متفرق مضامین

مکرم مرزا محمد الدین ناز صاحب (مرحوم)(صدر صدر انجمن احمدیہ پاکستان) کی خدماتِ سلسلہ اور اوصافِ حمیدہ: ایک رپورٹ

صدر صدرانجمن احمدیہ ربوہ پاکستان، جماعت احمدیہ کے دیرینہ خادم اور نصف صدی سے زائد عرصہ (۵۳سال) تک خدمات دینیہ بجا لانے والے مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ مکرم و محترم مولانا مرزا محمدالدین ناز صاحب مورخہ ۲۴ ؍دسمبر ۲۰۲۴ء بروز منگل طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ میں دوپہر ایک بجے بعمر ۸۱؍سال وفات پاگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون

مورخہ ۱۸؍دسمبر ۲۰۲۴ءبروز بدھ آپ کو رات ایک بجے ہارٹ اٹیک ہوا، آپ کو فوری طور پر طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ لے جایا گیا۔ جہاں آ پ وینٹیلیٹر (ventilator) پر ایک ہفتہ زیر علاج رہنے کے بعد انتقال کرگئے۔ اسی دن بعد نماز مغر ب مسجد مبارک میں آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔تدفین بہشتی مقبرہ دارالفضل میں عمل میں آئی جس کے بعد اجتماعی دعا ہوئی۔ اس موقع پر ربوہ کے خدام نے مستعدی کے ساتھ مختلف جگہوں پر ڈیوٹیاں سرانجام دیں۔ نماز جنازہ اور تدفین کے موقع پر اہل ربوہ اور گردونواح کے اضلاع سے کثیر تعداد میں احباب نے شرکت کی۔

مولانا مرزامحمدالدین ناز صاحب ۴؍اپریل ۱۹۴۳ء کو مکرم مرزا احمد دین صاحب کے ہاں چک نمبر ۱۰۰-۶-R تحصیل ہارون آباد ضلع بہاولنگر میں پیدا ہوئے۔ آپ کی پیدائش سے ایک سال پہلے آپ کے والد مرزا احمد دین صاحب نے بیعت کی توفیق پائی، اس طرح محترم ناز صاحب پیدائشی احمدی تھے۔ مکرم احمد دین صاحب پرائمری سکول کے ہیڈماسٹر تھے جن کی ٹرانسفر مختلف جگہوں پر ہوتی رہتی تھی۔ محترم ناز صاحب نے پرائمری کلاس چک نمبر ۸۔ ایم بی ضلع خوشاب سے جبکہ میٹرک گورنمنٹ ٹیکنیکل ہائی سکول جوہر آباد سے پاس کیا۔ گورنمنٹ تعلیم الاسلام کالج ربوہ سے ایف ایس سی مکمل کرنے کے بعد آپ گورنمنٹ کے محکمہ تعلیم کے تحت کنٹریکٹ (contract) پر تین سال تک چک نمبر ۲۶۔ ایم بی کے ہائی سکول میں تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔اکتوبر ۱۹۶۵ء میں اپنی زندگی وقف کرکے جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ دورانِ تعلیم جامعہ احمدیہ آپ نے بی اے اور مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ مئی ۱۹۷۱ء میں جامعہ احمدیہ سے شاہد کا امتحان پاس کرکے فارغ التحصیل ہوئے۔ آپ کا پہلا تقرر ایڈیشنل نظارت اصلاح و ارشاد میں ہوا جس کے تحت آپ کو ۲۶؍مئی ۱۹۷۱ء تا ۱۰؍جون ۱۹۷۱ء شورکوٹ میں خدمت کی توفیق ملی۔ جولائی ۱۹۷۱ء میں آپ کا تقرر جامعہ احمدیہ ربوہ میں بطور استاد صَرف و نحو ہوا۔ آپ کو ۱۹۷۱ء تا ۲۰۰۸ء سینتیس سال تک جامعہ احمدیہ میں بطور پروفیسر تدریس فرائض سر انجام دینے کی توفیق ملی، اس دوران آپ جامعہ میں مختلف خدمات بھی انجام دیتے رہے جن میں ناظم الامتحانات، ہائیکنگ انچارج، ٹیوٹر، سپرنٹنڈنٹ ناصر ہوسٹل اور وائس پرنسپل جیسے اہم عہدے شامل ہیں۔

آپ نے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ اور مجلس انصاراللہ پاکستان میں غیر معمولی خدمات سر انجام دیں۔ مجلس خدام الاحمدیہ اُ س وقت مرکزیہ کے طور پر کام کرتی تھی آپ نے مندرجہ ذیل مختلف شعبہ جات میں خدمات انجام دیں۔ مہتمم مقامی(۱۹۷۹ء۔۱۹۸۰ء اور ۱۹۸۲ء۔۱۹۸۳ء)، مہتمم اطفال(۱۹۸۰ء۔۱۹۸۱ء اور ۱۹۸۱ء۔۱۹۸۲ء)، نائب صدر (۱۹۸۳ء۔۱۹۸۴ء اور ۱۹۸۴ء۔۱۹۸۵ء)

اسی طرح مجلس انصاراللہ پاکستان میں آپ نے بطور قائد وقفِ جدید۱۹۸۶ء تا ۱۹۸۸ء (تین سال) اور بطور نائب صدر مجلس انصااللہ پاکستان ۱۹۸۹ء تا ۱۹۹۴ء (چھ سال) خدمات سرانجام دیں۔

آپ نے متعدد کمیٹیوں اور بورڈز کی سربراہی کی اور ممبرکے طور پر بھی خدمت کرتے رہے۔تفصیل اس طرح ہے۔

٭…مجلس افتا کے ممبر: یکم دسمبر ۱۹۸۳ء تا ۳؍مارچ ۲۰۱۸ء۔

٭…تدوین فقہ کمیٹی کے ممبر: ۱۲؍جون ۱۹۹۶ء تا ۲؍مارچ۲۰۱۸ء۔

٭…قاضی دارالقضاء: ۱۹۸۲ء تا ۱۹۸۸ء

٭…ممبر قضاء بورڈ: یکم جنوری ۲۰۱۱ء تا فروری ۲۰۱۸ء۔

٭…صدر عربی ڈیسک پاکستان: جنوری ۲۰۱۲ء تا وفات

بیوت الحمد سکیم کے اجرا کے ساتھ ہی آپ اس کی مرکزی کمیٹی کے سیکرٹری بنائے گئے اور مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کے ناظر اعلیٰ بننے کے بعد کچھ عرصہ کے لیے صدر بیوت الحمد کمیٹی بھی رہے۔ اس کے علاوہ تزئین ربوہ کمیٹی کے آغاز میں اس کے سربراہ کے فرائض بھی انجام دیے۔

آپ ایک کہنہ مشق مقرر، ادیب، صحافی اور شاعر تھے۔ فروری ۱۹۸۶ء تا دسمبر۱۹۹۳ء (۸سال) بطور ایڈیٹر ماہنامہ انصاراللہ ربوہ خدمات سرانجام دیں۔ اس دور میں آپ کی تحریرو تقریر کا بہت چرچا ہوا کرتا تھا۔ خاص طور پر ماہنامہ انصاراللہ کے اداریے احمدی احباب بہت ذوق و شوق سے پڑھتے تھے۔ مقفیٰ و مسجع عبارت جس میں بہت ناپ تول کرہم قافیہ اور ہم آہنگ الفاظ کا چناؤ آپ کے طرز تحریر کو چار چاند لگا دیتا تھا۔ کیونکہ آپ بنیادی طور پر صَرف و نحو کے ماہر تھے اس لیے آپ کی اردو تحریر میں اکثر عربی الفاظ کا استعمال بھی ہوتا تھا۔ ایک مجلس میں پاکستان کے نامور احمدی شاعر جناب عبیداللہ علیم نے آپ کی موجودگی میں آپ کی تحریر پر تبصرہ کرتے ہوئے ازراہ تفنن کہا کہ ناز صاحب کے اداریے تو اپنے ساتھ ڈکشنری رکھ کر پڑھنے چاہئیں۔

محترم ناز صاحب کو قرآن اور سائنس کا موضوع بہت پسند تھا اور اس پر اکثر کتب کا مطالعہ کر رکھا تھا۔ جامعہ احمدیہ میں اسلام، قرآن اور سائنس پر ایک مقالہ بھی پڑھا جسے حضرت مرزا طاہر احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ) نے بھی سماعت کیا اور فرمایاآج مجھے بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملا ہے۔

آپ کولمبے عرصہ تک مسجد اقصیٰ اور مسجد مبارک میں جمعہ پڑھانے کا موقع ملا۔ آپ کے خطبات تربیتی، علمی، اخلاقی،تحقیقی اور پُرمغز مواد سے مزیّن ہوتے تھے۔ رمضان المبارک کے دوران آپ کو مسجد مبارک میں ہونے والے درس القرآن اور درس الحدیث دینے کی بھی توفیق ملی۔ احباب دُور دُور سے آپ کے درس سننے کے لیے تشریف لاتے تھے۔ آپ کی زندگی کے آخری برسوں میں آپ کو مسجد مبارک میں امام الصلوٰۃ کے فرائض ادا کرنے کا بھی موقع ملا۔

آپ کو بہت سے جماعتی مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ تھانہ ربوہ میں آپ کے خلاف ۱۵ اِیف آئی آرز کاٹی گئیں۔سالہاسال تک ان مقدمات کی پیر وی کے لیے آپ کو عدالت جانا پڑا۔ان مقدمات کی تفصیل درج ذیل ہے۔

۱۔۳؍اگست ۱۹۸۸ء تا یکم دسمبر ۲۰۰۶ء

۲۔ ۲۲؍مئی ۱۹۸۹ء تا ۲۳؍جون ۱۹۹۷ء

۳۔ ۲۲؍مئی ۱۹۸۹ء تا ۲۳؍جون ۱۹۹۷ء (الگ مقدمہ)

۴۔ ۲۲؍فروری ۱۹۹۰ء تا یکم دسمبر ۲۰۰۶ء

۵۔ ۱۷؍اگست۱۹۹۰ء تا یکم دسمبر ۲۰۰۶ء

۶۔ ۲۳؍ستمبر ۱۹۹۰ء تا ۲۷؍اپریل ۲۰۰۷ء

۷۔ یکم اکتوبر ۱۹۹۰ء تا ۲۷؍اپریل ۲۰۰۷ء

۸۔ ۲۹ ؍مئی ۱۹۹۲ء تا ۲۷؍اپریل ۲۰۰۷ء

۹۔ ۲۹ ؍مئی ۱۹۹۲ء تا ۲۷؍اپریل ۲۰۰۷ء(الگ مقدمہ)

۱۰۔ ۲۳؍جولائی ۱۹۹۲ء تا ۲۷؍ اپریل ۲۰۰۷ء

۱۱۔ ۷؍مارچ ۱۹۹۳ء تا ۲۷؍ اپریل ۲۰۰۷ء

۱۲۔ ۱۷؍اپریل ۱۹۹۳ء تا ۲۷؍اپریل ۲۰۰۷ء

۱۳۔ ۱۶ ؍نومبر ۱۹۹۳ء تا ۲۷؍اپریل ۲۰۰۷ء

۱۴۔ ۲۹؍دسمبر ۱۹۹۳ء تا ۱۴؍جولائی ۱۹۹۷ء

۱۵۔ ۱۵؍جنوری ۱۹۹۴ء تا ۲۷؍اپریل ۲۰۰۷ء

اسی طرح ٹنڈو آدم ضلع سانگھڑ سندھ کے علاقے میں آپ پر پانچ مقدمات بنائے گئے۔ آپ کو ان مقدمات میں بے گناہ طور پر ملوث کیے جانے والے دیگر احمدی احبا ب کے ساتھ ۱۹۸۸ء تا ۲۰۰۶ء (۱۸سال) تک ربوہ سے سندھ تک کا طویل سفر کرکے جانا پڑا۔ بعض اوقات تو ایک سماعت کے بعد اگلی سماعت کی چند دن بعد کی تاریخ مل جاتی جس کی وجہ سے آپ کو کئی کئی دن وہاں رُکنا پڑتا یا کراچی ٹھہر کر پھر واپس ٹنڈو آدم آجاتے۔ یہ مشکلات اور صعوبتیں آپ نے جماعت کے لیے خوش دلی اور بشاشت کے ساتھ برداشت کیں۔ عزم و ہمت اور صبر و حوصلہ کے ساتھ عدالتوں اور کچہریوں کے چکر لگاتے رہے، آپ کی زندگی کا یہ بہت مشکل دور تھا لیکن آپ کی زبان پر کوئی شکوہ نہ آیا۔ ان مقدمات کے علاوہ محترم ناز صاحب کو مورخہ ۷؍فروری تا ۸؍مارچ ۱۹۹۴ء ایک ماہ تک مولانا نسیم سیفی صاحب ایڈیٹر روزنامہ الفضل ربوہ، مکرم آغاسیف اللہ صاحب مینیجر و پبلشر الفضل ربوہ، مکرم قاضی منیر صاحب پرنٹر الفضل ربوہ اور مکرم چودھری ابراہیم صاحب مینیجر و پبلشر ماہنامہ انصاراللہ کے ہمراہ اسیر ِراہ مولیٰ رہنے کی سعادت حاصل ہوئی۔

نومبر ۲۰۰۸ء میں آپ کو حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد تعلیم القرآن و وقف عارضی مقرر فرمایا۔ پھرفروری ۲۰۱۸ء میں حضورِانور نے آ پ کو ازراہ شفقت صدر صدر انجمن احمدیہ پاکستان مقرر فرمایا۔ مورخہ ۱۸؍ دسمبر ۲۰۲۴ءکو آپ نے مجلس صدر انجمن کے ایک اجلاس کی صدارت کی۔ اسی رات کو آپ کو ہارٹ اٹیک ہوا اور ایک ہفتہ وینٹیلیٹر پر رہنے کے بعد وفات پاگئے۔ اس طرح آپ کی دیرینہ خواہش پوری ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اس مخلص خادم سلسلہ کو زندگی کے آخری ایام تک خدمت دین کا موقع عطافرمایا۔ آپ ہمیشہ انجمن کے اجلاس میں بروقت تشریف لاتے اور اجلاس کی صدارت فرماتے۔ آپ کے دن بھر کے کاموں کا ایک معیّن پروگرام ہوتا اور حتی الوسع اس پر عمل کرتے۔ وقت کی پابندی، اصول پسندی، اپنے ماتحتوں، رشتہ داروں اور غریبوں کے ساتھ محبت و شفقت کا سلوک آپ کے نمایاں اوصاف تھے۔

عبادت میں بہت شغف تھا۔ کبھی نماز نہیں چھوڑی، کسی بھی جگہ اور محفل میں بیٹھے ہوتے اور نماز کا وقت ہوجاتا تو یہ کہہ کر اٹھ جاتے کہ نماز کا وقت ہوگیاہے،اب نماز پڑھیں۔ بارہ سال کی عمر سے ہی تہجد کی عادت پیدا ہوگئی تھی جو آخر تک قائم رہی۔ بہت اہتمام کے ساتھ نماز پڑھتے تھے، ٹھنڈے گرم پانی کی رعایت نہ رکھتے ہوئے وضو کرکے نماز کے لیے مسجد جاتے۔دل ہمہ وقت مسجد کی طرف ہی لگا رہتا۔ کوشش کرتے کہ ہر وقت باوضو رہیں۔ فرض اور نفلی روزے بہت باقاعدگی کے ساتھ رکھتے،عوارض کے باوجود آپ کی کوشش ہوتی کہ روزہ نہ چھوٹے۔ ساتھ فدیہ بھی ادا کرتے۔دل کے عارضے کے باوجو انتھک محنت کرکے خدماتِ دینیہ بجا لاتے۔ مزاج میں بہت سادگی تھی اور ساری زندگی غیراللہ کے سامنے کبھی دستِ سوال دراز نہ کیا۔ عہدیدار ہونے کے باوجود کبھی سہولتوں سے ناجائز فائدہ نہ اٹھایا۔ دفترلے جانے کے لیے اگر کار لیٹ ہوجاتی تو پیدل ہی دفتر آجاتے اور کبھی شکوہ نہ کرتے۔ سہولت کے باوجود دفتری گاڑی سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اپنے ذاتی کاموں کے لیے رکشہ استعمال کرتے۔ خلیفہ وقت کی طرف سے ہونے والی ہر تحریک پر والہانہ لبّیک کہتے اور دوسروں کو اطاعت خلافت کی تلقین کرتے۔ خلیفہ وقت کی طرف سے دعاؤں کی تحریک ہو یا روزانہ دو نفل ادا کرنے اور ہفتہ میں ایک بار نفلی روزہ رکھنے کی تحریک ،ہر ایک پرباقاعدگی کے ساتھ عمل پیرا تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو بتایا کہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی روزہ رکھنے کی تحریک پر عمل کرتے ہوئے مسلسل روزے رکھ رہا ہوں۔ یہ بات سن کر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے فرمایا کہ مَیں بھی اس وقت سے ہی روزے رکھ رہا ہوں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ جامعہ کے اساتذہ روزانہ ایک پارہ قرآن مجید کی تلاوت کریں تو آپ اپنے آقا کے حکم کی اطاعت میں عرصہ بیس سال سے روزانہ صبح ایک پارے کی تلاوت کرتے چلے آرہے تھے۔

آپ کی ایک ماہ کی اسیری کے بارے میں اوپر بیان کیا گیا ہے، اس حوالے سے فرمایا کرتے تھے کہ اس عرصہ میں نمازیں پڑھنے کا جو لطف آیا تھا وہ اس سے پہلے یا بعد میں نہیں آیا۔ دورانِ اسیری قرآن کریم کی تلاوت بھی خوب کی۔ آپ نے تمام زندگی کبھی کرسی پر بیٹھ کر نماز نہیں پڑھی، ہمیشہ کھڑے ہوکر نماز ادا کرتے۔ ہارٹ اٹیک والے دن بھی آپ نے ساری نمازیں کھڑے ہوکر ادا کیں۔

آپ بہت مہمان نواز تھے۔ گھر میں جو پکا ہوتا بےتکلفی سے مہمان کو پیش کر دیتے۔ آپ میں ہمدردیٔ خلق کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ گھر میں بےتکلفی سے باتیں کرتے لیکن کبھی نظامِ جماعت کے خلاف بات برداشت نہ کرتےتھے۔ عمومی طور پر شفیق اور عاجز انسان تھے، خودپسندی نام کی کوئی چیز ان میں موجودنہیں تھی۔ گھر میں کوئی رشتہ دار آتا تو اٹھ کر ملتے اور بہت خوش ہوتے۔ دروازے سے باہر تک الوداع کہنے جاتے۔ جب تک مہمان گلی کا موڑ مڑ نہ جاتا دروازے پر کھڑے رہتے۔ اپنے خاندا ن کے لیے روزانہ دو نوافل اد اکرتے۔

ایک نوجوان نے آ پ کو کہا کہ ناز صاحب! ہمیں آپ پر ناز ہے۔ آپ نے اس کو کہا کہ میں نے جماعت کے لیے اپنی زندگی وقف کی ہے اور خلیفۂ وقت سے بے انتہا محبت کرتا ہوں، اور خلیفہ وقت کی بہت محبت اور شفقت مجھے حاصل ہے جبکہ میں ایک عاجز انسان ہوں، یہ وجہ ہے کہ تم مجھ پر ناز کرسکتے ہو۔ آپ کے ایک بھانجے نے بتایا کہ وہ اس قدر مہربان اور شفیق تھے کہ چھوٹے سے چھوٹے بچے بھی آپ سے محبت کا اظہار کیے بغیر نہیں رہتے تھے۔ وہ احمدیت کا ایک چمکتا ہوا ستارہ تھے جنہوں نے اپنی ساری عمر جماعت کی خدمت اورخلیفہ وقت کی اطاعت میں گزار دی۔

اپنے خاندان کے تمام افراد کے لیے دعاؤں کا خزانہ تھے، سب کے لیے نام لے کر دعا کرتے تھے، ہر کسی سے آپ کا خاص تعلق تھا۔ آپ کا کوئی بھی رشتہ دار ملنے آتا تو کھڑے ہوکر ملتے، گلے لگاتےاور ماتھا چومتے۔ جب تک مہمان بیٹھ نہ جاتے کھڑے رہتے۔ کھانے کا اہتمام کرتے۔ آپ کو تکلف بالکل پسند نہیں تھا۔بصد اصرار اپنے پاس روک لیتے، رات دیر تک بیٹھے دینی باتیں کرتے اور خلافت کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات پر مشتمل واقعات سناتے۔ خلیفۂ وقت سے اطاعت کی تاکید کرتے تاکہ خلافت سے محبت پیدا ہو۔ جب نماز کا وقت ہوتا، نماز کے لیے اٹھاتے اور خود جائے نماز بچھا کر دیتے۔ قرآنی تعلیمات، احادیث اور سنت نبویﷺ پر عمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے گویا ان تعلیمات کی زندہ تصویر تھے۔ ایک مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے والد مرزا احمد دین صاحب سے فرمایا: محمدالدین ناز میرا بہت ہی پیارا بیٹا ہے اور خدمتِ دین میں جُتا ہوا ہے۔

آپ کی شادی ۲۹؍دسمبر ۱۹۷۹ء کو محترمہ سیدہ نصرت جہاں صاحبہ بنت مکرم سید عبدالہادی صاحب آف بنگال کے ساتھ عمل میں آئی۔ آپ کی اہلیہ صاحبہ نے ان کے بارے میں بتایا کہ آپ ایک شفیق، ہمدرد اور محبت کرنے والے شوہر تھے۔ آپ کے کاموں میں ایک نفاست،سلیقہ اور خوبصورتی ہوا کرتی تھی۔پینتالیس سال کی رفاقت کے دوران ہمارا کبھی جھگڑا نہیں ہوا۔ ہر کام میرے مشورے سے کرتے تھے۔ ہماری سوچ ایک جیسی ہوتی تھی۔ مجھے بہت اہمیت دیتے اور کہتے کہ میں اللہ تعالیٰ کا بہت شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے بہت اچھی اور تعاون کرنے والی بیوی دی ہے جو سید خاندان سے ہے، اسی کی وجہ سے میں یکسوئی کے ساتھ عبادت بجا لاتا ہوں اور خدمت دین کرتا ہوں۔ آپ کا ایک بیٹا تھا جو جوانی میں فوت ہو گیا۔ پھر آپ نے اپنے بھانجے فراز احمد کو بیٹا اور ایک بھانجی کو بیٹی بنایا ہوا تھا اور ان کی بہت پیار اور محنت سے پرورش اور تربیت کی۔ اپنے بھانجے کو ہر وقت ساتھ رکھتے، کسی پروگرام میں بلایا جاتا تو ساتھ لے کر جاتے۔ آپ کی بیماری سے دو ماہ پہلے فراز احمد بیمار ہوگیا اور ڈاکٹرز نے مایوسی کا اظہار کیا۔ اس پر آپ بہت پریشان ہوئے اور آپ نے بہت رقت کے ساتھ دعائیں کیں۔ ہر وقت اضطراب کی حالت میں رہتے اور حد سے زیادہ فکر مند ہوگئے جس کی وجہ سے آپ کی صحت پر بہت برا اثر پڑا۔ آپ کی دعاؤ ں اور اس تڑپ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کے بیٹے کوتو صحت عطا فرمادی لیکن آپ کی صحت خراب ہوگئی۔

آپ کو بیڈمنٹن اور ٹیبل ٹینس کھیلنے سے بہت شغف تھا۔ جامعہ میں خدمات کے دوران باقاعدگی کے ساتھ دونوں کھیلوں میں حصہ لیتے اور طلبہ کے ساتھ سخت مقابلہ کرتے اور اکثر جیت جاتے۔ کھانا آپ کا اکثر سادہ ہوتا۔ بعد نماز فجر پیدل چلنے کا بہت شوق تھا اور آخری عمر تک اس پر کاربند رہے۔ بہت سے احباب نے اس کی گواہی دی ہے کہ آپ ان کے گھر کے سامنے سے گزرتے تو سلام دعا ہوجاتی۔ جامعہ احمدیہ سے بیوت الحمد کالونی تک روزانہ صبح پیدل جایا کرتے تھے۔ واپسی پر آپ کے ہاتھوں میں موتیے اور گلاب کے پھول ہوتے۔ راستے میں آنے والے عزیز رشتہ داروں کے گھر رک کر ان کی پسند کے پھول دے کر آیا کرتے اور ایک گلاب کا پھول اپنی اہلیہ محترمہ کو گھر آکر دیتے۔

ادارہ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل محترم مولانا مرزا محمدالدین ناز صاحب صدر صدر انجمن احمدیہ ربوہ کی وفات پر حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز، محترم مولانا صاحب کی اہلیہ محترمہ اور دیگر پسماندگان اور افراد خاندان سے اظہار افسوس کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے اس مخلص خادم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، اور جملہ لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق دے۔ آمین

خدا رحمت کنند ایں عاشقانِ پاک طینت را

(رپورٹ:ابوسدید)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button