مسجدوں کی اصل زینت نمازیوں کے ساتھ ہے
مسجدوں کی اصل زینت عمارتوں کے ساتھ نہیں ہے۔ بلکہ ان نمازیوں کے ساتھ ہے جو اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔ ورنہ یہ سب مساجد ویران پڑی ہوئی ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد چھوٹی سی تھی۔ کھجور کی چھڑیوں سے اس کی چھت بنائی گئی تھی۔ اور بارش کے وقت چھت میں سے پانی ٹپکتا تھا۔ مسجد کی رونق نمازیوں کے ساتھ ہے۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۴۹۱ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔ یہ خانۂ خدا ہوتا ہے۔ جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔ اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر، جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنا دینی چاہئے پھر خدا خود مسلمانوں کوکھینچ لاوے گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ قیام مسجد میں نیّت بہ اخلاص ہو۔ محض لِلّٰہ اسے کیاجاوے۔ نفسانی اغراض یا کسی شر کو ہرگز دخل نہ ہو۔ تب خدا برکت دے گا۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۹۳ ایڈیشن۱۹۸۸ء)
یاد رکھو ہماری جماعت اس بات کے لئے نہیں ہے جیسے عام دنیا دار زندگی بسر کرتے ہیں۔ نرا زبان سے کہہ دیا کہ ہم اس سلسلہ میں داخل ہیں اور عمل کی ضرورت نہ سمجھی۔ جیسے بدقسمتی سے مسلمانوں کا حال ہے کہ پوچھو تم مسلمان ہو تو کہتے ہیں شکر اَلْحَمْدُلِلّٰہ۔ مگر نماز نہیں پڑھتے اور شعائر اللہ کی حرمت نہیں کرتے۔ پس میں تم سے یہ نہیں چاہتا کہ صرف زبان سے ہی اقرار کرو اور عمل سے کچھ نہ دکھاؤ۔ یہ نکمی حالت ہے۔ خداتعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا۔ اور دنیا کی اس حالت نے ہی تقاضا کیا کہ خداتعالیٰ نے مجھے اصلاح کے لئے کھڑا کیا ہے۔ پس اب اگر کوئی میرے ساتھ تعلق رکھ کر بھی اپنی حالت کی اصلاح نہیں کرتا اور عملی قوتوں کو ترقی نہیں دیتا بلکہ زبانی اقرار ہی کو کافی سمجھتا ہے وہ گویا اپنے عمل سے میری عدم ضرورت پر زور دیتا ہے۔ پھر تم اگر اپنے عمل سے ثابت کرنا چاہتے ہو کہ میرا آنا بے سو دہے تو پھر میرے ساتھ تعلق کرنے کے کیا معنے ہیں؟ میرے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہو تو میری اغراض و مقاصد کو پورا کرو۔ اور وہ یہی ہیں کہ خداتعالیٰ کے حضور اپنا اخلاص اور وفاداری دکھاؤ اور قرآن شریف کی تعلیم پر اسی طرح عمل کرو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرکے دکھایا اور صحابہ نے کیا۔ قرآن شریف کے صحیح منشا کو معلوم کرو اور اس پر عمل کرو۔ خداتعالیٰ کے حضور اتنی ہی بات کافی نہیں ہو سکتی کہ زبان سے اقرار کر لیا اور عمل میں کوئی روشنی اور سرگرمی نہ پائی جاوے۔ یاد رکھو کہ وہ جماعت جو خداتعالیٰ قائم کرنی چاہتا ہے وہ عمل کے بدوں زندہ نہیں رہ سکتی۔یہ وہ عظیم الشان جماعت ہے جس کی تیاری حضرت آدمؑ کے وقت سے شروع ہوئی۔ کوئی نبی دنیا میں نہیں آیا جس نے اس دعوت کی خبر نہ دی ہو پس اس کی قدر کرو اور اس کی قدر یہی ہے کہ اپنے عمل سے ثابت کرکے دکھاؤ کہ اہل حق کا گروہ تم ہی ہو۔
(ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۲۸۲ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
مزید پڑھیں: بدظنّی صِدق کی جڑ کاٹنے والی چیز ہے