقعہ کی تفصیل مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب نے درج کی ہوئی ہے۔ سیرالیون کے مشرقی صوبہ کے ضلع کینیما میں ایک چھوٹی سی ریاست گوراما ہے۔ اُس وقت یہ علاقہ سڑک سے تیس میل دُور اور ڈاکخانہ سے پچاس میل دور تھا۔ اس وقت بھی فاصلہ ۶۰؍ کلومیٹر سے زائد کی ناہموار ڈرائیو پر واقع ہے۔ جماعت ٹونگے کینیما ریجن کے تحت ہے۔ باؤماہوں اِس وقت بو ریجن کے تحت ہے اور یہ ناہموار راستہ ۷۰؍ کلو میٹر پر محیط ہے۔ جبکہ باؤماہوں سے ٹونگے کا راستہ بھی ناہموار اور دشوار گزارہے۔ اس رستہ سے پیدل جاتے ہوئے ایک بار مولوی صدیق امرتسری صاحب کو ملیریا نے آ لیا جس کے سبب مولوی نذیر احمد علی صاحب انہیں اپنے کندھوں پر اٹھا کر کافی دیر چلے تھے۔

وہاں کےعیسائی پیراماؤنٹ چیف بائیو Baio کی نیک نامی اور کشادہ دستی کی وجہ سے باؤماہوں کے لوگوں کی بہت آمدورفت رہتی تھی اور مختلف عامل اور طبیب ان کی مزمن بیماری کے علاج کے سبب جو انہیں بیس سال سے لاحق تھی ان سے روپیہ اینٹھتے رہتے تھے۔

مولانا نذیر احمد علی مرحوم ۱۹۳۹ء میں پہلی مرتبہ اس ریاست کے قریب ایک قصبہ باؤماہوں میں بغرض تبلیغ تشریف لائے اور وہاں اللہ تعالیٰ نے ایک مخلص اور مضبوط جماعت عطا فرما دی۔ اس جماعت کے لوگوں نے انہیں ریاست گوراما کے صدر مقام ٹونگے میں مذکورہ بالا چیف بائیو کو تبلیغ اسلام کرنے کی تحریک کی۔ چنانچہ چند مخلصین کے ساتھ باؤماہوں سے ۲۰؍میل کا دشوار گزار راستہ پیدل طے کرکے ٹونگے پہنچے اور چیف بائیو اور وہاں کے باشندوں کو پبلک لیکچروں اور پرائیویٹ ملاقاتوں کے ذریعہ اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ اس قصبہ میں امریکہ کے یو بی سی (یعنی چرچ آف یونائیٹڈ برادرن) عیسائی مشن کے سفید فام عیسائی پادری دس سال سے چیف بائیو کی سر پرستی میں عیسائیت کے پرچار میں مصروف تھے تاہم ان کی مزمن بیماری کا علاج کرنے میں وہ انتہائی کوششوں کے باوجود بالکل ناکام رہے تھے۔

اگرچہ عیسائی پادریوں کو وہاں حضرت مولانا علی صاحب مرحوم کی تبلیغی مہم سخت ناگوارتھی مگر چیف اور پبلک کے اصرار پر انہیں مولانا صاحب سے دو پبلک مناظرے کرنے پڑے جن میں ان کے ضلعی امریکن ہیڈ پادری ریورنڈ لیڈر (LEADER) کو بری طرح شکست ہوئی اور چیف بائیو اسلام کی طرف مائل ہو گئے۔ آخر چیف نے حضرت مولانا صاحب مرحوم سے اس شرط پر اپنے قبیلہ اور ریاست کے سرکردہ لوگوں سمیت اسلام قبول کرلینا منظور کیا کہ ان کی صحت یا بی کی ذمہ داری لی جائے۔

حضرت مولانا صاحب مرحوم نے اسلام کے زندہ اور شافی خدا پر توکل او راعتماد کرتے ہوئے ان کی یہ شرط منظور کرلی اور حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں تمام حالات عرض کر کے چیف مذکور کے لیے خاص دعا کی درخواست کی اور خود بھی اور سیرالیون کے تمام احمدی بھی دعاؤں میں مصروف ہوگئے۔

یہ چیف اس وقت چلنے پھرنے کے قابل بھی نہ تھے اور مناظرے سننے کے لیے انہیں ہَمک(Hammock) میں اُٹھا کر لایا گیا تھا۔ حضرت مولانا صاحب مرحوم کے پاس لاہور کے ایک ہندو ویدک حکیم کی ایک مشہور دوائی ’’امرت دھارا‘‘کی چند شیشیاں موجود تھیں انہوں نے چیف کو پہلے ایک جلاب دیا اور پیٹ صاف ہو جانے کے بعد انہیں امرت دھارا پانی میں ملا کر اور اس پر آیات قرآنیہ کا دم کر کے پلانا شروع کردیا۔ نیز خوراک اور صفائی وغیرہ کے بارے میں اپنی نگرانی میں ان سے خاص احتیاطیں کرانی شروع کر دیں۔ ان کے پینے کے لیے خود پانی ابال کراور فلٹر کر کے ان کے لیے روزانہ مہیا کرتے رہے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اس دوران دعا کے لیے بار بار خط بھی لکھتے رہے۔ چنانچہ حضور کی دعاؤں کی برکت سے انہیں چند دنوں میں اتنا افاقہ ہو گیا کہ وہ چل کر مولانا صاحب مرحوم کے ساتھ باجماعت نماز کے لیے آنے لگے۔ کھانے پینے کے لیے مولانا صاحب نے ان کے لیے کویکراوٹس(Quaker Oats)، اوولٹین(Ovaltine)، ہاریکس اور سینی ٹوجن وغیرہ قسم کے ولایتی ڈبے منگائے۔ نیز ا نڈے ہاف بوائل کر کے انہیں دیتے رہے اور یوں خدا کے فضل سے چند دنوں میں ان کی صحت بہت ترقی کر گئی۔ جس کے بعد مولانا صاحب نے اس شرط پران کی بیعت بھی بغرض منظوری حضور کی خدمت میں ارسال کردی کہ وہ شراب کبھی نہیں پیئیں گے اور چار سے زائد بیویوں سے ازدواجی تعلق نہیں رکھیں گے۔ کیونکہ باقی ایک سو سے زائد سب بیویوں کو فوری طور پر چھوڑ دینا ملکی اور سیاسی لحاظ سے ان کے لیے سخت نقصان دہ تھا۔ بعض ان میں سے صاحب اولاد بھی تھیں۔اس کے بعد قصبہ کے باشندوں میں سے بھی کثیر تعداد میں لوگ بیعت کرکے اسلام میں شامل ہو گئے اور چیف نے وہاں مسجد بنا نے کا حکم دے دیا۔ جو اس مشرک قصبہ میں اسلام کی پہلی مسجد تھی حضرت مصلح موعودؓ نے تمام نو مسلموں کی بیعتیں قبول فرماتے ہوئے چیف کا اسلامی نام ’’صلاح الدین بائیو‘‘ رکھا۔

اس دوران امریکن پادریوں نے پہلے تو چیف سے بقول ان کے، اس غداری کا شکوہ کیا اور اپنے احسان ان کو جتائے لیکن چیف نے انہیں صاف صاف جواب دے دیا کہ ریاست کی بہبودی کے لیے آپ کی مساعی اور تعلیمی جد وجہد کے ہم شکر گزار ہیں لیکن مذہب کا معاملہ ہرایک کے دل سے تعلق رکھتا ہے اس میں کسی پر جبر نہیں۔ البتہ جو ریاستی سہولتیں عیسائی مشنوں کو حاصل تھیں وہ برقرار رہیں گی۔ اور میں تمہارے سکولوں کی سر پرستی بھی کرتا رہوں گا لیکن چونکہ میں اب عیسائیت کو خیر باد کہہ کر مسلمان ہو چکا ہوں اس لیے آپ کے چرچ سے وابستگی اب میرے لیے ممکن نہیں ہوگی تاہم آپ کو عیسائیت کی تبلیغ وغیرہ کی ہر طرح آزادی ہے۔

مولانا علی صاحب نے سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو قادیان تار دیا کہ تقریبا ًپانچ صدافراد کی معیت میں ایک عیسائی پیراماؤنٹ چیف نے اسلام قبول کیا ہے اس لیے کام کی وسعت کے پیش نظر فوری طور پر ایک اور مبلغ اسلام سیرالیون روانہ کیا جائے چنانچہ اس ضرورت کو فوری طور پر پورا کرنے کے لیے حضور رضی اللہ عنہ نے حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ امام مسجد فضل لندن کو تار دلوایا کہ محمد صدیق امرتسری کو لندن سے فوراً سیرالیون تبدیل کر دیا جائے۔ چنانچہ حضور کے اس حکم کے مطابق وہ مارچ ۱۹۴۰ء کو لندن سے بذریعہ بحری جہاز سیرالیون پہنچ گئے۔(ماخوذ از روح پروریادیں صفحہ ۲۱۹-۲۲۲)

یاد رہے کہ ہم اپنے اجلاسوں میں عہد کرتے ہیں کہ میں اقرار کرتا ہوں کہ دینی، قومی اور ملی مفاد کی خاطر میں اپنی جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لیے ہر دم تیار رہوں گا۔ تو اس کی عملی مثال یہ ہے کہ ان دو عظیم مبلغین اسلام نے اپنی جان، مال، وقت اور عزت سب قربانی کردی۔ مولانا نذیر احمد مبشر صاحب نے اپنی زندگی وقف کی، اپنی تجارت سے جہاں اپنا خرچ خود اٹھایا بلکہ سیرالیون کے لیے اپنے خرچ پر مبلغ بھجوانے کا انتظام کیا۔ اور مسلسل گیارہ سال تک مجاہدانہ خدمات اور سرفروشانہ تبلیغ کا فریضہ ادا کرنے میں مصروف رہے۔آپ کا گیارہ سال قبل نکاح ہوا تھا اور نوجوانی کا بہترین زمانہ خدا کی راہ میں گزارنے کے بعد جب واپس لوٹے تو داڑھی میں سفید بال آ چکے تھے، تب اس نکاح کا رخصتانہ عمل میں آیا۔ (الفضل ۱۳؍فروری ۱۹۴۷ء )

دوسری جانب مولانا نذیر احمد علی صاحب ایسی ہی قربانی بجا لاتے رہے اور بالآخر اپنے عہد کو پورا کرتے ہوئے افریقہ میں وفات پاکر اور دفن ہوکر اپنے ان الفاظ کو پورا کرنے والے بنے کہ ’’آج ہم خدا تعالیٰ کے لیے جہاد کرنے اور اسلام کو مغربی افریقہ میں پھیلانے کے لیے جا رہے ہیں۔ موت فوت انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ ہم میں سے اگر کوئی فوت ہوجائے تو آپ لوگ یہ سمجھیں کہ دنیا کا کوئی دُور دراز حصہ ہے جہاں تھوڑی سی زمین احمدیت کی ملکیت ہے۔ احمدی نوجوانوں کا فرض ہے کہ اس تک پہنچیں اوراس مقصد کو پورا کریں جس کی خاطر اس زمین پر ہم نے قبروں کی شکل میں قبضہ کیا ہوگا۔ پس ہماری قبروں کی طرف سے یہی مطالبہ ہوگاکہ اپنے بچوں کو ایسے رنگ میں ٹریننگ دیں کہ جس مقصد کے لیے ہماری جانیں صرف ہوئیں اسے وہ پورا کریں‘‘۔

مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَمِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُُ۔ (الاحزاب:۲۴)مومنوں میں ایسے مرد ہیں جنہوں نے جس بات پر اللہ سے عہد کیا تھا اُسے سچا کر دکھایا۔ پس اُن میں سے وہ بھی ہے جس نے اپنی مَنّت کو پورا کر دیا اور ان میں سے وہ بھی ہے جو ابھی انتظار کر رہا ہے اور انہوں نے ہرگز (اپنے طرز عمل میں) کوئی تبدیلی نہیں کی۔

(ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: امیر حبیب اللہ فری میسن کیوں بنے؟

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button