سالکِ حرمین کی نوٹ بُک (قسط اول)
(تدوین: آصف محمود باسط)
(حرمین شریفین میں حاضری ہر کسی کے لیے الگ رنگ کا الگ تجربہ ہوتاہے۔ یہاں ایک مسافر کی نوٹ بک سے کچھ اوراق پیش ہیں جو لکھنے والے کے جذبات اور احساسات کو بیان کرتے ہیں۔ مسافر کا نام اہم نہیں۔ تو اس مسافر کو ہم سالک ہی کا نام دیتے ہیں اور اس کی نوٹ بک میں درج اس کے تجربات کو محسوس کرتے ہیں)
(۱)
کہیں ایسا نہ ہوجائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے
جہاز نے لندن سے پرواز بھری تو نومبر کے مہینے کا آغاز تھا۔ بادلوں کی فصیل کو پار کرنے سے پہلے نیچے جو منظر تھا، وہاں برطانیہ کے خوبصورت سبزہ زاروں کو خزاں لاحق ہوچکی تھی۔ زرد اور سنہرے ٹکڑے جا بجا بکھرے ہوئے تھے، مگر یورپ کا سبزہ بھلا آرام سے کہاں زیر ہوتا ہے۔ باغات اور کھیتوں کے چوکور ٹکڑوں سے مل کر بننے والا کسی فقیر کی گدڑی کا ڈیزائن ابھی مکمل شکل میں نظر آیا ہی تھا کہ جہاز بادلوں میں چلا گیا اور یہ منظر سالک کی آنکھ سے اوجھل ہو گیا۔
سالک نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو اب باہر صرف بادلوں کی ایک دبیز تہہ کسی غلاف اتری رضائی تھی جو تاحدِ نظر پھیلی ہوئی تھی۔ تازہ نگندی ہوئی روئی کی رضائی۔ اتنی دور تک کہ زمین کی گولائی کے گرد کس کر لپٹی ہوئی نظر آتی تھی۔ اب اگلے پانچ چھ گھنٹے یہی بادلوں کا فرش نظر آنا تھا۔ سالک نے کھڑکی کا پردہ نیچے کھینچ لیا، اس ارادے سے کہ گزری رات کی نیند پوری کر لی جائے۔ مگر نیند ایسے میں بھلا کہاں آیا کرتی ہے۔ جو سفردرپیش تھا۔ جوراستہ تھا۔ جو منزل تھی۔ یہ سب مل کر تو نیند اڑا دینے کا کام کیا کرتے ہیں۔ سفر جاری تھا۔ منزل ابھی دور تھی۔ مگر جو پچھلے کچھ دن گزر چکے تھے۔ وہ سالک کے ذہن کے پردے پر چلنے لگے۔ بلکہ گزشتہ کچھ ہفتے۔
سالک کو سعودی عرب کام کے سلسلہ میں جانا پڑا تھا۔ اس نے فورا ًٹکٹ کروائی اور تیاری شروع کر دی۔ جس سرزمین پر اسے جانا تھا وہاں دنیا کے سبھی کام ہوتے ہیں۔ ترقی کرتا کرتا سعودی عرب ترقی یافتہ دنیا میں شامل ہوگیا ہے بلکہ بہت سے ترقی یافتہ ملکوں کی صنعت و حرفت کی مشینری کو چلانے میں بڑا کلیدی پہیا بن چکا ہے۔
مگر سعودی عرب کی بنیادی وجہ شہرت آج بھی یہ ترقی اور دنیا وی کامیابی نہیں۔ بلکہ اس کی پہچان وہی چلی آتی ہے جو چودہ سو سال پہلے وہاں ایک عجیب واقعہ گزرا تھا۔ جس نے نابیناؤں کو بینا اور سجھاکا کر دیا تھا۔ بہروں کو لذتِ سماعت اور بے زبانوں کو قوتِ گویائی سے متعارف کروادیا تھا۔ وہ واقعہ جس کی خاطر کائنات تخلیق ہوئی۔ نسلِ انسانی اسی ایک واقعہ کے لیے خدا نے تخلیق کی۔ اور پھر اس تخلیق کی معراج دکھانے کے لیے وہ انسان اس سرزمین پر پیدا کیا جو پیدا نہ ہوتا تو احسنِ تقویم کی تفہیم کبھی نہ ہوسکتی۔ بلکہ یہ آیت اترتی ہی بھلا کس پر؟
تو سالک نے جس جس کو بتایا کہ وہ سعودی عرب جارہا ہے، پہلا سوال ہوتا ’’ عمرہ کرنے؟ ‘‘۔وہ ہر کسی کو بتاتا کہ وہاں کے ایک سرکاری محکمہ میں کچھ کام ہے۔ مگر سوال جوں کا توں رہتا کہ ’’عمرہ بھی کریں گے؟ ‘‘اور اس پر مثبت جواب سے ہر کسی کی تسلی ہوتی اور کوئی یہ نہ پوچھتا کہ کام کیا ہے۔ شاید یہ بھی وجہ ہو کہ یہ سب سالک کے دوست اور مزاج شناس تھے۔ اور انہیں پتہ تھا کہ سالک کو پوچھ بھی لیا کہ کام کیا ہے، تو اس نے کون سا بتادینا ہے۔ اور یہ بھی تسلی تھی کہ ہوجائے گا تو خود ہی بتا دے گا۔
لیکن یہ سب دوست عمرہ کا سن کر خوش ہوتے۔ مبارک باد دیتے۔ سالک نے بنیادی نیت چونکہ عمرہ کی نہ باندھی تھی، اسے یہ مبارکباد وصول کرتے شرم سی آجاتی۔ اور ان دوستوں پر رشک بھی آتا۔ بیت اللہ کی زیارت کا تصور، کسی اور کے نصیب میں ہی سہی، ان کی آنکھوں میں قمقمے روشن کردیتا۔ اور ہر کوئی یہ ضرور کہتا کہ وہاں جانا تو ہمارے لیے بھی دعا کرنا۔ سالک خاموش سا ہوجاتا۔ کوئی وعدہ نہ کرتا۔ عجیب خیالات ذہن میں ہجوم کرآتے اور بات سالک کی سرگوشی نما خاموشی پر ہی ختم ہوجاتی۔
ایسی سب باتوں پر سالک کے اندر چھپے خوف و ہراس سر اٹھاتے۔ کیا وہ واقعی وہاں جارہا تھا جو اس زمین پر خدا کا پہلا گھر ہے۔ کیا وہ واقعی وہاں جاسکے گا۔ کیا وہ واقعی اس رب ذوالجلال کے گھر پہنچ کر ایک مجرم کی طرح گرفتاری پیش کرسکے گا؟ اتنے گناہوں کا بوجھ اٹھائے وہ بقول غالب، کعبے کس منہ سے جائے گا۔ اور کیا واقعی اسے وہاں جاتے ہوئے شرم نہیں آئے گی؟ اور اگروہاں جاکر اتنی شرم آئی کہ کعبے کے پردے کے اٹھنے سے بھی، غالب ہی کے بقول، یہ خوف لاحق ہوگیا کہ خدا جانے اس پردے کے پیچھے کیا ہو؟
ہاں غالب کے ان خیالات سے اسے ایک اختلاف ضرور تھا کہ وہ جو اس نے کہا کہ الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا۔ سالک پر اگر درِ کعبہ وا نہ ہوا تو وہ الٹا نہیں پھر سکے گا۔ وہ شاید وہیں ٹوٹ کر گرجائے۔ اسے تو دنیا کے محبوبوں سے انکار یا بےاعتنائی برداشت نہیں۔ پھر اس محبوب نے بھی اگر سالک کو آئینہ دکھا دیا، اور در کعبہ وا نہ کیا؟ نہ جانے کیا کیا اندیشے سالک کے دل پر کچوکے لگاتے رہے۔
ان دوستوں میں سے دو یارلوگ تو عمرہ کر بھی آئے ہوئے تھے۔ وہ سالک کو تقریبا ًروز انہ پوچھتے کہ ہاں بھئی؟ پھر؟ کیسی ہے تیاری عمرے کی؟ سالک جھینپ جاتا۔ وہ اسے سالک کی انکساری سمجھتے۔ سالک بھی خدائے ستار کی ستاری کے صدقے خاموش رہتا اور سوچتا کہ انہیں کس طرح بتائے کہ اس کا دل کس قدر خوف سے بھرا پڑا ہے۔ دنیا کا کون سا بُت ہے جو اس کے دل میں نہیں۔ تو اب یہ سب بت اٹھائے وہ اس گھر میں جا گھسے جہاں سے یہ بت توڑ کر نکال پھینکے گئے تھے۔ جو گھر بتوں سے ہمیشہ کے لیے پاک کردیا گیا تھا۔ اور آج وہ وہاں بتوں سے بھرا دل لے کر پھر جا نکلے؟ خدا جانے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟
پھر دو تین ہفتے یارلوگ تیاری کرواتے رہے۔ احرام فلاں جگہ سے خریدلو۔خرید لیا؟ ابھی تک نہیں؟ اب نہیں تو کب خریدنا ہے؟ چپل اچھی رکھنا وہاں بہت چلنا ہو گا۔ فلاں موبائل ایپ ڈاؤن لوڈ کرنی ہے۔ فلاں بکنگ اس پر ہی ہوگی۔ ریاض الجنہ کی اپوائنٹ منٹ بک کروالی؟ سالک بتاتا کہ بھئی جن دنوں میں وہ وہاں ہوگا ان دنوں میں کوئی جگہ نکل ہی نہیں رہی۔ مگر یہ دوست مصر رہے کہ روز ایپ کو دیکھو۔ دن میں کئی کئی بار دیکھو۔ ہزار بار دیکھو۔ وغیرہ۔
جب روانگی سے ایک دن پہلے تک ریاض الجنہ کی گنجائش ایپ پر نکلتی نظر نہ آئی تو سالک نے قدرے زچ ہو کر اس دوست سے کہا کہ بھئی ریاض الجنہ میں نوافل کی ادائیگی کا جو اجر ہے، وہ اللہ نے انچ اور سنٹی میٹر ناپ کر تو نہیں دینا۔ میں اس کے بالکل باہر کھڑا ہو کر پڑھ لوں گا۔ اللہ خیر کرے، کچھ نہ کچھ قبولیت ہو ہی جائے گی۔ وہ دوست برا سا بھی مان گیا۔ مگر یہ باتیں سالک کے اختیار میں نہیں تھیں۔
آگے سالک ان دوستوں کے لیے بہت دعائیں اور نیک تمنائیں لکھتا ہے۔ کہتا ہے کہ اگر ان کی ہما ہمی اور سرگرمی نہ ہوتی تو وہ شاید عمرہ کی نیت باندھنے سے ہی ڈرا رہتا۔ اور اپنے کام کو بھی دعائیں د یتا اور ان کو بھی جنہوں نے اس سفر پر جانے کا سامان کیا تھا۔ وہ قسم کھا کر لکھتا ہے کہ اس کے جذبات اور خدشات اور توہمات جو اس نے بیان کیے ہیں سب سو فیصد ایسے ہی تھے۔ تیاری کے تمام مراحل میں اگر کوئی جذبہ غالب رہا، تو وہ خوف کا جذبہ تھا۔ اس سے اسے اور بھی خوف محسوس ہوتا کہ لوگ تو عمرے پہ جاتے ہوئے خوشی سے چھلانگیں لگاتے ہیں۔ اس کا ایمان کیسا کمزور اور بودا نکلا۔ افسوس!اور واقعی۔ کعبے کس منہ سے جاوٴ گے غالب؟ اور اگر وہاں در وا نہ ہوا، تو اگرچہ غالب ہی طرح بندگی میں آزادہ و خود بیں ہی سہی، مگر اس کے پاس الٹے پھر کر جانے کو اور ہے بھی کیا؟
(۲)
ایماں مجھے کھینچے ہے
خواب و خیال کے یہ دھندلکے سالک کے ذہن پر منڈلاتے رہے۔ سامنے لگی اِن فلائٹ انٹرنٹیمنٹ والی سکرین پر پورے چھ گھنٹے صرف وہ سکرین کھلی رہی جس پر جہاز کی پرواز کی سمت اور سفر کا باقی دورانیہ نظر آتا رہتا ہے۔ جہاز انگلستان کا جنوب مشرقی ساحل عبور کر کے انگلش چینل پر سے پرواز کرتا گزر گیا۔ پھر یورپ کے کئی ملکوں پر سے گزرا اور پھر یونان کے اوپر سے پرواز کرتا بحیرہ ٔروم پر پرواز کرنے لگا۔ اس کا رخ مصر کی طرف تھا۔ یورپ اور اس کے سبزہ زار پیچھے رہ گئے اور بحیرہ روم سے آگے جو کچھ نظر آرہا تھا، وہ لق ودق صحرا اور سنگلاخ زمینیں تھیں۔ مسلم دنیا کا صحرا۔ نقشے پر لیبیا۔ مراکش۔ مصر، عرب امارات اور سعودی عرب کے نقشے نظر آرہے تھے۔ سالک نے سوچا کہ اسے اسلامی دنیا کی بجائے مذہبی دنیا کیوں نہیں کہتے۔ اکثر مذاہب یہیں تو ظہور پذیر ہوئے۔ جہاز کے سامنے اب یروشلم، عراق، مصر اور حجاز کی سرزمینیں تھیں۔ ابراہیمی مذاہب کے مولد و مہد۔
سالک بائیس سال بعد اسلامی دنیا کے کسی ملک جارہا تھا۔ جہاں زاد! پورے بائیس سال بعد۔ یہ خیال اس کے دل میں عجیب اپنائیت کا احساس پیدا کر رہا تھا۔ ساتھ یہ خیال بھی کہیں کہیں سر اٹھاتا کہ مسلم دنیا اسے چھوڑنی تو اس لیے پڑی تھی کہ ان خطوں کے صاحبانِ اختیار نے اس سے ناطہ توڑلیا تھا۔ اس کے ایمان پر طرح طرح کے سوال اٹھائے تھے۔ مگر یہ خیال اس اپنائیت پر غالب نہ آسکا جو سالک کے دل میں امڈ امڈ کر آرہی تھی۔ وہ اسی دنیا سے تھا۔ وہ کہیں بھی رہ لے، وہ ہمیشہ تیسری دنیا اور اسلامی دنیا ہی کا باسی تھا۔ اس لمحے سالک نے اپنے دل و دماغ میں ایک نئی لہر محسوس کی۔ جیسے وہ اپنے مرکز کی طرف واپس جارہا ہو۔ اور بات غلط بھی نہ تھی۔ وہ جہاں جارہا تھا، وہ پوری دنیا کا مرکز ہی تو ہے۔
سکرین پر جہاز تیزی سے دریائے نیل کی جانب بڑھتا دکھائی دیا تو سالک نے کھڑکی کا پردہ اٹھا دیا۔ وہ اسے دیکھنا چاہتا تھا۔گھپ اندھیرا ہی سہی مگر وہ اسے دیکھے بغیر کیسے گزر جاتا۔ کون سا مسلمان بچہ ہے جس نے حضرت موسیٰ کی کہانی بچپن میں نہ سن رکھی ہو۔ اور چند لمحوں میں جہاز دریائے نیل کے بالکل اوپر سے گزرا تو نیچے رات کے اندھیرے میں دریائے نیل ایک اژدھے کی طرح لیٹا اور بل کھاتا نظر آیا۔ خدا جانے اس کے کون سے حصے میں اس حوصلہ مند ماں نے اپنا بچہ خدا کے سپرد کر کے چھوڑ دیا ہوگا۔ کیا ایسا پختہ ایمان ہم سب کو مل سکتا ہے یا یہ صرف انبیا اور ان کے خلفا اور ان کی ماؤں کے لیے مخصوص ہے۔ کیا توکّل کا ایسا درجہ بھی آتا ہے کہ انسان اپنا لختِ جگر دریا کی لہروں کے حوالے کردے؟ یا یہ درجہٴ ایمان عام آدمی کے لیے محض نارسا ہی رہتا ہے؟ مغرب نے مذہب کو تو ترک کردیا، مگر آج بھی اپنے بچوں کے لیے Moses’ basket لینے میں خوشی محسوس کرتا ہے۔ کیا خدا سے محبت اور اس پر توکّل کرنے والے سبھی لوگوں کے حصے میں یہ شرف آسکتا ہے کہ ان کی کہانی یوں امر ہوجائے؟ یا یہ بھی انبیا اور ان کے خلفا کے لیے مخصوص ہے؟ پھرایک عام آدمی ان کی تقلید میں کہاں تک جاسکتا ہے؟
حضرت موسیٰ جیسے عظیم نبی اور ان کی عظیم ماں کے خیالات میں جہاز دریائے نیل کے اوپر سے گزر گیا۔ اب حجاز اور جہاز کے درمیان کچھ حائل رہ گیا تو مصر کی زمین کا ایک وسیع ٹکڑا اور اور اس کے بعد بحیرہٴ احمر کی بظاہر مختصر سی وسعت۔ بحیرہ احمر کے کنارے پر ہی جدہ کا ائیرپورٹ تھا جہاں سالک کے جہاز نے اترنا تھا۔ جہاز نے اس چھوٹے سے بحیرہ کو چوڑائی کے رخ عبور کرنا تھا یعنی اس کے دونوں کناروں کے درمیان مختصر پاٹ سے۔ سالک نے اس بحیرہ کو بڑے آرام سے جہاز میں بیٹھے ہوئے عبور کرجانا تھا۔
بحیرۂ احمر کو عبور کرتے وقت اسے وہ چھوٹی سی جماعت یاد آئی جس نے چودہ سو سال پہلے اسی بحیرہ احمر کو تشویش اور پریشانی اور گھبراہٹ کی حالت میں پار کیا تھا۔
پیغمبر اسلامؐ کے گرد بالکل آغاز میں جمع ہونے والی جماعت میں سے بعض قریشِ مکہ کے مظالم سے تنگ آکر حبشہ ہجرت کر گئے تھے۔ خوف و ہراس کی اس فضا میں ہجرت کرنے والے مکہ سے شعیبہ کی بندرگاہ گئے جو جدہ سے بالکل متصل تھی۔ وہاں سے انہوں نے بحیرہ احمر کی خلیج کو اکسوم جانے کے لیے جنوب کی سمت لمبائی کے رخ عبور کیا اور وہ بھی اس دور کی خستہ حال کشتیوں میں۔
اور اس سے بہت پیچھے جائیں تو حضرت ابراہیم ؑکی اولاد نے بھی بحیرہ احمر کو عبور کر کے مصر میں سکونت اختیار کی۔ حضرت موسیٰ جب ساڑھے چار سو سال بعد مصر میں سکونت اختیار کرنے والی آل ابراہیم کو لے کر ارضِ موعود کی طرف نکلے، تو انہوں نے بھی بحیرہ احمر کو عبور کیا۔ عام طور پر مورخین کا کہنا ہے کہ نہر سوئز سے کیا، مگر بعض جدید تحقیقات اس بات پر مصر ہیں کہ بحیرہ احمر کے جنوبی حصے کو عبور کر کے جزیرہ نمائے عرب کے طول کو مکہ اور جدہ کے راستے سے ارض موعود پہنچے۔شاید اس راستے پر اصرار میں مسلمانیت زیادہ ہے۔
مگر سالک کے جہاز نے چند لمحوں میں بحیرہٴ احمر اور اس میں رچے کئی صدیوں کے سفر کو عبور کر لیا۔ اور ایسا کرتے کرتے کئی ہزار فٹ کی بلندی سے آہستہ آہستہ نیچے اترنے لگا۔ جہاز میں نصب سامنے کا کیمرہ اب سالک کی سکرین پر جدہ کی روشنیاں دکھا رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد جہاز تیزی سے اپنی بلندیوں سے اترآیا اور جدہ کے عبدالعزیز ائیر پورٹ پر اتر گیا۔
ائیرپورٹ پر اتر کر امگریشن اور سامان کے حصول کے مراحل میں بہت زیادہ وقت نہیں لگا۔ شاید لگا ہو مگر سالک کو یہ وقت بہت جلد گزرتا محسوس ہوا۔ اس زمین پر چلتے ہوئے جس زمین پر کبھی نبی پاک چلے تھے۔ وہ سرزمین جہاں نبی پاک نے اپنی تمام زندگی بسر کی۔ قدم اس احساس سے بوجھل مگر سبک خرام تھے۔ ایک عجیب خوشی تھی۔ محبوب کے قرب کی خوشی۔ بلکہ سرخوشی۔ وہ سرخوشی جو محبوب کے لمس سے پہلے لمس کی تمنا میں ہوتی ہے۔
(جدہ ائیرپورٹ پر اتر جانے کے بعد سالک کے کام کے حوالے سے تحریرہے جو عام دلچسپی کا سامان نہیں۔ نہ ہی سالک نے اس کی تفصیل درج کی ہے۔ تو ہم سالک کے کام کے معاملات کو چھوڑ کر جدہ سے مکہ معظمہ پہنچنے کا احوال درج کرتے ہیں۔)
(۳)
مجرم ہیں اگر ہم
سالک جدہ سے ٹیکسی میں سوار ہو کر مکہ معظمہ کے لیے روانہ ہوا تو آدھی رات کا وقت تھا۔ اسے جدہ کی اس ٹیکسی کو اور اس کے ڈرائیور کو دیکھ کر پاکستان کی ٹیکسیوں اور ڈرائیوروں کی یاد آگئی۔ وہ بے فکری سے بھرپور الھڑپن، وہی مستی۔ گاڑی چلی ہی تھی کہ ڈرائیور نے سامنے سکرین پر یوٹیوب کھول کر سالک کو پیشکش کی کہ اپنی پسند کی موسیقی لگا لے۔ سالک انکار کرنے میں کمزور واقع ہوا تھا مگر اس نے ادب سے انکار کردیا۔ وہ تو اقبالِ جرم کرنے جارہا تھا۔ ایسے میں موسیقی کس کو سوجھتی ہے۔ ڈرائیور بے حد باتونی تھا، اس قدر کہ یہ جان کر بھی سالک کو عربی نہیں آتی، مسلسل بولتا رہا۔ وہ مکہ جانے والوں کی خوشی کو جانتاتھا۔ وہ سالک کی خوشی میں شامل ہونا چاہتا تھا۔ مگر سالک کو تو خود معلوم نہیں تھا کہ اقبالِ جرم کرنے کے اپنے فیصلے پر خوش ہو یا نادم یا خوف زدہ۔ سالک کا ذہن تو خیالات اور جذبات کی جولان گاہ تھا۔
آدھی رات کے گہرے اندھیروں میں سارا راستہ پہاڑیاں اور ممٹیاں سیاہ سایوں کی طرح دکھائی دیتی تھیں۔ سالک کے اس سفرمیں پہاڑ کس قدر اہم تھے۔ ایک پہاڑ ہی تو تھے جو ان علاقوں سے منسوب روایات میں مضبوط تھے۔ ورنہ کعبہ اور روضہ رسولؐ کے علاوہ بہت سے حقائق تو روایات میں اور روایات خرافات میں کھو چکی تھیں۔ سب کچھ تو بے یقینی کا شکار ہو گیا تھا۔ یہ پہاڑیاں تب بھی موجود تھیں جب نبی پاک اس دنیا میں تھے۔ آج بھی موجود تھیں جب سالک ان کو دیکھتا گزر رہا تھا۔ ان پہاڑوں کو شاہِ کونینؐ کی نگاہوں نے اسی حالت میں دیکھا تھا جس حالت میں یہ پہاڑیاں آج سالک کو اپنے سامنے سے گزرتا ہوا دیکھ رہی تھیں۔
سفر پلک جھپکتے میں گزر گیا۔ پون گھنٹہ،گھنٹہ تو سالک کو لندن میں اپنے کام پر پہنچنے میں روزانہ لگتا ہے۔ مکہ کے داخلی باب کو دیکھنا ایک ناقابلِ یقین منظر تھا۔ خوشی بھی تھی۔ مگر ایک بورڈ پر یہ بھی لکھا تھا کہ یہاں صرف مسلمانوں کو داخل ہونے کی اجازت ہے۔ سالک نے شرمندگی سے نظریں ہٹالیں۔ مسلمان۔ ایک ایسا لفظ جو وقت کے ساتھ اپنے معنی کھوچکا۔ سالک کون سا مسلمان تھا؟ سرکاری۔ غیر سرکاری۔ پکا مسلمان۔ حقیقی مسلمان۔ یا مسلمان تھا بھی یا نہیں؟ جو اصطلاح اپنے ایمان کو بیان کرنے کے لیے وجود میں آئی، وہ آج دوسروں کے ایمان کو پرکھنے اور اس پر فیصلے صادر کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
مکہ کے اس داخلی دروازے پر اس نشان کے ساتھ کچھ باوردی جوان کھڑے تھے، مگر نہ انہوں نے گاڑی کو روکا، نہ سالک سے کسی نے کوئی سوال کیا۔
نبی پاکﷺ کی پاکیزہ بستی نےگویا سالک کو قبول کرلیا اور کھلی بانہوں سے اپنی آغوش میں لے لیا۔ اگرچہ یہ خیالات اس کےذہن میں اب گھوم رہے تھے کہ بھلا کون ہے جو یہ دعویٰ کرے کہ وہ پکا مومن ہے۔ کون ہے جو کہے کہ دل کے نہاں خانوں میں چھوٹے چھوٹے کفر سنگ ریزوں کی طرح رڑکتے نہیں رہتے۔ کون ہے جو ظاہری پاکیزگی کے باوجود کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ پلید بھی ہے۔
سالک اب نبی پاکﷺ کی پاک بستی میں تھا۔ وہ بستی جس میں آپؐ پیدا ہوئے۔ جہاں آپ کی پیدائش کے فورا ً بعد بچے کی حلق سے نکلنے والی پہلی پکار گونجی تھی۔ اس نومولود کو نہیں معلوم تھا کہ اس کا باپ وفات پا چکا ہے اور وہ اس دنیا میں یتیم وارد ہوا ہے۔ جس کی ماں کو حمل کے دوران شوہر کی وفات کے صدمے کے ساتھ ساتھ خواب میں یہ خوش خبری بھی دی گئی کہ اس کے بطن میں جو پوشیدہ ہے، وہ ایک نور ہے جو اس کی کوکھ سے نکل کر پورے عرب کو منور کرتا، شام و لبنان کی سرحدیں پھلانگتا مشرق و مغرب کو روشن کردے گا۔
اس بچے کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ اس کی ماں اس کی خاص تربیت کے لیے اسے حلیمہ سعدیہ کے سپرد کر کے اپنے سے دور کسی اور بستی میں بھیج دے گی۔ شاید اس لیے کہ اسے ماں کی جدائی کی عادت ہو جائے۔ اور وہ وہاں سے ابھی بمشکل واپس آیا ہی ہوگا کہ اس کی ماں بھی اسے چھوڑ جائے گی۔ پھر اس کے دادا بھی کفالت کرتے کرتے اسے چھوڑ جائیں گے۔ پھر چچا ابوطالب بھی۔ پھر قریش مکہ اسے نہتا پائیں گے اور اس کے پیغام کو سن کر اس پر مظالم کی حد کردکھائیں گے، اور اسے زبردستی مکہ بدر ہوجانا پڑے گا۔
سو سالک اس بستی میں داخل ہوچکا تھا جہاں فخر رسلﷺ کی پیدائش ہوئی۔ اور صرف یہی تو نہیں۔ اس بستی کی تو خدا نے قسم تک کھائی ہوئی ہے۔ وَالتِّیۡنِ وَالزَّیۡتُوۡنِ۔ وَطُوۡرِ سِیۡنِیۡنَ وَہٰذَا الۡبَلَدِ الۡاَمِیۡنِ۔ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ۔ یہاں انسانیت کی معراج یعنی احسن تقویم کو خدا نے پیدا کیا۔ اب سالک جو اس بستی تک آپہنچا تھا، اگلی آیت سے ڈرتا تھا۔ یہاں سے خالی ہاتھ جاکر ثُمَّ رَدَدۡنٰہُ اَسۡفَلَ سٰفِلِیۡنَ کا مورد نہ بن جائے۔ فَمَا یُکَذِّبُکَ بَعۡدُ بِالدِّیۡنِ۔ یہ سالک کے لیے کسی روزجزا و سزا سے کم نہ تھا۔ وہ اقبالِ جرم کرنے آیا تھا۔ یہی تو جزا سزا کا نقطہ آغاز ہوتا ہے۔
سالک نے اس گھر کا طواف کرتے ہوئے اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا اور ربِ کعبہ سے رحم کی اپیل کرنی تھی۔ مگر طواف کے لیے بھی شرط خدا نے ہی طے کردی کہ لیَقۡضُوۡا تَفَثَہُمۡ۔ طواف سے پہلے اپنی میل دور کرو اور پھر اس بیت عتیق کا طواف کرو۔ سالک کیا کرتا۔ ظاہری میل کچیل تو اس کے اختیار میں تھی۔ باطن پر چڑھی میل کی دبیز تہیں تو اس نے اقبالِ جرم کرکے اتروانی تھیں۔ اس کے دل کو اس بات سے حوصلہ ملتا کہ اسی خدا نے اسے بلد الامین کہا ہے۔ امن کی بستی۔ یہ بھی کہا ہے کہ جَعَلَ اللّٰہُ الۡکَعۡبَۃَ الۡبَیۡتَ الۡحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ۔ کہ کعبة اللہ قیام انسانیت کی غرض سے بنایا گیا۔
بعض ملکوں میں سزائے موت جیسی بڑی سزاؤں کو معاف کرنے کا آخری اختیار سربراہِ مملکت کے پاس ہوتا ہے۔ مگر ضابطہ اس اختیار کی اجازت سربراہ مملکت کو بھی گویا نہیں دیتا۔ مگر کون سا سزا یافتہ ہوتا ہے جو یہ آخری حربہ بھی استعمال نہیں کرتا۔ سالک اعترافِ جرم کے ساتھ معافی بھی مانگنے کی نیت کرکے آیا تھا۔ اور پھر وہ کسی حاکمِ وقت کے سامنے تو پیش نہیں ہو رہا تھا۔ اس کا اعتراف احکم الحاکمین کے حضور تھا۔ جو سب ضابطوں سے آزاد اور بہت رحم کرنے والا ہے۔
(۴)
لبّیک، اللھم لبّیک!
خیالات کی ادھیڑ بن میں سالک مکہ مکرمہ میں واقع اپنے ہوٹل پہنچ گیا۔ ارادہ اس کا یہ تھا کہ وہ پہلا کام یہ کرے گا کہ خانہ کعبہ حاضر ہو جائے گا۔ مگر رات کے قریب دو بج چکے تھے۔ وہ کعبہ کو تھکاوٹ اور نیند کی حالت میں نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ اور بھلا پتلون شرٹ میں اسے کعبہ کے پاس جانے بھی کس نے دینا تھا۔ اس کے لیے احرام کی حالت اور لباس کی ضرورت تھی۔ اس نے ارادہ کیا کہ صبح سب سے پہلا کام یہی کرے گا کہ میقات جا کر اور احرام باندھ کر بیت اللہ حاضر ہوجائے۔ دن کی روشنی میں پیش ہو۔ کھلا اعتراف ہے۔ سو یہ دن کی روشنی میں کرنا ہوگا۔
پہر بھر کی رات جو بچی تھی وہ جیسے تیسے گزر گئی۔ علی الصبح احرام کے جو تقاضے تھے وہ پورے کیے۔ میقات سے واپسی پر ٹیکسی اسے ایک خاص مقام تک لے جا سکتی تھی۔ وہاں لے جا کر ٹیکسی والے نے اسے اتار دیا۔ سامنے باب عبدالعزیز تھا۔ وہ اس کی طرف قدم بڑھانے لگا۔ لوگوں کا اژدھام یہاں باہر ہی قدم اٹھانے نہیں دیتا تھا۔ بچے، بڑے، بوڑھے، مرد، عورتیں۔ جیسے سب جہان کی آبادی وہاں آگئی ہو۔ کچھ ضعیف ویل چئیر میں بیٹھے تھے اور کوئی اور ان کو اِدھر اُدھر لے جارہا تھا۔ جو ویل چئیر میں کعبہ کی طرف بڑھ رہے تھے، ان کے چہرے تمتما رہے تھے۔ جو کعبہ سے ہو کر باہر آرہے تھے۔ ان کے چہروں پر اداسی تھی۔ بہت بوڑھے جو تھے۔ یہ احساس جو تھا کہ اب شاید کبھی دوبارہ کعبہ کا دیدار نصیب نہ ہو۔ چھوٹے بچوں کی ماوٴں نے ان کے احرام سیفٹی پن کے سہارے اٹکا دیے تھے۔ کسی کو کسی چیز کا ہوش نہ تھا۔ سب کی نگاہیں اس دروازے کی طرف لگی تھیں جہاں سے داخل ہو کر انہیں کعبہ کا دیدار نصیب ہونا تھا۔ سب کے قدموں میں تیزی تھی۔ کچھ لنگڑا رہے تھے مگر لنگڑا بھی ایک عجیب پھرتی سے رہے تھے۔ بغیر اس خوف کے کہ گر بھی سکتے ہیں۔
سالک چلتا چلتا مسجد الحرام کے داخلی دروازے کے قریب پہنچ گیا۔ ہجوم بہت بڑھ گیا تھا۔ کھوے سے کھوا اپنے اصل معنوں میں چھلتا تھا۔ سالک اس لمحے سے قریب تر ہوتا جاتا تھا کہ اس کے قدم رکنے لگے۔ اعتراف سے پہلے قدم کہیں لغزش بھی کھا جاتا ہے۔ مگر اس ہجوم نے اس کے قدم رکنے نہ دیے اور اسے اٹھا کر اس برآمدے میں پہنچا دیا جہاں آگے چل کر کچھ سیڑھیاں کعبے کے صحن میں اترنی تھیں۔
یہاں چلتے چلتے اور سیڑھیوں کی طرف بڑھتے بڑھتے سالک کو اپنی دائیں آنکھ کے گوشے میں ایک سیاہ اور سنہرا ٹکڑا دکھائی دیا۔ مگر وہ سہم گیا۔ اس نے دانستہ اپنی نظر کا رخ دوسری طرف کر لیا۔ سالک نے کعبہ کو ٹکڑوں میں نہیں دیکھنا تھا۔ سالک کو احکم الحاکمین کا بیت الحرام اپنے سامنے دیکھنا تھا۔ ایسے میں کہ یہ بیت الحرام اپنے حاکم کی بڑائی اور عظمت بیان کرتا ہو۔ اس کی شوکت۔ اس کی کبریائی۔ تاکہ سالک بھی اپنا پورا وجود گھٹنوں کے بل اس کے سامنے پھینک دے۔ شاید حاکم الحاکمین، ربِ کعبہ کو اس مجرم پر رحم آجائے۔
سالک نظریں جھکائے اور آخری منزل پر پہنچ گیا جہاں سے سیڑھیاں صحنِ کعبہ میں اتررہی تھیں۔ نظریں جھکائے وہ اس برقی سیڑھی پر سوار ہوگیا۔ سیڑھیاں اس کے بوجھ کو ڈھوتی نیچے لے گئیں۔ اور نظریں اٹھانے کا وقت آگیا۔ سالک کی زندگی کا بیشتر حصہ تو یوں ہی تھا کہ
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے
مگر آج کعبہ اس کے آگے تھا۔ بالکل سامنے۔
سالک نے نظریں اٹھائیں تو کعبة اللہ کی عظیم الشان اور پر رعب چوکور عمارت اس کے سامنے پورے قد و قامت کے ساتھ ایستادہ تھی۔ کہتے ہیں کہ اس پہلی نظر پر پہلی دعا کی بڑی فضیلت ہے۔ مگر سالک کو دعائیں بھلا یاد ہی کہاں رہ گئی تھیں۔ اس نے احکم الحاکمین سے رحم کی اپیل کر دی۔ اسے محسوس نہ ہوا کہ وہ اس طواف کرتے انسانی دائرے کی زد میں آگیا ہے اور اس طواف کے زور سے وہ بھی ان سب کے ساتھ چلنے لگا ہے۔ گول دائروں میں۔ خدا کے اس پرشوکت گھر کے گرد۔
وہ طواف کرتے اس انسانی دائرے کے اندر کھنچتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ اس کے قدم ایک ہجوم کے قدموں سے ٹکرا کے رک گئے۔ یہ ہجوم جامد تھا۔ اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو یہ ہجوم واقعی ساکت تھا۔ کعبہ اللہ کی دیوار پر اپنے ہاتھوں کو جمائے ساکت و جامد۔
سالک عجیب الجھن میں تھا۔ اس کے اعتراف، اس کی رحم کی التجا کا کوئی جواب نہیں آیا تھا۔ الٹا اسے قریب آنے دیا گیا تھا۔ اتنا قریب کہ وہ خانہ کعبہ کو چھو سکتا تھا۔ سالک نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور ڈرتے ڈرتے اپنا ہاتھ کعبہ کی دیوار پر رکھ دیا۔ ربِ کعبہ کی عدالت کی دیوار پر۔ اور ڈرتے ڈرتے اعترفِ جرم اور رحم کی اپیل کی۔
(۵)
کعبہ خاموش رہا!
کعبے کو چھونے کے لیے گویا پورے وجود کی طاقت درکار تھی۔ ساتھ ہی فلموں کے کسی سین کی طرح سناٹا چھا گیا۔ کوئی دھماکہ نہ ہوا۔ کوئی کرنٹ نہ لگا۔ کانوں میں خاموشی کی سنسناہٹ گونجنے لگی۔اور پھر اس ایک ہی لمحے میں ہجوم نے اس کے ہاتھ کو رب کعبہ کی عدالت کی دیوار سے جدا کردیا۔ اور اپنے ساتھ بہا لے گیا۔ سالک نے نہ جانے کتنے چکر لگا لیے۔
چکر لگاتے لگاتے سالک کبھی کبھار آنکھ اٹھا کر اوپر دیکھنے کی ہمت کرتا۔ پُر شکوہ کعبہ اسے پورے قد سے ایستادہ نظر آتا۔ وہ نظریں جھکا لیتا اور ہجوم کے ریلے میں گھومتا چلا جاتا۔ کچھ دیر بعد وہی ہجوم جو اسے کعبہ کے قریب کھینچ کر لے گیا تھا، اسے باہر کی سمت دھکیلنے لگا۔ centripetal forces یعنی مرکز مائل طاقتوں اور centrifugal forces یعنی مرکز گریز طاقتوں کا عجیب عمل جاری تھا۔ اب ہجوم خود ہی اسے باہر کی طرف دھکیل رہا تھا۔ پھر یک دم ایک طاقتور دھچکے نے اسے دائرہ کے ہجوم سے باہر دھکیل دیا۔
سالک اس عجیب تجربے سے نڈھال ہو کر صحن کعبہ میں چھاوٴں کے ایک ٹکڑے میں بیٹھ گیا۔ جیسے مدار سے بھٹک کر کوئی سیارہ یکدم بے انت خلا میں جانکلے۔ وہ اتفاق سے اس جگہ آبیٹھا تھا جہاں اس کے سامنے حجر اسود نصب تھا۔ لوگ دیوانہ وار اسے چھونے کی کوشش میں ایک دوسرے کو دھکیلتے، گھسیٹتے، خود گھسٹتے، ایک دوسرے پر تقریباً سوار اس غیر مرئی پتھر کو چھونے کی کوشش کررہے تھے۔
وہ لمس کا ایک ہی لمحہ تھا مگر اپنے اندر کئی جذبات اور خیالات لیے ہوئے تھا۔ جو اس کے تخیل کی دنیا میں سناٹا طاری ہوا تھا، اور اسے کوئی جواب نہ آیا تھا، وہ اس بات کی یاددہانی بن کر آیا تھا کہ کعبہ کعبہ ہی ہے، خدا کا گھر ہی ہے، خدا نہیں ہے۔ خدا کے اپنے الفاظ کی یاددہانی کہ انسانی حواس خدا تک نہیں پہنچ سکتے، ہاں وہ خود چاہے تو انسانی محسوسات تک پہنچ سکتا ہے۔ یہاں پہنچنا یقیناً ایک سعادت اور خوش نصیبی کی بات ہے۔ مگر یہ احکم الحاکمین کی عدالت ضرور ہے، مگرخود احکم الحاکمین نہیں۔
یہ یاددہانی شاید اس لیے ضروری تھی کہ سالک جیسے کمزور لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہوجائے کہ خدا کی عبادت میں کسی اور شے کی پرستش کی گنجائش نہیں۔ بڑی باریک لائن ہے جہاں پاوٴں اِدھر سے اُدھر جا پڑے اور انسان کو محسوس بھی نہ ہو۔
اور اس ایک لمس کے ایک لمحے میں کتنی ہی لمبی فلم تو چل گئی تھی۔ جیسے خواب میں بہت سے واقعات کا دورانیہ اور ان کی ترتیب یاد نہیں رہتی، سالک کو بھی اس خواب نما تجربے میں واقعات کی ترتیب یاد نہ رہ سکی۔
کہیں حضرت ابراہیم ؑاور ان کا نو عمر بیٹا اس عمارت کو تعمیر کرتے نظر آئے۔ ساتھ کہتے جاتے کہ اے خدا ہم تیری عبادت کے لیے ایک مقام بناتے ہیں۔ اسے قبول کر لینا۔ انہوں نے وہ پتھر آس پاس کے پہاڑوں سے ہی اکٹھے کیے تھے۔ انہی پتھروں سے بت بنا کر مشرکین ان کی عبادت بھی کیا کرتے تھے۔ مگر یہ پتھر خدا کے گھر کے لیے لگائے جا رہے تھے۔ اور ساتھ یہ التجا جاری تھی کہ خدا پتھروں کے اس استعمال کو قبول کرلے اور لوگ سمجھ سکیں کہ پتھر پتھر ہی ہے۔ ہاں اس کا استعمال اس کے معانی کو بدل دیتا ہے۔ اسے خدا بنا لو، یا اس سے خدا کا گھر بنا لو۔ بظاہر چھوٹا سا فرق اصل میں کتنا بڑا فرق ڈال دیتا ہے۔
خدا نے ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ کی اس کوشش کو وہ بھاگ لگائے کہ آج سالک اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کررہا تھا۔ وہ ابھی جس طواف کا حصہ بن کر نکلا تھا، وہ چند ہزار یا لاکھ لوگوں کا طواف نہیں تھا۔ وہ تو کروڑھا لوگوں کا طواف تھا جو صدیوں سے اس گھر کے گرد جاری و ساری تھا۔ اس کا حصہ بننا ایک ٹائم مشین کا حصہ بننا تھا جو سالک کو صدیوں سے جاری اس انسانی دائرے میں کھینچ لے گئی تھی۔ جو نظام شمسی کے کسی سیارے کی طرح گھومے چلا جارہا تھا۔
مگر پھر اس لمحے بھر کے لمس کے دوران سالک کو وہ بت بھی یاد آئے جو کعبة اللہ کے اندر اور اس کے ارد گرد رکھ دیے گئے۔ اور کعبہ خاموش رہا۔ کعبہ نہ ان بتوں کو داخل ہونے سے روک سکا، نہ انہیں اٹھا کر باہر پھینک سکا۔
البتہ اس کمرہ عدالت کے حاکم نے وقفے وقفے سے نیا قانون بھیج دیا۔ یکے بعد دیگرے نیا قانون لانے والوں نے لوگوں کی توجہ بتوں سے ہٹا دی اور وہ خدائے واحد کی طرف توجہ کرجاتے رہے۔ مگر بت کعبہ میں موجود رہے اور قوموں کے دل پلٹ پلٹ کر ان بتوں کی طرف لوٹ جاتے رہے۔ کعبہ ان بتوں کو توڑ سکا نہ باہر پھینک سکا۔ کعبے کے گرد خدائے واحد کی عبادت کرنے والے بھی طواف کرتے رہے، اور اس میں رکھے بتوں کی پرستش کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ کعبہ خاموش رہا۔
پھر اس فلم میں بتوں کے ٹوٹنے کا منظر بھی آیا۔ ابراھیم کی دعا کی قبولیت کی معراج۔ کس درد سے ابوالانبیاء نے دعا مانگی تھی کہ رَبَّنَا وَابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ۔ اے ہمارے رب! تو انسانیت کی خاطر انسانوں میں ایک رسول مبعوث فرمانا۔ جو دنیا کو تجھ سے متعارف کروائے۔ جو تیری آیات ان کو سنائے۔ جو انہیں حکمت سکھائے۔ اور ان کے دلوں کو بتوں کی محبتوں سے پاک کردے۔
شاید ابراہیمؑ کو معلوم تھا کہ یہ گھر جو ہم خدا کی عبادت کے لیے بناتے ہیں ایک روز بتوں کی آماجگاہ بن جائے گا۔ ابراہیم نے بچپن سے ہی بتوں کو دیکھا ہوا تھا۔ خود ان کے بے جان ہونے کا اعلان کر کے اپنی جان جوکھوں میں ڈال لی مگر یہ بھی معلوم تھا کہ بت لاکھ بے جان سہی، انسانی فطرت بتوں کی طرف کھنچتی ہے۔ اور پے در پے انسانیت کو بتوں سے رہائی دلانے والے منادوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر جلد ہی انسان ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر والی کیفیت میں چلا جاتا ہے۔
خدا نے ابراہیم ؑکی دعا قبول کی اور ان کی نسل ہی سے کئی نبی بھیجے۔ مگر ابراہیم ؑتو آخری فیصلے کی دعا کررہے تھے۔
جَاءَ الۡحَقُّ وَزَہَقَ الۡبَاطِل کے آخری فیصلے کی دعا۔ کوئی ایسا نبی جو ایک بار کعبے کو بتوں سے پاک کردے۔ یعنی انسانیت کے دل سے بتوں کو نکال باہر پھینکے۔
تو وہ نظارہ بھی اس لمحے بھر کی فلم میں گزرا جب وہ رسولؐ آیا اور خدا نے اسے فتح یاب کیا اور اس نے خود کعبے میں داخل ہو کر بتوں کو توڑ پھینکا اور کعبہ بتوں سے پاک ہوگیا۔ ہمیشہ کے لیے۔
اس رسول نے فتح مند ہونے سے بہت سال پہلے جب وہ مکہ کا ایک عام رہائشی تھا، کعبہ کی تعمیر نو میں بھی حصہ لیا تھا۔ کعبہ آگ کی زد میں آ کر شکست و ریخت کا شکار ہوگیا تھا اور کچھ ہی دن بعد آنے والے ایک سیلاب نے رہی سہی عمارت کو منہدم کردیا تھا۔ کعبہ خاموش رہا تھا۔ مگر ربِ کعبہ کبھی خاموش نہیں رہا۔ ربِ کعبہ تو وہ تھا کہ لبِ خاموش کی خاطر ہی وہ لب کھولتا ہے۔ مگر سب سے مناسب وقت پر۔
مگر قریشِ مکہ اس مقدس عمارت کو دوبارہ تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ محمدؐ ابن عبداللہ نے بھی خوب مزدوری کی۔ قریش نے تعمیر نو کے لیے لکڑی ایک یونانی تاجر سے حاصل کی تھی جو شعیبہ کی بندرگاہ پر تباہ ہوجانے والے ایک بحری جہاز کے حصے بخرے فروخت کررہا تھا۔ جس قدر سامان میسر آیا، اس سے کعبہ کی عمارت کا کچھ حصہ استوار کرلیا گیا۔ لکڑی اور سامان ِتعمیر کم پڑ جانے کے باعث کچھ حصہ عمارت میں شامل نہ ہوسکا تھا۔ یہ حصہ آج حطیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کعبہ جس قدر بھی دوبارہ بنایا گیا، بن گیا اور خاموش رہا۔ اسے معلوم تھا کہ اس کی تعمیر کا اصل مقصد پورا ہونا چاہیے ورنہ عمارت تو لکڑی اور پتھر کی ایک ساخت ہی ہے۔ سو حطیم کے باہر رہ جانے پر بھی کعبہ خاموش رہا۔ ربِ کعبہ نے اس مقدس مقام کی عظمت بحال رکھنی تھی، سو رکھی اور یہ مستطیل سے چوکور ہوگیا، تب بھی مرجعِ خواص و عوام بنا رہا۔
پھر محمد بن عبداللہ جب محمد رسول اللہ ﷺ بن کرلوٹے تو بتوں کو کعبے سے صاف کر دیا۔ یہ سفر بھی بھلا آسان کہاں تھا۔ پہلے تو سمجھانے کی کوشش کی کہ ان بتوں میں کچھ نہیں رکھا۔ مگر صدیوں کے پجاری اپنے معبودوں کو کیسے چھوڑ دیتے۔ وہ بھی اس یتیم کے کہنے پر جو ان کی آنکھوں کے سامنے اپنے بچپن اور جوانی کو عبور کرتا ادھیڑ عمر میں قدم رکھ رہا تھا۔ قریشِ مکہ نے نہ صرف اس کے پیغام کو ٹھکرا دیا بلکہ اسے بھی ٹھکرا دیا۔ اسے ہجرت کرجانا پڑی۔ ہجرت کے حالات نہایت پر خطر تھے مگر وہ بہت بوجھل دل سے اس بستی سے جدا ہوا تھا۔ یہ کہتے ہوئے کہ اے مکہ کی بستی، مجھے تجھ سے بہت محبت ہے۔ میں مجبور نہ کیا جاتا تو کبھی تجھ سے جدا نہ ہوتا۔ اس مجبور پیغمبرؐ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ جذبات کا سیلاب تھا۔ مگر یہ بستی خاموش رہی اور اس میں واقع کعبہ بھی خاموش رہا۔ مگر یہ بات ربِ کعبہ کے سوا کسی کو بھی معلوم نہ تھی کہ وہ اپنے اس معصوم نبیؐ کو یہاں فتح مند بنا کر لائے گا۔
مگر پھر کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیۡ کا وعدہ پورا ہونے کا دن آیا تھا اور محمد رسول اللہ نے جہاں اس بستی کے سب مظالم سے صرف نظر فرمایا اور سب ظالموں کو معاف کردیا، وہاں انسانیت پر یہ احسان بھی کردیا کہ کعبة اللہ کو بتوں سے پاک کردیا۔ یوں ابراہیمؑی دعا بڑی شان سے پوری ہوگئی۔
اس لمحے بھر کی فلم سے پہلے کوئی تنبیہہ نہ آئی کہ اس میں بعض مناظر اور بعض آوازیں کمزور ناظرین کے دل کو دہلا سکتی ہیں۔ اچانک دھماکوں اور شعلوں کی لپٹوں کی آوازیں گونجنے لگیں۔ یہ محمد رسول اللہ ﷺکے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے کچھ ہی سال بعد کے مناظر تھے۔ جب عبداللہ بن زبیرؓ نے مکہ میں اپنا اقتدار قائم کرلیا تھا مگر بنو امیہ، کہ سلطنتِ اسلامیہ کے حاکم تھے، یہ اقتدار ختم کر کے مکہ کو زیر نگیں کرنا چاہتے تھے۔ بنو امیہ اور عبداللہ بن زبیر ؓکی افواج کے درمیان خوب گولہ باری ہوئی۔ کعبہ اس گولہ باری کی زد میں رہا اور مجروح ہو کر منہدم ہوگیا۔ مگر خاموش رہا۔ یہاں تفرقے کی دل خراش پیش گوئی پوری ہونے کی بنیاد پڑ رہی تھی، مگر ربِ کعبہ کو معلوم تھا کہ کعبہ ایک ہی رہے گا اور ایک دن ایک امام ساری امت کو اسی کعبہ کے گرد جمع کر لے گا۔
عبداللہ بن زبیرؓ نے کعبہ کی تعمیر نو کی تونبی پاک ﷺکی خواہش کو حوالہ بنا کر حطیم کو بھی اس میں شامل کرلیا اور کعبة اللہ دوبارہ چوکور کی بجائے مستطیل شکل اختیار کرگیا۔
کچھ ہی عرصہ بعد اموی خلیفہ نے اپنا بے رحم جرنیل حجاج بن یوسف اس کام پر مقرر کیا کہ مکہ کو عبداللہ بن زبیر ؓ کے تسلط سے آزاد کروایا جائے۔ خوب جنگ ہوئی۔ کعبہ کے گردونواح میں خون ریزی کا بازارگرم ہوا۔ کعبے کو بھی گزند پہنچی مگر حجاج بن یوسف نے جیسے بھی بن پڑتا، مکہ کو اموی خلافت کے زیر تسلط لانا تھا، سو لے آیا۔ یہ سب محمد رسول اللہ ﷺکے وصال کے قریب چالیس سال بعد ہورہا تھا۔ عبداللہ بن زبیرؓ شہید ہوئے، مکہ پر اموی خلیفہ عبدالمالک بن مروان کا سکہ رائج ہوا۔ کعبہ کی مستطیل شکل کو منہدم کرکے دوبارہ چوکور کردیا گیا اور حطیم کعبہ کی عمارت سے نکل کر اس سے دوبارہ جدا ہو گئی۔ کعبہ تب بھی خاموش رہا۔ تب سے اب تک کعبہ اسی چوکور شکل میں چلا آتا ہے۔ اور خاموش بھی۔ کعبہ تو ذی شعور نہیں، مگر ربِ کعبہ تو شعور اور علم کا سرچشمہ ہے، اور وہ جانتا تھا کہ اس کی شکل اہم نہیں بلکہ اس کی حرمت اور عظمت اس خدا کے ہاتھ میں ہے جو جسم اور جہت سے ماورا ہے۔
آپ جو بھی کرلیں، کعبہ خاموش رہتا ہے۔ آپ یہاں خدا کو پکاریں یا کعبہ کی دیواروں میں لگے پتھروں سے التجائیں کریں۔ کعبہ خاموش رہتا ہے۔ ہاں ربِ کعبہ بڑی محبت سے ہر التجا کو سنتا ہے، اس رنگ میں جو انسان کے لیے بہترین ہو۔
پھر یکا یک اس فلم میں ایک مترنم گیت گونجنے لگا۔
قِفَا نَبْكِ مِنْ ذِكْرَى حَبِيبٍ ومَنْزِلِ
ارے ذرا رکو کہ اس محبوب اور اس کی گلی کی یاد تازہ کرلیں۔ سالک کو اس چوکور عمارت کے اندر کسی زمانے میں لٹکتے معلقات نظر آئے۔ عربی کلاسیکی ادب کے شاہکار۔ عشقیہ اشعار۔ رزمیہ اشعار۔ ایام العرب کا شعری روپ۔
سالک کو امراالقیس کے اشعار کی گونج سنائی دینے لگی۔ جیسے وہ عظیم شاعر ان لاکھوں لوگوں کو جو کعبے کے گرد جمع تھے اور ان کی آنکھوں سے آنسو نہ رکتے تھے کہتا ہو کہ
لَا تَهْلِكْ أَسَىً وَتَجَمَّلِ
رو رو کر ہلاک نہ ہوجانا۔ اپنے دکھوں اور غموں پر صبر کرلو۔ مگر ان لاکھوں لوگوں کے مجمع میں سے ہر انسان جیسے واپس پلٹ کر کہتا ہو کہ
وإِنَّ شِفائِي عَبْرَةٌ مُهْرَاقَةٌ
میری شفا انہی بہتے ہوئے آنسووں میں ہے۔ مجھے مت روکو۔ امراالقیس بھلا انہیں کیسے روکتا۔ وہ تو صدیوں پہلے مٹی میں سوچکا تھا۔ ہاں وہ کعبہ وہیں موجود تھا جہاں اس کے اور دیگر مشاہیرِ شعر و ادب کے معلقات آویزاں کیے جاتے تھے۔ مگر کعبہ بھی کیسے روکتا۔ کعبہ بھی انہیں روتے بلکتے دیکھتا رہا، اور خاموش رہا۔یہ بتانے کے لیے کہ یہ آنسو اور یہ التجائیں احکم الحاکمین کے ہاں درج ہو رہی ہیں۔ان دیواروں پر نہیں۔
فلم چلتی رہی۔ اس میں کعبہ کئی بار منہدم ہوا۔ کئی بار یہاں وبائیں پھوٹنے کے سبب ویرانیاں بھی پھیلیں۔ کئی بار اس کے پردوں سے لپٹے انسان قتل کردیے گئے۔ کئی بار اس پر جنگ و جدل کی مصیبتیں ٹوٹیں اور گولہ و بارود اس کی دیواروں سے ٹکرا کر انہیںمجروح کر دیتے رہے۔ قدرتی آفات کے علاوہ کعبہ کو گزند اگر انسانی ہاتھ سے پہنچی، تو وہ مسلمانوں کے ہاتھ تھے۔ عاشقان کعبہ۔ والیان کعبہ۔ کعبہ کی بے حرمتی کرتے رہے۔ کعبہ خاموش رہا۔
آج جب سالک نے کعبے کو چھوا تھا، تو کعبے نے اپنی صدیوں پرانی ریت کو نہ توڑا۔ کعبہ خاموش رہا مگر یہ ضرور ہوا کہ کعبے کی خاموشی نے سالک کے قطب نما کی سوئی درست سمت میں گھما دی۔
اب سالک عمرے کے مناسک کے لیے تیار تھا۔ سالک واپس طواف کرتے ہجوم میں پہنچا۔ اپنے قدم حجر اسود کی سیدھ میں کیے۔ اسے دور سے ہاتھ اٹھا کر سلام کیا۔ اس پتھر کو جو کعبے ہی طرح ہمیشہ سے خاموش تھا۔
جب سرداران قریش نے اس پر جھگڑا کیا کہ اسے کون نصب کرے۔ یہ پتھر خاموش رہا۔ نبی پاک ﷺکے وصال کے کئی سو سال بعد حج بیت اللہ کے موقع پر قرامطیوں نے یہ پتھر اکھاڑ لیا تھا۔ اسے لُوٹ کر لے گئے تھے۔ لوٹ مار میں کٹی پٹی انسانی لاشیں زم زم کے کنویں میں پھینک کر پانی کو نجس اور زہر آلود کردیا تھا۔ چاہ زم زم بھی خاموش رہا تھا۔ یہ پتھر لُوٹ کر جزیرہ نمائے عرب کے مشرقی علاقے احسا میں لے جاکر محصور کر لیا گیا۔ کوئی بیس سال بعد ۹۵۲ میں عباسی خلفا نے تاوان ادا کر کے حجر اسود کو واگزار کیا اور دوبارہ کعبة اللہ میں نصب کیا۔ مسلمانوں نے حجر اسود لوٹ لیا۔ مسلمانوں کو تاوان کے عوض لوٹایا۔ حجرِ اسود بھی خاموش رہا۔
فلم کے ایک منظر نے سالک کے قطب نما کی سوئی کو مزید درست کردیا۔ وہ حجر اسود سے سیدھ باندھ کر کھڑا ہوا تو فلم کا وہ منظر اس کی نظروں کے آگے گھوم گیا جب محمد رسول اللہ ﷺنے فتح مکہ کے روز طواف کیا تو آپ اپنی اونٹنی سے نہ اترے تھے۔ آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جس سے آپ نےحجر اسود کی طرف اشارہ کیا تھا اور خدا کا نام لیتے ہوئے طواف شروع کیا تھا۔ آپ نے زندگی بھر اس پتھر کو اپنے جد امجد ابراہیمِ حنیف اور خدا کی محبت میں چوما تھا۔ مگر اس عظیم فتح کے روز آپ نے ہر بار چھڑی کے اشارے سے اس پتھر کو سلام کیا اور اللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان کرتے ہوئےطواف کا نیا دور شروع کیا۔
آپ تندرست تھے۔ اونٹنی سے اتر بھی سکتے تھے۔ مگر شاید اپنی امت کے سالکوں کے لیے یہ سبق دے رہے تھے کہ یہ پتھر بھی خاموش رہے گا۔ کعبة اللہ بھی خاموش رہے گا۔ اگر بولے گا تو وہ بولے گا جو کہتا ہے کہ
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ۔ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ
کہ میں تو اپنے بندے سے بہت ہی زیادہ قریب ہوں۔ وہ مجھے پکارتا ہے تو میں جواب دیتا ہوں۔ وہ مجھے اپنا کلیجہ تھام کر پکارے، یا کعبہ کی دیوار کو، جواب میں نے ہی دینا ہے۔
سالک کے پاس چھڑی نہ تھی۔ اس نے دونوں ہاتھ حجر اسود کے رخ بلند کیے اور عمرے کا طواف شروع کردیا۔ حجر اسود بھی بظاہر خاموش رہا۔ اورکعبہ بھی بظاہرخاموش رہا۔مگر دونوں خدا کی عظمت اور جلال اور قدرت کا استعارہ بن کر اجاگرہوئے۔
(جاری ہے…)