حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

شام کی جنگ، مسلمان ممالک اور عالمی حالات کا بصیرت افروز تجزیہ (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۳؍ ستمبر ۲۰۱۳ء)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک الہام بھی ہے کہ ’’بَلاءُ دِمشق‘‘۔ تو حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اُس وقت اس ہوائی حملے سے جو دمشق کی حالت تھی اس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ الہام بھی پورا ہوا کہ تمام تاریخی عمارات، تمام مذاہب کی تاریخ، سب ملیا میٹ کر دی گئی۔ کیونکہ اس سے بڑی بلا اور تباہی اس سے پہلے کبھی دمشق پر نہیں آئی تھی۔ یہ بلا آئی تھی غیروں کے ہاتھوں، جیسا کہ مَیں نے کہا کہ فرانس نے حملہ کیا۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلدنمبر ۹صفحہ نمبر ۳۲۴ تا ۳۳۴خطبہ جمعہ ۱۳؍نومبر۱۹۲۵ء)

بعض الہامات کئی مرتبہ بھی پورے ہوتے ہیں۔ وہ بَلا جو غیروں کے ہاتھوں آئی اور شہر کو تباہ کر دیا وہ ستاون اٹھاون گھنٹے رہی جس میں کوئی کہتا ہے دوہزار لوگ مارے گئے، کوئی کہتا ہے بیس ہزار لوگ مارے گئے، لیکن کہا جاتا ہے، محتاط اندازہ یہی ہے کہ اُس وقت سات آٹھ ہزار لوگ بہرحال مارے گئے۔ لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ بلا جو غیروں کے ہاتھوں سے آئی تھی، اُس میں تو یہ نقصان ہوا۔ لیکن ایک بَلا اب بھی آئی ہوئی ہے جو اپنے کے ہاتھ آئی ہے اور گزشتہ تقریباً دو اڑھائی سال سے یہ دمشق میں اور شام میں تباہی پھیلا رہی ہے۔ پورے شام کو اس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ لاکھ سے اوپر لوگ مارے گئے ہیں، محتاط اندازہ ہے، بعض کہتے ہیں اس سے بھی زیادہ ہے اور ملینز میں لوگ ایسے ہیں جو بے گھر ہوئے ہیں۔ گھر بھی کھنڈر بنے ہیں، بازار بھی کھنڈر بن رہے ہیں، صدارتی محل پر بھی گولے برسائے گئے ہیں، ایئرپورٹس پر بھی گولے برسائے گئے۔ مختلف عمارات پر گولے برسائے گئے، غرض کہ کوئی بھی محفوظ نہیں۔ حکومت کے جو فوجی ہیں وہ شہریوں کو مار رہے ہیں اور شہری حکومتی کارندوں کو مار رہے ہیں، ان میں فوجی بھی شامل ہیں اور دوسرے بھی شامل ہیں۔ علوی جو ہیں وہ سنّیوں کو مار رہے ہیں اور سنّی جو ہیں وہ علویوں کو مار رہے ہیں۔ اور یہ سب لوگ جو ہیں ایک کلمہ پڑھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ آزادی کے نام پر جو کوشش وہاں ہو رہی ہے، جو حکومت کے مخالف ہیں، عوام ہیں جن میں بڑی تعداد سنّیوں کی ہے وہ جو کوشش کر رہے ہیں، اُن میں اس کوشش میں ان کی مدد کے نام پر دہشتگرد گروہ بھی شامل ہو گئے ہیں۔ جو نقصان ان لوگوں سے، ان گروہوں سے، دہشتگرد گروہوں سے ملک کو پہنچنا ہے، اُس کا تو بعد میں پتہ چلے گا۔ بہر حال افسوس یہ ہے کہ یہ بلاجو اس دفعہ آئی ہے، یہ خوفناک شکل اختیار کرتی چلی جا رہی ہے اور یہ لوگ نہیں جانتے کہ آزادی کے نام پر عوام اور امن قائم کرنے کے نام پر حکومت ایک دوسرے پر ظلم کر کے اور آپس میں لڑ کر اتنے کمزور ہوتے چلے جا رہے ہیں کہ اب بڑی طاقتیں آزادی دلوانے، ظلم ختم کرنے اور امن قائم کرنے کے نام پر اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے بھرپور کوشش کریں گی اور کر رہی ہیں۔ لیکن یہ نہیں جانتے کہ یہ کوششیں دنیا کو بھی تباہی کی لپیٹ میں لے سکتی ہیں۔ شام کی حکومت کے ساتھ بھی بعض بڑی حکومتیں ہیں۔ اسی طرح اُس ریجن کی بھی بعض حکومتیں جو شام کی حکومت کی مدد کررہی ہیں یا پشت پناہی کر رہی ہیں یا اُن کی حمایت کر رہی ہیں۔ اسی طرح جو حکومت کے مخالف گروپ ہیں، اُن کے ساتھ بھی حکومتیں کھڑی ہیں بلکہ بڑی طاقتیں اُن کے ساتھ زیادہ ہیں۔ اس صورتحال نے جیسا کہ مَیں نے کہا بڑے خطرناک حالات پیدا کر دئیے ہیں۔ لیکن افسوس تو مسلمان ممالک پر ہے جو اُس تعلیم پر عمل کرنے کا دعویٰ کرنے والے ہیں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ یہ فرمایا تھا کہ یہ اپنے کمال کو پہنچ چکی ہے، اُس امّت سے وابستہ ہونے کا دعویٰ کرنے والے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے خیرِ امّت کہا ہے۔ کون سا خیر کا کام ہے جو آج یہ مسلمان ممالک کر رہے ہیں۔ نہ احساسِ ہمدردی ہے، نہ تعلیم کے کسی حصے پر عمل ہے۔ غیرت ہے تو وہ ختم ہوگئی ہے اور غیروں سے مدد مانگی جاتی ہے اور یہ مدد بھی اپنے ہی لوگوں کو مارنے کے لئے مانگی جاتی ہے۔ ایسے حالات میں قرآنِ کریم کی تعلیم کیا کہتی ہے۔ اگر ایسے حالات پیدا ہوں، دو گروہ اور دو جماعتیں لڑ پڑیں تو اللہ تعالیٰ کیا فرماتا ہے؟ فرماتا ہے کہ وَ اِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا ۚ فَاِنۡۢ بَغَتۡ اِحۡدٰٮہُمَا عَلَی الۡاُخۡرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیۡ تَبۡغِیۡ حَتّٰی تَفِیۡٓءَ اِلٰۤی اَمۡرِ اللّٰہِۚ فَاِنۡ فَآءَتۡ فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا بِالۡعَدۡلِ وَ اَقۡسِطُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ (الحجرات: ۱۰)اور اگر مومنوں میں سے دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرواؤ۔ پس اگر ان میں سے ایک دوسری کے خلاف سرکشی کرے تو جو زیادتی کررہی ہے اس سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے فیصلہ کی طرف لوٹ آئے۔ پس اگر وہ لَوٹ آئے تو ان دونوں کے درمیان عدل سے صلح کرواؤ اور انصاف کرو۔ یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عدل سے صلح کرواؤ اور انصاف کرو۔ اور اللہ تعالیٰ نے انصاف کا معیار بھی اتنا اونچا مقرر فرمایا ہے، دوسری جگہ فرماتا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں انصاف سے نہ روکے۔ اگر تمہیں دنیاوی خواہشات کے بجائے اللہ کی محبت چاہئے تو پھر مسلمان کا کام ہے کہ آپس میں انصاف بھی قائم کرے اور غیروں کے ساتھ بھی انصاف قائم کرے۔ فرمایا کہ ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی (المائدۃ: ۹) یہ تقویٰ کے قریب ہے۔ اور ایک مسلمان کو بار باریہی حکم ہے کہ تقویٰ کی تلاش کرو، تقویٰ کی تلاش کرو۔

قابلِ شرم بات یہ ہے کہ اسرائیلی صدر بڑی طاقتوں کویہ مشورہ دے رہا ہے جو اصل میں تو مسلمانوں کی طرف سے آنا چاہئے تھا، لیکن اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ان مسلمان ملکوں کو خیال نہیں آیا، سربراہوں کو خیال نہیں آیا تو جب اسرائیل کے صدر نے مغربی طاقتوں کو مشورہ دیا تھا تو اُس وقت مسلمان ممالک کی جو کونسل ہے، یہ اعلان کرتی کہ ہم اپنے ریجن میں جو بھی فساد ہو رہے ہیں خود سنبھالیں گے اور خصوصاً اُس علاقے کو جو ہمارے ہم مذہب ہیں۔ ہم ایک خدا کو ماننے والے ہیں، ہم ایک رسول ؐکو ماننے والے ہیں، ہم ایک کتاب کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہیں اور اس کتاب کو اپنا رہنما ماننے والے ہیں۔ اگر ہم میں اختلاف پیدا ہو بھی گئے ہیں، اگر ایک ملک میں دو فرقوں کی لڑائی یا عوام اور حکومت کی لڑائی کسی جائز یا ناجائز وجہ سے شروع بھی ہو گئی ہے تو ہم اپنی کامل تعلیم کی رُو سے اس مسئلہ کا حل کر لیں گے۔ اگر ایک گروہ سرکشی پر اُتر آیا ہے تو اس سرکشی کو دُور کرنے کے لئے ہمیں اگر غیر کی مدد کی ضرورت ہوئی بھی تو ٹیکنیکل مدد یا ہتھیاروں کی مدد تو لے لیں گے لیکن حکمتِ عملی بھی ہماری ہو گی اور افراد بھی ہمارے ہوں گے جو اس فساد اور فتنے کو ختم کرنے کے لئے استعمال ہوں گے۔ اگر یہ سوچ ہو تو کسی غیر کو جرأت نہ ہو کہ مسلمان ملکوں کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھیں۔ ہزاروں میل دُور بیٹھے ہوئے کسی کو کسی ملک سے کیا دلچسپی ہے؟ یہی کہ یا تو اُس ملک کی دولت پر قبضہ کیا جائے، یا جودنیا میں اپنی مخالف بڑی طاقت ہے اُس پر اپنی طاقت کا رعب ڈالنے کے لئے اُن ملکوں کو جو غریب ملک ہیں چھوٹے ملک ہیں جن میں فساد ہو رہے ہیں، زیرِ نگیں کر کے اپنی برتری ثابت کی جائے۔ بہر حال مسلمان ممالک کی کمزوری ہے اور اپنی تعلیم کو بھولنا ہے جو غیروں کو اتنی جرأت ہے کہ ایک ملک کی حکومت یہ اعلان کرتی ہے کہ یواین او شام پر حملہ کرنے کی اجازت نہ بھی دے تب بھی ہم حملہ کریں گے، یہ ہمارا حق ہے۔ اور حق کی دلیل نہایت بچگانہ ہے کہ یو این او ہماری فارن پالیسی کو dictate نہیں کروا سکتی۔ یہاں فارن پالیسی کا کہاں سے سوال آ گیا؟ جب دشمن کی دشمنی اتنی حد تک بڑھ جائے کہ آنکھوں پر پٹی بندھ جائے تو بظاہر پڑھے لکھے لوگ بھی جاہلانہ باتیں کرتے ہیں۔ ہم ان کی طرف دیکھتے ہیں کہ بڑے عقلمند لوگ ہیں لیکن جاہلوں والی باتیں ہو ہی ہوتی ہیں۔ تم ہزاروں میل دُور بیٹھے ہو، تمہارا اس معاملے سے کچھ تعلق بھی نہیں ہے، اگر تعلق ہے جو ہونا چاہئے تو یو این او کا کہ یہ لوگ اُس معاہدے میں، یو این او کے چارٹر میں شامل ہیں۔ کسی انفرادی ملک سے نہ معاہدہ ہے، نہ لینا دینا ہے۔ جس ملک میں فساد ہے اُس سے براہِ راست بھی کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے۔ یہاں فارن پالیسی کا کہاں سے سوال آ گیا۔ بہر حال یہ منطق مجھے تو سمجھ نہیں آئی۔ یہ تو ضد بازی ہے اور ڈھٹائی ہے اور اپنی برتری ثابت کرنے کی ایک مذموم کوشش ہے۔ دنیا کے امن اس طرح قائم نہیں ہوتے۔ امن قائم کرنے کے لئے انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہوتے ہیں اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے اسلام کی تعلیم جیسی اور کوئی خوبصورت تعلیم نہیں کہ کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں انصاف سے دُور نہ لے جائے۔ اس حوالے سے بار بار مَیں نے دنیا کے لیڈروں کو توجہ دلائی ہے کہ اگر اس طرح کیا جائے تو پھر امن قائم ہوتا ہے۔ اس آیت کی تعلیم سے جو مَیں نے پڑھی ہے اگر یواین او اس اصول پر انصاف قائم کرے تو انصاف قائم ہوگا۔ جہاں ظلم دیکھیں تمام ممالک مشترک کوشش کریں، یہ نہیں ہے کہ کسی کو ویٹو کا حق ہے اور کسی کو اپنی مرضی کرنے کا حق ہے۔ یہاں کسی ایک ملک کی فارن پالیسی کا سوال نہیں ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button