متفرق مضامین

سالکِ حرمین کی نوٹ بُک (قسط دوم۔ آخری)

(تدوین: آصف محمود باسط)

(حرمین شریفین میں حاضری ہر کسی کے لیے الگ رنگ کا الگ تجربہ ہوتاہے۔ یہاں ایک مسافر کی نوٹ بک سے کچھ اوراق پیش ہیں جو لکھنے والے کے جذبات اور احساسات کو بیان کرتے ہیں۔ مسافر کا نام اہم نہیں۔ تو اس مسافر کو ہم سالک ہی کا نام دیتے ہیں اور اس کی نوٹ بک میں درج اس کے تجربات کو محسوس کرتے ہیں)

(۶)

شہرِ جمال

سالک مکہ کی پاک بستی میں مقیم تھا۔ ام القریٰ۔ بستیوں کی ماں۔ اور اس بستی نے اسے ماں ہی کی طرح اپنی مہربان گود میں لے لیا تھا۔ اور سالک کو تو اس بستی میں اپنی ماں بہت یاد آئی تھی۔

سالک کی ماں دو سال قبل وفات پا گئی تھی۔ وفات کی خبر ہسپتال سے سالک ہی کو آئی۔ اسی نے سب بہنوں اور بھائی کو مطلع کیا۔ ساتھ ہسپتال کی طرف گاڑی چلاتا جاتا اور ساتھ اطلاع دیتا جاتا۔ سبھی خبر سن کر رودیتے اور سالک تسلیاں دیتا۔ اور تسلی دینے کے لیے خود سب سے بڑے امتحان سے گزرنا پڑتا ہے یعنی خود بظاہر تسلی میں رہنا۔

پھر اگلے ہی لمحے سے سرکاری دستاویزات کا حصول، تجہیز و تکفین۔ اطلاعیں۔ افسوس کے لیے آنے والوں کا انتظام وغیرہ۔ تدفین کوئی ہفتہ بھر بعد ہوسکی تھی اور یہ پورا ہفتہ سالک کے لیے بڑی طوفانی رفتار سے گزرگیا تھا۔ اسے اپنی ماں کو رونے کی فرصت نہ ملی تھی۔ سو اپنی ماں کے مرنے کا دکھ سالک کے اندر دب کر رہ گیا تھا۔

سالک کو یاد آیا کہ خانہ کعبہ پر نظر پڑتے ہی جو چہرے اس کی نظروں کے آگے گھومے، ان میں سب سے پہلے اس کی امی کا چہرہ تھا۔ وہی ماں جس نے بہت چھوٹے ہوتے سے اسے خانہ کعبہ سے متعارف کروایا تھا۔ سالک کو یاد تھا کہ اس نے جب کچھ ہوش سنبھالا تو اپنی امی کو پوچھا تھا کہ یہ جائے نماز پر کیا تصویر بنی ہوئی ہے۔ اب تو جائے نماز یا مصلے بڑی جدید شکل و صورت کے آنے لگے ہیں، مگر سالک کے بچپن کے زمانے میں اس نے جو بھی جائے نماز دیکھی، اس پر وہی ایک تصویر بنی ہوتی تھی۔ گوگل ڈرائیو کے آئیکون کی شکل کی تکون اور دونوں طرف بلند مینار۔

امی نے سالک کو بتایا تھا کہ یہ خانہ کعبہ ہے۔ خداتعالیٰ کا پہلا گھر۔ اور پھر اس سے منسوب بہت سی کہانیاں بھی امی نے ہی سالک کو سنائی تھیں۔ حضرت ابراہیم ؑ کی قربانی۔ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کا اس گھر کو بنانا۔ اس میں بتوں کا رکھا جانا۔ بتوں کا توڑا جانا۔ اور بہت کچھ۔امی کی لوریاں بھی حمدیہ اور نعتیہ اشعار میں رچی ہوتیں۔

دل میں یہی ہے ہردم، تیرا صحیفہ چوموں

قرآں کےگرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے

قرآن کے گرد گھوموں؟ امی، قرآن کے گرد کیوں گھوموں؟

تو امی کی معصوم کہانیوں نے معصوم سالک کو قرآن کی محبت، کعبہ کی اہمیت اور اس کے طواف کے تصور سے متعارف کروایا۔

تو وہی کعبہ جب پہلی مرتبہ آنکھوں کے سامنے پایا، تو سالک کو امی کی بے تہاشا یاد آگئی۔ وہ لمحہ تو اور بہت سے احساسات سے بوجھل تھا، مگر جب سالک عمرے سے فارغ ہو کر ام القریٰ میں واقع اپنے کمرے میں پہنچا، تو اپنی ماں کے سوگ میں کھل کر رویا۔ ایسے جیسے اس کی ماں ابھی وفات پاگئی ہو اور اس کی بے جان نعش سالک کے سامنے رکھی ہو۔

کعبہ کا تصور جو بچپن سے سالک اپنے دل میں لیے پھرتا تھا، وہ امی نے ہی تو بُنا تھا۔ کبھی جائے نماز کی تصویر کے بہانے سے۔ کبھی کسی کیلنڈر کسی ڈائری میں تصویر دکھا کے۔ کبھی اس سے منسوب کہانیاں سنا کے۔ اگرچہ بعد میں سالک نے خانہ کعبہ کو 4K جیسی اعلیٰ کوالٹی میں بڑی ٹی وی سکرین پر بھی دیکھا، مگر اس کے ذہن سے امی کا بنایا ہوا کعبہ محو نہ ہوسکا۔ اب جب کعبہ کو حقیقت میں اپنے سامنے دیکھنے کا وقت آیا، تو سالک کی ماں اس دنیا میں نہ تھی۔ سالک ام القریٰ کی گود میں سمٹ کر ایک بچے کی طرح اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتا رہا۔

سالک کو اپنے دادا بھی یاد آئے۔ اور یہ یاد پنتالیس چھیالیس سال پرانی تھی۔ وہ دوردیس سے پاکستان آئے ہوئے تھے اور سالک وغیرہ کے گھر میں فروکش تھے۔ سالک تب چارسال کا تھا۔ دادا جان نے سالک کو کچھ اینٹوں سے کھیلتا دیکھا تو اسے کہا کہ ان سے خانہ کعبہ بناؤ۔ تب یہ سالک کی motor skills سے ذرا آگے کی بات تھی۔ مگر سالک نے جیسے تیسے ایک چوکور سی عمارت بنالی تھی۔ اس کے دادا اس قدر خوش ہوئے کہ اسے انگلی سے لگا کر بازار لےگئے اور مٹھائی کی دکان سے اسے برفی لے کر دی۔

داد اجان کی یہ محبت امی کے جذبات سے بنے خانہ کعبہ کی حلاوت بھری مگر آہنی بنیاد تھی۔ مگر آج دادا جان بھی نہیں تھے۔ ہاں والد صاحب سلامت تھے جنہوں نے خانہ کعبہ سے جذباتی وابستگی کو حقائق سے قریب ترکرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کی اہمیت والد صاحب نے سالک کو بتائی تھی اور سالک کی کعبہ کے بارے میں جاننے کی جستجو والد صاحب کا تحفہ تھی۔ سو والد صاحب بھی اس دائرہ در دائرہ سفر میں سالک کے ساتھ رہے۔

سالک نے سوچا کہ یہ سب یادیں ہجوم کر آنے کی وجہ کیا تھی۔ شاید فراغت بہت دیر بعد نصیب ہوئی تھی۔ لیکن جذبات فراغت کہاں دیکھتے ہیں۔ سالک کہتا ہے کہ اس کے خیال میں اس کے پیچھے شاید یہ وجہ کارفرما تھی کہ خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی سب سے پہلے اس کی عظمت اور شان و شوکت اور اس کا رعب انسان کی نظر کو خیرہ کرتا ہے۔ خانہ کعبہ اس تخیل سے کہیں بڑا نکلتا ہے جسے ہم نے برسوں اپنے ذہنوں میں تعمیر کیا ہوتا ہے۔ سب کا اپنا اپنا تجربہ ہے، مگر سالک لکھتا ہے کہ اس کے خیال میں جب اصل خانہ کعبہ ہمارے تصور اور تخیل کے کعبہ سے بہت بڑا نکلتا ہے، تو سب کچھ بہت بڑا ہوجاتا ہے۔ ہر تخیل، ہر خیال، ہر احساس، ہر جذبہ، ہر سوچ ، سب کچھ بہت magnify ہو جاتا ہے۔

جس طرح دو سال کی گرد تلے دبا اس کی ماں کی وفات کا دکھ۔ جیسے دادا جان کی ایک بھولی بسری یاد۔ جیسے بچپن میں اس کے باپ کی سنائی ہوئی حکایتیں اور روایتیں۔

سالک نے ہر بار کعبہ کے طواف کے دوران اورمکہ میں رہتے ہوئے جب کوئی دعا مانگنا چاہی تو بہت سے چھوٹے چھوٹے، بھولے بسرے، سالہا سال کی گرد تلےدبے خیالات اور احساسات دیو ہیکل ہوکر سامنے آکھڑے ہوئے۔ وہ سب خطائیں جو بظاہر چھوٹی اور لایعنی چیزیں بن کر کہیں تحت الشعور میں دفن تھیں، ایسی بڑی ہوکر سالک کے سامنے آموجود ہوئیں کہ اور دعائیں تو کیا مانگتا، وہ ان دیوہیکل نظر آنے والی خطاؤں پر معافیاں مانگتا رہ گیا۔

اسی طرح طواف کرتے یا دیگر مواقع پر وہ نعمتیں جنہیں سالک نے معمول کی بات سمجھ لیا تھا، اور یوں یہ معمول کی باتیں بھی بہت چھوٹی نظر آنے لگی تھیں، وہ سب بھی قدآور ہوکر سامنے آکھڑی ہوئیں۔

اچھی بیوی جو چھبیس سال کی رفاقت کے بعد گھر کا ایک fixture سا بن جاتی ہے۔ اس کی قربانیاں، اس کی محبتیں، اس کا گھر کے کاموں کے بوجھ کو یوں اٹھا لینا کہ سالک بے فکر ہو کر اپنے کام پر توجہ کرسکے۔ اولاد جو مغرب میں پیدا ہو کر اور پروان چڑھ کر دین پر قائم تھی اور پابندِ صوم و صلوٰۃ تھی۔ اولادکے رشتوں کے ذریعے حاصل ہونے والے مزید رشتے۔ گھر اور گھر سے جڑی تمام نعمتیں۔ سردیوں میں کمروں کو گرم اور گرمیوں میں سرد کرنے کی سہولت۔ آرام دہ بستر۔ حسبِ ضرورت و خواہش ہر قسم کی اشیائے خور و نوش۔ آرام دہ دفتر اور محبت و محنت کرنے والے رفقائے کار۔ وفاشعار دوست۔ سب کچھ بہت magnify ہو کر سالک کی نظروں کے سامنے آکھڑا ہوتا۔

سالک لکھتا ہے کہ طواف کے ایک ہزار چکر بھی لگاتا، اور ہر قدم پر ان نعمتوں پر خدا کا شکر ہی ادا کرنے کی کوشش کرلیتا، تو بھی شاید یہ فہرست یوں ہی ناکمل رہتی جیسی جیسے اس نے اس نوٹ بک میں درج کی ہے۔

سالک کے مرشد، ان کا ایک ایک احسان، ایک ایک تحفہ، ایک ایک بات، یہ سب سالک کو ایسے قوی ہیکل نظر آنے لگے کہ وہ ان کے مکمل حجم کو دیکھ بھی نہ پاتا۔

یہ کعبہ کا جادو تھا۔ ام القریٰ کا جادو۔ اس بستی کا جادو جہاں محمد رسول اللہﷺ کا صبر اور راضی برضا رہنے کی حالت چاروں طرف پھیلے پہاڑوں پر آج بھی آویزاں تھی۔

بہت نوعمری میں آپ کی ماں آپ سے جدا ہو گئیں، تو آپ نے اسی بستی میں یتیمی و یسیری پر صبر کیا۔آپؐ اپنے زمانے کے فاسد ماحول پر دل برداشتہ ہوگئے تو جو قوت آپ کو ایک نہایت بلند پہاڑ پر لے جاتی، وہ صبر ہی کی طاقت تھی۔

سالک جب اس پہاڑ کی چوٹی کو سر کرنے کا عزم کر کے ایک شام نکلا تو راستے میں بھی اسے وجہ معلوم نہ ہوئی کہ اس نے اچانک بیٹھے بٹھائے جبلِ نور پر جانے کا فیصلہ کیوں کر لیا ہے۔ مگر تب تک وہ ٹیکسی میں بیٹھ چکا تھا اور ٹیکسی اب اسے جبلِ نور کے دامن میں اتارنے کے لیے رواں دواں تھی۔

آخر اس پہاڑ کی چوٹی پر کیا تھا جو اسے اوپر کھینچتا تھا؟

سالک کو بعد میں احساس ہوا کہ وہ اس کے نبی ؐ کے صبر اور رضا کی قوت تھی جو اسے اوپر کھینچتی تھی۔ وہ دکھ بھرا دل جو غموں سے چُور تھا، جو معاشرے کی حالت سے انقطاع چاہتا تھا۔ جو فاسد ماحول سے نجات چاہتا تھا۔ جو صبر اور رضا کے ذریعے خدا سے اصلاحِ معاشرہ کی امید لگائے بیٹھا تھا۔ جو وہاں جا کر تنہائی میں خدا کو یاد کرتا تھا اور اسے بلک بلک کر پکارتا تھا۔ جو إِنَّما أَشْکُوا بَثِّی وَ حُزْنِی إِلَى اللّٰهِ‌ کی عملی حالت بن جاتا تھا۔ تو یہ صبر و رضا کی کہانی تھی جو جبلِ نور کے ہر پتھر اور اوپر جانے والے ہر قدم پر لکھی تھی۔

نرینہ اولاد نہ ہونے کے باعث ابتر ہونے کا طعنہ آپؐ کو ملا۔ آپؐ نے کبھی اپنے رب سے شکوہ نہ کیا کہ ایک طرف تو مجھے وجۂ تخلیق کائنات بتاتا ہے، مگر مجھے ایک بیٹا نہیں دے سکتا۔آپ راضی بہ رضائے الہی رہے۔آپؐ نے صبر کیا۔

آپ ؐ پر نمازکی حالت میں نجاست بھرا بوجھ اسی بستی میں پھینکا گیا، اور آپ ؐ نے صبر کیا۔ آپ کو اور آپ کے ماننے والوں کو ایک گھاٹی میں محصور کردیا گیا، آپ نے صبر کیا۔ دکھ اور مصائب دیے گئے، مگر آپؐ نے صبر کیا۔ آپ کو اس بستی سے نکال دیا گیا، اور آپ نے صبر کیا۔ آپؐ نے سارا عرب فتح کرلیا۔ آپ کو طاقت اور دولت اور حشمت اور ثروت اور مملکت سب مل گیا، اور آپ لوٹ کر اس بستی میں آئے، تو بھی آپ ؐ نےان سب مظالم سے صرف نظر فرمایا اور اس بستی کے ہر باشندے کو معاف کر کے امان دے دی۔ یوں محمد رسول اللہﷺ نے اس بستی کو صبر اور رضا کے رنگوں سے رنگین کردیا۔

یہ تھی محمد رسول اللہ ﷺ کے شہرِ جمال، ام القریٰ، مکہ معظمہ کی داستانِ صبر و رضا۔تو اس بستی میں سالک اپنے رب سے کیا مانگتا؟ یہ شہرِ جمال تھا۔ یہاں محمد رسول اللہﷺ کے صبر و رضاکے جمال کے رنگ بکھرے پڑے تھے۔ اسے ہمت ہی نہ پڑی۔ اس نے ان نعمتوں پر جواسے دیوہیکل نظر آرہی تھیں، اپنے رب کا شکر ادا کیا۔ اپنی اور دوسروں کی پریشانیاں جو کعبہ کی دیواروں کی طرح بلند نظر آرہی تھیں، ان پر صبرکرنے اور راضی برضا رہنے کی طاقت مانگی۔ خود اسے، اس کے بچوں کو، اس کی بیوی کو، اس کے عزیزوں، رشتہ داروں، رفقائے کار، دوستوں کو جو کچھ ملا تھا، اس میں برکت مانگی، خیر مانگی، بھلائی مانگی۔ اس شہرِ جمال، شہرِ صبر ورضا میں فرمائشوں اور مانگنے تانگنے کی ہمت کہاں سے لاتا؟

(۷)

کہ غیرِ جلوۂ گُل رہ گزر میں خاک نہیں

ہوٹل کے کمرے سے باہر دیکھتا تو سالک کو پہاڑیاں نظر آتیں۔ بہت سی عمارتیں جو بلند تھیں اور نئی عمارتیں جو زیر تعمیر تھیں اور بلندی کی طرف پروان چڑھ رہی تھیں۔ دو بلند عمارتوں کے بیچ میں سے نیچے سڑک دکھائی دیتی جہاں گاڑیاں اور لاریاں گزرتی نظر آتیں۔

سالک کبھی بھی دن کے وقت گھر بیٹھنے والا نہ تھا۔ مگر مکہ میں قیام کے دنوں میں وہ دن میں کئی مرتبہ اپنے کمرے میں آبیٹھتا۔ کچھ دیر اس سڑک کو دیکھتا جو تیرھویں منزل سے بہت دور اور بہت نیچے چلتی ہوئی نظر آتی اور پھر اپنے بعض سوال حل کرنے کی کوشش کرتا۔ وہ سوال جو سالک لندن سے ساتھ اٹھا لایاتھا۔

بعض سوال تو کام کے حوالے سے تھےجو اس نے متعلقہ شعبوں میں جا کر حل کرنے کی کوشش کی۔ بعض اس کی ذاتی دلچسپی کے سوال تھے۔ وہ مکہ یونہی منہ اٹھا کر وارد نہیں ہونا چاہتا تھا۔ وہ مکہ کو محسوس کرنا چاہتا تھا۔ مانا کہ مکہ کی تمام زندگی محمد رسول اللہﷺنے صبر و رضا کے ساتھ گزاری تھی۔ مگر مغربی دانش ور اور غیر مسلم کہتے ہیں کہ وہ تو مجبوری اور بے بسی کا زمانہ تھا۔ صبر نہ کرتے اور کیا کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب مدینے میں طاقت و ثروت حاصل ہوئی تو پھر (معاذ اللہ) وہ تلوار گھمائی کہ خدا کی پناہ۔

تو سالک یہاں فتح مکہ کے لمحات کو محسوس کرنے آیا تھا۔ جب نبی پاک کی رسالت کے ساتھ ساتھ دنیوی طاقت عروج پر تھی۔ تب آپ کا تمام اہل مکہ کو معاف کردینا، ان کے مظالم کو فراموش کردینا صبر و رضا کا سب سے اعلیٰ نمونہ تھا۔ اور یہ لمحہ جب معافی کا اعلان ہوا تھا۔ یہ کیسے ظہور پذیر ہوا ہوگا؟

سرزمین حجاز کا سفر درپیش ہوا تو سالک نے سوچا تھا کہ وہ اس لمحے کو ضرور محسوس کرنے کی کوشش کرے گا۔ مدینے سے واپسی کا سفر۔ اپنی بستی کی طرف۔ ساتھ دس ہزار سپاہیوں کا فوجی دستہ۔ اور دس ہزار میں سے ہر ایک سپاہی وہ جس کے بارے میں لکھنے والے نےلکھا کہ یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا۔

تو مکہ میں یہ واپسی کیسے ہوئی تھی؟ کس راستے سے ہوئی تھی؟ قدوسیوں کا یہ لشکر رحمۃ اللعالمین کی سرکردگی میں کہاں سے گزرا تھا؟ سالک اس راستے پر ایک بار چلنا چاہتا تھا۔ اسے محسوس کرنا چاہتا تھا۔ یہ تلاش مکہ کے قیام کے دوران اس کا حرم اورحرم کے نواح میں گھومنے پھرنے کے علاوہ واحد شغل تھا۔

جہاں تک وہ اس سفر سے متعلق معلومات جمع کرسکتا تھا، اس سے اس قدر معلوم ہو پایا تھا کہ نبی پاک ﷺ نے مرالظہران پہنچ کر الاؤ روشن کروائے تا کہ یہ فتح شب خون نہ کہلائے بلکہ قریشِ مکہ متنبہ ہو جائیں کہ کوئی لشکر ان پر اترنے کو ہے۔ پھر جن مقامات کے نام لکھے تھے وہ یا تو ہر دوسری کتاب میں مختلف تھے یا پرانے نام تھے جن کا اب نقشوں پرسراغ نہ ملتا تھا۔

سالک اپنی جمع شدہ معلومات ساتھ اٹھا لایا تھا۔ پہلے روز جب وہ مکہ میں ٹیکسی میں بیٹھا تو اس نے اس اعتماد سے ٹیکسی والے کو پوچھا کہ بھئی جبل قعیقعان کہاں ہے؟ ٹیکسی والا حیرت سے سالک کو دیکھنے لگا اور اپنے چہرے اور پورے وجود سے لاعلمی کا اظہار کردیا۔ جبل ہندی کا تو پتہ ہوگا؟ اس پر بھی وہی لاعلمی۔ پھر ہر ٹیکسی والے، ہر انفارمیشن آفس سے معلوم کرنا چاہا۔ کوئی سراغ نہ ملا۔سراغ ملتا بھی کیسے کہ سالک کے پاس بنیادی معلومات بھی نہایت بنیادی اور معمولی سی تھیں۔ مگر اسے اس راستے کی تلاش تھی جہاں سے رحمۃ اللعالمینﷺ گزرے اورایک بہت بڑے عسکری لشکر کے ہوتے ہوئے، دشمن کو مغلوب پا کر بھی اوجِ رحم کا مظاہرہ فرمایا۔

سالک نے اگلے روز مدینہ کے لیے روانہ ہوجانا تھا۔ اس کے پاس اب ایک ہی دن تھا۔ اس روز صبح وہ ایک سرکاری ادارے میں جا پہنچا جہاں مکہ کی تاریخ کے حوالے سے معلومات ملنے کا امکان تھا۔ یہاں ایک نوجوان لائبریرین نے سالک سے سارا معاملہ سنا اور اگرچہ خود بھی جبل قعیقعان اور جبل ہندی سے لاعلمی ظاہر کی، مگر اسے بڑی فراخ دلی سے شعبہ کے اس حصے میں لے گیا جہاں مکہ کی تاریخ و جغرافیہ پر انگریزی کتب رکھی تھیں۔

ساتھ کچھ مقالہ جات ایک کمپیوٹر پر کھول دیے جو اگرچہ عربی میں تھے مگر گوگل لینز کی معجز نما ایجاد نے کام بہت حد تک آسان کردیا۔

یہاں چند گھنٹے گزار کر اور گوگل لینز سے مختلف دستاویزات کو سمجھتے سمجھاتے سالک پر مکہ میں نبی پاک ﷺ کے ورود کا راستہ کھلتا چلا گیا۔ اور اس مبارک راستے میں ایک مقام ایسا سامنے آیا کہ سالک نے سب کچھ سمیٹ کر واپس اپنے ہوٹل کی طرف دوڑ لگادی۔اتنی جلدی میں کہ وہاں موجود اپنے محسن لائبریرین کا شکریہ بھی بہت عجلت میں ادا کیا۔ ٹیکسی کا انتظار دوبھر ہوگیا۔ اور پھر ٹیکسی آجانے کے بعد ہوٹل تک کا سفر اور بھی دوبھر۔

سالک کا ہوٹل ذاخر کے علاقے میں تھا۔ یہ علاقہ کسی زمانے میں مکہ سے متصل تھا مگر اب عین مکہ میں آچکا تھا۔ یہ ہوٹل اس کے لیے ایک دوست نے تجویز کیا تھا جو کچھ عرصہ پہلے مکہ سے ہو کر آیا تھا۔ جب اس کے دوست نے اسے اس ہوٹل کی ویب سائٹ کا لنک بھیجا تو اسے علاقے کا نام تھوڑا عجیب لگا تھا۔ Thakher۔ اسے سمجھ نہ آئی کہ بھلا مکہ میں ٹھاکروں کا کیا کام۔ مگر ہوٹل اچھا دکھائی دیتا تھا۔ دوست بھی بہت اچھے تجربے کی گواہی دیتا تھا۔ سو ٹھاکروغیرہ کو نظر انداز کر کے سالک نے ہوٹل بک کروالیا تھا۔

مکہ پہنچ کر جب اس نے ٹیکسی والے کو بتایا کہ فلاں ہوٹل میں جانا ہے جو ’’ٹھاکر‘‘ میں واقع ہے، تو اسے کچھ سمجھ نہ آئی۔ پھر اس نے نقشے پر کھول کر دکھایا تو ڈرائیور نے بے ساختہ کہا ’’ذاخر!‘‘۔ تب سالک کو معلوم ہوا کہ علاقے کا نام ذاخر ہے۔

آج جب سالک نبی پاکﷺ کا مکہ میں داخلے کا راستہ تلاش کررہا تھاتو تانے بانے جوڑتے جوڑتے اسے کہیں آخر پر اس سفر کے اختتامی حصے کا یہ نیا سرا غ ملا۔ لکھا تھا کہ نبی پاکﷺ مکہ میں ذاخر کے مقام سے داخل ہوئے اور یہ کہ یہ علاقہ مکہ سے کچھ باہر کچھ بلندی پر واقع ہے۔ اس راستے کو آج ریع الذاخر کہتے ہیں۔

ریع الذاخر

سالک کے جذبات اچھل کر حلق میں آگئے۔ وہ جس سڑک کو دو زیر تعمیر عمارتوں کی بلندی کے بیچ سے اتنے دن سے دیکھ رہا تھا، وہ ریع الذاخر ہی تو تھی۔ وہ اتنے دن اور اتنی راتوں سے اس مقام پر مقیم تھاجہاں سے نبی پاک ﷺ اور آپ کا فتح نصیب قافلہ گزرا تھا۔

ٹیکسی اسی راستے سے ہوٹل لے کر پہنچی۔ وہ تقریباً دوڑتا ہوا اپنے کمرے میں پہنچا اور نیچے ریع الذاخر کو دیکھنے لگا۔ وہ جادہ جہاں سے کبھی نبی پاکﷺ گزرے تھے۔ جب اہالیان مکہ اس بوکھلاہٹ میں تھے کہ جو الاؤ ہم نے مرالظہران کی بلندی پر دیکھے تھے، وہ تو کسی بہت بڑی فوج کا پتہ دیتے تھے۔ پھر ابوسفیان کو معلوم ہوا کہ یہ لشکر نبی پاکﷺ کا ہے تو اس کے اوسان خطا ہوگئے۔ اس نے اور اہالیان مکہ نے کہا کہ آج تو ہماری خیر نہیں۔

نبی پاکﷺ نے اپنا لشکر چار دستوں میں تقسیم فرمایا اور اور چاروں کو مختلف سمتوں سے مکہ میں داخل ہونے کی ہدایت فرمائی۔ خود آپ ریع الذاخر سے تشریف لے جارہے تھے۔ ایک لشکر کی قیادت سعد بن عبادہؓ کے سپرد تھی۔ سعدؓ جب ابوسفیان کے پاس سے گزرے تو کہا

الیوم یوم الملحمۃ الیوم تستحل الحرمۃ

یعنی آج تو خوب ماردھاڑ ہوگی۔ آج کعبہ کی حرمت حلال کر دی جائے گی۔

نبی پاک ﷺ کے علم میں یہ بات آئی تو آپ نے فرمایا کہ نہیں! آج تو کعبہ کی تعظیم کی جائے گی۔ آج قریش کو عزت بخشی جائے گی۔ اور یہ کہتے ہوئے یہ ہدایت جاری فرمائی کہ لشکر کی سپہ سالاری سعد ؓسے لے لی جائے، مبادا خونریزی ہو۔ ساتھ سب لشکروں کو یہ ہدایت فرمادی کہ آج کوئی لڑائی نہیں ہوگی، علاوہ اس کے اپنے دفاع میں ہتھیار اٹھانا پڑے۔

تو نبی پاک ﷺ کا دل ریع الذاخر سے گزرتے ہوئے اپنے بد ترین دشمنوں کے لیے بھی رحم سے بھرا ہوا تھا۔ آپ اپنی انکساری میں یوں جھک گئے تھے کہ آپ ؐ کی ریشِ مبارک اونٹنی کے کجاوے سے چھوتی تھی۔

وہ ریع الذاخر اس وقت سالک کے سامنے تھی۔ کوئی لمحہ اس سفر میں ایسا ضرور آیا تھا جب نبی پاکﷺ نےرحم، محبت، صبر اور رضا سےبھرا دل لے کر یہاں سے گزر فرمایا تھا۔ سالک اس راستے پر چلنا چاہتا تھا۔ مگر شام ہو چکی تھی۔ مکہ کی فضا میں مغرب کی اذانیں پہاڑیوں سے ٹکر کر ہر طرف گونج رہی تھیں۔ ابھی حرم کا قصد تھا اور اگلے روز صبح اسے مدینے جانا تھا۔ کاش دن کا کچھ حصہ باقی ہوتا۔

(۸)

شہرِ جلال

اگلے روز صبح تیار ہو کر سالک نے ٹیکسی منگوائی اور حرمین قطار سریع یعنی حرمین سبک رفتار ریلوے کے سٹیشن کی طرف روانہ ہوگیا۔ مدینے میں قیام دو روز کا تھا اور پھر سالک کو واپس مکہ ایک شام اور ایک رات گزارنے کے لیے پہنچنا تھا۔ پھر مکہ سے واپس جدہ اور جدہ سے واپس لندن۔

وہ یہ تسلی لے کر مکہ سے مدینہ کے لیے روانہ ہوا کہ کچھ دیر کے لیے ہی سہی مگر اسے ابھی مکہ واپس آنا ہے۔

حرمین ریلوے سٹیشن کے آگے تو یورپ کے سٹیشن بھی جوتیاں سیدھی کرتے تھے۔ صاف شفاف بلکہ چمک دار۔ تمام جدید ذرائع اطلاعات و اعلانات سے مزین۔ بڑی ترتیب سے قطار وار مسافروں کو ٹرین پر سوار کرنے کا انتظام۔ اور وقت کی پابندی میں بھی مغرب کے ریلوے نظاموں کو مات دیتے ہوئے۔

ٹرین چل پڑی تو سامنے سکرین پر نظر آتا رہا کہ ٹرین تین سو کلومیٹر کی رفتار پر جا رہی ہے۔ باہر درجہ حرارت ۳۵ ڈگری ہے۔ مکہ سے مدینے کے درمیان وہی صحرا بچھا تھا اور وہی پہاڑ ایستادہ تھے جو ہجرت مدینہ کے وقت موجود تھے۔ ریل میں بیٹھے تو باہر کے موسم کا احساس ہوتا نہ ان دشواریوں کا جو پیدل اور اونٹوں گھوڑوں پر سفرکرنے میں پیش آئی ہوں گی۔ اور پھر پیچھے دشمن بھی تلاش میں لگا پڑا ہو۔ زندہ مردہ کسی بھی حال میں گرفتار کرنا چاہتا ہو۔

سالک نے سوچا کہ میں لاکھ کہوں کہ میں نے اس راستے کی دشواریوں کا مشاہدہ کیا تو یہ بات حقیقت کےبالکل برخلاف نہ سہی مگر میلوں دور ضرور ہوگی۔ بھلا ایسی سواری جس میں درجہ حرارت نہایت موزوں بلکہ فرحت بخش ہو۔ جہاں چائے کافی اور ٹھنڈے مشروبات اور بہت سی اشیائے خور و نوش کی ٹرالیاں چلی آتی ہوں۔ جہاں رفع حاجت کے لیے پرائویسی اور صاف ستھرا ماحول ہواور صفائی ستھرائی کی بہترین سہولیات ہوں۔ جہاں آپ آرام سے ٹیک لگا کر سستا سکیں۔ اونگھ لیں۔ یا سالک کے ساتھ بیٹھے مسافر کی طرح گہری نیند سو لیں۔ ساتھ دل میں یہ اطمینان بھی ہو کہ سواری اپنا کام کر رہی ہے اور مسافر کا کام محض منزل پر پہنچنا اور سواری سے اتر کر آرامدہ گھروں یا ہوٹل کے پر آسائش کمروں میں چلے جانا ہے۔

سالک نے جب چاہا کتاب کھولی اور پڑھنے لگا۔ جب چاہا آئی پیڈ پر کچھ کام کر لیا۔ اس کا سارا کام اس ایک تختی میں محفوظ تھا۔ وہ اپنی تحقیق، اپنا کام، بہت سے دستاویزات اس آئی پیڈ میں لیے پہلے لندن سے جدہ آیا تھا۔ وہاں کام کر لینے اور مطلوبہ معلومات اسی تختی میں جمع کر لینے کے بعد مکہ چلا گیا تھا۔ پھر مکہ کے سرکاری ادارے میں بیٹھ کر جو معلومات حاصل ہوئی تھیں، انہیں اب مدینہ لے جارہا تھا۔ اس نے سوچا کہ نبی پاکؐ نے صرف اس سفر کی ظاہری اور موسمی صعوبتیں ہی نہ جھیلی تھیں۔ ان کے دل و دماغ پر اور کیا کچھ اندیشے سر نہ اٹھاتے ہوں گے۔ تب آئی پیڈ تو دور کی بات، کاغذ تک میسر نہ تھا۔ مکے میں نازل ہوچکی آیاتِ قرآنی جو ہڈیوں اور پتھروں اور چمڑے کے پارچوں پر محفوظ کی گئی تھیں، وہ بھی تو ہجرت میں ساتھ لے جائی گئی ہوں گی۔ وہ کون لے کر گیا تھا؟ مہاجرین؟ یا نبی پاکؐ خود۔ یا بعد میں حضرت علی یا دیگر مہاجرین ساتھ لائے تھے؟یا پھر صرف حفاظ پر اکتفا کیا گیا تھا؟

سالک نے فورا ًسے پہلے، بغیر سوچے سمجھے لق و دق صحرا اور سنگلاخ پہاڑوں سے گزرتے اس راستے میں ایک اور جدیدسہولت استعمال کی۔ اس نے انٹرنیٹ پر تلاش کیا کہ کیا اس بات کوئی تحقیق ہوئی ہے؟ بہت سا وقت گزار کر اور تلاش در تلاش کر کے بھی معلوم ہوا کہ ایسی کوئی تفصیل، کوئی قیاس بلکہ کوئی تحقیق کی کوشش بھی نہیں۔ آخر قرآنی آیات کی کل تعداد میں سے تین چوتھائی تو مکہ میں نازل ہو چکی تھیں۔ انہیں کیسے بحفاظت مدینہ منتقل کیا گیا؟

کیا اسلامی تاریخ کے اس اہم ترین موڑ پر یعنی سفرِ ہجرت کے دوران کوئی وحی الٰہی، کوئی قرآنی آیت نازل ہوئی تھی؟ سالک تلاش کرتا رہا۔ وہ آیات تو ملیں جو ہجرت کر جانے والے صحابہ کی فضیلت بیان کرتی ہیں۔ وہ بھی ملی جہاں بنی پاکؐ اور آپ کے رفیقِ ہجرت ابوبکرؓ کی ہجرت کی طرف اشارہ ہے۔ جہاں نبی پاکؐ نے فرمایا کہ لَاتَحْزَنْ۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔ غم نہ کرو۔ ہم دو نہیں بلکہ اللہ بھی ہمارے ساتھ ہے۔ اسی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتا دیا کہ ہجرت کے وقت خدا بھی ان دو متوکل مہاجروں کے ساتھ تھا، اور ایدہ اللّٰہ بجنود۔ اللہ کی تائید کی فوجیں بھی تھیں۔ فانزل اللّٰہ سکینت۔اور اللہ نے سکینت بھی نازل کر دی تھی۔ تو کیا ہجرت کے آٹھ دنوں کے سفر میں خدا بالکل خاموش رہا تھا؟ یا خدا نے نبی پاکؐ اور آپ کی امت کو یہ بتایا تھا کہ خدا کا سکینت نازل کرنا اور تائید و نصرت فرما نا بھی کلامِ الہیٰ کا درجہ رکھتا ہے؟

یہ سفر جو نبی پاکؐ نے آٹھ دنوں میں طے فرمایا، سالک نے دو گھنٹے میں کر لیا اور ریل مدینہ کے سٹیشن پر پہنچ چکی تھی۔ ٹیکسی منگوائی جو دو ہی منٹ میں آموجود ہوئی۔ ابھی ٹیکسی سٹیشن سے نکلی ہی تھی کہ ڈرائیور نے سامنے نظر آنے والے پہاڑ کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ یہ جبل احد ہے۔ سالک نے چونک کر پوچھا: ’’یہ جبلِ اُحد ہے؟‘‘۔ ڈرائیور نے بڑے اطمینان سے جواب دیا کہ ہاں۔ یہی جبل احد ہے۔

یہ ایک عجیب ناقابلِ یقین لمحہ تھا۔ وہ اُحد جس کا تذکرہ ہر مسلمان بچے کی طرح بچپن سے سالک نے سن رکھا تھا۔ جس پر ہونے والے حق و باطل کے معرکے کی مختصر معلومات تو سالک کو تھیں ہی، مگر اس کے مرشد نے اس غزوہ پر نہایت تفصیلی وعظ بھی فرمائے تھے۔ وہ سب سالک کے سامنے اس پہاڑ پر گویا لکھے ہوئے نظر آنے لگے۔ بغیر کسی کوشش، بلا کسی تردد کے احد کا پہاڑ سالک کی نگاہوں کے سامنے تھا۔ وہ پہاڑ جس کے بارے میں نبی پاکؐ نے فرمایا کہ هذا جبل يحبنا ونحبه۔ اُحد ہم سے محبت کرتا ہے، اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔

ٹیکسی ڈرائیور بھلا مانس مگر ہوشیار آدمی تھا۔ اس نے سالک کا اشتیاق دیکھ کر بھانپ لیا کہ مدینہ میں نووارد ہے۔ ساتھ ہی اس نے سالک کو پوچھا کہ اگر باقی کی زیارات بھی دیکھنی ہیں تو بتادو۔ ابھی چلے چلتے ہیں۔

مگر سالک کی ریاض الجنہ کی اپوائنٹمنٹ کا وقت بہت قریب تھا۔ اسے ہوٹل پہنچ کر،تازہ دم ہو کر ریاض الجنة اور روضہ رسولؐ پر حاضر ہونا تھا۔ سو اس نے ڈرائیور سے اپنا عذر بیان کیا۔ ساتھ ہی اس نے پوچھا کہ ریاض الجنہ میں حاضری کس وقت ہے۔ سالک کے بتانے پر اس نے کہا کہ میں اس کے ٹھیک آدھ گھنٹہ بعد تمہارے ہوٹل کے سامنے آجاوٴں گا۔ پھر چلیں گے۔ اس نے یہ سارا پروگرام خود ہی بنا کر سالک کی مشکل آسان کردی۔

مگر فی الحال سالک کا مسئلہ یہ تھا کہ مدینہ کی زمین پر قدم رکھتے ہی اور یہ سوچتے ہی کہ روضہ رسولؐ پر حاضری کا وقت قریب ہوا جاتا ہے، اس کے کانوں میں امی کی آواز گونجتی جاتی تھی۔

وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا

نام اس کا ہے محمدؐ، دلبر مرا یہی ہے

امی کی لوریوں سے سالک کو یہ شعر اور ایسے بہت سے اشعار زبانی یاد ہو گئے تھے۔ یہ سب شعر امی کی لوریوں سے ہی تو سالک کو یاد ہوئے تھے۔ اور ساتھ امی کی مخصوص سادہ سی دُھن بھی۔

سالک کا بچپن جس بستی میں گزرا وہاں اس زمانے میں ریڈیو ہی تفریح کا سب سے بڑا سامان تھا۔ریڈیو پاکستان پر صبح شام نعتیں چلا کرتیں۔

فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر، ہم بھی بے بس نہیں بے سہارا نہیں

خود انہی کو پکاریں گے ہم دور سے، راستے میں اگر پاوٴں تھک جائیں گے

ایک نعت جو امی بہت لہک لہک کر پڑھا کرتیں (بلکہ گایا کرتیں)، وہ بھی ریڈیو پاکستان ہی سے امی نے سنی، مگر جس طرح امی اسے پڑھا کرتیں، اس میں ایک خاص وارفتگی کا عنصر ہوتا۔

یا نبی سلام علیک، یا رسول سلام علیک

یا حبیب سلام علیک، صلوٰة اللہ علیک

رحمتوں کے تاج والے، دو جہاں کے راج والے۔۔۔ اور یوں اشعار آگے چلتے چلے جاتے۔ مگر امی جو اکثر گاتیں، وہ مصرعے سالک کو تب سے اب تک یاد تھےاور آج بہت یاد آرہے تھے۔ مصرعے بھی اور امی بھی۔ یعنی پنتالیس چھیالیس سال بعد بھی۔

رنج و غم کھائے ہوئے ہیں،دور سے آئے ہوئے ہیں

تم پہ اترائے ہوئے ہیں،ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں

یا نبی سلام علیک، یا رسول سلام علیک

یا حبیب سلام علیک، صلوٰة اللہ علیک

یہ مصرعے سالک کی حالت کو بیان کرتے تھے۔ ہر طرح۔ ایک اپنے معانی کے اعتبار سے۔ دوسرا امی کی یاد کے بے طرح آجانے پر۔ جیسے وہ خانہ کعبہ کے سامنے امی کو ساتھ لے کر حاضر ہوا تھا۔ اسی طرح آج روضہ رسولؐ پر بھی امی ساتھ ہی چلی آرہی تھیں۔ اسی طرح لہک لہک کر درود پڑھتی ہوئی۔

کیسے نہ آتیں؟ انہی نے تو سالک کو نبی پاکؐ کی محبت سے آشنا کیا تھا۔ انہوں نے ہی تو درود بھیجنے کی تلقین سب سے پہلے سالک کے دل میں گوندھ دی تھی۔ انہوں نے ہی ہر ایسے موقع پر سالک کو ٹوکا تھا جب وہ نبی پاکؐ کے ذکر پر درود بھیجنا بھول گیا تھا۔ انہوں نے ہی تو کچرا پھینکنے والی بڑھیا کا قصہ سنایا تھا۔ ’’تو ایک دن کیا ہوا۔۔۔‘‘ امی کے الفاظ آج بھی سالک کے کانوں میں گونج رہے تھے۔ سالک اس لمحے بھی ایک نو عمر بچے کی طرح حیرت سے اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے امی کی عشقِ رسولؐ میں رچی ہوئی کہانیاں سن رہا تھا۔

ہوٹل پہنچنے اور تازہ دم ہونے اور روضہ رسولؐ پر حاضر ہونے کی تیاری کے مراحل بہت جلد گزر گئے۔ وقت تھا بھی بہت کم۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ سالک کا ہوٹل مسجد نبوی کے بالکل بالمقابل تھا۔ سو سالک نے سڑک پار کی اور وہ مسجد نبوی کے صحن میں چل رہا تھا۔ یا نبی سلام علیک۔ یا رسول سلام علیک کی صدائیں اس کے کانوں میں گونج رہی تھیں۔ امی ساتھ تھیں۔ جیسے کسی بڑی شخصیت سے متعارف کروانے کوئی معتبر آدمی ساتھ ہو لیتا ہے۔ سالک کے ساتھ اس کی امی ہو لی تھیں۔ شاید سفارش کرنے کہ یا رسول اللہ، میں نے کوشش کی کہ اس بچے کے دل میں آپؐ کی محبت ڈالوں۔ یہ سب سے بڑھ کر آپ سے محبت کرے۔ مگر بچہ ہے، نادان ہے۔ پتہ نہیں میں کامیاب ہو سکی کہ نہیں۔ اس کی غلطیوں،کو تاہیوں سے صرف نظر فرمالینا۔ میں تو آپ سے سچی اور حقیقی محبت کرتی تھی۔ آپ کی نعتیں صبح شام لہک لہک کر پڑھتی تھی۔ چھ بچے پیدا کیے، ان سب کے دل میں آپ کی محبت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ میں توحاضر نہ ہوسکی۔ مگرمیری محبتوں کے صدقے، میری کوششوں کے صدقے، میری خاطر ہی سہی۔ میرے اس بچے کو قدم بوسی کی اجازت دے دیں۔

ریاض الجنہ کی قطاروں میں جو گھمسان پڑا، تو امی نے ہاتھ چھڑا لیا۔ اب سالک اس ہجوم میں نہتا تھا۔ ہر کوئی حاضری کے شوق میں سبقت لے جانے کی کوشش میں تھا۔ خوب دھکم پیل تھی۔ اچھا ہوا کہ امی نے یہاں لاکر سالک کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ کہاں دھکے کھاتی پھرتیں۔ مگر کہیں دور سے سالک کے کانوں میں امی کی نعت خوانی کی آواز گونجتی رہی۔

دور سے آئے ہوئے ہیں۔ رنج و غم کھائے ہوئے ہیں۔ ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں۔

جو وقت سالک کو ملا تھا، اس دورانیہ میں ہزاروں عشاق اور بھی شامل تھے۔ سب کو ایک مقام سے گزار کر دوسرے میں۔ دوسرے سے تیسرے میں۔ اور پھر بالآخر ریاض الجنہ میں پہنچا دیا گیا۔ یہ بڑا مختصر وقت تھا۔ اسے اس مقام کی فضیلت پر زیادہ غور کرنے کا وقت بھی نہ ملا۔ یہاں کس کس کے لیے دعا کرنی تھی۔ وہ سب لوگ یاد آتے رہے۔ اپنے مرشد یاد آئے۔ اپنی امی یاد آئیں جو دو سال پہلے جدا ہوگئی تھیں مگر آج کہیں سے آنکلی تھیں اور باہر مسجد نبوی کے صحن میں نعتیں پڑھ رہی تھیں۔ ابویاد آئے کہ امی نے نبی پاک سے محبت کی جو جذباتی بنیادیں رکھی تھیں، ابو نے ان پر محمد رسول اللہﷺ سے تعلق کی مضبوط دیواریں کھڑی کی تھیں۔ اپنی بیوی یاد آئی، بچے یاد آئے۔ بہن بھائی یاد آئے۔ ان کے ساتھ گزرے بچپن کے دن یاد آئے۔ جس جس دوست نے کہا تھا وہ یاد آیا۔ رفقائے کار یاد آئے۔ اور ابھی سالک اس فہرست کو سیدھا ہی کررہا تھا کہ آگے بڑھنے کا وقت آگیا۔ سالک لکھتا ہے وہ سب یاد آگئے، یہی غنیمت تھا۔ ورنہ اسے دعا کرنی آتی بھی کہاں ہے۔

سالک نے نظر بھر کے اس سادہ سی محراب کو دیکھا جہاں کبھی نبی پاک نے سجدے ادا کیے تھے۔ جہاں کیا کیا دعائیں مانگی تھیں۔ وہ منبر دیکھا جہاں حضور نے اپنی امت سے وہ کلام فرمایا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وَمَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی۔ اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی۔ یہ نبی اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں بولتا۔ جو بولتا ہے، ہماری وحی کو ہی بیان کرتا ہے۔

جب بہت تنگ جگہ میں آپ کے دونوں طرف دو عاشقان رسولؐ جھولیاں (اور گھٹنے) پھیلائے ربِ کل جہان سے کل جہان کی نعمتیں مانگ رہے ہوں، ایسے میں کوئی جس طرح سمٹ کر دو نفل پڑھ سکتا ہے، وہ سالک کو نصیب ہو گئے۔ اب سالک اس ہجوم میں تھا جو رفتہ رفتہ روضہ رسولؐ کے سامنے سے گزرنے والا تھا۔

ہجوم اس قدر تھا کہ قدم بمشکل اٹھ پاتے۔ قدم سرک رہے تھے۔ بہت ہی سست روی سے۔ مگر اس کا فائدہ یہ ہوا کہ روضہ رسولؐ کے سامنے ہر کسی کو چند لمحات مل جاتے۔ یہ لمحات سالک کو بھی نصیب ہوئے۔ سالک نے اس لمحے کو اپنے تخیل میں خوب سوچ رکھا تھا۔

کیسا عجیب لمحہ ہوگا۔ اور واقعی عجیب لمحہ تھا۔ یہ واحد مقام تھا جہاں انسان کو یہ کامل یقین ہوتا ہے کہ نبی پاکؐ کبھی اس مقام پر موجود تھے۔ یہ ام المومنین سیدہ عائشہؓ کے حجرے کا مقام تھا۔ جہاں آپؐ نے اپنی جان اپنے رفیقِ اعلیٰ کے سپرد کی تھی۔ جہاں عائشہؓ کو پوچھا گیا تھا کہ کیا کبھی حضورؐ نے خواہش ظاہر کی کہ کہاں دفنایا جائے۔ عائشہؓ نے فرمایا کہ نہیں، ایسی کوئی وصیت نہیں چھوڑی۔ ہاں غارِ ثور والا ساتھی اس موقع پر بھی موجود تھا۔ ابوبکر الصدیقؓ۔ آپ نے فرمایا کہ حضورؐ نے ایک موقع پر یہ ضرور فرمایا تھا کہ نبی جہاں وفات پاتا ہے، وہیں دفن ہوتا ہے۔

اس پر فیصلہ ہوگیا اور نبی پاکؐ کے جسدِ خاکی کو ایک طرف رکھ کر، اسی جگہ پر آپ کی قبر کھودی گئی جہاں آپ کی وفات ہوئی تھی اور وہیں آپ کو سپردِ خاک کردیا گیا۔

یہ وہی جگہ تھی جو زریں جالیوں کے درمیان موجود ایک روزن سے نظر آرہی تھی۔ نبی پاکؐ پر بیماری کا حملہ، جو سردرد سے شروع ہواتھا، حضرت میمونہؓ کے یہاں ہوا۔ پھر بیماری شدت پکڑتی گئی۔ مگر ایسے میں بھی خیرکم خیرکم لاہلہ کے اس پیکر نے اپنی تمام ازواج سے اجازت لی کہ بیماری کے یہ ایام حضرت عائشہؓ کے یہاں گزار لیں۔ اجازت ملی تو آپؐ اس جگہ تشریف لے آئے جو اس وقت سالک کی آنکھوں کے سامنے تھی۔ آپؐ اپنے اصحاب سے کلام کرنا چاہتے تھے مگر بیماری کا حملہ اور ضعف بہت زیادہ تھا۔ اس پرآپؐ نے جو فرمایا کہ مجھ پر پانی کے مشکیزے بھر کر ڈالو کہ مجھ میں اسقدر ہی طاقت آجائے کہ میں اپنے أصحاب کو وعظ کر سکوں۔ وہ پانی کے مشکیزے اسی مقام پر آپؐ پر ڈالے گئے، جو اس وقت سالک کے سامنے تھا۔ جب آخری وقت آگیا، تو یہ نبی جس نے ساری عمر صرف اللہ کی تائید و نصرت پر بھروسہ رکھا تھا، یہ کہتے ہوئے اپنی جان خدا کے سپرد کرگیا کہ الھم الرفیق الاعلیٰ۔ یہ مبارک الفاظ اسی مقام پر ادا ہوئے تھے جو اس وقت سالک کے سامنے تھی۔ پھر سانس کی لڑی، جس سے اس دنیا کی زندگی چلتی ہے، اس کا آخری سانس بھی نبی پاکؐ نے اسی مقام پر لیا تھا جو اس وقت سالک کے سامنے تھا۔

سالک آگے کو سرکتا جاتا تھا۔ وہ جو کبھی ہجوم میں بیٹھنا اور رکنا پسند نہیں کرتا تھا، آج چاہ رہا تھا کہ ہجوم یونہی رہے۔ بلکہ اور بڑھ جائے کہ یوں کچھ لمحات مزید یہاں میسر آجائیں۔

مگر یہاں اسے کہنا کیا تھا۔ درود بھیجنے کے علاوہ اور کہہ بھی کیا سکتا تھا۔ جی تو چاہا کہ نبی پاکؐ کی امت کی جو حالت ہو چکی، اس پر کم از کم اپنی طرف سے تو معافی مانگ لے۔ اور کہے کہ

اے خاصائے خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے
جس دین کے مدعو تھے کبھی قیصر و کسریٰ
خود آج وہ مہمانِ سرائے فقراٴ ہے
جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے
اس دین میں خود تفرقہ اب آکے پڑا ہے

مگر بھلا یہ لمحہ امت کے نوحے پڑھنے کا کہاں تھا۔ اور اب تو کچھ کہنے سننے کا وقت یوں بھی گزر چلا تھا۔ سالک کی نظر اب بھی اس سوراخ کو دیکھ سکتی تھی جس کے بالکل پیچھے محمد رسول اللہﷺ کا روضہ مبارک تھا۔ آپؐ نے تو اپنی زندگی میں فرما دیا تھا کہ مجھے میرے مرنے کے بعد اس طرح نہ بنالینا جس طرح نصرانیوں نے عیسیٰؑ کو بنا لیا۔

پس یہاں نبی پاکؐ سے گفتگو کیسے ہوتی۔ آپ کا روضہ تھا۔ آپؐ تو نہ تھے۔ حضرت ابوبکر نے اسی مقام پر آپ کی وفات کا اعلان فرمایا تھا تو یہ پرشوکت اعلان بھی فرمایا تھا کہ جو محمد رسول اللہ کی عبادت کرتے تھے، وہ جان لیں کہ محمد رسول اللہ وفات پاگئے ہیں۔ اور جو خدا کی عبادت کرتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ ان اللہ حیی لا یموت۔ وہ خدا زندہ ہے اور اسے فنا نہیں۔

پس روضہ رسول بہت ہی مبارک مقام ہے۔ مگر کعبے کی طرح یہ بھی خاموش ہے۔ اور ربِ کعبہ اور ربِ محمدؐ ایک ہی ہے اور ہر جگہ ہے اور کبھی خاموش نہیں ہے۔

سو سالک نے روضہ رسول کے سامنے، عائشہؓ کے حجرہ کے سامنے ربِ رحمان کو مخاطب کیا اور کہا کہ

اک میں بھی تو ہوں یارب، صیدِ تہہ دام اس کا
دل گاتا ہے گن اس کے، لب جپتے ہیں نام اس کا
آنکھوں کو بھی دکھلا دے، آنا لبِ بام اس کا
کانوں میں بھی رس گھولے، ہر گام خرام اس کا
خیرات ہو مجھے کو بھی، اک جلوہ عام اس کا
پھر یوں ہو کہ ہو دل پر، الہام کلام اس کا

یہ لمحات پلک جھپکتے میں گزر گئے۔ مگر بھلا وہاں پلک بھی کہاں جھپکی گئی تھی۔ آنکھیں تو کسی ان دیکھی چیز کو تلاش کرتی رہ گئی تھیں۔ سالک باہر نکل آیا۔ امی اب صحن میں نہیں تھیں۔ وہ اسے وہاں تک لائی تھیں جہاں تک اسے لانے کے لیے اس کی پیدائش کے دن سے امی نے محنت اور کوشش کی تھی۔ محمد رسول اللہؐ کے قدموں میں۔ ہجوم میں امی نے انگلی چھڑا لی تھی۔ اور دوبارہ کہیں کھو گئی تھیں۔ سالک کو احساس ہوا کہ جیسے رسول اللہؐ نے اس جہان سے رخصت ہوتے وقت فرمایا کہ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں۔ ایک قرآن اور دوسرا میری سنت۔ اسی طرح مسلمان والدین بھی اپنے بچوں کے دلوں میں قرآن کریم اور رسول اللہؐ کی محبت کے بیج بو کر انہیں انہی دونوں چیزوں کے سپرد کرجاتےہیں۔ ہم نے بھی یہی کرنا ہے۔ مگر کیا ہم نے ان دو چیزوں کوخود مضبوطی سے تھاما۔ کیا ہم اپنی اگلی نسل کو یہ دو تحفے دے رہے ہیں؟

(۹)

جادۂ رحمت و محبت

قطار سریع پوری رفتار سے دوڑتی ہوئی مدینہ سے مکہ کی طرف رواں دواں تھی۔ سالک کو مدینے کے قیام کے دوران ایک ادارے میں مدینے کی تاریخ اور جغرافیہ پر پڑھنے کا موقع مل گیاتھا۔ اسے آج تک معلوم نہیں تھا کہ مدینہ ایک آتش فشانی علاقے میں واقع ہے اور اس کی زمین آتش فشانی لاوا سے بنی ہے۔ مدینے کے جنوب میں ہرات راحت نامی آتش فشانی میدان واقع ہے جو قریب پانچ سو آتش فشانی پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ یہ سعودی عرب کی زمین پر سب سے بڑا آتش فشانی میدان ہے جس کا رقبہ 20،000 مربع کلو میٹر ہے۔

آخری مرتبہ اس میدان کے شمالی پہاڑوں سے 1256 عیسوی میں لاوا پھوٹا تھا اور مدینہ کے دامن تک پہنچ گیا تھا، مگر مسجد نبویؐ سے کوئی بیس کلومیٹر دور تک پہنچ کر رک گیا تھا۔اس سے پہلے ہونے والی آتش فشانی کارروائی 641 عیسوی میں ہوئی تھی، یعنی نبی پاک ﷺ کے وصال کے قریب ایک دہائی بعد۔ لاوے کا یہ بہاؤ موجودہ مدینہ شہر کے مشرق تک پھیل کر مسجد نبوی سے 20 کلومیٹر تک پہنچ کر رک گیا تھا۔ آج اس لاوا سے بنی زمین پر مدینہ شہر پھیل چکا ہے اور حرمین سبک رفتار ریل کا سٹیشن بھی اسی پر تعمیر کیا گیا ہے۔اور بہت سی جدید عمارات اور سہولیات بھی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ آتش فشاں اب بھی زندہ ہیں اور کسی بھی وقت ان سے لاوااُبل کر پھوٹ سکتا ہے۔ سالک کا دل، کہ اندیشوں کو کھینچ کر گلے لگانے کا عادی ہے، اس اندیشے کو لے کرمدینے سے نکلا تھا کہ یہ آتش فشاں پھر حرکت میں آسکتے ہیں۔ حرکت میں تو ہیں ہی، اس میدان کی جوالا مکھیاں کسی بھی وقت لاوا اگل سکتی ہیں اور خدا جانے یہ لاوا کہاں تک پھیلے۔

مگر اس کے دل کو جو چیز تسلی دیتی تھی وہ یہ تھی کہ ماہرین ِ ارضیات کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہرات راحت کے آتش فشاں پھٹنے کا چکر 3،300 سال بعد حرکت میں آتا ہے۔ اگرچہ 641 ؁ اور 1256 ؁ میں تین ہزار سال کا وقفہ نہیں، محض چھ سو سال کا فرق ہے۔ نبی پاک ﷺ کے وصال سے لے کر عباسی خلافت کے اختتام تک کا دورانیہ۔

مگر پھر اللہ تعالیٰ نے ہر دو مواقع پر روضہ رسول کی حفاظت فرمائی۔ لاوا کچھ ہی دور پہنچ کر رک جاتا رہا۔

حرمین شریف کے اس سفر میں سالک کے قطب نما کی یہاں وہاں گھومتی سوئی درست سمت پکڑ جاتی رہی۔

اس پر پہلے تو یہ کھلا کہ کعبہ خاموش رہتا ہے۔ اس کی دیواروں کو کوئی توڑے، وہاں جنگ جدال کر کے اسے منہدم کردے، سیلاب اس کی پرشکوہ عمارت کو بہا لے جائیں۔ کعبہ خاموش رہتا ہے۔ کعبہ فی ذاتہ بے جان ہے۔ پھر روضہ رسولؐ پر یہ خیال کہ نبی پاکﷺ نے فرمایا کہ مجھے خدا نہ بنا لینا بلکہ اسی خدا کو پکارنا جو میرا بھی خدا ہے اور تمہارا بھی۔ کعبہ کا بھی اور بیت المقدس کا بھی۔ وہی جو مکہ میں بھی ہے اور لندن میں بھی۔ تو پھر روضہ رسولؐ خود ایک بے جان شے ٹھہرا؟ جب فخری پاشا نے والیانِ مکہ سے جنگ کی تو بہت سا اسلحہ روضہ رسولؐ کے اندر چھپا دیا تھا۔ روضہ خاموش رہا تھا۔ گولہ بارود دونوں افواج نے ایک دوسرے پر اچھالا تو مسجد نبویؐ مجروح ہوئی۔ روضہ رسولؐ اپنےبارود خانہ بنائے جانے پر خاموش رہا۔ تو پھر یہ کعبہ اور روضہ رسولؐ اس قدر بے جان ہیں تو ان کی اہمیت کیا ہے؟

مگر اب سالک پر نئے انکشافات ہو رہے تھے۔ گزشتہ روزاس کی مختصر سی تحقیق سے اسے معلوم ہوا کہ خدا حرمین کی عزت اور وقعت اور حرمت کا خود متکفل ہے۔ نعم الوکیل۔ دنیا کے طاقت ور ترین آتش فشانی پہاڑوں سے پھوٹنے والا لاوا مسجد نبویؐ اور روضہ رسولؐ تک پہنچنے سے پہلے رک جاتا ہے۔ ابرہہ کا لشکر یمن سے چل کر مزدلفہ اور مزدلفہ سے منیٰ کے راستے کعبہ کی طرف بڑھتا ہے تو منیٰ میں ابابیل کا حملہ اس کے گراں ڈیل لشکر کو پسپا کردیتا ہے۔ کعبہ محفوظ رہتا ہے۔

تو سیلاب، طوفان، جنگ و جدل، خون ریزی، تخریب کاری سب کچھ ہوتا رہے، کعبہ خاموش رہتا ہے۔ مگر جب کوئی اسے اس ارادے مسمار کرنے کے لیے نکلے کہ اس کی جگہ ایک کلیسا کو دے دی جائے، تو کعبہ توپھر بھی خاموش ہی رہتا ہے، مگر ربِ کعبہ اس بیتِ عتیق اور اس حرم کی حرمت کے لیے خود غیرت دکھاتا ہے۔

یہ راز حضرت عبدالمطلب نے ابرہہ کوان الفاظ میں بتادیا کہ أنا ربالإبل وللبيت رب سيمنعه۔ میں اونٹوں کا مالک ہوں سو ان کی فکر کرتا ہوں۔ کعبہ کا مالک خدا ہے، وہ خود اس کا متکفل و محافظ ہو گا۔ سو کعبہ بھلے ہی خاموش رہے۔ خدا تعالیٰ خودکعبہ اور اس کی حرمت کی غیرت رکھتا ہے۔

اسی طرح روضۂ رسولؐ بھی بھلا کہاں خاموش ہے۔ روضۂ رسولؐ تو بولتا ہے۔ بلکہ اعلان کرتا ہے کہ اگر خدا کا سب سے عظیم نبیﷺطبعی زندگی پانے کے بعد وفات پا سکتا ہے تو قرآن کریم کی یہ گواہی پوری ہوتی ہے کہ ما محمدالا رسول۔ قد خلت من قبلہ الرسل۔ محمدؐ فوت ہوسکتے ہیں تو کوئی نبی طبعی زندگی کے بعد وفات پائے بغیر نہیں رہ سکا۔حضرت ابو بکر ؓ کا پہلا فتویٰ اسی آیت کی بنا پر صادر ہوا تھا۔ اسی مقام پرجہاں روضہ رسولؐ آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ خدا اس گواہی کو برقرار رکھنے کی خاطر اس کی حرمت کی بھی حفاظت فرمائے گا۔ چاہے کتنے ہی آتش فشاں پھٹتے اور کتنا ہی لاوا ان میں سے پھوٹتا رہے۔

ابھی تو سالک کو مکہ پہنچنے کی جلدی تھی۔ گاڑی تین بجے سہ پہر پہنچ رہی تھی اور وہ فوراً اس راستے پر چلنا چاہتا تھا جہاں سے نبی پاکﷺ مکہ میں واپس تشریف لائے تھے۔

ٹیکسی ریع الذاخر سے گزرتے ہوئے ہوٹل کےسامنے جا رکی۔ سالک نے کوئی تیاری نہ کرنی تھی۔ بس اپنے نوٹس پرایک نظر ڈالی اور اس راستے پر نکل کھڑا ہوا جس پر چلنے کی آرزو اسے بے چین کیے ہوئے تھی۔

نبی پاکﷺ کا قافلہ مُر الظہران پر تھا جہاں الاؤ روشنی کیے گئے تا مکہ والوں کو خبر ہوجائے کہ کوئی آرہا ہے۔ مگر یہ مُر الظہران کہاں ہے۔ موجودہ نقشوں میں اس کا نام نہ مل سکا تو چھان پھٹک کے بعد معلوم ہوا کہ اب اس علاقے کو وادیٔ فاطمہ کے نام سے لکھا اور پکارا جاتا ہے۔ یہ مکہ سے شمال کی طرف ہے اور بلندی پر ہے۔ اسی لیے یہاں پر روشن کیے گئے الاؤ کی روشنیاں مکے تک پہنچ گئی تھیں۔

اور یہاں سے نشیب کا سفر اس وادی کی طرف شروع ہوا جہاں ابراہیم اپنی بیوی اور اپنے نومولود بچے کو چھوڑ گئے تھے۔ جہاں ان دونوں کی دعا خدا کے حضور مقبول ہوئی تھی اور وہاں محمدؐ بن عبداللہ کی پیدائش ہوئی تھی۔ جہاں یہ بچہ پروان چڑھ کر محمد رسول اللہ ﷺ بن گیا تھا۔ جہاں اس پر شدید مظالم ڈھائے گئے تھے۔ اور آج محمد رسول اللہﷺ اپنے مولد و مسکن میں واپس لوٹ رہے تھے۔

اگلی صبح مر الظہران (وادی فاطمہ) سے روانہ ہوئے تو نبی پاک اپنے تمام لشکر کے ساتھ مکہ کی وادی میں اترنا شروع ہوئے۔آپ جبل کداء سے گزرتے ہوئے جس راستے سے مکہ میں داخل ہوئے،آج اس راستے کو ریع الذاخر کہتے ہیں۔ یہاں آپ نے اپنے لشکر کی تقسیم کی اور انہیں مکہ کی مختلف سمتوں سے داخل ہونے کی ہدایت فرمائی اور یہ بھی کہ سب دستے جبلِ ہندی کے مقام پر حضورﷺ کے ساتھ شامل ہو جائیں۔ خود آپؐ اپنے لشکر کو لیے طویٰ کے چشمے سے ہوتے ہوئے جبلِ ہندی تشریف لے گئے۔ یہاں سے آپ کو تمام دستے نظر آتے تھے۔ آپ نے زبیر بن العوامؓ کو ہدایت فرمائی کہ آپؐ کا جھنڈا لے جاکر حجون کے مقام پر گاڑ دیں۔ یہ جنت المعلی میں حضرت خدیجہ ؓ کے مزار سے متصل جبلِ حجون کا حصہ تھا۔ یہاں سے آپؐ اپنے تمام لشکر سمیت مکہ میں تشریف لے گئے اور بغیر آرام کیے بیت اللہ شریف حاضر ہوئے، طواف کیا اور کعبہ کو بتوں سے پاک کرنے کی تاریخ ساز کارروائی فرمائی۔

سالک کے ہوٹل سے نکلتے ہی سامنے ریع الذاخر تھی۔ وہ اس پر چل پڑا۔ آگے چل کر کچھ ہی فاصلے پر جنت المعلی کا قبرستان تھا۔ یہ صرف فجر اورعصر کے بعد زائرین کے لیے کھلتا ہے۔ اتفاق سے عصر کے بعد والا وقت ابھی چل رہا تھا۔ وہ اس میں داخل ہو گیا۔ حضرت خدیجہ کا پوچھا اور اس پر حاضر ہو کر دعا کی۔ اور جو نظر اٹھا کر دیکھا تو حجون کا مقام نظر آیا۔ اتفاق سے پہاڑ کا یہ حصہ ابھی سلامت ہے۔ ورنہ مکہ کے گردونواح میں بہت سے پہاڑوں کو بے دردی سے اڑا دیا گیا ہے۔ ان کی مذہبی تاریخی حیثیت کو نظر انداز کرتے ہوئے۔ نام مسجد الحرام کی توسیع کا لگتا ہے تو مقصد بجائے خود بڑا مقدس سمجھا جاتا ہے۔ مگر ان پہاڑوں کی جگہ اور ان سے جڑی اسلامی تاریخ کے اہم ترین دور کی نشانیوں کی جگہ جدید طرز کے آسمانوں کو چھوتے ہوٹل بنادیے گئے ہیں۔یا ان کے نیچے سے سرنگیں بنا کر شاندار سڑکیں گزار دی گئی ہیں۔

خود جبل قعیقعان اور جبل ہندی بھی الشامیہ توسیعی پراجیکٹ کی زد میں ہیں۔ یہاں آدمی پہنچ بھی نہیں سکتا۔ کیسے پہنچے کہ تعمیراتی کام تیزی سے جاری ہے۔ مگر اس کی نشاندہی کر لینا اور اس طرف کو منہ کر کے نبی پاکﷺ پر درود بھیج لینے پر اکتفا بھی غنیمت معلوم ہوا۔

جبل ہندی پر سلطنتِ عثمانیہ کے زمانوں کا ایک قلعہ بنایا گیا تھا۔ اسی طرح جبلِ اجید پر بھی بہت بڑا عثمانی دور ِ حکومت کے زمانے کا قلعہ تھا۔ اس مقام پر اب کلاک ٹاور کی 16 بلین ڈالر کی لاگت سے تیار ہونے والا کلاک ٹاور کھڑا ہے اورآسمان کی بلندیوں کو چھوتا ہے۔ جبل ہندی پر جدید تعمیرات کا سلسلہ جاری ہے۔ مگر وہاں موجود قلعہ بھی مسمار کردیا گیا ہے۔ جبل ہندی بھی نقشے سے غائب ہے۔ یہ سب مسجد الحرام کی توسیع کے نام پر چلنے والے پراجیکٹ ہیں۔ مگر کہیں سلطنتِ عثمانیہ سے بغض بھی کارفرما محسوس ہوتاہے۔ کہ جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو۔ اگر ایسا ہے، تو کیا اس کے ساتھ آغاز اسلام کی تاریخی نشانیوں کو اڑادینا بھی دینی، مذہبی، تاریخی اور اخلاقی طور پر جائز ہے؟

سالک کو ایک سوال کا جواب کیا ملا، اور بہت سے سوالوں نے سراٹھا لیے۔ نبی پاکﷺ جبلِ کداء کے راستے سے مکہ میں تشریف لائے اور پھر جبلِ ہندی پر لشکر کے سب دستوں کو جمع کیا۔ اما م سیوطی نے جواہر الاسرار میں حدیث نقل کی ہے کہ امام مہدی ایک ایسے مقام پر نازل ہوں گے جس کا نام کدعہ ہوگا۔ پھر آخری زمانوں میں ایمان کے ثریا پر چلے جانے اور اسے واپس لے کر آنے والے کا ذکر فرمایا تو سلمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس آخری زمانے کے امام کی نسبت عرب سے مشرق کی طرف عجم سے بیان فرمادی۔ پھرمکہ کو فتح کرتے وقت جبل ہندی پر ٹھہرنا۔ کیا نبی پاکﷺ امت کو یہ اشارہ دے رہے تھے کہ آخری زمانے میں امت کی نجات کا سرچشمہ مشرق میں ہند کی طرف ہوگا۔ سلمان فارسیؓ۔ کدعہ۔ جبلِ ہندی۔ سالک کے ذہن میں اور بہت سے سوالوں نے جنم لے لیا تھا۔

اب سالک کو جلدی تھی کہ واپس لندن جائے اور ان سوالات کے جواب تلاش کرے۔ یہ بھی دیکھے کہ فتح مکہ کے سفر کے راستے پر مورخین نے جدا جدا رائے کیوں دی ہے؟ کیا ان آرا سے کوئی ایک راستہ متعین کیا جاسکتا ہے؟ جبلِ ہندی کو یہ نام ہند کی نسبت سے کیوں دیا گیا؟ وغیرہ۔

مگر فی الحال تو واپسی کا وقت آن پہنچا تھا۔ کعبہ کی زیارت۔ پھر ایک رات۔ اور اگلی صبح جدہ سے لندن کے لیے روانگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سالک کی فلائٹ شام پانچ بجے لندن ہیتھرو پہنچی تھی۔ اس کا وہی دوست اسے لینے آیا ہوا تھا جس نے اسے عمرے پر جانے کی بے تحاشا ترغیب دی تھی۔ وہ سالک کے سب تجربات سب سے پہلے سننا چاہتا تھا۔ مگر ائیرپورٹ سے گھر تک اتنے سارے تجربات کیسے بیان ہوسکتے تھے۔ اور پھر جذبات بھی قسما قسم کے تھے۔ملے جلے۔ وہ سب کیسے بیان ہوتے۔

سالک کے گھر والے بھی منتظر تھے۔ وہ بھی اس تجربے کی کتھا سننے کو بے تاب تھے۔ سالک انہیں وہ سب باتیں بتاتا رہا جو ان کی دلچسپی کا باعث تھیں۔ سالک جنت الفردوس سے واپس دنیا میں بھیج دیا گیا تھا۔اس رات سالک سویا تو کئی راتوں کی ادھار نیند نے اپنا حق وصول کیا۔ مگر اس سے مراد طویل دورانیے کی نیند نہیں۔

نیند میں بھی اور علی الصبح آنکھ کھل جانے پر بھی سالک کے ذہن میں سوال گردش کرتا رہا کہ حرمین میں حاضری انسان کو کیا دیتی ہے۔ خدا تو وہاں بھی وہی ہے جو یہاں ہے۔ تو ان مقامات کی اتنی فضیلت کیوں؟ وہاں مانگی دعاؤں میں کوئی خاص بات کیوں؟ وہ بھی تو ہیں جو کبھی حرمین میں حاضر نہ ہو سکیں گے۔ ان کا کیا قصور۔ اور یہ جو محاورہ بن گیا ہوا ہے کہ عازمِ حرمین کہتے ہیں کہ ’’ہمیں بلاوا آگیا!‘‘۔ یہ بلاوا انہی لوگوں کو کیوں آتا ہے جو ویزا لگوانے اور ٹکٹ خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ یہ بلاوے غریبوں کو کیوں نہیں آتے؟ تو پھر آخر حرمین میں حاضری ہمیں کیسے تبدیل کرسکتی ہے اگر ہمارے بہت سے بھائی بہن کبھی وہاں جا بھی نہ سکیں گے۔ توبۃ النصوح کے لیے کیا وہاں حاضری شرط ہے؟

ان سوالات نے سالک کے دل و دماغ میں خوب طوفان اٹھایا۔ مگر اسے یہی سمجھ آئی کہ وہاں جانا بڑے نصیب کی بات ہے۔ خدا تعالیٰ نے خود جن مقامات کی حرمت بیان کی ہے، وہ عام مقامات تو نہیں۔ وہاں جانے کا تجربہ وہ ہے جسے انگریزی میں touch base کرنا کہتے ہیں۔ اپنے دین کے اصل کی طرف جانا اور دیکھنا کہ ان سنگلاخ پہاڑوں اور لق و دق صحرا سے اگر خدا ایک ایسا انقلاب اٹھا سکتا ہے جو ساری دنیا میں پھیل کر اسے روشن کر دے، تو وہ خدا کیا نہیں کر سکتا؟

وہ خدا شفا بخش سکتا ہے۔ وہ خدا معاف کرسکتا ہے۔ وہ خدا انسان کے اندر ایک انقلاب کی بنیاد بھی رکھ سکتا ہے۔ پس حرمین میں حاضری انسان کو اس کے دین کے اصل سے متعارف کرواتی ہے۔ ایک لائن کھینچ دیتی ہے۔ پچھلی زندگی میں۔ اور آئندہ زندگی میں۔ مگر آئندہ زندگی میں ہم کیا کرتے ہیں، یہ ہمارے ہی پر منحصر ہے۔ ہم اپنے اعمال پر اپنے اختیار کو کس طرح استعمال کرتے ہیں، وہ ہمارا فعل ہے اور جزا سزا اسی پر موقوف ہے۔

اگلی صبح سالک کو کام پر جانا تھا۔ وہ حسبِ معمول تیار ہوا۔ کپڑوں کی الماری میں حسبِ معمول کپڑے تلاش کیے۔ دو چادروں کے سادہ لباس کا وقت گزرچکا تھا۔ پھر اپنی کار میں بیٹھ کر لندن شہر کا رخ کرتے ہوئے کار کوسڑک پر ڈال دیا کہ پیدل طواف کا وقت بھی پیچھے رہ گیا تھا۔پھر وہی دفتر تھا۔ وہی میز۔ وہی کرسی۔ صحنِ کعبہ میں کسی چھاؤں کے ٹکڑے میں زمین پر بیٹھنے کا وقت بھی گزر چکا تھا۔ بہت سی ای میلیں تھیں جو جواب کا تقاضا کرتی تھیں۔ کعبہ اور مطاف اور مسعی آنکھوں کے آگے گھوم جاتے، مگر ساتھ ہی کوئی ٹیکسٹ میسج۔ کوئی فون کال۔ کوئی ای میل اسے واپس لے آتی۔ سالک مدار سے نکل کر دنیا کی خلا میں واپس آگرا تھا۔

شام کو گھر جاتے ہوئے سالک نے اپنی جذباتی کیفیت کو قلم بند کرنے کا سوچا۔

مگر معلوم ہوتا ہے کہ سالک کو گردشِ لیل و نہار نے اپنی بانہوں میں لے لیا۔ اور ہم نے اس کی نوٹ بک پر اکتفا کر لیا۔

٭…٭…٭

سالکِ حرمین کی نوٹ بک (قسط اول)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button