ہر ایک شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرے
زما نہ ایسا آیا ہو اہے کہ لوگ اپنے نفس کی اصلا ح کی طرف متوجہ ہوں۔ہزارہا انعامات اور خدا تعالیٰ کے فضل کے نشانات ہیں اور عیش وعشرت میں زندگی بسر کرنے سے تو نفس کو شرم نہ آئی کہ خدا کا بھی حق ادا کرے مگر شاید اس قہری نشان کو دیکھ کر اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں۔افسوس لوگ انعامات اور احسانا ت الٰہیہ سے توشرمندہ نہ ہوئے اب اس عذاب ہی سے ڈرکرسنور جاویں۔ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ایسے ایسے لوگ بھی موجود ہیں کہ مسلمان کہلا کر، مسلمانوں کی اولاد ہو کر اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح گالیاں دیتے ہیں جیسے چوڑھے چمار کسی کو نکالا کرتے ہیں۔اللہ اور رسولؐ سے ان کو بجز گالیوں کے اور کوئی تعلق ہی نہیں۔بڑے گندہ دہن اور پرلے درجے کے عیاش، بدمعاش، بھنگی، چرسی، قمارباز وغیرہ بن گئے ہیںاب ایسے لوگوں کی زجراورتوبیخ کے واسطے خدا جوش میں نہ آوے تو کیا کرے۔خداغیور بھی ہے وہ شدید العقاب بھی ہے۔ایسے لوگوں کی اصلاح بھلابجز عذاب اور قہرالٰہی کے نازل ہونے کے ممکن ہے؟ ہرگزنہیں۔چونکہ بعض طبائع عذاب ہی سے اصلاح پذیرہو تی ہیں۔اس لیے ہر ایک شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ (الاعراف:۳۵) جب عذاب الٰہی نازل ہو جاتا ہے توپھر وہ اپنا کام کرکے ہی جاتا ہے اور اس آیت سے یہ بھی استنباط ہوتا ہے کہ قبل ازنزول عذاب توبہ و استغفار سے وہ عذاب ٹل بھی جایا کرتا ہے۔
(ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۲۱،ایڈیشن ۲۰۲۲ء)
صوفیوں نے لکھا ہے کہ اگر چا لیس دن تک رونا نہ آوے تو جانو کہ دل سخت ہوگیا ہے۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَلْيَضْحَكُوْا قَلِيْلًا وَّ لْيَبْكُوْا كَثِيْرًا (التوبۃ:۸۲) کہ ہنسو تھوڑااور روئو بہت مگر اس کے برعکس دیکھا جاتا ہے کہ لوگ ہنستے بہت ہیں۔اب دیکھو کہ زمانہ کی کیا حالت ہے۔اس سے یہ مُراد نہیں کہ انسان ہر وقت آنکھوں سے آنسو بہاتا رہے بلکہ جس کا دل اندر سے رو رہا ہے وہی روتا ہے۔انسان کو چاہیے کہ دروازہ بند کرکے اندر بیٹھ کر خشوع اور خضوع سے دعا میں مشغول ہو اور بالکل عجز ونیاز سے خدا کے آستانہ پر گر پڑے تاکہ وہ اس آیت کے نیچے نہ آوے جو بہت ہنستا ہے وہ مومن نہیں۔اگر سارے دن کا نفس کا محاسبہ کیا جاوے تو معلوم ہو کہ ہنسی اور تمسخر کی میزان زیادہ ہے اور رونے کی بہت کم ہے۔بلکہ اکثر جگہ بالکل ہی نہیں ہے۔اب دیکھو کہ زندگی کس قدر غفلت میں گذر رہی ہے اور ایمان کی راہ کس قدر مشکل ہے گویا ایک طرح سے مَرنا ہے اور اصل میں اسی کا نام ایمان ہے۔
(ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۳۰۸، ایڈیشن ۲۰۲۲ء)