سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی صداقت کے متعلق پیر رشیدالدینؒ صاحب العَلم الثالث (عرف پیرجھنڈے والے) کی گواہی (قسط اوّل)
عِنْدِیْ شَھَادَاتٌ فَھَلْ مِنْ مُّؤْمِنٍ
نُوْرٌ یَّرَی الدَّانِیْ فَھَلْ مِنْ دَانِیْ
میرے پاس گواہیاں ہیں پس کوئی ایمان لانے والا ہے۔ ایک نور ہے جو نزدیک آنے والا اس کو دیکھتا ہے پس کیا کوئی نزدیک آنے والا ہے۔
ظَھَرَتْ شَھَادَاتٌ فَبَعْدَ ظُھُوْرِھَا
مَا عُذْرُکُمْ فِیْ حَضْرَۃِ السُّلْطَانِ
گواہیاں ظاہر ہو گئیں، سو ان کے ظہور کے بعداللہ تعالیٰ کی جناب میں کیا عذر کرو گے۔
امام الزمان مامورِ زمانہ سیدنا حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ نے جب دعویٰ ماموریت فرمایا تو روشِ مکفرینِ سابقہ کی طرح ہندوستان بھرسے جہاں بہت سے علماء نے آپؑ کے بارے میں کفر کے فتوے جاری کیے تو وہیں ہندوستان ہی کے بہت سےپِیر و علماء نے آپؑ کو اپنے دعویٰ میں حق پر تسلیم کیا۔انہی فقراء و گدی نشینوں میں ایک نام پیر رشیدالدین صاحبؒ کا بھی ہے۔گو کہ حضرت پیر صاحب چاچڑاں شریف والوں کی طرح انہیں بھی حضرت مسیحِ موعودؑ سے شرفِ ملاقات حاصل نہ ہو سکا۔لیکن ایک خط کے ذریعہ انہوں نے آپؑ سے اپنی عقیدت کا واضح اظہار کیا۔
پیر رشید الدین صاحبؒ کا خاندانی تعارف
یہ خاندان راشدی کہلاتاہےاور سید علی مکی کی اولاد میں سے ہے۔ چوتھی صدی ہجری میں اس خاندان کے ایک سو کے قریب افرادکاظمین(بغداد کے شمال میں واقع ایک قصبہ)سے ہجرت کرکے تبلیغ اور اشاعت اسلام کے لیے سندھ آ گئے اور سیوِستان ضلع دادو میں سکونت پذیر ہوئے۔ یہ گاؤں آگے چل کر سید علی مکی کے نام سے ’’ مک علوی‘‘کے نام سے مشہور ہوا اور ان کی اولاد کو لکیاری سادات کہا گیا۔ (راشدی خاندان کا شجرہ از فیض الدین شاہ صفحہ۳،۲)
راشدی خاندان کے مورث اعلیٰ سید محمد راشد شاہ ۱۱۷۰ھ میں پیر گوٹھ(ضلع خیرپور) میں پیدا ہوئے۔بوقتِ وفات (۱۲۳۳ھ) سیدمحمد راشد شاہ کے اٹھارہ بیٹے تھے۔ ان میں سے سید صبغت اللہ شاہ راشدی (پیر پگاڑا اول) اور سید محمد یاسین شاہ(پیرجھنڈے شریف اول) نے شہرت پائی۔سید محمدراشد شاہ کی دو نشانیاں تھیں۔ ایک پگڑی اور دوسرا جھنڈا۔ یہ دونوں نشانیاں افغانستان کے بادشاہ تیمور شاہ کے بیٹے زمان شاہ نے سیدمحمد راشد شاہ کی خدمت میں سندھ میں دینی خدمات اور تبلیغ اشاعت اسلام کی خاطر پیش کی تھیں۔آپ کی وفات کے بعد ان کے عقیدت مندوں نے فیصلہ کیا کہ پگڑی سید صبغت اللہ شاہ کے سر پر باندھ دی جائے اور جھنڈا سید محمد یاسین شاہ کو دے دیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور پھر یہ خاندان دو حصوں میں بٹ گیا۔ایک کی اولاد کو پیر پگاڑا کہا جانے لگا جب کہ دوسرے کی اولاد پیر جھنڈا(صاحبِ عَلم ) کہلائی۔ ( تذکرہ علمائے اہلِ حدیث جلد ۲صفحہ۶۰)
حضرت سید احمد شہیدبریلویؒ جب اپنے مجاہدین کے ساتھ صوبہ سرحد کی طرف روانہ ہوئے تو راجستھان کے راستے سے سندھ میں داخل ہوئے۔ سید صبغت اللہ شاہ (اول) کے افکار ونظریات کے باعث آپؒ نے رانی پور(خیرپور)میں سید صبغت اللہ شاہ راشدی سے ملاقات کی اوراپنے مجاہدین کے ساتھ مع سید اسماعیل شہید، پیر گوٹھ(سندھ) میں تقریباً تیرہ دن قیام فرمایا۔ (تذکرہ پیران پاگارہ، صفحہ۱۱۹، ۱۲۰)
دوسری جانب جھنڈے والے پہلے پیر سید محمد یاسین شاہ راشدی اپنے آبائی گاؤں پیر گوٹھ سے نقل مکانی کرکے ۱۲۶۸ھ میں موجودہ گاؤں پیر جھنڈو(حال ضلع مٹیاری)میں قیام پذیر ہوئے۔ ( تذکرہ مشاہیر سندھ جلد ۱ صفحہ ۲۶۷۔۲۶۸)یہ گاؤں ہالا اور سکرنڈ کے درمیان نیو سعیدآباد سے دومیل کے فاصلہ پر جانبِ نوابشاہ نیشنل ہائی وے(N5)کے اوپر واقع ہے۔
جبکہ جھنڈے والے دوسرے پیرسید فضل اللہ شاہ راشدی خاندانی اختلافات کی وجہ سے پیر پگاڑا کے حُرّوں کے ہاتھوں قتل کردیے گئے۔ آپ کی کوئی اولاد نہ تھی۔ان کی وفات کے بعد ۱۸۷۰ء میں ان کے بھائی سید رشید الدین شاہ راشدی پیر جھنڈو سوم(پیرصاحب العَلم الثالث) کی حیثیت سے مسند نشین ہوئے اور یہ وہی بزرگ ہیں جنہیں امامِ وقت سیدنا حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ کو ماننے کی توفیق ملی۔آپ کا شجرہ نسب اڑتیسویں (۳۸)پشت میں حضرت علیؓ سے جاملتا ہے۔آپؒ کی وفات ۱۸۹۹ء میں ہوئی۔
آپ ایک منکسر المزاج،صاحبِ کشف و الہام بزرگ تھے۔آپ کی شائع ہونے والی سوانح عمری میں آپ کے بعض الہامات کا بھی ذکرملتا ہے۔ اپنے بزرگوں کی طرح بدعات، پیرپرستی اور پیروں کی قبروں پر حاجت روائی کی دعا کرنے کے سخت خلاف تھے، پیر صاحب کو یہ خوف بھی تھا کہ میری وفات کے بعد میرے مرید ایسے کام نہ کریں جن سے قبر پرستی کا شبہ پیدا ہو۔ اسی خوف کی وجہ سے آپ نے ایک بڑے میدان جہاں ریوڑوں کی زیادہ آمدورفت تھی اپنی اولاد کو وہاں کھڑے ہو کر نصیحت کی کہ میری قبر یہاں بنانا مگر تم لوگ ایسا نہیں کرو گے۔یہ بات کرنے کا مقصد یہ تھا کہ میری قبر گمنام جگہ پر ہو اور لوگ اس سے بے خبر رہیں۔(ملفوظات پیر سائیں بیعت دھنی پیر رشید الدین شاہ ثالث جھنڈے وارو،ناشر پیر وہب اللہ شاہ راشدی، صفحہ۱۶۳)
آپ کی پیش خبری کے مطابق اولاد نے آپ کو اس جگہ تو نہ دفنایا جس کی آپ نے وصیت کی تھی لیکن جس جگہ دفنایا وہاں آپ کی اولاد نے سادہ مٹی کی قبر بنائی اور کسی کو چڑھاوے چڑھانے کی اجازت نہ دی۔ دیگر پیروں کی اولاد سے آپ کی اولاد کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ آپ کی اولاد نے آپ کی قبر کچی ہی رکھی اورآج بھی آپ کی قبر کچی اور کتبہ کے بغیر ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا اپنی تصنیفات میں پیر صاحب العَلم کا ذکر فرمانا
اگرچہ خدائی مامورین کو کسی تصدیق یا گواہی کی حاجت نہیں ہوتی کیونکہ ان کی مؤیّد و گواہ خود خداتعالیٰ کی ذات ہوتی ہے لیکن عوام الناس کی ہدایت کے واسطے خداتعالیٰ خواص میں سے بھی بعض کو ہدایت کے سامان عطا فرماتا ہے۔چنانچہ انہی خواص میں سے ایک پیر رشیدالدین صاحبؒ بھی تھے جنہیں حضرت مسیحِ موعودؑ نےمشاہیر مشائخ اور علماء راسخین میں سے نیز علومِ عربیہ میں مہارت تامہ رکھنے والے بزرگ قرار دیا۔سیدنا حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ نے اپنی تحریرات میں چھ مختلف مواقع پرپیر صاحب العَلم کا ذکر فرمایا ہے۔
اول مرتبہ حمامۃالبشریٰ میں پیر صاحب کا ذکر فرمایا۔ حضورؑنے یہ عربی تصنیف ۱۸۹۳ء میں تحریر فرمائی اور ۱۸۹۴ء میں اس کی اشاعت ہوئی۔حضورؑنے فرمایا:’’اور ان کے اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اُن کے بڑے مشائخ میں سے ایک نے یہ کہا ہے کہ مَیں نے رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا اور آپ سے اس شخص (یعنی مؤلف کتاب ہٰذا) کے بارہ دریافت کیا کہ آیا وہ شخص کا ذب ہے یا صادق؟تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ سچا ہے اور اللہ کی طرف سے ہے۔ لیکن اللہ اس سے ٹھٹھا کر رہا ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ تو جان لے کہ اس بزرگ نے اپنے دو قاصد میری طرف بھیجے۔ ان میں سے ایک کا نام خلیفہ عبداللطیف اور دوسرے کا نام خلیفہ عبداللہ عرب ہے۔ وہ میرے پاس فیروز پور مقام میں آئے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں آپ کی طرف ہمارے بزرگ صاحب العلم پیر جھنڈے والے نے یہ کہہ کر بھیجا ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کی زیارت کی اور میں نے حضورﷺ سے آپؑ کے بارے میں استفسار کیا اور عرض کی کہ یا رسول اللهؐ ! مجھے بتائیے کہ کیا وہ جھوٹا مفتری ہے یا سچا ؟ تورسول اللہﷺ نے فرمایا إِنَّهُ صَادِقٌ وَمِنْ عِنْدِ اللّٰهِ، یعنی وہ سچا ہے اور منجانب اللہ ہے۔تو مَیں نے پہچان لیا کہ آپ واضح حق پر ہیں۔ اور اس کے بعد ہم آپ کے بارے میں کوئی شک نہیں کرتے اور نہ آپ کی شان میں ہمیں کوئی شبہ ہے۔ اور ہم آپ کے حکم کے مطابق عمل کریں گے، اگر آپ ہمیں حکم دیں کہ امریکہ کے علاقے میں چلے جاؤ، تو ہم وہاں چلے جائیں گے اور ہمیں اپنے معاملہ میں کوئی اختیار نہ ہوگا اور ان شاء اللہ آپ ہمیں بشاشت کے ساتھ اطاعت گزاروں میں پائیں گے۔
یہ وہ بات ہے جو اُس (بزرگ) کے دونوں پیغام لانے والوں نے کہی اور یہ دونوں ہی اپنی قوم کے شرفاء میں سے ہیں۔ بلکہ وہ شخص جس کا نام عبداللہ عرب ہے، مشہور تاجروں میں سے ہے۔ اور اللہ نے اُسے کثرتِ اموال اور باقی رہنے والے اعمالِ صالحہ سے نوازا ہے اور میرا خیال ہےکہ وہ نیک آدمی ہے جھوٹ نہیں بولتا اور اُس نے اللہ کی راہ اور مہماتِ دینیہ میں بہت سا مال خرچ کیا ہے اور اُسے اعلائے کلمہ اسلام کی بہت فکر ہے اور وہ میرے پاس محض صدق قدم اور اخلاص کے ساتھ آیا تھا اور وہ ( دونوں ) نہیں آئے جب تک کہ ان کے شیخ نے ان کو ( میرے پاس ) نہیں بھیجا۔ پس تو دیانت اور انصاف کے ساتھ سوچ! کہ کیا ان کے شیخ نے انہیں اتنے دور کے علاقے سے راستے کے اخراجات اور موسم سرما میں سفر کی صعوبتیں اُٹھانے کے بعد اس لئے بھیجا تھا کہ وہ دونوں اس (شیخ) کی طرف سے مزاح کی بات پہنچائیں اور وہ دونوں خلاف سنت نیکو کاروں کو ایذا دیں ؟ وہ دونوں زندہ موجود ہیں اور شیخ صاحب بھی زندہ موجود ہیں۔ پس تو ان سے اور ان کے شیخ سے پوچھ لے اگر تو شک کرنے والوں میں سے ہے۔‘‘ ٭اس بزرگ کا نام پیر جھنڈے والا ہے اور وہ سندھ کے علاقے کے رہنے والے ہیں اور میں نے سنا ہے کہ وہ اس علاقے کےمشہور مشائخ میں سے ہیں اور ان کے مریدوں کی جماعت ایک لاکھ کے قریب بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ منہ (اردو ترجمہ حمامۃ البشریٰ روحانی خزائن جلد ۷صفحہ۳۱۰،۳۰۹)
دوسری بار حضورؑ نے پیرصاحب العَلم کا ذکر اپنی تصنیف انجامِ آتھم کے ضمیمہ میں فرمایا۔ مذکورہ تصنیفِ لطیف حضورؑ نے۱۸۹۶ء میں تحریر فرمائی۔اس تصنیف میں حضورؑ نے پیر صاحب مذکور کی ایک تحریر کا بھی ذکرفرمایا جوانہوں نے عربی زبان میں لکھ کر حضورؑ کی خدمت میں بھجوائی تھی۔آپؑ پیر رشید الدین صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’پیر صاحبُ العَلَم ہیں جو بلادِ سندھ کے مشاہیر مشائخ میں سے ہیں۔ جن کے مرید ایک لاکھ سے کچھ زیادہ ہوں گے۔ اور باوجود اس کے وہ علوم عربیہ میں مہارت تامہ رکھتے ہیں۔ اور علماء راسخین میں سے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے جو میری نسبت گواہی دی ہے وہ یہ ہے۔’’ اِنّی رَأیتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم وَاستَفسَرتُہ فِی اَمْرِکَ وَقُلتُ بَیِّن لِی یَارَسُولَ اللّٰہِ اَ ھُوَ کَاذِبٌ مُفتَرِیٌّ اَوْ صَادِقٌ۔ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’اِنَّہ صَاِدقٌ وَمِنْ عِنْدِاللّٰہِ۔‘‘ فَعَرَفْتُ اَنَّکَ عَلیٰ حَقٍّ مُبِیْنٍ۔ وَبَعْدَ ذٰلِکَ لَانَشُکُّ فِیْ اَمْرِکَ وَلَا نَرْتَابُ فِیْ شَانِکَ وَنَعْمَلُ کَمَا تَأمُرْ۔ فَاِنْ اَمَرْتَنَا اَنِ اذْھَبُوْا اِلیٰ بِلَاِد اَمریکہ فَاِنَّا نَذْھَبُ اِلَیْھَا وَمَا تَکُوْنُ لَنَا خِیرَۃٍ فِی اَمْرِنَا وَسَتَجِدُنَا اِنْ شَاءَ اللّٰہِ مِنَ الْمُطَاوِعِینَ۔‘‘ یعنی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم کشف میں دیکھا پس میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ شخص جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے کیا یہ جھوٹا اور مفتری ہے یا صادق ہے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ صادق ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ پس میں نے سمجھ لیا کہ آپ حق پر ہیں۔ اب بعد اس کے ہم آپ کے امور میں شک نہیں کریں گے اور آپ کی شان میں ہمیں کچھ شبہ نہیں ہوگا اور جو کچھ آپ فرمائیں گے ہم وہی کریں گے۔ پس اگر آپ یہ کہو کہ ہم امریکہ میں چلے جائیں تو ہم وہیں جائیں گے۔ اور ہم نے اپنے تئیں آپ کے حوالہ کردیا ہے اور ان شاء اللہ ہمیں فرمانبردار پاؤ گے۔
یہ وہ باتیں ہیں جو ان کے خلیفہ عبد اللطیف مرحوم اور شیخ عبد اللہ عرب نے زبانی بھی مجھے سنائیں اور اب بھی میرے دلی دوست سیٹھ صالح محمد حاجی اللہ رکھا صاحب جب مدراس سے ان کے پاس گئے تو انہیں بدستور مصدق پایا۔ بلکہ انہوں نے عام مجلس میں کھڑے ہوکر اور ہاتھ میں عصا لے کر تمام حاضرین کو بلند آواز سے سنا دیا کہ میں ان کو اپنے دعویٰ میں حق پر جانتا ہوں اور ایسا ہی مجھے کشف کی رو سے معلوم ہوا ہے اور ان کے صاحبزادہ صاحب نے کہا کہ جب میرے والد صاحب تصدیق کرتے ہیں تو مجھے بھی انکار نہیں۔‘‘(ضمیمہ رسالہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد۱۱صفحہ۳۴۴)
تیسری مرتبہ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سراجِ منیر میں پیر صاحب العَلم کا اپنی تحریر میں ذکر فرمایا ہے۔یہ تصنیف لطیف مئی ۱۸۹۷ء میں شائع ہوئی۔حضورؑ نے فرمایا:’’و شیخے دیگر پیر صاحب العَلم است کہ برائے من خواب دیدند و دربارہ من از آنحضرتﷺ در مجلسے عظیم شہادت دادند و سوئے من آن مکتوبے نوشتند کہ در ضمیمہ انجامِ آتھم از نظر آن مکرم گذشتہ باشد۔‘‘(سراجِ منیر، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ۹۳)ترجمہ:اور ایک بزرگ پیر صاحب العَلم ہیں کہ جنہوں نے خواب میں حضورﷺ سے میرےبارے میں استفسار کیا اور ایک مجلس میں ایک عظیم شہادت دی اور میری طرف ایک مکتوب لکھا کہ جس کا ذکر مَیں ضمیمہ انجام آتھم میں کر چکاہوں۔
ازاں بعد ۱۵؍دسمبر۱۹۰۰ء کو شائع ہونے والی تصنیف مبارک اربعین میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے پیرصاحب العَلم کا ذکر کچھ یوں فرمایا:’’بہتوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم نے خواب میں دیکھا اور آپؐ نے فرمایا کہ یہ شخص حق پر ہے اور ہماری طرف سے ہے۔ چنانچہ پیر جھنڈےوالا سندھی نے جن کے مرید لاکھ سے بھی کچھ زیادہ ہوں گے یہی اپنا کشف اپنے مریدوں میں شائع کیا۔‘‘(اربعین نمبر۴، روحانی خزائن جلد۱۷صفحہ۴۶۳)
اور پھر ۳۰؍اپریل ۱۹۰۷ء کو شائع ہونے والی تصنیف حقیقۃ الوحی میں خدائی نشانات و تائیدات الٰہیہ کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ نے پیر صاحب العَلم کے متعلق فرمایا:’’۱۶۔ نشان۔ میری نسبت پیر صاحب العلَم سندھی نے جس کے ایک لاکھ مُرید تھے اور وہ اپنی نواح میں مشہور بزرگ تھے خواب میں دیکھا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ سچا ہے اور ہماری طرف سے ہے۔ ‘‘(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ۲۱۰)
کچھ آگے چل کر حضورؑ نے مزید فرمایا:’’چونکہ خواجہ غلام فرید صاحب پیر صاحب العَلم کی طرح پاک باطن تھے اس لئے خدا نے ان پر میری سچائی کی حقیقت کھول دی۔‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ۲۱۵)
پیر صاحب کے خلیفہ حاجی عبداللطیف صاحب کا ضمناً ذکر
چونکہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑنے پیر رشید الدین صاحب کے تعلق میں دو مرتبہ خلیفہ عبداللطیف صاحب کا ذکر کیا ہے لہٰذا مناسب ہو گا کہ اس موقع پر ضمناً عبداللطیف صاحب کا بھی ذکرکر دیاجائے۔
راشدی خاندان کی کتب میں پیر صاحب کے خلیفہ حاجی عبداللطیف صاحب کا کثرت سےتذکرہ دستیاب نہیں ہوتا۔محض پیر رشید الدین صاحب کی ملفوظات میں حاجی صاحب مذکور کا ذکر ملتا ہے۔ایک مرتبہ پیر رشید الدین صاحب نے حاجی صاحب کو فرمایا کہ آپ اور رشداللہ شاہ (بیٹا پیر رشیدالدین صاحب)میرے لیے برابر ہو۔اسی طرح جب پیررشیدالدین صاحب نے بیعت نامہ تیار کروایا تو اس وقت بیعت نامہ پڑھنے کے لیے سیدرشد اللہ صاحب کو حکم دیا۔چونکہ حاجی عبد اللطیف صاحب اس وقت درگاہ پر موجود نہیں تھے اس لیے پیر صاحب نے غائبانہ حاجی صاحب کی طرف سے خودبیعت کی اوربعد ازاں دوسرے لوگوں نے بیعت کی۔ پیر صاحب اپنے پہلے بمبئی کے سفر میں بھی حاجی صاحب کو ساتھ لے کر گئے۔ جب واپس لَوٹ رہے تھے تو پیر صاحب کے مریدوں کا ہندوؤں سے جھگڑا ہو گیا اور ہندوؤں نے پیر صاحب کے چھ لوگوں کو قید کر لیا تو اس وقت حاجی عبداللطیف صاحب نے پیر صاحب کو کہا کہ آپ یہاں سے قریب اپنے مریدوں کے پاس تشریف لے جائیں۔ میں ان مریدوں کو رہا کر والاؤں گا۔ جتنی رقم بھی دینی پڑی میں اس کا بندوبست کر لوں گا۔ اسی سفر کےدوران ہی پیر صاحب نے حاجی صاحب کو دستارِ خلافت دی۔ چنانچہ آپ کو خلیفہ کہا جانے لگا۔ حاجی عبداللطیف صاحب کی شادی بھی پیر صاحب نے خود کروائی تھی۔پیر صاحب کے ملفوظات میں ایک مراسلہ بھی ملتا ہے جو پیر صاحب نے حاجی صاحب کو لکھا اور اس خط میں آپ نے ایک مرید کی سفارش کی ہے کہ اس کی مشکل حل کی جائے۔ (واقعات ماخوذ ازملفوظات پیر سائیں بیعت دھنی پیر رشید الدین شاہ ثالث جھنڈے وارو،ناشر پیر وہب اللہ شاہ راشدی،صفحہ۵۲ تا ۱۷۶)
جیسا کہ ان واقعات سے معلوم ہوتاہے کہ پیر صاحب آپ پر بہت اعتماد کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب پیر صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کو خط لکھا تواپنے سب سے قابلِ اعتماد ساتھی خلیفہ حاجی عبداللطیف صاحب کو حضرت اقدسؑ کی خدمت میں بھجوایا۔
اخبار الحکم میں پیر رشید الدین صاحب کے خط اور کشف کے متعلق اعلان کی اشاعت
سلسلےکے اخبار الحکم میں۱۰؍مارچ ۱۹۰۰ء کی اشاعت میں صفحہ ۴پر ’’کشف‘‘کے عنوان سے جلی الفاظ میں ایک اعلان شائع ہوا۔اس اعلان میں حضرت پیر صاحب العَلم کے دیکھے گئے کشف کا ذکر کیا گیا ہے۔
حضرت مسیحِ موعودؑ سے متعلق پیر صاحب العَلم کی تصدیق اور مولوی حسن علی صاحبؓ (مسلم مشنری) کی گواہی
حضرت مولوی حسن علی صاحبؓ(مسلم مشنری)بیعت سے قبل ہی اسلام کے لیے ایک خاص درد رکھتے تھےاور تبلیغِ اسلام کی وجہ سے ہندوستان میں مسلم مشنری کہلاتے تھے۔آپؓ ۱۱؍جنوری ۱۸۹۴ء کو حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بیعت سے مشرف ہوئے۔ اس سے قبل۱۸۸۷ء میں بھی قادیان حاضر ہوکر حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی صحبت سے مستفیض ہو چکے تھے۔
۱۸۹۰ء کی دہائی میں حضرت مولوی حسن علی صاحبؓ نےحضرت حاجی عبداللہ عرب صاحب اور مسٹر محمد الیگزینڈر رسل ویب(پہلے امریکی احمدی) کے ساتھ مل کر اشاعت و تبلیغِ اسلام کی خاطر ہندوستان بھر میں چندہ جمع کرنے کا ارادہ کیا۔اہلِ ہندوستان نے ادائیگی چندہ کے لیے وعدے بھی کیے لیکن تینوں افراد کو مطلوبہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔اس مہم میں حاجی عبداللہ عرب صاحب کا لاکھوں روپیہ خرچ بھی ہوا۔اس ناکامی پر حاجی عبداللہ عرب صاحب نے اپنے پیر صاحب العَلم (جن کےہندوستان بھر میں مرید پھیلے ہوئے تھے) سے رابطہ کیا۔
چنانچہ حضرت مولوی حسن علی صاحبؓ نےاپنی کتاب ’’تائیدِ حق‘ (اشاعت اول۱۸۹۷ء )میں لکھا:’’جب حاجی عبداللہ عرب صاحب چندہ کے فراہم نہ ہونے سے سخت بےچینی میں مبتلاہوئے تو اپنے پیر کی طرف متوجہ ہوئے اور حضرت سید اشہد الدین صاحب(پیررشیدالدین۔ناقل) کی خدمت میں جا کرعرض کیا۔ حضرت پیر صا حب نے استخارہ کیا۔معلوم ہوا کہ انگلستان اورامریکا میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے روحانی تصرفات کی وجہ سے اشاعت ہو رہی ہے۔ان سے دعا منگوانے سے کام ٹھیک ہوگا۔ دوسرے دن حاجی صاحب کو پیر صاحب نے خبر دی۔ا س پر حاجی صاحب نے بیان کیا کہ جناب مرزا غلام احمد صاحبؑ کی علمائے پنجاب و ہند نے تکفیر کی ہے۔ ان سے کیونکر اس بارے میں کہا جائے۔ اس بات کو سن کر شاہ صاحب نے بہت تعجب کیا اور دوبارہ اللہ کی طرف متوجہ ہوئے اور استخارہ کیا۔ خواب میں جناب حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو دیکھا اور حضور نے فرمایا کہ مرزا غلام احمد اس زمانہ میں میرا نائب ہے۔ وہ جو کہے وہ کرو۔ صبح کو اٹھ کر شاہ صاحب نے کہا کہ اب میری حالت یہ ہے کہ میں خود مرزا صاحب کے پاس چلو ں گا اور اگر وہ مجھ کو امریکا جانے کو کہیں تو میں جاؤں گا۔ جب کہ حاجی عبداللہ عرب صاحب نے اور دوسرے صاحبوں نے خواب کا حال سنا اور پیر صاحب کے ارادہ سے واقف ہوئےتو مناسب نہ سمجھا کہ پیر صاحب خود قادیان جائیں۔سب نے عرض کیا کہ آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں۔آپ کی طرف سے کوئی دوسرے صاحب حضرت مرزا صاحب کے پاس جا سکتے ہیں۔ چنانچہ پیر صاحب کے خلیفہ عبداللطیف صاحب اور حاجی عبداللہ عرب صاحب قادیان گئے اور سارا قصہ بیان کر کے خواستگار ہوئے کہ حضرت اقدس اس طرف متوجہ ہوں اور اشاعتِ اسلام کا کام امریکامیں عمدگی سے چلنے لگے۔ بیان مذکورہ بالامَیں نے خود حاجی عبد اللہ عرب صاحب سے سنا ہے اور جیساکہ میں پہلے لکھ آیا ہوں حاجی صاحب کو مَیں ایک نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا با خدا آدمی سمجھتا ہوں۔ اس لئے اس خبر کو جھوٹ کہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ جس حالت میں مرزا صاحب ایک بد نام شخص ہورہے ہیں اورجھنڈے والےپیر صاحب ایک نامی آدمی ہیں۔ عبداللہ عرب صاحب کو کوئی وجہ نہیں ہےکہ اپنے مرشد کے بارے میں ایک ایسا قصہ تصنیف کریں جس سے ظاہراً ان کا نقصان ہی نقصان ہے۔‘‘(رسالہ تائیدِ حق مصنفہ مولوی حسن علی صاحب مسلم مشنری،صفحہ۸۶،۸۵ مطبع پنجاب پریس سیالکوٹ)
حضرت سیٹھ اسماعیل آدم صاحبؓ کی شہادت
حضرت سیٹھ اسماعیل آدم صاحبؓ میمن قوم سے تعلق رکھنے والے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ایک نہایت مخلص اور فدائی صحابی تھے۔آپؓ کا تعلق بمبئی سے تھا۔قیامِ پاکستان کے بعد کراچی میں بودو باش اختیار فرمالی اور یہیں وفات ہوئی۔
آپؓ کی وفات پر مکرم مولانا عبدالمالک خان صاحب نےآپ کے بارے میں تحریر کردہ ایک مضمون میں کچھ یوں ذکر فرمایا:’’حضرت سیٹھ صاحب مرحوم کے والد سند ھ کے پیر جناب رشیدالدین صاحب کے مرید تھے۔جو جھنڈے والے پیر کے نام سے مشہور تھے۔بمبئی میں ان کے بہت سے مرید تھے۔اس لئے آپ ہر سال وہاں تشریف لے جاتے۔ایک موقع پر جبکہ سیٹھ صاحب بالکل نو عمر تھے،آپ کے والد صاحب نے جناب پیرصاحب کی خدمت میں عرض کی کہ میرے اس بچے کی بیعت لے لیں۔اس موقع پر سیٹھ صاحب مرحوم نے جناب پیر صاحب سے پوچھا کہ میرے بیعت کرنے سے مجھے فائدہ ہو گا یا آپ کو۔ان کے اس کہنے پر جناب پیر صاحب نے سیٹھ صاحب کو سر سے پاؤں تک دیکھااور توجہ فرما کر پانی لانے کا حکم دیا۔جب پانی لایا گیا تو آپ نے دم کر کے سیٹھ صاحب کو پینے کے لئے دیا اور آپ کے والد صاحب کو کہا کہ تمہارا یہ لڑکا ایک بڑے بزرگ انسان کی بیعت کاشرف حاصل کرے گا۔‘‘(الفضل ۲۹؍جنوری۱۹۵۸ء صفحہ ۴کالم ۳،۲)
(باقی آئندہ)