خلفاء سے برکت حاصل کرنا شرک نہیں
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ فرماتے ہیں:
[سوال:کینیڈا سے ایک دوست نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ کیا کسی چیز کو تبرک کروانا شرک ہے؟]
جواب:تبرک کرنے اور کروانے کے جواز کے بارے میں متعدد احادیث موجود ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ صحابہؓ حضورﷺ کی اشیاء کو تبرک کے طور پر اپنے پاس رکھا کرتے تھے۔(بخاری کتاب الوضوء بَاب الْمَاءِ الَّذِي يُغْسَلُ بِهِ شَعَرُ الْإِنْسَانِ) اور حضورﷺ خود بھی صحابہ ؓکو بطور تبرک اشیاء عطا فرمایا کرتے تھے۔(صحیح مسلم کتاب الحج بَاب بَيَانِ أَنَّ السُّنَّةَ يَوْمَ النَّحْرِ أَنْ يَرْمِيَ ثُمَّ يَنْحَرَ…)
حضورﷺ کی برکتوں کے طفیل اس زمانہ میں تجدید دین کے لیے مبعوث ہونے والے آپؐ کے غلامِ صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے الہاماً یہ بشارت عطا فرمائی کہ ‘‘میں تجھے عزت دوں گا اور بڑھاؤں گا اور تیرے آثار میں برکت رکھ دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔’’(آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۳۶۶)
پس آنحضورﷺ اور آپؐ کے روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وسیلہ سے جو برکت خلفائے احمدیت تک پہنچی ہے،خلافت کی محبت اور اس کے ساتھ منسلک ہونے کی بنا پر لوگ ان وجودوں سے جو برکت حاصل کرتے ہیں، اس میں نہ تو شرک والی کوئی بات ہے اور نہ ہی اس میں کوئی حرج ہے۔ ہم اپنی عام روز مرہ زندگی میں بھی دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنے بزرگوں اور پیاروں کی چیزیں محبت اور عقیدت سے اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ جب لوگ اپنے بزرگوں اور پیاروں کی چیزیں برکت کی خاطر اپنے پاس رکھ سکتے ہیں تو اسلام کی نشأۃ ثانیہ میں قائم ہونے والی خلافت احمدیہ حقہ اسلامیہ کی مسند پر متمکن ہونے والے وجودوں سے لوگ برکت کیوں حاصل نہیں کر سکتے؟
میرا تو عموماً یہ طریق ہے کہ جب کوئی مجھے تبرک کے لیے کہتا ہے تو میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انگوٹھی جو ایک لمبا عرصہ حضور علیہ السلام کے زیر استعمال رہنے کی وجہ سے باعث برکت ہے، اس سے چیز کو مس کر دیتا ہوں، کیونکہ اصل برکت تو آپؑ ہی کا وجود اور آپ ہی کی چیزیں ہیں اور آپ ہی کے وسیلہ سے خلفاء تک بھی یہ برکت پہنچی ہے۔
(بنیادی مسائل کے جوابات قسط۸۳ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۲؍اکتوبر ۲۰۲۴ء)