احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
براہین احمدیہ کی مالی معاونت کرنے والے خوش بخت
[تسلسل کے لیے دیکھیں الفضل انٹرنیشنل ۲؍نومبر۲۰۲۴ء]
۱۲: نواب ابراہیم علی خان صاحب مالیر کوٹلہ
انہوں نے ایک سو روپیہ بھیجا۔ جیساکہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے براہین احمدیہ میں آپ کاذکرکرتے ہوئے لکھا کہ’’اورایک عہدہ دار محمدافضل خان نام نے ایک سودس اور نواب صاحب کوٹلہ مالیرنے تین نسخہ کی قیمت میں سوروپیہ بھیجا۔‘‘(براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد۱ صفحہ ۳۱۹)
مکرم میاں محمد عبدالرحمٰن خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ ’’نواب ابراہیم علی خاں صاحب کی والدہ محترمہ فضیلت بیگم صاحبہ موضع جھل ریاست پٹیالہ کے ایک راجپوت خاندان سے تھیں۔ بہت منتظم خاتون تھیں۔ چنانچہ نواب غلام محمد خاں کے بالمقابل اپنے بیٹے کے الیکشن میں سب انتظام انہی کا تھا۔ نواب صاحب اپنی بیوی اور بڑے بچہ مہر محمد خاں کی وفات کے صدمہ سے مختل الدماغ ہو گئے تھے اور ۲۳؍اگست ۱۹۰۸ء کو وفات تک اسی عارضہ میں مبتلا رہے۔ ان کی شادی والد صاحب کی تیسری والدہ کی اکلوتی بیٹی نواب بیگم سے ہوئی تھی۔ تیسری والدہ اور والدہ نواب ابراہیم علی خاں سگی بہنیں تھیں۔ میرے نزدیک اللہ تعالیٰ نے حضورؑ کو ان کی عدم شفایابی کا علم دے دیا ہو گا۔ تبھی حضورؑ نے باوجود اصرار کئے جانے کے ٹھہرنا مناسب نہ جانا۔ حضورؑ نے جامع مسجد میں دعا کی تھی اور جامع مسجد شہر میں ہے اور مجھے حضرت میر عنایت علی صاحبؓ نے بتایا تھا کہ حضورؑ کی ملاقات نواب صاحب سے ’’سکندر منزل‘‘ میں ہوئی تھی۔ یہ کوٹھی اب بھی موجود ہے اور نواب سکندر علی خاں کی تعمیر کردہ ہے۔ خاندان یا ریاست میں ایسا کوئی ریکارڈ یا ڈائری نہیں جس سے اس سفر کی تاریخ وغیرہ کا علم ہو سکے۔ نواب احمد علی خاں صاحب مرحوم والیٔ مالیر کوٹلہ جو میرے خُسر بھی تھے نواب ابراہیم علی خان صاحب کے صاحبزادہ تھے۔‘‘(اصحاب احمد جلد دوم صفحہ ۲۶ حاشیہ )
تذکرہ رؤسائے پنجاب میں نواب ابراہیم علی خاں صاحب کی وفات بعارضہ ہیضہ اگست ۱۹۰۸ء میں ہونا مرقوم ہے۔
۱۳: جناب نواب غلام محبوب سبحانی خان صاحب رئیس اعظم لاہور
آ پ ۱۸۶۳ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام نواب امام الدین خان تھا۔ حکومت ہند نے حکومت پنجاب کی سفارش پر ان کے لیے پانچ ہزار چھ سو کی جاگیر دواماً اور دو ہزار آٹھ سو کی جاگیر تاحیات مقرر کی۔انہوں نے زیادہ تر خاموش زندگی بسر کی۔ فارسی زبان کے شعر کہتے تھے۔ دیوان چھپ چکا ہے۔ ایڈورڈ ہفتم کی تاج پوشی کے دربار میں دہلی گئے تھے وہیں وفات پائی۔ ایک بیٹی وارث تھی جس کے لیے بارہ سو روپے سالانہ پنشن مقرر ہوئی اور جاگیر سلطنت نے سنبھال لی۔ نواب صاحب کی ذاتی املاک کے وارث چچیرے بھائی شیخ نصیر الدین ہوئے۔
پیر مہر علی شاہ گولڑوی کو جب حضرت اقدس علیہ السلام نے علمی مقابلہ کی دعوت دی تو ان کے گریز پر آپؑ نے جو مفصل اشتہار ۲۸؍اگست ۱۹۰۰ء کو دیا اس کی دوسری شرط میں آپؑ نے نواب صاحب موصوف کا ذکر فرماتے ہوئے لکھا:’’دوسرا امر جو میرے لاہور پہنچنے کے لئے شرط ہے وہ یہ ہے کہ شہر لاہور کے تین رئیس یعنی نواب شیخ غلام محبوب سبحانی صاحب اور نواب فتح علی شاہ صاحب اور سید برکت علی خاں صاحب سابق اکسٹرا اسسٹنٹ ایک تحریر بالاتفاق شائع کر دیں کہ ہم اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ پیر مہر علی شاہ صاحب کے مریدوں اور ہم عقیدوں اور ان کے ہم جنس مولویوں کی طرف سے کوئی گالی یا کوئی وحشیانہ حرکت ظہور میں نہیں آئے گی۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد ۲صفحہ ۴۶۳)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کا ذکر براہین احمدیہ جلد اول صفحہ نمبر ۳ پر آپ کا نام نمبر ۹ پر کیا ہےکہ جنہوں نے کتاب خریدنے کاوعدہ کیاتھا۔اور اسی کتاب کے صفحہ ۱۱پر چوتھے نمبرپران کانام بطورخریدارکے ۵روپے بھیجے جانے کاذکرکیاگیاہے۔
۱۴: میاں غلام قادرصاحب قادیان
حضرت میاں غلام قادرصاحبؓ کے پوتے محترم قریشی عبداللہ صاحب مرحوم نے اپنا ااور اپنے خاندان کاتعارف کرواتے ہوئے ’’میری کہانی میری زبانی ‘‘کے نام سےلکھتے ہوئے اس میں اپنے دادا کاتعارف کروایاہے۔جس میں وہ لکھتے ہیں:میرے دادا کا نام میاں غلام قادر صاحب،دادی کا نام عالم بی بی صاحبہ ہے میں نے اپنے دادا کو نہیں دیکھا کیونکہ وہ میری پیدائش سے بہت پہلے ہی فوت ہو گئے تھے۔ لیکن اُنہوں نے حضور ؑکے دعویٰ مسیح موعودؑ ہونے کا شروع کا زمانہ پایا۔ البتہ دادی جان نے کافی لمبی عمر پائی۔ یہ ہر وقت قرآن کی تلاوت کرتی رہتی تھیں’’ابا جان کو اُن کی دادی جان (عالم بی بی صاحبہ)جو خود بھی صحابیہ تھیں نے بتایا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے براہیں احمدیہ طبع ہونے پر دادا جان (میاں غلام قادر صاحب)کو خود دی تھی۔اس کا ثبوت اس طرح بھی ملتا ہے کہ براہین احمدیہ جلد اوّل میں صفحہ گیارہ میں اُن معاونین کے ناموں کی فہرست ہے جنہوں نے اشاعت کتاب براہین احمدیہ میں اعانت کی اور خریداری بھی کی۔ اُس فہرست میں صفحہ گیارہ نمبر۱۳ پرمیرے پڑ دادا جان کا نام درج ہے۔کل رقم ۱۰روپے تھی جس میں پانچ روپے خریداری کتاب اور پانچ روپے بطور اعانت تھے۔(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱صفحہ۱۱)
میرے آباء و اجداد خاندانِ مغلیہ قادیان کے ساتھ ہی واردِ زمینِ قادیان ہوئے تھے۔ ہمارا مکان مسجد اقصیٰ قادیان کے قریب تر سردار پرتاپ سنگھ وڈاکٹر گور بخش سنگھ کے مکان کے ساتھ ملحق واقع ہے۔ سال ۱۹۳۳ء تک یہ کچا ہی چلا آ رہا تھا۔ اس میں ایک بیری کا درخت تھا جس پر صبح و شام چڑیاں آ کر بیٹھتی تھیں اور خاندان حضرت بانی سلسلہؑ کے بچے ہمارے گھر آ کر اپنی چھَرے والی بندوق سے چڑیوں پر نشانہ بازی کیا کرتے تھے۔ سال ۱۹۳۴ء میں ہم نے یہ مکان گِرا کر دو منزلہ پختہ کر لیا۔ اس وقت یہ ایک ہندو کی ملکیت ہے جو اسے کسی قیمت پر بھی اس لیے بیچنے کے لیے تیار نہیں کہ اس کے نزدیک یہ مکان بہت برکت والا ہے۔ راقم نے اس مکان کا نام صابر کاٹیج رکھا ہوا تھا۔ شاید اب بھی یہ بورڈ لگا ہو گا۔
ہم چونکہ قادیان کے قدیمی باشندوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ہمارا دو منزلہ مکان مسجد اقصیٰ قادیان کے قریب تر سکھوں کی گلی میں واقع تھا۔ ہمارے خاندان کے ویسے بھی خاندان مغلیہ قادیان کے ساتھ پُرانے تعلقات بزرگوں کے وقت سے ہی چلے آتے تھے۔
اس کا ثبوت کچھ اس طرح بھی ملتا ہے کہ میرے چچا زاد بھائی عزیزم سعید خالد قریشی ہاشمی (حال لندن) کو ابا جی نے ایک دفعہ بتایا :’’میں کوئی سات آٹھ سال کی عمر کا بچہ تھا ہم کچھ لڑکے کھیلتے کھیلتے مرزا نظام الدین صاحب (چچا زاد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام)کے گھر کی کھڑکی کے تلے پہنچ گئے اور کافی شور کر رہے تھے۔ ایک دم اُن کے گھر کی کھڑکی کھلی اور مرزا نظام الدین صاحب نے سر نکال کر کھڑکی سے باہر دیکھا۔ وہ اپنے غصّے کے بہت مشہور تھے۔ اُن کو دیکھ کر میں نے دل میں سوچا لو اب تو ہماری شامت آئی۔ کھڑکی تو اُنہوں نے بڑے غصّے سے کھولی تھی اورلگتا تھا کہ وہ بچوں کو ڈانٹنا شروع کردیں گے۔ لیکن اُن کی نظر جیسے ہی مجھ پر پڑی مجھے آج بھی اُن کے الفاظ یاد ہیں۔ انہوں نے کہا ’’ او ہو یہ تو ہمارے بزرگوں کی اولاد میں سے ہے‘‘ یہ کہہ کر اُنہوں نے کھڑکی بند کردی۔
میرے والد حضرت قریشی شیخ محمد صاحب اور والدہ صابرہ بی بی صاحبہ کو بھی حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کے صحابہؓ ہونے کا شرف حاصل تھا۔ میری دادی عالم بی بی صاحبہ اور میری والدہ صاحبہ کوبسلسلہ سلائی پارچہ جات اکثر روزانہ ہی الدّار میں جانے کی سعادت حاصل ہوتی رہتی تھی۔دونوں اُس زمانے میں پارچہ جات سلائی دستی طور پر کرتی رہتی تھیں۔
تین چار پشتوں تک دادا جان کے خاندان میں ایک ہی لڑکا پیدا ہوتا رہا جس سے اولاد کا سلسلہ چلتا تھا۔ ہمارے پڑدادا حضرت میاں غلام قادر صاحب عین جوانی کی عمر میں فوت ہو گئے تھے۔ اُن کی اولاد میں ایک لڑکا میرے دادا جان میاں شیخ محمد قریشی ہاشمی اور بیٹی مہرالنساء تھیں۔ ایک دفعہ عالم بی بی صاحبہ سے پوچھا وہ کون بزرگ ہمارے جدِ اعلیٰ تھے جو مرزا ہادی بیگ برلاس کے ساتھ سمر قند سے پنجاب میں ماجھے کے اس علاقے میں آباد ہوئے تھے؟ تو وہ اپنے پنجابی لہجے میں بتاتی تھیں کہ میری ساس کہا کرتی تھیں کہ ہمارے خاندان میں یہ بات ہمیشہ مشہور رہی ہے کہ اس بزرگ کا نام ابّاجعفر جس کا دوجا نام عباس بن حمزہ تھا۔ حمزہ کا پتر جو قریشی ہاشمی تھا یہ نام دراصل ابو جعفر عباس بن حمزہ تھا۔ جو دو اُونٹوں پر عربی فارسی کی کتابیں لاد کر لایا تھا۔ ہمارے گھر میں اپنا شجرہ بھی ہوتا تھا جو دیگر حکومتی فرمانوں کے ساتھ با با ولی محمد پٹواری کی ماں مُرادبی بی نے موٹے کھدّر کاغذوں کو بیکار سمجھتے ہوئے بھگو کر اور پھر آٹے کی طرح گوندکر اس لئی سے گولے پتھ لئے تھے (بڑے بڑے گول پیالے جیسے برتن) جن میں وہ چرخہ کاتتے ہوئے پونیاں رکھا کرتی تھی۔ قرآن مجید کے چند قلمی نسخے اور بہت سی عربی فارسی کی قلمی محفوظ کتب سکھوں کے حملے کی نذر ہو گئیں۔ جب اُنہوں نے مسلمان آبادی کو قتل کیا جو بچے اُن کو گاؤں سے باہر کہیں پناہ لینے پر مجبور کردیا۔
مغل اپنی روایات کے مطابق جہاں رہتے تھے یا ہجرت کر کے جاتے تھے تو دعا، برکت کے لئے ہاشمی یا سادات خاندانوں کے کسی نہ کسی گھرانے کو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ تمہارے دا دے کا دادایا پردادا میاں غلام محمد قریشی ہاشمی کو مغل سردار مرزا عطاء محمد اپنی خواہش پر اپنے ساتھ راوی دریا کے پار ایک گاؤں بیگووال میں لے گیا تھا۔اپنے بال بچوں کو میاں غلام محمد ہاشمی ایک دوست کے ہاں قادیان کے نواحی گاؤں ڈیری والا داروغیاں میں چھوڑ آئے تھے۔ اس گاؤں کے یہ بزرگ مشہور فقیہ اور صحابی حضرت عبداللہ بن مسعودؓکی اولادمیں سے تھے اور انصاری کہلاتے تھے۔یہ انصار قبیلہ زیادہ تر پہلے پہل ملتان میں آباد ہوا۔اب بھی اس کے کئی خاندان صدیوں سے وہیں آباد ہیں۔ ایک بزرگ جانے کیوں ماجھے کے علاقے میں چلے آئے اور یہیں بس گئے۔
حضرت میاں غلام قادرصاحبؓ کے بیٹے قریشی شیخ محمد صاحبؓ کانام تاریخ احمدیت جلد نمبر ۷ صفحہ۵۰۳میں قادیان کے صحابہ کی فہرست میں ۳۳۸ نمبر پر میاں شیخ محمدصاحب چٹھی رسان کے طورپر درج ہے اور ولدیت میاں غلام قادر صاحب اور آپ کی بیعت ۱۹۰۳ء کی درج ہے۔ریکارڈ وصیت کے مطابق آپ کی پیدائش ۱۸۸۶ء اور بیعت ۱۹۰۰ء درج ہے۔آپ کا وصیت نمبر۴۶۱۷ہے۔آپ نے ۶؍جون۱۹۶۰ء کو ۷۴سال کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ صحابہ (قطعہ نمبر۱۰)میں مدفون ہیں۔رجسٹر روایات صحابہ نمبر۱۳غیر مطبوعہ صفحہ ۳۹۴تا۴۰۰پرآپؓ کی روایات درج ہیں۔
[بشکریہ محترم ڈاکٹر قریشی احسان اللہ صاحب آف اور ان کی ہمشیرہ محترمہ بشریٰ حفیظ صاحبہ جنہوں نے اپنی غیرمطبوعہ کتاب سے یہ تعارف خاکسارکوفراہم کیا۔فجزاہمااللہ خیراً]
(باقی آئندہ ہفتہ کو ان شاء اللہ)