حضرت مصلح موعود ؓ

وَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ سے بچنے کا طریقہ (انتخاب خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۴؍اکتوبر ۱۹۱۸ء) (قسط دوم۔آخری)

(گذشتہ سے پیوستہ )اﷲ تعالیٰ نے سورۃ الناس میں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ کیونکر انسان انسانیت سے گرتا ہے اور ساتھ ہی گرنے سے محفوظ رہنے کا طریق بتایا ہے۔ فرمایا: قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ…الخ یعنی تین ذریعے ہیں جن کے ذریعہ انسان اوپر چڑھتا ہے اور تین ہی وہ ذریعے ہیں جن سے نیچے گرتا ہے۔

ان تین ذرائع میں سے ایک ربوبیت ہے، دوسرا ملکیت ہے اور تیسرا الوہیت۔

بہت دفعہ ربوبیت کے ذریعہ ابتلاء آتا ہے اور بہت دفعہ ملکیّت کے ذریعہ اور بہت دفعہ الوہیت کے ذریعہ اور پھر ان میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں۔ ایک نسبت فاعلی کے لحاظ سے اور دوسری نسبت مفعولی کے لحاظ سے یعنی کبھی انسان دوسروں کا رب بنتا ہے اور کبھی دوسرں کو اپنا رب بناتا ہے۔ پھر کبھی خود مَلِک بنتا ہے اور کبھی دوسروں کو اپنا مَلِک بناتا ہے، اسی طرح کبھی خود اﷲ بنتا ہے اور کبھی دوسروں کو اپنا اﷲ بنا لیتا ہے گویا تین سے چھ ذریعے بن جاتے ہیں۔

کبھی یہ ربّ ہوتا ہے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ لفظ ربّ عام ہے۔

خدا کے لئے مثلاً رَبُّ النّاس آیا ہے۔ اس کے معنی ہیں پیدا کرنے والا اور پھر ادنیٰ حالت سے اعلیٰ کی طرف لے جانے والا ۔اور بعض دفعہ رَبُّکُمْ کہیں گے اور اس کے معنی ہوں گے تمہارا سردار۔ تو لغت والوں نے دونوں طرح لکھا ہے کہ لفظ ربّ بغیر اضافت یا بااضافت خدا کے لئے آتا ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ خدا کے سوا اوروں کے لئے بھی بول لیتے ہیں۔ بہرحال ایک ربوبیت انسان کی ہوتی ہے مثلاً اس کے غریب رشتہ دار ہیں اور وہ ان کی پرورش کرتا ہے۔ اس پر ابتلاء اس طرح آتا ہے کہ اس کے پاس اتنا رزق نہیں ہوتا کہ یہ ان کی پرورش کر سکے۔ اس لئے یہ بعض ناواجب طریق اختیار کرتا ہے۔ چوری کرتا ہے، رشوت لیتا ہے اسی طرح کسی کو اپنا ربّ سمجھتا ہے۔ اس کو خوش کرنے کے لئے جھوٹ بولتا ہے یا اَور اسی قسم کی باتیں کرتا ہے۔

تو خدا کی ربوبیت کو بھول جاتا ہے اور بندوں کو اپنا ربّ بنا لیتا ہے۔

دوسرا ذریعہ ملکیت ہے۔ یعنی بعض بادشاہ ہوتے ہیں تو ان کے بادشاہ ہونے کی حیثیت میں ان پر رعیت کے کچھ حقوق عائد ہوتے ہیں۔ وہ ان میں خیانت کرتے ہیں یا خود رعیت ہوتے ہیں اور دوسرا مَلِک ہوتا ہے۔ تو رعیت ہونے کی حالت میں بغاوت یا دیگر قسم کے سیاسی جرم کرتے ہیں۔

تیسری شق الوہیت ہے کہ کبھی تو انسان خود اِلٰہ بن جاتا ہے اور کبھی دوسروں کو اِلٰہ بنا لیتا ہے۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ جب اپنے ایک استاد سے رخصت ہونے لگے تو اُنہوں نے آپ ؓکو کہا کہ میں تمہیں ایک نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ کہ تم کبھی خدا بننے کی خواہش نہ کرنا۔ حضرت مولوی صاحب نے حیران ہو کر پوچھا کہ کیا خدا بھی کوئی بنتا ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ

زبان سے خدا ہونے کا تو بہت کم لوگ دعویٰ کیا کرتے ہیں مگر عملاً بہت لوگ خدائی کا دعویٰ کرتے ہیں

اور وہ اس طرح کہ وہ چاہتے ہیں کہ جو کچھ ہم کہیں وہی ہو کر رہے حالانکہ یہ بات تو خدا کے شایان شان ہے۔ جو لوگ قولاً دعویٰ کرتے ہیں ان کا علاج تو عام لوگ بھی کر لیا کرتے ہیں جیسا کہ مشہور ہے کہ ایک شخص نے خدائی کا دعویٰ کیا۔ علماء نے اسے بہتیرا سمجھایا مگر وہ باز نہ آیا۔ ایک اَن پڑھ تھا وہ بہت کوشش کرتا تھا کہ مجھے موقع ملے تو مَیں اس کو سمجھاؤں ،مگر خدائی کے مدعی کے چیلے ہر وقت اس کے اِردگرد جمے رہتے تھے۔ اتفاقاً ایک دن جبکہ وہ اکیلا تھا تو اسے موقع ملا وہ اس کے پاس گیا اور جاکر دریافت کیا کہ کیوں جی آپ خدا ہیں؟ اس نے کہا ہاں۔ اس اَن پڑھ نے اسے گردن سے پکڑ لیا اور کہا کہ اچھا ہوا آج تُو مجھے مل گیا ہے۔ مَیں تو مدتوں سے تیری تلاش میں تھاآج تیری خبر لوں گا۔ یہ کہہ کر اسے مارتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ تُو نے ہی میرے فلاں رشتہ دار کو مارا ہے۔ اب تُو میرے قابو آیا ہے۔ مَیں تُجھ کو ہر گز نہیں چھوڑوں گا جب بہت مار پڑی تو اس نے کہا مجھے چھوڑ دے۔ مَیں خدا نہیں ہوں۔

پس ٹھوکر لگنے کے تین ذریعے ہیں۔ ربوبیت، ملکیت، الوہیت اِس لئے اﷲ تعالیٰ اس کا علاج بتاتا ہے۔ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِۙ۔مَلِكِ النَّاسِۙ۔اِلٰهِ النَّاس ِکہ

اس بات کا یقین رکھو کہ رَبِّ النَّاسِ کے سوا کوئی ربّ نہیں، مَلِكِ النَّاسِ اصل بادشاہ تو وہ ہے جو خدا ہے، اِلٰهِ النَّاسِ اور معبود بھی وہی ہے

اِس لئے کہو کہ مَیں اس خدا کی پناہ میں آتا ہوں جو ربّ ہے، مَلِک ہے اور اِلٰہ ہے۔ اس دُعا میں ایک لطیف نکتہ ہے۔ اسلام کی تمام دُعاؤں میں ایسے الفاظ اور ایساطریقہ اختیار کیا جاتا ہے جس سے خدا کی غیرت کو جوش آئے۔ کہا جاسکتا ہے کہ بجائے خدا کی تین صفات کے ذکر کرنے کے کیوں نہ صرف اِلٰهِ النَّاسِ کہہ دیا کہ لفظ اِلٰہ میں تینوں مراتب اور صفات بھی آجاتے مگر اگر صرف لفظ اﷲ کو رکھا جاتا تو وہ بات پیدا نہ ہوتی جو اس تفصیل سے پیدا ہوتی ہے۔

خدا ربّ ہے تو رَبِّ النَّاسِ کہہ کر گویا خدا کی غیرت کو جوش دلایا ہے کہ لوگوں کا ربّ تو یہ ہے پھر اور کوئی کس طرح ربّ ہو سکتا ہے۔

اسی طرح باقی دونوں صفات میں بھی خدا کی غیرت کو جوش میں لایا گیا ہے اور یہ ایسی بات ہے کہ ہر شخص اس کو مشاہدہ کر سکتا ہے اور خدا تعالیٰ نے خود شرک کے متعلق کس قدر غیرت کا اظہار فرمایا ہے۔ اِس لئے جہاں ٹھوکر لگنے کا خطرہ تھا اس کے متعلق اﷲ تعالیٰ نے ایسی دُعا تلقین کی کہ جس سے خدا کی غیرت کو جوش آئے اور وہ اپنے بندوں کو تمام خطرات سے محفوظ رکھے۔ تو انسان کو ٹھوکروں سے بچنے کے لئے کس چیز سے پناہ مانگنا چاہئے۔ فرمایا: مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ۔خناس کے وسوسوں سے۔

وسوسہ ڈالنے والے ہمیشہ ایسے طریق اختیار کرتے ہیں جو بہت پوشیدہ ہوتے ہیں اور نہایت چالاکی سے کوئی بدعقیدگی اور بدعملی سکھادیتے ہیں۔

اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص اس دُعا کو پڑھے گا اور خدا کی ربوبیت، ملکیت، الوہیت کو ذہن میں رکھے گا وہ ضرور ایسے وساوس سے بچ جائے گا

وسوسہ انداز چپکے سے ایک شوشہ چھوڑ دیتے ہیں اور کمزور آدمی کو ایسی جگہ سے پکڑتے ہیں کہ جہاں ان کا وار اثر کر سکے۔

لدھیانہ میں ایک شخص میر عباس علی تھے وہ حضرت صاحب سے بہت خلوص رکھتے تھے حتّٰی کہ ان کی موجودہ حالت کے متعلق حضرت صاحب کو الہام بھی ہؤا تھا۔

لدھیانہ میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور محمد حسین کا مباحثہ ہوا تو میرعباس علی حضرت صاحب کا کوئی پیغام لے کر گئے۔ ان کے مولوی محمد حسین وغیرہ مولویوں نے بڑے احترام اور عزت سے ہاتھ چومے اور کہا آپ آلِ رسولؐ ہیں آپ کی تو ہم بھی بیعت کر لیں، لیکن یہ مغل کہاں سے آگیا۔ اگر کوئی مامور آتا تو سادات میں سے آنا چاہئے تھا۔ پھر کچھ تصوف و صوفیاء کا ذکر شروع کر دیا۔ میر صاحب کو صوفیاء سے بہت اعتقاد تھا۔ مولویوں نے کچھ اِدھر اُدھر کے قصّے بیان کر کے کہا کہ صوفیاء تو اِس قسم کے عجوبے دکھایا کرتے تھے اگر مرزا صاحبؑ میں بھی کچھ ہے تو کوئی عجوبہ دکھلائیں۔ ہم آج ہی ان کو مان لیں گے مثلاً وہ کوئی سانپ پکڑ کر دکھائیں یا اور کوئی اِسی قسم کی بات کریں۔ میر عباس علی کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی اور جب حضرت صاحبؑ کے پاس آئے تو کہا کہ حضور اگر کوئی کرامت دکھائیں تو سب مولوی مان لیں گے۔

حضرت صاحبؑ فرماتے ہیں کہ جب کرامت کا لفظ اُن کی زبان سے نِکلا تو اُسی وقت مجھے یقین ہوگیا کہ بس میر صاحب کو مولویوں نے پھندے میں پھنسالیا۔

اس پر حضرت صاحبؑ نے ان کو بہت سمجھایا مگر ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ تو وسوسہ انداز لوگ ایک سوراخ تلاش کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ انسان کے دل میں وسوسہ ڈال دیتے ہیں۔ جس سے اُسے ٹھوکر لگ جاتی ہے۔

قادیان میں بھی ایسے لوگ ہیں جن کا یہ کام ہے کہ لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالیں۔

بیعت بھی کی ہوئی ہے، اپنے آپ کو مخلص بھی قرار دیتے ہیں، مگر وسوسہ اندازی سے باز نہیں آتے۔ ایسے لوگوں سے محفوظ رہنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ انسان سچّے دل سے اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھے۔ جو پڑھے گا یقیناً اﷲ تعالیٰ اسے وسوسہ سے محفوظ رکھے گا ۔کیونکہ اﷲ تعالیٰ کسی کے اخلاص کو ضائع نہیں کرتا اور شیطان غالب نہیں آسکتا۔ شیطان کو اقتدار نہیں دیا گیا۔ پس جب تم سچّے دل سے اس سورۃ کو پڑھو گے اور اس کے مفہوم و مطلب کو ذہن میں رکھو گے تو شیطان بھاگ جائے گا، لیکن جو لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کریں گے۔ وہ وساوس میں پڑ جائیں گے اور ان پر شیطان کا قبضہ ممکن ہے۔ پس ہم سب رَبِّ النَّاسِۙ۔ مَلِكِ النَّاسِۙ۔اِلٰهِ النَّاسِ کی پناہ میں آتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو ہر قسم کے وساوس سے بچائے۔

(الفضل۵؍نومبر۱۹۱۸ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button