متفرق مضامین

قرآن مجید اور کاپی رائٹ (قسط سوم۔آخری)

(لئیق احمد مشتاق ۔ مبلغ سلسلہ سرینام، جنوبی امریکہ)

یاد رہے کہ قرآن کا ایک نقطہ یا شعشہ بھی اوّلین اور آخرین کے فلسفہ کے مجموعی حملہ سے ذرہ سے نقصان کا اندیشہ نہیں رکھتا وہ ایسا پتھر ہے کہ جس پر گرے گا اس کو پاش پاش کرے گا اور جو اس پر گرے گا وہ خود پاش پاش ہوجائے گا

پنجاب قرآن ایکٹ۲۰۱۱ء

گذشتہ تحریر اور جسٹس شجاعت علی خان صاحب کے فیصلے میں متعدد بار پنجاب قرآن ایکٹ 2011ء کا ذکر آیا۔ اس کا مختصر احوال درج ذیل ہے۔

حکومت پنجاب نے مئی ۲۰۱۱ء میں

(THE PUNJAB HOLY QURAN (PRINTING AND RECORDING) ACT, 2011)

پاس کیا۔ اس قانون کے مطابق صوبہ پنجاب میں ’’قرآن بورڈ‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔(یاد رہے پاکستان کے باقی صوبے تاحال اس فیض سے محروم ہیں)۔ قرآن بورڈ کے قیام کی غرض و غایت اس طرح بیان کی گئی ہے۔

Quran Board.– (1) The Government shall constitute a Quran Board comprising prominent Ulama, Huffaz and Qaris of all schools of thought amongst Muslims [out of whom at least thirty three percent shall be women, if available].

(2) The Government shall cause a copy of the Holy Quran to be prepared, and shall forward it to the Quran Board for authentication as a standard copy.

(3) The Government shall keep the standard copy in the Government archives for safe custody.

(4) The Quran Board shall recommend steps for error-free printing and publication or recording of the Holy Quran and shall, subject to the direction of the Government, supervise the work of error-free printing and publication or recording ofthe Holy Quran.

(5) The Quran Board shall perform such other functions as may be prescribed.

خلاصہ۔’’گورنمنٹ تمام مکاتب فکر کے معروف علما، حفاظ اور قرّاء پر مشتمل قرآن بورڈ تشکیل دے گی، دستیابی کی صورت میں اس بورڈ میں خواتین کی نمائندگی ۳۳فیصد ہوگی۔

حکومت اس امر کا اہتمام کرے گی کہ قرآن کریم کی ایک کاپی تیار کرکے اس بورڈ میں تصدیق کے لئے پیش کی جائے۔ اور قرآن بورڈ کی تصدیق شدہ کاپی ہی معیاری سمجھی جائے۔

قرآن بورڈ سے تصدیق شدہ یہ متن حکومت اپنے پاس محفوظ رکھے گی۔

قرآن بورڈ قرآن مجید کی اغلاط سے پاک طباعت و اشاعت اور ریکارڈنگ کے لئے حکومت کی راہنمائی اور نگرانی کرے گا۔

قرآن بورڈ مطلوبہ اور اس سے ملتے جلتے امور انجام دے گا۔‘‘

پنجاب میں یہ قرآن بورڈ قائم تو ہوا مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والا معاملہ ہو گیا۔ اس بورڈ کی کارکردگی، ماضی اور حال کیسا ہے پاکستان کی مختلف اخبارات اس حقیقت کو آشکار کر رہے ہیں۔چند سطریں بطور نمونہ حاضر ہیں۔

’’تیرہ سال گزرنے کے باوجود بھی قرآن مجید کے ناشران کی رجسٹریشن کا عمل نا مکمل۔

لاہور (92 نیوز) طویل پلاننگ،زبانی جمع خرچ اور دعوے، یہ پہچان ہے ’’پنجاب قرآن بورڈ‘‘ کی،جو تیرہ سال گزرنے کے باوجود بھی قرآن مجید کے ناشران کی رجسٹریشن کا عمل مکمل نہیں کر سکا۔پنجاب قرآن بورڈ دوہزار چار میں قائم کیا گیا۔ مگر جن مقاصد کی تکمیل کے لیے اور جس بنیاد پر قرآن بورڈ پنجاب کی بنیاد رکھی گئی تھی اس پر کام پہلے دن سے ہی آگے نہیں بڑھ سکا۔بورڈ کے اہداف میں قرآن مجید کی طباعت کرنے والے ناشران کو رجسٹرڈ کرنا اور غیر معیاری کاغذ پر قرآن مجید کی طباعت کو روکنا شامل ہے۔اس وقت پنجاب قرآن بورڈ کے پاس رجسٹرڈ ناشران قرآن مجید کی تعداد بہتر(۷۲)ہے مگر سینکڑوں ناشران ابھی تک بھی رجسٹرڈ نہیں کیے جا سکے اور وہ غیر معیاری کاغذ پر قرآن مجید کی اشاعت کر رہے ہیں۔غیر معیاری اوراق کے بوسیدہ ہونے پرشہری انہیں مختلف مقامات پردفن کردیتے ہیں یا پانی میں بہادیتے ہیں۔ اس کاثبوت نہر سے ملنے والی بوریاں ہیں جن میں مقدس اوراق تھے۔اس حوالے سے چیئر مین پنجاب قرآن بورڈ علامہ غلام محمد سیالوی کہتے ہیں کہ اس بارے میں قوانین سخت کر رہے ہیں موجودہ بجٹ میں پنجاب حکومت نے قرآن بورڈ کے لیے ایک کروڑ کا بجٹ مختص کیا مگراس کی کارکردگی نہ ہونے کے برابرہے اور وہ قرآن پاک کی غیرمعیاری طباعت رکوانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔‘‘

سید عبدالوہاب شیرازی صاحب رقمطراز ہیں:’’پنجاب قرآن بورڈ،علما ء کے زیرِ نگرانی چلنے والے اداروں کا المیہ۔ موجودہ نظام میں جس طرح ہرادارہ نہایت ابتری اور بدحالی کا شکار ہے اسی طرح پنجاب میں ایک ادارہ قرآن بورڈ کے نام سے کئی سالوں سے کام کررہا ہے اور ایک خبر کے مطابق سالانہ کروڑ روپے بجٹ میں اس ادارے کو دیے جاتے ہیں، اس ادارے کو چلانے والے چندعلماء ہیں جن میں ہر مسلک کا کوئی نہ کوئی نمائندہ شامل ہے، جس کے چیئرمین قرآن بورڈ پنجاب مولانا غلام محمد سیالوی ہیں۔یہ ادارہ سالانہ کروڑوں روپے ہڑپ کرجاتا ہے لیکن جس مقصد کے لیے اسے بنایا گیا ہے وہ مقصد ابھی تک حاصل نہیں کیا جاسکا۔ ادارے کا مقصد قرآن مجید کی پرنٹنگ وغیرہ کے امور کی نگرانی کرنا ہے، اور غیرمعیاری کاغذ پر پرنٹنگ کی روک تھام کرنا وغیرہ بہت سارے امور دیکھنا اس ادارے کی ذمہ داری ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ غیر معیاری کاغذ پر قرآن کی پرنٹنگ کا کام اسی طرح جاری وساری ہے جس طرح پہلے تھا، جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ قرآن کا نسخہ جلد بوسیدہ ہوکر خراب ہوجاتا ہے اور بے حرمتی کا خطرہ رہتا ہے… قرآن کے آخری صفحات میں فال گیری کا ایک صفحہ شامل کرکے قرآن کے حکموں کو قرآن کی جلد کے اندر پامال کیا جارہا ہے اور علماء کے زیر نگرانی چلنے والا قرآن بورڈ ٹس سے مس نہیں ہورہا ہے۔اور پھر قرآن چھاپنے والے اداروں کی دیدہ دلیری دیکھیں کہ ایک تعویذ نقش قرآنی کی شکل میں بنا کر اس کے نیچے من گھڑت بات بھی لکھ دی کہ یہ والا تعویذ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حسنین کے گلے میں باندھا کرتے تھے۔ اتنی من گھڑت بات قرآن کی جلد کے اندر لکھتے ہوئے بھی ان اداروں کو خوف خدا نہیں ہوتا اور نہ ہی متعلقہ اداروں کو جو انہیں اس کی اجازت دیتے ہیں۔ تاج کمپنی جیسا معروف اور قدیم ادارہ بھی اس فالنامے اور تعویذ کو چھاپ رہا ہے۔اسی طرح اتفاق پبلشر، بسم اللہ پبلشرمیں یہ فال نامہ موجود ہے۔ ایک نسخے میں جسے معصوم کمپنی نے شائع کیا ہے اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے الباعث کا ترجمہ کیا ہے مردے جلانے والا۔اس ادارے سمیت ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن کی اس توہین پر آواز اٹھائیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اس بات کو پہنچائیں تاکہ لوگوں کو یہ شعور ہو اور وہ اس طرح توہین قرآن میں ملوث کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں۔‘‘ https://www.mukaalma.com/18783/

یہ حقیقت حال اپنی جگہ مگر جو انتہائی تکلیف دہ اور تلخ صورت حال روزروشن کی طرح نظر آرہی ہے وہ یہ کہ پنجاب قرآن بورڈ، انتظامیہ اور ارباب اختیار کی کارکردگی صرف اتنی ہے کہ اس جماعت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور قدغنیں لگائی جا رہی ہے جو گذشتہ ایک سوسال میں سب سے زیادہ اور سب سے نمایاں خدمت قرآن کرنے والی جماعت ہے۔ وہ جماعت جس کے بانی نے جواہرات کی اس تھیلی کو بے خبر دنیا کے سامنے پیش کیا۔جس نے قرآن مجید کو تحریف وتبدّل سے پاک لاریب و بے عیب کتاب ثابت کیا۔وہ امام الزّمان اپنی بعثت کا مقصد یوں بیان فرماتا ہے:’’میں اس وقت محض للہ اس ضروری امر سے اطلاع دیتا ہوں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس چودھویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کر کے دین متین اسلام کی تجدید اور تائید کے لئے بھیجا ہےتا کہ میں اس پر آشوب زمانہ میں قرآن کی خوبیاں اور حضرت رسول اللہ ﷺ کی عظمتیں ظاہر کروں اور ان تمام دشمنوں کو جو اسلام پر حملہ کر رہے ہیں ان نوروں اور برکات اور خوارق اور علوم لدنیہ کی مدد سے جواب دوں جو مجھ کو عطا کئے گئے ہیں۔‘‘ (برکات الدعا،روحانی خزائن جلد ۶صفحہ ۳۴،یڈیشن۲۰۲۱ء)

اس زمانے کا وہ مصلح اعظمؑ بیان کرتا ہے: ’’اے بندگانِ خدا !یقیناًیاد رکھو کہ قرآن شریف میں غیر محدود معارف و حقائق کا اعجاز ایسا کامل اعجاز ہے جس نے ہرایک زمانہ میں تلوار سے زیادہ کام کیا ہے اور ہر یک زمانہ اپنی نئی حا لت کے ساتھ جو کچھ شبہات پیش کر تا ہے یا جس قسم کے اعلیٰ معارف کا دعویٰ کرتا ہے اس کی پوری مدافعت اور پورا الزام اور پورا پورا مقابلہ قرآن شریف میں موجود ہے۔‘‘ (اِزالہ اوہام،روحانی خزائن جلد ۳صفحہ۲۵۷،ایڈیشن۲۰۲۱ء)

وہ امام کامگاراسلام کی راستی کا عصا جس کے ہاتھ میں دیا گیادنیا کو یہ خبر دیتا ہے:’’سب سے سیدھی راہ اوربڑا ذریعہ جو انوار یقین اور تواتر سے بھر اہوا اور ہماری روحانی بھلائی اور ترقی علمی کے لئے کامل رہنما ہے قرآن کریم ہے جو تمام دنیا کے دینی نزاعوں کے فیصل کرنے کا متکفل ہوکر آیا ہے جس کی آیت آیت اورلفظ لفظ ہزارہا طور کا تواتر اپنے ساتھ رکھتی ہے اور جس میں بہت سا آبِ حیات ہماری زندگی کے لئے بھراہوا ہے اور بہت سے نادر اور بیش قیمت جواہر اپنے اندر مخفی رکھتا ہے جو ہر روز ظاہر ہوتے جاتے ہیں۔ یہی ایک عمدہ محک ہے جس کے ذریعہ سے ہم راستی اور ناراستی میں فرق کرسکتے ہیں۔یہی ایک روشن چراغ ہے جو عین سچائی کی راہیں دکھاتا ہے۔ بلا شبہ جن لوگوں کو راہ راست سے مناسبت اور ایک قسم کا رشتہ ہے اُن کا دل قرآن شریف کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے۔‘‘(اِزالہ اوہام،روحانی خزائن جلد ۳صفحہ۳۸۱،ایڈیشن۲۰۲۱ء)

وہ مرد مجاہد عرش الٰہی سے جسے سلطان القلم ؑکا خطاب ملا بڑی تحدی سے لکھتا ہے: ’’قرآن مجید خاتم الکتب ہے۔اس میں اب ایک شعشہ یا نقطہ کی کمی بیشی کی گنجائش نہیں ہے۔‘‘ (لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۲۷۹،ایڈیشن ۲۰۲۱ء)

بطحا کی وادیوں سےآفتاب سے زیادہ روشن جو نور نبوت ظاہر ہوا اس نبی کامل ﷺ کا ظلِ کامل جس کے قلم کو ربِّ رحمٰن نے ذوالفقار علی کا درجہ عطا فرمایا دنیا کو یہ خبر دیتا ہے :’’یاد رہے کہ قرآن کا ایک نقطہ یا شعشہ بھی اوّلین اور آخرین کے فلسفہ کے مجموعی حملہ سے ذرہ سے نقصان کا اندیشہ نہیں رکھتا وہ ایسا پتھر ہے کہ جس پر گرے گا اس کو پاش پاش کرے گا اور جو اس پر گرے گا وہ خود پاش پاش ہوجائے گا‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵صفحہ۲۵۷حاشیہ،ایڈیشن ۲۰۲۱ء)

وہ موعود اقوام عالم کُل عالم کو یہ خبر دیتا ہے کہ:’’ہم اس بات کے گواہ ہیں اور تمام دنیا کے سامنے اس شہادت کو ادا کرتے ہیں کہ ہم نے اس حقیقت کو جو خدا تک پہنچاتی ہے قرآن سے پایا ہم نے اس خدا کی آواز سنی اور اس کے پُرزور بازو کے نشان دیکھے جس نے قرآن کو بھیجا۔ سو ہم یقین لائے کہ وہی سچا خدا اور تمام جہانوں کا مالک ہے۔ ہمارا دل اس یقین سے ایسا پُر ہے جیسا کہ سمندر کی زمین پانی سے۔ سو ہم بصیرت کی راہ سے اس دین اور اس روشنی کی طرف ہر ایک کو بلاتے ہیں ہم نے اس نورحقیقی کو پایا جس کے ساتھ سب ظلمانی پردے اٹھ جاتے ہیں اور غیر اللہ سے درحقیقت دل ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ یہی ایک راہ ہے جس سے انسان نفسانی جذبات اور ظلمات سے ایسا باہر آجاتا ہے جیسا کہ سانپ اپنی کینچلی سے۔‘‘ (کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد۱۳صفحہ۶۵ ایڈیشن ۲۰۲۱ء)

امت کا یہ غمخوارکس درد کے ساتھ یہ بیان کرتا ہے کہ ’’مجھے بھیجا گیاہے تاکہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کروں اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھاؤں اور یہ سب کام ہو رہا ہے لیکن جن کی آنکھوں پر پٹی ہے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتے۔‘‘ (ملفوظات جلد۳ صفحہ۹،ایڈیشن۱۹۸۸ء)

اس زمانے کے حصن حصین نے اپنی جماعت کو بار ہا اس مقدس کتاب کو دستور العمل بنانے کی تلقین فرمائی:’’تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے… نوعِ انسان کے لئے رُوئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔‘‘پھر فرمایا:’’میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے…سو تم قرآن کو تدبرّسے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو۔ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو۔‘‘ (کشتی نوح،روحانی خزائن جلد۱۹صفحہ۱۳، ۲۶، ۲۷،ایڈیشن ۲۰۲۱ء)

آج پاکستان میں اس جماعت کو اشاعت قرآن سے محروم کیا جارہا جو اب تک دنیا میں بولی جانے والی ۷۸ زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع کر چکی ہے۔چودہ سو سال میں عالم اسلام میں یہ سعادت کسی مسلمان ملک، کسی مسلمان حکومت، کسی مسلمان جماعت، تنظیم یا فرقے کو نصیب نہیں ہوئی۔ جلسہ سالانہ برطانیہ ۲۰۲۴ء کے دوسرے دن حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نے اپنے خطاب میں فرمایا:’’وکالت تصنیف یوکے کی رپورٹ کے مطابق نئی زبان لاطینی سپینش میں قرآن کریم کا پہلی مرتبہ ترجمہ طبع ہوا ہے۔نئی زبان میں عبرانی ترجمہ قرآن اور فنش ترجمہ قرآن بھی شائع ہوا ہے۔ الحمدللہ جماعت کی طرف سے اب ۷۸ زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم تیار ہوچکے ہیں۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل۲؍اگست۲۰۲۴ء)

پاکستان میں آئے روز جو نئے نئے قوانین بنائے جارہے ہیں اور اہل وطن کے لیے گھٹن کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے اس پر سنجیدہ مذاق رکھنے والے لوگ نوحہ کناں ہیں۔ پاکستان کے معروف صحافی اور تجزیہ نگار وسعت اللہ خان ’’بی بی سی اردو‘‘ پر اپنے کالم بعنوان ’اب پنجاب میں کوئی کتاب چھاپ کر دکھائے‘‘ میں رقمطراز ہیں:’’جوں جوں پاکستان کے نظریاتی تشخص کے تحفظ کے لیے ایک پر ایک قانون کی تہہ چڑھائی جا رہی ہے توں توں نظریاتی شناخت محفوظ ہونے کے بجائے مزید عدم تحفظ کا شکار نظر آ رہی ہے۔مثلاً اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نظریاتی بنیاد کو برقرار رکھنے کے لیے ۱۹۴۹ء میں منظور کردہ قراردادِ مقاصد ۱۹۷۳ء کے آئین کے دیباچے کا حصہ ہے۔اس آئین کے تحت کوئی بھی قانون سازی قرآن و سنت کے منافی نہ ہو اسے پرکھنے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل موجود ہے۔ احمدیوں کو آئین کے تحت ۴۶ برس پہلے غیر مسلم اقلیت قرار دیا جا چکا ہے اور انہیں اضافی قوانین کے تحت شعائرِ اسلامی کے کھلم کھلا استعمال سے قانوناً منع کیا جا چکا ہے۔توہینِ مذہب کے قانون ۲۹۵۔ج کے تحت توہینِ رسالت و توہینِ قرآن کی سزا موت ہے اور دیگر مقدس ہستیوں کی توہین پر بھی بھاری سزا مقرر ہے۔ پارلیمانی اور آئینی عہدوں کے حلف کی عبارت میں یہ عہد بھی شامل ہے کہ میں ختمِ نبوت پر کامل یقین رکھتا ہوں۔ کسی بھی مسلمان شہری کا شناختی کارڈ ختمِ نبوت پر کامل یقین کے حلف نامے پر دستخط کے بغیر نہیں بن سکتا۔اس کے باوجود ہر وقت دل و دماغ کو دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں یہ ادارے، قوانین اور سزائیں ناکافی تو نہیں۔ کہیں انہیں اور مضبوط بنانے کی ضرورت تو نہیں اسی مسلسل خدشے کے ہوتے گذشتہ جمعرات (۲۳؍جولائی ۲۰۲۰ء) کو ملک کے سب سے بڑے صوبے کی اسمبلی نے متفقہ طورپرپنجاب تحفظ بنیادِ اسلام ایکٹ منظور کرلیا۔اس کے تحت انبیا، صحابہ اور اہلِ بیت سمیت مقدس ہستیوں کے ناموں کے ساتھ متبرک القابات لگانے لازمی قرار دیے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ بل کی ان سفارشات پر کسی مسلمان کو اعتراض نہیں ہو سکتا۔مگر اس بل کے پردے میں اصل کام کچھ اور ہوا ہے۔ وہ یہ کہ پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی ایسی کتاب کو شائع یا صوبے میں درآمد کرنے سے منع کر سکتا ہے جس میں قومی مفاد، ثقافت، مذہبی اقدار و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے مضر مواد ہو۔(قومی مفاد، ثقافت، مذہبی اقدار، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی تشریح کیا ہے؟ اس کا حتمی دار و مدار بھی غالباً ڈی جی پی آر کی ذاتی فہم و قابلیت پر ہو گا۔)متعلقہ افسر کسی بھی وقت کسی بھی چھاپہ خانہ، اشاعتی مرکز، بک سٹور پر جا کر مقررہ معیار پر پوری نہ اترنے والی کسی بھی کتاب کے مسودے یا کاپی کو شائع ہونے سے پہلے یا بعد میں ضبط کر سکتا ہے۔جو بھی کتاب شائع ہو گی۔اسی روز اس کی چار کاپیاں مجازِافسر کو بھیجنا ہوں گی۔مذہب سے متعلق جو بھی کتابی مواد ڈی جی پی آر کے سامنے آئے گا وہ مواد ڈی جی پی آر متحدہ علما بورڈ کو پیش کرنے کا پابند ہو گا اور یہ بورڈ ہی اسے شائع کرنے نہ کرنے کے بارے میں حتمی رائے دے گا۔اس آرڈیننس میں کہیں بھی آئین کے آرٹیکل دس اے کا حوالہ نہیں دیا گیا جس کے تحت ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ وہ خود پر عائد الزام یا فردِ جرم کے خلاف اپنا دفاع کر سکے یعنی اس قانون کے تحت ایک بیوروکریٹ مستغیث بھی ہے، جج اور جلاد بھی۔اس آرڈیننس کی منظوری سے دو دن پہلے خبر آئی کہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے تعلیمی اداروں کے لیے سفارش کردہ سو سے زائد کتابوں کو اسلامی اقدار، ثقافت اور نظریہ پاکستان سے متصادم مواد کی بنیاد پر ضبط کرنے کا اعلان کر دیا…پنجاب تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ کے ایک حصے میں مقدس ہستیوں کے تقدس اور القابات کی وضاحت کی گئی۔ مگر دوسرے حصے میں مستقبل میں شائع یا درآمد کی جانے والی تمام کتابوں کو نظریاتی چھان پھٹک کی زنجیر سے باندھ کر پڑھائی لکھائی تحقیق کے دائرے کو اور محدودکرنے اور ریاستی تشریح سے مختلف آرا کے اظہار کو اطلاقی جرم قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے۔اگر اس ایکٹ پر ہو بہو عمل ہوتا ہے تو پھر علما بورڈ کی منظور شدہ مذہبی کتابوں کے علاوہ کوئی بھی کتاب شائع یا درآمد کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ سائنس، تاریخ، فلسفے، جغرافیے، حالاتِ حاضرہ، ادبیات وغیرہ کو بھول جائیں۔کیونکہ غالب و اقبال کی شاعری سمیت ہر کتاب میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور نکل آئے گا جو قومی سلامتی، ثقافتی و مذہبی اقدار و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے منافی ہو۔اسلامی یا مسلم تاریخ سے متعلق بیرونِ پاکستان شائع ہونے والی کوئی بھی کتاب درآمد نہیں ہو سکے گی۔ کیونکہ ان میں سے کوئی بھی کتاب مقدس ہستیوں کے ساتھ لگائے جانے والے القابات سے متعلق بنیادِ اسلام ایکٹ کے معیار پر پوری نہیں اترے گی۔اب صورت یہ ہے کہ اس ایکٹ کی منظوری کے بعد پاکستان کے دیگر صوبوں کے مصنف اور ناشر کیا کریں گے؟کیا وہ ہر کتاب کا پنجاب ایڈیشن علیحدہ سے شائع کریں گے یا پھر ابنِ انشا کی’’اردو کی آخری کتاب‘‘ کی طرح سرورق پر موٹا موٹا لکھیں گے ’’پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ سے نامنظور شدہ۔‘‘ سمجھ میں نہیں آتا کہ دیگر مسلمان ممالک ان قوانین کے بغیر کیسے زندہ ہیں جن کے بغیر ہم سانس لینے کا بھی تصور نہیں کر سکتے۔ یا تو وہ ہماری طرح اچھے مسلمان نہیں یا پھر انھیں اس سے بھی زیادہ اہم مسائل درپیش ہیں۔

https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53545026

حرف آخر

سب سے پہلا، اہم ترین اور توجہ طلب سوال یہ ہے کہ آیا قرآن مجید یا دیگر الہامی کتب ’’کاپی رائٹ ‘‘ قانون کے تابع آ بھی سکتی ہیں یا نہیں۔پندرہ سو سال قبل نازل ہونے والی یہ کتاب ۱۷۳۵ء میں بننے والے قانون کے تابع کیسے ہوسکتی ہے؟ اس لیے مہذب ممالک اورا قوام یہ قوانین رکھتی ہیں کہ تمام مذہبی کتب، صحیفے اور مواد کاپی رائٹ کے قانون سے مستثنیٰ ہے۔ مثلاً:

Religious Service Exemption: In the US there is a Religious Service Exemption (1976 law, section 110), namely "performance of a non-dramatic literary or musical work or of a dramatico-musical work of a religious nature or display of a work, in the course of services at a place of worship or other religious assembly” shall not constitute infringement of copyright. ( https://en.wikipedia.org/wiki/Copyright )

خلاصہ’’مذہبی خدمت کا استثنیٰ:امریکہ میں ۱۹۷۶ء کے قانون کی شق ۱۱۰کے تحت مذہبی خدمات یعنی غیر ڈرامائی ادبی یا میوزیکل کام یا مذہبی نوعیت کے ڈرامائی،میوزیکل کام یا ان کی نمائش، عبادت گاہ یا دیگر مذہبی اجتماع میں مذہبی گیت کاپی رائٹ قانون کی خلاف ورزی نہیں کہلائے گی بلکہ ان امور کواستثنیٰ حاصل ہے۔‘‘

No copyright in religious scriptures: Religious Scripts are not subject to copyright. Religious scriptures exist in the public domain so they are not subject to copyright protection. This denotes that ancient religious texts such as Mahabharata, Bhagavad-Gita, Quran, Old Testament, New Testament, or conventional renditions of the Bible are exempt from copyright protection.

( https://www.theippress.com/2024/01/25/exploring-the-copyright-complexities-of-religious-scriptures-a-blend-of-ancient-wisdom-and-modern-legality/#:~:text=Religious%20scriptures%20exist%20in%20the%20public%20domain%20so,of%20the%20Bible%20are%20exempt%20from%20copyright%20protection )

خلاصہ:’’مذہبی مواد کاپی رائٹ قانون کے تابع نہیں ہیں۔ مذہبی صحیفے ہمیشہ سےعوام الناس کی دسترس میں موجود ہیں لہٰذا وہ کاپی رائٹ کے تحفظ کے تابع نہیں ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ قدیم مذہبی صحیفے جیسے مہابھارت، بھگوات گیتا، قرآن،عہدنامہ قدیم،نیا عہدنامہ، یا بائبل کے روایتی نسخے کاپی رائٹ کے تحفظ سے مستثنیٰ ہیں۔ ‘‘

احکم الحاکمین کا فرمان کیا ہے:اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ۔ (الحجر:10)یقیناً ہم نے ہی یہ ذکر اُتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

اَوَلَمۡ یَکۡفِہِمۡ اَنَّاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ یُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَرَحۡمَۃً وَّذِکۡرٰی لِقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ۔ (العنکبوت:۵۲) کیا (یہی) اُن کے لئے کافی نہیں کہ ہم نے تجھ پر ایک کتاب اتاری ہے جو اُن پرپڑھی جاتی ہے اور یقیناً اس میں ایمان لانے والی قوم کے لئے ایک بڑی رحمت بھی ہے اور بہت بڑی نصیحت بھی۔

وَلَقَدۡ یَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّکۡرِ فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ۔ (القمر:۱۸)اور یقیناً ہم نے قرآن کو نصیحت کی خاطر آسان بنادیا۔ پس کیا ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا؟

وَاَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ وَلَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ۔(النحل:۴۵)اور ہم نے تیری طرف بھی ذکر اُتارا ہے تاکہ تُو اچھی طرح لوگوں پر اس کی وضاحت کردے جو اُن کی طرف نازل کیا گیا تھا اور تاکہ وہ تفکر کریں۔

ان واضح محکم اور یقینی احکامات کے ہوتے ہوئے کسی گروہ، فرقے، قوم یا ملک کی کیا حیثیت،کیا اوقات کہ اس کلام پر اجارہ داری قائم کریں اوراس کی حفاظت اپنے لیے خاص کریں۔ قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیات اس سوچ اور عقیدے کو دھتکارتی اور ردّ کرتی ہیں۔جس امانت کو ارض وسما اور جبال نے اٹھانے سے انکار کیا اور خشیت کا اظہار کیا،اس امانت کا بوجھ اور ذمہ داری اگر چند مضغے اور دنیاوی کیڑے اٹھانے کا دم بھریں اور اسے اپنے لیے خاص کرنے کا دعویٰ کریں تو اس جسارت پر عقل سلیم رکھنے والا ہر شخص ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ طاقت اور اقتدار کے نشے میں چور عقل کے ان اندھوں کو ادراک ہی نہیں کہ وہ اپنا اعمال نامہ کس حد تک سیاہ کر رہے ہیں، اور مالک ِکُل جبّار،قہّار اور منتقم بھی ہے۔ وَکَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیۡبًا۔

طاقت کے نشے میں چُور تھے جو توفیق نظر جن کو نہ ملی
مفہوم نہ سمجھے وہ ناداں قدرت کے لکھے فرمانوں کا
پستے ہیں بالآخر وہ اِک دن اپنے ہی ستم کی چکّی میں
انجام یہی ہوتا آیا فرعونوں کا ہامانوں کا

وہ مقدس مطہر اور مکرم صحیفہ جسے خالق کائنات نے عامتہ الناس کے لئے نازل کیا اوراس کی دسترس میں دیا،وہ پاکیزہ کتاب جس کی حفاظت کی ذمہ داری ابد الآباد تک حیی و قیوم اور قادر و قدیر رب العرش نے اپنے ذمہ لی ہو کس کی جرات، ہمت اور اوقات ہے کس کی مقدرت ہے جو اس میں تحریف کی جسارت کرے۔مولاکریم بگڑتی ہوئی اس خیر امت پر رحم فرمائے اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

قسط اول:قرآن مجید اور کاپی رائٹ (قسط اوّل)

قسط دوم: قرآن مجید اور کاپی رائٹ (قسط دوم)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button