دعا کی اہمیت(حصہ اوّل)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’دعا خدا تعالیٰ کی ہستی کا زبردست ثبوت ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ(البقرہ:۱۸۷)یعنی جب میرے بندے تجھ سے سوال کریں کہ خدا کہا ں ہے تو کہہ دو کہ وہ بہت قریب ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کا جواب دیتا ہوں یہ جواب کبھی رؤیا صالحہ کے ذریعہ ملتا ہے کبھی کشف اورالہام کے واسطے سے اور علاوہ بریں دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا اظہار ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا قادر ہے جو مشکلات کو حل کر دیتا ہے۔ غرض دعا بڑی دولت اور طا قت ہے اور قرآن شریف میں جا بجا اس کی ترغیب دی ہے اور ایسے لوگوں کے حالات بتائے جنہوں نے دعا کے ذریعہ اپنی مشکلات سے نجات پائی۔ انبیاء علیہم السلام کی زندگی کی جڑ اور ان کی کامیابیوں کا اصل ذریعہ یہی دعا ہے۔ پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی ایما نی اور عملی حالت کو بڑھانے کے واسطے دعاؤں میں لگے رہو دعاؤں کے ذریعہ سے ایسی تبدیلی ہو گی جو خدا کے فضل سے خاتمہ بالخیر ہو جائے۔‘‘
(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ ۶۵۱)
حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: دعا ایسی مصیبت سے بچانے کے لیے بھی فائدہ دیتی ہے جو نازل ہو چکی ہو اور ایسی مصیبت کے بارے میں بھی جو ابھی نازل نہ ہوئی ہو۔ پس اے الله کے بندو! دعا کو اپنے اوپر لازم کر لو۔ (ترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء فی فضل الدعاء)
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: جو شخص مشکل اور مصیبت کے وقت خدا سے دعا کرتا اور اس سے حل مشکلات چاہتا ہے وہ بشرطیکہ دعا کو کمال تک پہنچا دے خدا تعالیٰ سے اطمینان اور حقیقی خوشحالی پاتا ہے اور اگر بالفرض وہ مطلب اس کو نہ ملے تب بھی کسی اور قسم کی تسلی اور سکینت خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کو عنایت ہوتی ہے اور وہ ہرگز ہرگز نامراد نہیں رہتا اور علاوہ کامیابی کے ایمانی قوت اس کی ترقی پکڑتی ہے اور یقین بڑھتا ہے لیکن جو شخص دعا کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف منہ نہیں کرتا وہ ہمیشہ اندھا رہتا ہے اور اندھا مرتا ہے۔
آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: دعا کی پہلی شرط دعا کو کمال تک پہنچانا ہے اور جو حقیقت میں دعا کرتا ہے وہ صرف ظاہری چیز کو نہیں دیکھتا جو مومن ہے جس میں مومنانہ فراست ہے جو خدا تعالیٰ کے تعلق کو جانتا ہے وہ صرف یہ نہیں دیکھتا کہ میں جو مانگ رہا ہوں مجھے مل گیا بلکہ فرمایا کہ اطمینان اور خوشحالی پاتا ہے۔ اور یہ ہرگز صحیح نہیں ہے کہ ہماری حقیقی خوشحالی صرف اسی امر میں میسر آسکتی ہے جس کو ہم بذریعہ دعا چاہتے ہیں بلکہ وہ خدا جانتا ہے کہ ہماری حقیقی خوشحالی کس امر میں ہے؟ وہ کامل دعا کے بعد ہمیں عنایت کر دیتا ہے۔ جو شخص روح کی سچائی سے دعا کرتا ہے وہ ممکن نہیں کہ حقیقی طور پر نامراد رہ سکے بلکہ وہ خوشحالی جو نہ صرف دولت سے مل سکتی ہے اور نہ حکومت سے اور نہ صحت سے بلکہ خدا کے ہاتھ میں ہے جس پیرایہ میں چاہے عنایت کر سکتا ہے ہاں وہ کامل دعاؤں سے عنایت کی جاتی ہے اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو ایک مخلص صادق کو عین مصیبت کے وقت وہ لذت حاصل ہو جاتی ہے جو ایک شہنشاہ کو تخت شاہی پر حاصل نہیں ہو سکتی۔ سو اسی کا نام حقیقی مراد یابی ہے جو آخر دعا کرنے والوں کو ملتی ہے۔ (ماخوذ از ایام صلح، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۲۳۷)
ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۸؍مارچ ۲۰۱۳ء میں یہ قرآنی دعا رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّفِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرہ :۲۰۲) ’’اے ہمارے ربّ! ہمیں اس دنیا میں بھی حسنہ عطا فرما اور آخرت میں بھی‘‘ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:’’یہ دعا آنحضرتﷺ بھی خاص طور پر پڑھا کرتے تھے۔(صحیح بخاری کتاب الدعوات باب قول النبیﷺ حدیث 6389) اور صحابہؓ کو بھی اس طرف توجہ دلائی اور صحابہؓ بھی خود توجہ سے پڑھا کرتے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ایک وقت میں جماعت کے افراد کو یہ کہا تھا کہ خاص طور پر ہر نماز کی آخری رکعت میں رکوع کے بعد جب کھڑے ہوتے ہیں تو اس میں یہ دعا پڑھا کریں۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد ۱ صفحہ ۶)
حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے بھی خاص طور پر اس دعا کی طرف اپنے مختلف خطبات میں توجہ دلائی اور جماعت کو پڑھنے کی تلقین فرمائی اور اس کی تفسیر بھی بیان فرمائی۔ پس اس دعا کی بہت اہمیت ہے۔
(مرسلہ:ام مرحا جماعت جرمنی)
(باقی آئندہ)