اپنے وعدوں کو بڑھا کر پیش کرنا دنیا میں اسلام کی ترقی اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کا موجب ہے
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۱۳؍فروری ۱۹۵۹ء)
۱۹۵۹ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایاجس میں آپؓ نے جماعت کو تحریک جدید اور وقف جدید کے وعدوں اور ادائیگی کی طرف توجہ دلائی ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیرونی ممالک میں ہر جگہ اسلام احمدی مبلغین کے ذریعہ سے تقویت پا رہا ہے اور ان کے لیے چندہ کے وعدے بھجوانا چاہییں وہ فوری طور پر ادا کیے جائیں
تشهد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ‘‘میں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں کہا تھا کہ بارش زیادہ ہونے کی وجہ سے ہمارے ملک میں غلہ کی حالت بہت خراب ہو گئی ہے۔ اب اخباروں میں بھی چھپا ہے کہ گورنمنٹ کے محکمہ زراعت کا خیال تھا کہ چونکہ اس سال بارش وقت پر ہو گئی ہے اس لیے اس سال غلہ باہر سے نہیں منگوانا پڑے گا لیکن اب چونکہ بارش زیادہ ہوگئی ہے اس لیے اس کا اثر فصلوں پر بہت زیادہ پڑے گا اور خطرہ ہے کہ کہیں غلہ کی پیداوار اس سال بھی اُمید سے کم نہ ہو۔
مجھے ان بارشوں کی وجہ سے جو نقصان پہنچا ہے وہ یہ ہے کہ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ فروری اور مارچ کے مہینہ میں میری بیماری میں افاقہ ہو جائے گا لیکن ٹھنڈک کی وجہ سے میری ٹانگ کے درد میں افاقہ ہونے کی بجائے زیادتی ہوگئی ہے۔ اس لیے اس ہفتہ جن صحابیوںؓ اور موصی عورتوں اور مردوں کے جنازے آئے اُن کی نماز جنازہ میں نہیں پڑھا سکا اور آج بھی مجھے تکلیف زیادہ ہے اس لیے اُن کی نماز جنازہ غائب نہیں پڑھا سکتا۔ چونکہ میں نے اگلے ہفتہ سندھ جانا ہے اس لیے میں کوشش کروں گا کہ اگلے جمعہ ان سب کی نماز جنازہ غائب پڑھا دوں۔ دوست تمام مرحومین کے لیے چاہے وہ صحابی تھے یا غیر صحابی، موصی تھے یا غیر موصی نماز جمعہ میں دُعا کر دیں کہ خدا تعالیٰ ان کی مغفرت کرے اور ان کے درجات کو بلند کرے، ان کے رشتہ داروں پر اپنا فضل نازل کرے اور انہیں اپنی پناہ میں رکھے۔
دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ
دفتر تحریک جدید والوں نے مجھے اطلاع دی ہے کہ وعدوں کی آخری تاریخ اس دفعہ ۲۸؍فروری مقرر ہے
مگر اس وقت تک وعدے بہت کم آئے ہیں۔ دوستوں کو چاہیے کہ وہ جلد سے جلد تحریک جدید کے وعدے بھجوائیں اور ۲۸؍فروری سے پہلے پہلے ان وعدوں کی مقدار کو پچھلے سالوں سے بڑھانے کی کوشش کریں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تحریک جدید کا کام زیادہ تر پاکستان سے باہر ہے اور چونکہ اس کے لیے گورنمنٹ کی طرف سے ایکسچینج ملنے میں دقتیں ہیں اس لیے شاید دوستوں کا یہ خیال ہو کہ ابھی وعدے بھیجنے کی ضرورت نہیں مگر ان کا یہ خیال درست نہیں۔ گورنمنٹ کے حالات بدلتے رہتے ہیں۔ اگر کل کو گورنمنٹ کے حالات سدھر جائیں اور وہ ایکسچینج دینے کے لیے تیار ہو جائے تو اگر تحریک جدید کے پاس روپیہ ہی نہ ہوا تو وہ ایکسچینج حاصل کر کے باہر روپیہ کس طرح بھیجے گی ؟ اس لیے
وعدے بہر حال آنے چاہئیں اور چندہ کی وصولی بھی باقاعدہ ہونی چاہیے
تا کہ جب بھی گورنمنٹ ایکسچینج دے تحریک جدید روپیہ باہر بھیج سکے۔ اگر گورنمنٹ نے ایکسچینج منظور کر لیا اور تحریک جدید روپیہ باہر نہ بھیج سکی تو گورنمنٹ کی نظروں میں بھی ہماری سبکی ہوگی اور مبلغ بھی روپیہ نہ ملنے کی وجہ سے تکلیف اٹھائیں گے۔
یہی مبلغ ہیں جن کے کام پر ہماری جماعت فخر کرتی ہے۔
کل کسی نے اخبار ‘‘صدق جدید’’کا ایک کٹنگ مجھے بھجوایا تھا کہ احمدی جماعت میں لاکھ برائیاں ہوں لیکن گزشتہ جلسہ پر انہوں نے ۵۱ زبانوں میں جو تقریریں کروائی ہیں اور غیر ممالک میں وہ اشاعت اسلام کے لیے جو جد و جہد کر رہے ہیں ان کا یہی کام اگر ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور ان کی برائیوں کو جو لوگ بیان کرتے ہیں دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو ان کے اچھے کام والا پلڑا بوجھل ہو گا اور ان کی برائیوں کا پلڑا کمزور ثابت ہو کر اوپر اٹھ جائے گا۔ اب دیکھو! یہ ہماری تبلیغ کا ہی اثر ہے۔
پاکستان کے وزراء اور سفراء باہر جاتے ہیں تو وہ بھی واپس آکر ہمارے مبلغین کے کام کی تعریف کرتے ہیں۔
پچھلے دنوں ایک ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس ربوہ آئے تو انہوں نے بتایا کہ وہ ایک دفعہ ٹرینیڈاڈ گئے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ احمدیت کے مبلغ کی وجہ سے وہاں پاکستان کی لوگوں میں زیادہ شہرت ہے۔ اسی طرح پرسوں ایک خط آیا کہ کسی عیسائی نے اسلام کے خلاف اعتراضات کیے تو ہمارے مبلغ شکر الٰہی صاحب نے اُس کا جواب شائع کیا۔ اُسے پڑھ کر شاہِ فاروق کی والدہ ملکہ نازلی نے کہا کہ
اشاعت اسلام کا کام صرف احمدی مبلغین ہی کررہے ہیں ان کے سوا اَور کوئی یہ کام نہیں کررہا۔
ان لوگوں نے ہی اس ملک میں اسلام کی عزت کو قائم رکھا ہوا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مبلغین کے ذریعہ غیر ممالک میں اسلام کو عظمت حاصل ہوتی ہے۔ غیر ملکوں مثلاً مشرقی افریقہ، مغربی افریقہ، جرمنی، سیکنڈے نیویا، سوئٹزرلینڈ، ہالینڈ، امریکہ اور انگلینڈ میں ہمارے مبلغ اسلام کی اشاعت کرتے ہیں اور جب ان کے ذریعہ سے غیر ممالک میں اسلام کی عزت بڑھتی ہے تو ان کے کام پر جہاں احمدی فخر کر سکتے ہیں وہاں غیر احمدی بھی فخر کر سکتے ہیں۔ پچھلے دنوں انڈو نیشیا سے ایک چینی لڑکا آیا تھا (انڈونیشیا میں چینی لوگ بھی آباد ہیں)۔ اس لڑکے نے بتایا کہ
مجھے احمدی مبلغوں کے ذریعہ ہی تبلیغ ہوئی تھی اور اسی کے نتیجہ میں میں مسلمان ہوا۔
وہ لڑکا بڑا مخلص تھا۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیرونی ممالک میں ہر جگہ اسلام احمدی مبلغین کے ذریعہ سے تقویت پا رہا ہے اور ان کے لیے چندہ کے وعدے بھجوانا چاہئیں وہ فوری طور پر ادا کیے جائیں۔ یہ ایک بڑی دینی خدمت ہے اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی کا موجب ہے۔ اگر گورنمنٹ کی مالی حالت اچھی ہوگئی اور اس کے پاس ایکسچینج جمع ہو گیا تو وہ اس نے بہر حال تقسیم کرنا ہے۔ اگر انہوں نے کسی وقت ایکسچینج دے دیا لیکن تحریک جدید روپیہ باہر نہ بھیج سکی تو گورنمنٹ کے نزدیک بھی محکمہ کی سبکی ہوگی اور مبلغ بھی الگ تکلیف اٹھائیں گے۔
وقف جدید کے چندہ میں بھی ابھی دس بارہ ہزار روپیہ کی کمی ہے۔ دوستوں کو اس کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے۔ پچھلے سال انہوں نے نسبتاً بہت اچھا کام کیا تھا۔ اگر اس سال بھی انہیں رو پیہ مل جائے تو اُمید ہے اگلے سال وہ اور بھی اچھا کام کر سکیں گے۔
پس میں دونوں محکموں کے متعلق چندہ کی تحریک کرتا ہوں اور
دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ان دونوں تحریکات میں چندہ دے کر خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کریں۔
میں نے تحریک جدید کے متعلق اس غلط فہمی کا ازالہ کر دیا ہے کہ چونکہ ایکسچینج نہیں ملتا اس لیے تحریک جدید کے وعدے کرنے اور پھر ان کی وصولی میں کچھ دیر ہو جائے تو کوئی حرج نہیں۔ میں نے بتایا ہے کہ اس میں بڑا سخت حرج ہے۔ علاوہ اس کے کہ ہماری گورنمنٹ میں سبکی ہوگی، ہمارے مبلغ بھی بے بس ہو جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ہے کہ آج دھوپ نکل آئی ہے۔ اگر یہ دھوپ کچھ دن اور بھی نکلی رہی تو اُمید ہے فصلیں اچھی ہوجائیں گی۔ دوست خدا تعالیٰ کے اس فضل کا شکر یہ بھی ادا کریں اور دُعائیں بھی کریں کہ خدا تعالیٰ اپنے اس فضل کو جاری رکھے اور اسلام کی اشاعت کے لیے مالی امداد کے وعدے کر کے اس فضل کو جذب کرنے کی کوشش کریں تا کہ اللہ تعالیٰ ان کے اس سال کو پچھلے سال سے ہزاروں گنا اچھا کر دے۔ اُمید ہے کہ دوست ان باتوں کا خیال رکھیں گے اور اپنے وعدوں کو بڑھا کر اسلام کی ترقی اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کی کوشش کریں گے۔’’
(الفضل ۱۹؍فروری ۱۹۵۹ء )
٭…٭…٭