امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ ورجینیا ریجن امریکہ کے ایک وفد کی ملاقات
ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے کی فکر ہونی چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد کیا تھا؟ لوگوں کو خدا کے قریب لانا، ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کا شعور دینا اور اسلام کی حقیقی تعلیمات کو قائم کرنا۔ یہی ہماری فکر ہونی چاہیے
مورخہ ۳۰؍ نومبر ۲۰۲۴ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے ورجینیا ریجن کے سترہ خدام پر مشتمل ایک وفد کو بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ خدام نےخصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےامریکہ سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔یہ ملاقات اسلام آباد،ٹلفورڈمیں منعقد ہوئی۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خدام میں رونق افروز ہونے پر تمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ پیش فرمایا۔
سب سے پہلے امیرِ قافلہ کو حضورِ انور سے شرفِ گفتگو حاصل ہوا جنہوں نے حضورِ انور کے استفسار فرمانے پر عرض کیا کہ وہ آئی ٹی کے شعبہ میں کام کرتے ہیں۔ پھر حضورِ انور نے ان سے دریافت فرمایا کہ وہ پاکستان میں پیدا ہوئے تھے یا امریکہ سے ہی ہیں؟ اس پر انہوں نے عرض کیا کہ ان کی پیدائش امریکہ کی ہے۔
یہ سماعت فرما کر حضورِ انور نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئےفرمایا کہ امریکہ کی؟جس کی انہوں نے تصدیق کی تو اس پر حضورِ انور نے تبسم کےساتھ فرمایا کہ کمال ہو گیا!پھر تو اُردو بھی بول لیتے ہو۔تم نے کمال کر دیا۔شکر ہے کہ کسی کو تو اُردوآتی ہے۔اپنی rootsپتا ہوں گی۔ اپنی زبان جانتے ہوں تو اپنی rootsکا پتا لگ جاتا ہے۔ نہیں تو پھر نہ امریکن acceptکرنے کو تیار ہیں۔ نہ اِدھر کے رہو گے نہ اُدھر کے رہو گے۔
اس کے بعد حضورِ انور نے ہر خادم سے انفرادی گفتگو فرمائی اور ان سے ان کے پیشےاورخاندانی پس منظر وغیرہ کے بارے میں دریافت فرمایا۔دورانِ تعارف پورٹ لینڈ مجلس سے تعلق رکھنے والے ایک خادم نے حضورِ انور کے دریافت فرمانے پر عرض کیا کہ ان کی ایک ٹو ٹرک (Tow Truck)کمپنی ہے۔
اس پر حضورِانور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اچھا! Tow truck۔ مَیں سمجھا کہ آپ ٹرو ٹرو (trotro)کہہ رہے ہیں۔ گھانا میں ایک ٹرک ہوتا ہے، جسے ٹرو ٹرو کہتے ہیں۔ وہ کھلا ہوتا ہے۔ سیٹوں کی جگہ انہوں نے بینچ بنا دی ہوتی ہیں اور صرف لکڑی کے تختے رکھے ہوتے ہیں۔ لوگ انہی بینچوں پر بیٹھ جاتے ہیں اور یہ ٹرک عام دیہات وغیرہ میں چلتا ہے۔
پھر حضورِانور نے مزید فرمایا کہ اس میں لوگ اتنے jam-packed بیٹھے ہوتے ہیں کہ اگرانسان ایک دفعہ سانس لینے کے لیے سر اُوپر کر لے تو نیچے نہیں کر سکتا۔ تو مَیں نے سمجھا کہ شاید آپ وہاں ٹرو ٹرو چلاتے ہیں۔یہ دلچسپ تبصرہ سن کر حاضرینِ مجلس بھی خوب محظوظ ہوئے۔
قارئین کی معلومات کے لیے تحریر کیا جاتا ہے کہ (Tow Truck) کمپنی گاڑیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا کام کرتی ہے۔ یہ کمپنیاں عام طور پر ان گاڑیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا کام کرتی ہیں جو خراب ہو جاتی ہیں، کسی حادثے کا شکار ہو جاتی ہیں یا غیر قانونی طور پر پارک کی گئی ہوتی ہیں اور قانونی کارروائی کرتے ہوئے انہیں وہاں سے ہٹانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اسی طرح ایک اَور خادم نے حضورِ انور کے استفسار پر اپنا تعارف پیش کرتے ہوئےعرض کیا کہ ان کا تعلق پاکستان سے ہے، انہوں نے ایف اےکیا ہوا ہے اور وہ براستہ سری لنکا امریکہ پہنچے تھے۔ وہ شادی شدہ ہیں لیکن فیملی ابھی پاکستان میں ہی ہے۔ جس پر حضورِ انور نے اُن سے دریافت فرمایا کہ فیملی کو بلاتے کیوں نہیں ہو؟
اس پر خادم نے حضورِ انور کی خدمت میں اس حوالے سے اپنی جانب سے کی جانے والی کوششوں کا ذکر کیا کہ ۲۰۱۹ء میں اپنی اہلیہ کو پاکستان سے بلانے کے لیے درخواست دی تھی اور اس سلسلے میں متعددکوششیں بھی کیں، حتّیٰ کہ کانگریس مین اور سینیٹرز سے بھی رابطہ کیا، لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ تاہم انہوں نے خوشی کے ساتھ حضورِانور کی خدمت میں اس امر کا اظہار کیا کہ گذشتہ رات ہی انہیں اپنی اہلیہ کے ویزے کی منظوری کی اطلاع ملی ہے۔انہوں نے اسے خلافت کی برکات قرار دیتے ہوئے بیان کیا کہ آپ کو دیکھ کے دعا کی تو بس!خدا تعالیٰ نے یہ دعا سن لی۔
اس پر حضورِ انور نے ان سے پوچھا کہ اچھا ! ویزا کب دیں گے؟ تو انہوں نے بتایا کہ متعلقہ ادارے کی پہلی کال مِس ہوگئی تھی اور اب وہ سوموار کو گھر میں پاکستان دوبارہ کال کریں گے۔ اس پر حضورِ انور نے تلقین فرمائی کہ ان سے کہنا کہ گھر میں فون کے قریب بیٹھے رہیں۔ مشکل سے وقت ملا ہے۔ یہ نہ ہو کہ یہ بھی ضائع ہو جائے۔
بعدازاں خدام کو حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں سوالات پیش کرنے اور ان کی روشنی میں قیمتی راہنمائی حاصل کرنے کا موقع بھی ملا۔
ایک خادم نے حضورِانور سے دریافت کیا کہ جماعت کے حوالے سے ان کی سب سے بڑی فکر کیا ہے اور کیا کوئی خاص بات ہے جو انہیں پریشان کرتی ہو؟
حضور ِانور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے کی فکر ہونی چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد کیا تھا؟ لوگوں کو خدا کے قریب لانا، ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کا شعور دینا اور اسلام کی حقیقی تعلیمات کو قائم کرنا۔ یہی ہماری فکر ہونی چاہیے۔
سب سے اہم چیز عبادت ہے۔ خدا کی لقا کے لیے عبادت ضروری ہے۔ یہی ہماری جماعت کے اندر سب سے بڑی فکر ہونی چاہیے۔احبابِ جماعت کا ایک بڑا حصّہ اپنی پانچ وقت کی نمازیں مقررہ اوقات پر ادا کرتاہے، لیکن ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو یا تو نمازیں جمع کر کے ادا کرتی ہے یا بالکل نہیں پڑھتی۔یہ سب سے بڑی کوشش ہونی چاہیے، خدام الاحمدیہ کے لیے بھی اور آپ سب کے لیے بھی، جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم ہو جائے گا تو دیگر معاملات بھی ٹھیک ہوجائیں گے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم کرنے پر توجہ دیں، عبادت اور نماز پر توجہ دیں۔ یہی ہماری فکر ہونی چاہیے۔ اگر ہم یہ مقصد حاصل کر لیں تو دیگر مقاصد بھی پورے ہو جائیں گے۔
ایک خادم نے حضورِ انور کی خدمت میں عرض کیا کہ میرے تین بچے ہیں اور تینوں وقفِ نَو میں شامل ہیں۔ نیز راہنمائی طلب کی کہ کون سی دعا کی جائے جس سے خدا تعالیٰ اپنی محبّت بچوں کے دلوں میں پیوست کر دے؟
اس پر حضورِ انور نے راہنمائی فرمائی کہ والدین پہلے تو اپنا نمونہ دکھائیں۔ بچوں کے سامنے اپنے نیک نمونے دکھائیں گے اور خود دعا کر رہے ہوں گے، بچوں کے سامنے نفل پڑھ رہے ہوں گے تو ان کو پتا لگے گا کہ میرا باپ اس طرح رو کے دعا کر رہا ہے یا میری ماں اس طرح دعا کر رہی ہے تو ان کا بھی خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو گا۔
تو اصل چیز تو اپنا نمونہ ہے، وہ قائم کریں گے تو بچوں کی توجہ پیدا ہو جائے گی۔ اور پھر صحیح اسلامی تعلیم پر خود بھی عمل کرنا ہےاور ان سے گھروں میں بیٹھ کر discuss کرنا ہے۔
شام کو جب کام سے واپس آئیں تو بچوں سے بات کریں، ان کے ساتھ بیٹھیں۔ weekends پر یا جو بھی چھٹی کا دن ہوتا ہے، اس دن ان کے ساتھ بیٹھ کر بات کریں۔ اس طرح بچوں کے ساتھ آپ کا صحیح طور پر interaction ہو گا تو بچے ٹھیک ہو جائیں گے۔
مزید برآں حضورِ انور نے تاکید فرمائی کہ نماز میں دعا کیا کریں اور ان کے لیے دو نفل بھی باقاعدہ پڑھا کریں۔
ایک خادم نے حضورِ انور سے دریافت کیا کہ جماعت کی قیادت کرتے ہوئے آپ کو سب سے زیادہ تسلی اور خوشی کس بات سے ملتی ہے؟
اس پر حضورِ انور نے فرمایا کہ تسلی والی کون سی بات ہے؟ ہاں! اگر جماعت کوئی اچھے کام کر رہی ہو تو وہاں تسلی ہوتی ہے۔ دعا اور خواہش تو یہی ہوتی ہے کہ جماعت کے ہر فرد کا اللہ سے تعلق پیدا ہو، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والے ہوں، تو اسی سے تسلی ملتی ہے۔ اگر ایسا کررہے ہیں تو تسلی مل جاتی ہے، نہیں کر رہے تو فکر ہوتی ہے اور اس کے لیے پھر یاددہانی کروانی پڑتی ہے۔ پھر تقریروں میں، خطبات میں یاددہانی بھی کرواتے رہتے ہیں۔
آپ کہتے ہیں کہ آپ کے کسی کام سے بڑا خوش ہو گیا تو واہ واہ ہو گئی! ابھی تو ہم نے کون سا اتنا بڑا مقصدحاصل کیاہے؟جب ہم ایک چوتھائی دنیا کو فتح کر لیں گے تو تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے کچھ حاصل کیا۔ ابھی تو ہمارے اپنے پڑوس میں ہی ہمیں پتا نہیں ہوتا کہ کون کیا ہے، احمدی کون ہے کسی کو نہیں پتا، ہماری ان سے واقفیت نہیں ہے۔ تو پہلے اپنے آپ کو متعارف کروائیں، جماعت کا تعارف کروائیں، تو پھر تسلی ہو گی۔
ایک خادم نے مزید راہنمائی طلب کی کہ کیا حضورِ انورنے یہ تجویز فرمایا ہے کہ احمدی سیاست کو بطورکیریئر اختیار کریں؟
حضورِ انور نے اس پر اثبات میں جواب دیتے ہوئے انصاف کو فروغ دینے اور مثبت اثر و رسوخ قائم کرنے کے لیے احمدیوں کی سیاست، بیوروکریسی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت عوامی خدمت کے مختلف شعبہ جات کو اختیار کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ اسی طرح احمدیوں کو اقتصادی ترقی اور سماجی بہبودکو فروغ دینے کے لیے کاروبار اور صنعت سمیت تمام شعبہ جات میں اپنی نمائندگی کو بڑھانے کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ نیز دیگر کمیونٹیز کی مثالوں سے اخذ کرتے ہوئےحضورِ انور نے احمدیوں کو معاشرے میں تعمیری کردار ادا کرنے اور مساوی طرزِعمل کو یقینی بنانے کے لیے مختلف شعبہ جات میں فعّال کردار ادا کرنے کی ترغیب دی۔
ایک خادم نے راہنمائی طلب کی کہ باجماعت نماز کیوں ضروری ہے حالانکہ انفرادی نماز میں ہم زیادہ کھل کر، اردگرد سے شرمائے بغیر خدا سے بات کر سکتے ہیں؟
حضورِ انور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اسی لیے کہ اللہ تعالیٰ نے قربانیوں، مال کی قربانی اور عبادت ہر چیز کے لیے قرآن شریف میں یہ لکھا ہے کہ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً کہ چھپ کے بھی کرو اور کھل کے بھی کرو۔
کھل کے کرنا اس لیےہے تا کہ جو دوسرے کمزور لوگ ہیں، جو نہیں کرنے والے ہیں، ان کو بھی عادت پڑے، توجہ پیدا ہو، ہر قسم کی قربانی کی، چاہے وہ عبادت کی قربانی ہے، مالی قربانی ہے یا اور کوئی نیک کام ہے۔ جب لوگوں کے سامنے ہوتا ہے تو پھر ان کو بھی توجہ اور شوق پیدا ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے congregation اس لیے رکھی ہے تا کہ اس سے آپ کی ایک جو unity اور وحدت ہے اس کا بھی پتالگے کہ جماعت ایک ہے۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ باجماعت نماز پڑھنے کا ثواب ستائیس گنا زیادہ ہے۔ اس لیےکہ جب آپ لوگ سب ایک ہو کے نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں تو اس unityمیں ایکstrengthہے اس کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو وہی پسند ہے۔
اللہ تعالیٰ جماعت کے اندر وحدت قائم کرنا چاہتا ہے۔ تو جماعتی رنگ تو تبھی پیدا ہو گا جب ایک چیز ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ دیکھو! جب تمہارے کندھے سے کندھا جڑا ہوتا ہے تو تمہارے اندر ایک احساس ہوتا ہے کہ ہم ایکunitہیں اور ہماری ایک strength ہے اور جس کے لیے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے لفظ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ استعمال فرمایا ہےکہ مضبوط دیوار کی طرح بن جاتے ہیں، چٹان بن جاتے ہیں۔ اور اسی میں یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو تمہاری باجماعت نمازیں ہیں، وہ امام جو پڑھا رہا ہے اس کو کہا ہے کہ تم اتنی لمبی نمازیں نہ پڑھاؤ، چھوٹی پڑھاؤ تا کہ بہت سارے کمزور طبع بھی ہوتے ہیں، بچے بھی ہوتے ہیں اور ایسے لوگ ہوتے ہیں جو لمبی نماز زیادہ نہیں پڑھ سکتے تو ان کو بھی برداشت ہوسکے۔
تو درمیانی قسم کی نماز پڑھنی چاہیے جبکہ نفل پڑھنے کے حوالے سے فرمایا کہ نفل کا بہت زیادہ ثواب ہے اور جو رات کو اُٹھ کے نفل پڑھتا ہے، تہجد کا تو اَور بہت زیادہ ثواب ہے، اس میں تم لمبی لمبی نمازیں پڑھو۔
اس لیےحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں نماز پڑھاتے تھے تو وہ چھوٹی نمازیں ہوتی تھیں لیکن جب گھر میں نفل پڑھ رہے ہوتے تو ایسے نفل ہوتے تھے، یعنی جو نماز پڑھ رہے ہوتے تھے اتنی لمبی ہوتی تھی کہ ان کی خوبصورتی نہ پوچھو کیا ہے۔ کھڑے ہیں تو کھڑے ہی ہیں، نیّت باندھ کے کھڑے ہیں اور سورۂ فاتحہ پڑھ رہے ہیں یا جو بھی ساتھ سورتیں پڑھ رہے ہیں کہ اتنی دیر کھڑے ہیں کہ پاؤں متورَّم ہو کے تو وہاں سے بعض دفعہ خون بہنے لگ جاتا تھا۔
سجدے میں گئے ہیں تو سجدہ اتنا لمبا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیوی کہتی ہیں کہ رات نماز پڑھ رہی تھی، اتنا لمبا سجدہ ہو گیا کہ مجھے لگا کہ میرے ناک سے خون بہ جائے گا بلکہ ایک صحابیؓ بھی نماز پڑھ رہے تھے توانہوں نے بھی یہی الفاظ کہے کہ اتنا لمبا سجدہ تھا کہ جھکے جھکے مجھے لگا کہ میری نکسیر پھوٹ جائے گی، ناک سے خون بہنے لگ جائے گا، مجھے برین ہیمرج نہ ہو جائے۔
تو وہ اتنے لمبے لمبے سجدے ہوتے تھے، ان کا ثواب علیحدہ ہے۔ اس لیےاللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ نفلوں کاثواب بھی تمہیں ملے گا، لیکن جماعت کی اکائی، unityاور وحدت ثابت کرنے کے لیے تم لوگوں کو باجماعت نماز پڑھنی چاہیے۔ اور پھر اس سے دوسروں کو بھی تحریک پیدا ہوتی اور وہmotivate ہوتے ہیں۔
حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں جو اگلا سوال پیش کیا گیا وہ یہ تھا کہ ہم بطور ایک خادم ماحولیاتی تبدیلی (climate change) میں اپنا مثبت کردار کیسے ادا کر سکتے ہیں؟
حضورِ انور نے اس پر ہدایت فرمائی کہ فیول(fuel) کےاستعمال کو کم کریں۔ خدام نوجوان ہیں، زیادہ سے زیادہ کوشش کریں کہ سائیکل پر جایا کریں۔ دو سے سات میل سائیکل پر جا سکتے ہیں یا پھر سائیکل ہی ایسے آ گئے ہیں جو الیکٹرک انرجی سے چل رہے ہوتے ہیں، اس کو استعمال کریں۔ الیکٹرک کارز اور موٹر سائیکل بھی ہیں اور اصل چیز یہی ہے کہ سائیکل استعمال کریں، پیدل چلیں۔
چھوٹے موٹے فاصلوں کے ضمن میں حضورِانور نے مثال دیتے ہوئے توجہ دلائی کہ اگر آپ کا مقصد قریبی دکان پر جانا ہے جو دس منٹ کی واک(walk) پر ہے تو کار میں بیٹھے، چلے گئے تو آپ لوگ پولوشن(pollution) کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیےاس سے بچنے کی کوشش کریں۔ نیز نصیحت فرمائی کہ زیادہ سے زیادہ پیدل چلیں اور کاروں کا استعمال کم کریں۔
مزید برآں حضورِانور نے شجرکاری کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ دوسری سب سے بڑی بات یہ ہےکہ جتنی زیادہ tree plantation کر سکتے ہیں، وہ کریں۔ مختلف جگہوں پرگورنمنٹ کے پراجیکٹس یا پلان ہوتے ہیں، وہاں درخت لگائیں اور ہر سال اگر ہزاروں درخت لگا دیں گے تو یہ بھی ایک مدد ہے جو آپ کر رہے ہوں گے۔
ایک خادم نے سوال کیا کہ مجلس خدام الاحمدیہ کی عاملہ میں تحریک ِجدید کے لیے تو ناظم مقرر ہے، لیکن وقفِ جدید کے لیے ناظم کیوں نہیں ہوتا؟
حضورِ انور نے اس پر وضاحت فرمائی کہ ناظم تحریکِ جدید کو وقفِ جدید کی ذمہ داری بھی تفویض کی جاتی ہے اور وہ دونوں کام انجام دیتا ہے۔ حضورِانور نے مزید فرمایا کہ اطفال الاحمدیہ کے معاملے میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اطفال کا علیحدہ شعبہ قائم کرنے کی ہدایت فرمائی تھی جس کے نتیجے میں اطفال کے لیے ایک ناظم مقرر کیا گیا۔
ایک خادم نے حضورِ انور سے دریافت کیا کہ جب ہم مغربی معاشرے میں بچوں کو پالتے ہیں تو ہم اس بات کو کیسے یقینی بنا سکتے ہیں کہ بچے شکرگزار بنتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ایک تعلق قائم کرنے والے ہوں نیز ہم کس طرح ان کو عاجزی، شکرگزاری اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں بڑھانے کے لیے تعلیم دے سکتے ہیں؟
حضورِ انور نے اس پر جواب دیا کہ جس طرح مَیں نے پہلے بھی کہا ہے کہ بچوں کے سامنے اپنا نمونہ دکھاؤ۔ خود عبادت کر رہے ہو ں، خود نیک عمل ہوں اور ان کو بتاؤ کہ جو کچھ مَیں کر رہا ہوں یہ اس لیے کر رہا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ میرا مذہب یہ کہتا ہے۔ یہ ہمیں اسلام کی تعلیم ہے اور ہم احمدی ہی مسلمان ہیں۔
اسی لیےہم نے مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہےکہ یہ تعلیم جو لوگ بھول گئے تھےہم اس پر عمل کریں۔ تو ان کے سامنے جب یہ باتیں ہوں گی اور repeatedly کر رہے ہو گے اور مختلف وقتوں میں بچوں کے ساتھ اپنی ایک سٹنگ (sitting)ہو گی اور صحیح طرح جذبات کو سمجھتے ہوئے آپ ان کے ساتھ interact کر رہے ہو گے تو بچوں کو خود یہ خیال پیدا ہو جائے گا کہ ہم نے دین سیکھنا ہے اور دین ہماری priorityہے۔
اور دوسرے یہ کہ اچھے اخلاق کے بارے میں ان کو بتانا کہ humility کیا چیز ہے،عاجزی کیا چیز ہے، شکر گزاری کیا چیز ہے؟ ہمیں سب سے بڑھ کے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے جس نے ہمیں ہماری پیدائش سے پہلے ہی یہ ساری چیزیں مہیا کر دیں۔ بچے کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اس کے ماں باپ کو پوری طرح اس کے لیے تیار کر دیا۔ ماں کو دودھ پلانے کے لیےمہیا کر دیا، باپ کو اس کی دوسری ضروریات پوری کرنے کے لیے بنا دیا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ چیزوں کا جو سسٹم بنایا ہے وہ ہماری بہتری کے لیےبنایا ہے اور بچپن سے ہمیں پالنے کے لیے بنایا ہے۔ تو بچپن سے،ہوش جب آ جاتی ہے، چھ سات سال کے بچے اس طرح کے سوال کرتے ہیں۔ ان کے دماغوں میں ڈالو کہ یہ شکر گزاری کیوں ہونی چاہیے کیوں ہمارے اندر gratitude ہونا چاہیے۔
پھر ہماری ذمہ داریاں ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ ہمارے اوپر اتنا مہربان ہے، ہمیں یہ چیزیں دیں، ہمیں ماں دی، باپ دیا، کھانا دیا، پڑھائی کا سامان دیا۔ ہم سکول جاتے ہیں، ہمیں سورسز (sources)دیے، ہمیں ٹریول (travel)کرنے کے لیے transportation facility دی، ہمیں کھیلنے کے لیے موقعے دیے اور ہمیں یہاں سب کچھ اور سہولتیں مل رہی ہیں تو یہ ساری چیزیں ہمیں شکر گزار بناتی ہیں اور ہمیں اس بات کا ذمّہ دار بناتی ہیں کہ ہم اس کی عبادت کریں، جو اللہ تعالیٰ نے ہم پر ایک فرض کیا ہے اور دیکھو اس لیےہم کرتے بھی ہیں۔ تو اگر آپ لوگوں کے اپنے نمونے اچھے ہوں گے، ماں باپ بچوں کے سامنے جو مثالیں سیٹ کر رہے ہوں گے، اسی سے ان کو سبق مل جائے گا۔
حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا جانے والا اگلا سوال یہ تھا کہ آپ احمدیت کو بدلتے ہوئے معاشرتی اصولوں اور چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے کیسے دیکھتے ہیں؟
حضور ِ انور نے اس پر فرمایا کہ ہم نے تو دنیا کو ریفارم (reform)کرنا ہے اور ہم نے بچوں کو بھی یہی بتانا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم ہے، اسی لیے ہم آئے ہیں اور اسی لیے مسیحِ موعودؑ آئے ہیں۔ تو ہم نے دنیا کو ریفارم کرنا ہے نہ کہ دنیا کے پیچھے چلنا ہے۔
بہت مشکل کام ہے، بہت بڑے چیلنجز ہیں، چھوٹی موٹی بات نہیں ہے۔ مَیں نے تو آرام سے کہہ دیا ہے، لیکن اس پر آپ لوگوں کے لیے اس سوسائٹی اور ماحول میں رہتے ہوئے عمل کرنا بہت مشکل کام ہے۔
پھر ہر طرف سے ایسی ایسی باتیں نکل رہی ہیں جو آپ کو غلط رنگ میں attractکر رہی ہوتی ہیں۔ ان سے بچنا اور اپنے بچوں کو بچانا ایک چیلنج ہے۔ تو اس کےلیے کوشش کرنی پڑے گی، دعا کرنی پڑے گی، بچوں کو بتانا پڑے گا، دوست بنانا پڑے گا، کوئی نہ کوئی substitute بھی دینا پڑے گا۔
یہ تو نہیں کہ آپ نے صرف کہہ دیا کہ یہ نہیں کرنا۔ وہ کہے گا تو پھر کیا کرنا ہے۔ اس کو بتاؤ کہ پھر ہم نے یہ کرنا ہے۔ اس کو باہر لے کے جائیں۔ weekend یا چھٹی پرلے کے جائیں، پھر اس کو دکھائیں کہ نیچر کیا چیز ہے، نیچر کی بیوٹی کیا چیز ہے، اللہ تعالیٰ کیا چیز ہے، کس کس طرح اس نے پیدا کیا۔ تو ان میں ایک اَور قسم کا انٹرسٹ develop ہو جائے بجائے اس کے کہ ہر وقت وہ انٹرنیٹ اور فضول قسم کی گیموں پر بیٹھ کے وقت ضائع کریں۔
پھر کھیلنا ہے تو آؤ باہر فُٹ بال کھیلیں،کرکٹ کھیلیں، باسکٹ بال کھیلیں، کچھ کریں۔ آؤٹ ڈور گیم کھیلیں بجائے اس کے کہ اندر ٹی وی پرہی بیٹھ کے کھیل کے اپنی نظریں خراب کریں۔
آپ لوگوں، ماں باپ کوبچوں کو بچانے کے لیے قربانی کرنی پڑے گی۔ یہ نہ ہو کہ ماں باپ اپنے پروگرام میں مصروف ہیں تو یہ کہیں کہ اچھا تم آئی پیڈ لے لو، فون لے لو، تم دیکھتے رہو۔ اور پانچ چھ سال کی عمر میں بچے کو جب یہ دے دیتے ہیں تو اس پروہ ایسا addict ہو جاتا ہے کہ اس کو مستقل عادت پڑ جاتی ہے۔ ماں باپ کی ذمہ داریاں ہیں، ان کو چاہیے کہ وہ قربانی کریں اور اپنے بچوں کوان چیزوں کی addictionسے بچائیں۔
ایک خادم نے پوچھا کہ ہم کس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ہماری دعائیں قبول ہو رہی ہیں؟
اس پر حضورِ انور نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ دل کی حالت خود بتا دیتی ہے، اگر دل سے دعائیں نکل رہی ہیں، رو رو کے اُبال ہو کے دعائیں نکل رہی ہیں اور ایک ایسی کیفیت طاری ہو گئی ہے جب لگے کہ میرا اللہ میاں سے کوئی تعلق پیدا ہو گیا ہے۔اور دل کی کیفیت یہ بتا دیتی ہے۔
حضورِانور نے مزید وضاحت فرمائی کہ آنکھوں کے آنسو اور دل کے جذبات اور زبان سے نکل رہی دعائیں، وہ خود بتا رہی ہوتی ہیں کہ اب دعا قبول ہو گئی ہے یا اللہ تعالیٰ تک پہنچ گئی ہے۔ اب اللہ تعالیٰ ان کو قبول کر لے گا۔ تو یہی حالت ہے، باقی اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہام تو نہیں کرنا کہ ہاں !قبول کر لی بزرگو!اب تم اس دعا کو چھوڑ دو، کچھ اَور کرو۔
حضورِ انور نے دعاؤں میں مستقل مزاجی اختیار کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے توجہ دلائی کہ ہمارا کام تو دعائیں کرتے چلے جانا ہے اور اس کے دَر سے مانگتے چلے جانا ہے۔ مانگتے رہنا چاہیے۔ باقی جو دل کی کیفیت ہوتی ہے وہ تو دعا کرنے والے کو خود ہی پتا لگ جاتی ہے۔
حضورِ انور نے اس خادم سےدریافت فرمایا کہ کیا کبھی رونے کی کیفیت پیدا ہوئی ہے یا کبھی سجدے میں بہت زیادہ گڑگڑائے ہیں؟ خادم نے اس کا اثبات میں جواب دیا تو حضورِانور نے مزید دریافت فرمایا کہ تو پھر وہاں دعا کرتے کرتے کبھی ایک جگہ جا کے سکون میسر آیا ہے؟ خادم نے دوبارہ اثبات میں جواب دیا تو اس پر حضورِ انور نے فرمایا کہ بس!پھر وہی دعا کی قبولیت ہو گی۔
ایک خادم نے حضورِ انور کی خدمت میں عرض کیا کہ جماعت کے بعض ممبران بعض دوسرے عہدیداران کے رویّہ کی وجہ سے خود کو جماعت سے دُور کر لیتے ہیں۔ نیز اس کی بابت راہنمائی طلب کی کہ ہم بحیثیت ِخدام فعّال طور پر نظامِ جماعت کی خوبصورتی اور اس کے مقصد کو دوسروں پر واضح کیسے کر سکتے ہیں تا کہ وہ انفرادی کمزوریوں اور نظام کے تقدس میں فرق کر سکیں؟
حضورِانور نے اس حوالے سے توجہ دلائی کہ مَیں کئی دفعہ بتا چکا ہوں کہ ان لوگوں کو بتائیں کہ تم نے اس office holderکی بیعت نہیں کی ہوئی۔ تم نے دین کو سمجھا، مسیح موعود علیہ السلام کو سچا سمجھا، خلافت کو حق پر سمجھا تو تم نے بیعت کرلی۔ اب اگر یہ بندہ جس کو تم لوگوں نے خود ہی کسی office کےلیے electکیا ہے۔ وہ سیکرٹری تربیت ہے یا صدر جماعت ہے یاجنرل سیکرٹری ہے یا سیکرٹری امور عامہ ہے۔ اگر تم نے خود select کیا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اس غلطی کی وجہ سے اللہ میاں تمہیں آزمانا چاہتا ہے۔
اس لیے تمہارا کام یہ ہے کہ اطاعت کرو۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہارے سر پر کوئی منقّےکے سر والا یعنی بالکل بے عقل آدمی بھی امیر بنا دیا جائے تو اس کی بھی اطاعت کرو۔ لیکن اپنے grievances کو اپنی جماعت کے ساتھ اور اپنے دین کے ساتھ بریکٹ نہ کرو۔ اور office holder تو چھ سال بعد ختم ہو جائے گا، لیکن تم اگر اس سے ہٹو گے تو دین مستقل ضائع کر لو گے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے لو گے۔ اس لیے دین کو ان باتوں سے علیحدہ رکھو اور office holder کا بھی کام ہے کہ آپ لوگ ان کو سمجھائیں جو اُن کے واقف ہیں کہ آپ کی وجہ سے لوگ خراب ہو رہے ہیں، اس لیے اپنے attitudeکو ٹھیک کرو، لوگوں سے رویّہ درست کرو اور ان سے نرمی سے پیش آؤ اور ان کی ضروریات کا خیال رکھو نہ یہ کہ arrogance یا تکبّر پیدا ہو جائے کہ ہمیں کوئی عہدہ مل گیا ہے۔
عہدید ار خدمت کو عہدہ نہ سمجھے بلکہ اپنے آپ کو خادم سمجھے پھر زیادہ مشکلات نہیں ہوں گی۔ باقی سیکرٹری تربیت یا صدر جماعت کو لوگوں کے سامنے کسی کی بُرائی نہیں بیان کرنی چاہیے۔ کسی نے اپنے بھائی کی تربیت کرنی ہے یا آپ تربیت کرنی چاہیں تو اس کو علیحدگی میں جا کے سمجھاتے ہیں نہ یہ کہ لوگوں کے سامنے بیٹھ کے تو اس کا ذکر کرنا شروع کر دیں۔ اسی طرح مومن کو ہر دوسرے مومن کو بھائی سمجھنا چاہیے۔ office holder کو ہر جماعت کے فرد کو اپنا بھائی سمجھنا چاہیے اور اس کی تربیت علیحدہ کر کے ہمدردی کے جذبے سے نہ کہ اپنی کوئی بڑائی بیان کرنے سےکرنی چاہیے۔
ہمارا سسٹم اس لیے ہے کہ اصلاح ہو نہ یہ کہ سسٹم یہ ہے کہ کچھ لوگوں کے ہاتھ میں پاور(power) دے کے وہاں کوئی supremacy قائم کروانی ہے، وہاں تکبّر کا اظہار کرانا ہے، ہرگز نہیں!یہ تو عاجزی ہے، بھائی چارہ ہے، آپس میں محبّت ہے۔ ایک سسٹم کو چلانے کے لیےہم نے ایک سسٹم بنایا ہے۔ اس لیے نہیں بنایا کہ وہاں ہم دوسروں کو دَوڑا دیں بلکہ قرآن شریف میں تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی فرمایا ہے کہ تم لوگوں سے پیار اور نرمی کا سلوک کرو، اگر ان پر سختی کی اور سختی سے پیش آئے تو یہ لوگ دَوڑ جائیں گے۔
اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اتنا بلندمقام ہے، اگر اللہ تعالیٰ ان کو بھی warning دے سکتا ہے کہ دَوڑ جائیں گے تو پھر ہم کیا چیز ہیں؟ اس لیے ہر ایک سے پیار اور محبّت سے بات کرنی چاہیے۔
اسی خادم کو حضورِ انور کی خدمت میں اپنا دوسرا اَ ور بحیثیتِ مجموعی اس مجلس کا آخری سوال پیش کرنے کی بھی توفیق ملی جو یہ تھا کہ ہم قرآن کریم کی خدمت کے لیے کیا طریقہ اپنا سکتے ہیں؟
اس کے جواب میں حضورِ انور نے فرمایا کہ قرآن کریم کی خدمت کیا ہے؟ قرآن ِکریم کی خدمت یہ ہے کہ پڑھو، علم حاصل کرو اور اس تعلیم کو پھیلاؤ۔
قرآن کریم میں بہت سارے احکام ہیں۔ آپ اس ماڈرن سوسائٹی میں اچھے اخلاق کی باتیں اس میں سے حکم نکال کے قرآن شریف کے دیں۔ امن کی باتیں ہیں،محبّت کی باتیں ہیں، پیار کی باتیں ہیں، یتیم کی خدمت کرنے کی باتیں ہیں۔ یہ سوسائٹی میں لوگوں کو بتائیں تو لوگوں کو توجہ پیدا ہو گی کہ ہاں!قرآن میں تواتنے حکم دیےہوئے ہیں۔ تو وہ آپ کی بات سنیں گے۔ یہی قرآن کریم کی خدمت ہے۔
پھر جس جس طرح دین کی تعلیم پھیلے گی تو لوگ اسلام اور دین کے قریب آئیں گے اور سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ جو احکام ہیں وہ اپنے اوپر لاگو کریں۔ آپ کا نمونہ دیکھ کے پھر لوگوں کو خود ہی توجہ پیدا ہو گی۔
اور کوشش یہ کریں کہ ہر جگہ ہم نے قرآن کی تعلیم کو پھیلانا ہے اور ہر حالات کے مطابق پھیلانا ہے۔ یہ تو نہیں کہ atheist کو کہہ دیں کہ نماز پڑھو، وہ تو کہے گا کہ مَیں نہیں پڑھتا، تم نےجو کرنا ہے کر لو۔ تو پھر اسی کا بتاؤ کہ قرآن کہتا ہے کہ اپنے ہمسائے کا خیال رکھو، قرآن کہتا ہے کہ اپنے والدین کا خیال رکھو، قرآن کہتا ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت صحیح طرح کرو اور ان کو قتل نہ کرو تو مطلب یہی ہے کہ اگر تم ان کی بُری تربیت کر رہے ہو تو ان کو قتل کرنے کے ہی برابر ہے۔ اپنے ماں باپ کا عزت و احترام کرو، اپنے بھائیو ں کا عزت و احترام کرو اور صبر اور حوصلہ دکھاؤ، سچائی پر قائم رہو اور انصاف قائم کرو۔ ہمسایوں کے حقوق اس حدّ تک ہیں کہ تمہارے ساتھ چلنے والےمسافر، تمہارے کام کرنے والے سارے تمہارے ورکر(worker)، یہ سب تمہارے ہمسائے ہیں، ان کی عزت اور احترام کرو اور ان کی عزت کا خیال رکھو۔
تو یہ تعلیم ہمیں قرآن کریم دیتا ہے۔ یہ باتیں کرو گے تو ان کو توجہ پیدا ہو گی کہ قرآن کریم میں یہ کچھ لکھا ہوا ہے۔ تو یہی اس کی خدمت ہے کہ اس کی تعلیم کو عام کیا جائے۔
ملاقات کے اختتام پر شاملینِ مجلس کو حضورِ انور کے ہمراہ گروپ تصویر بنوانے اور بطورِ تبرک قلم حاصل کرنے کی سعادت ملی نیز حضورِانور نےان کے قیام و طعام کے انتظامات وغیرہ کے بارے میں بھی دریافت فرمایا۔
آخر پر حضورِانور نے سب شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عطا فرمایا۔
٭…٭…٭