جبلِ اُحد سے ربوہ کی پہاڑیوں تک۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی ربوہ کی خوبصورت یادیں
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے سلسلہ وار خطبات گزشتہ کچھ سال سے ہمارے تخیلات کو سرزمینِ عرب میں لے جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ جن سے بات ہوئی وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح خطبے کے دوران وہ خود کو نبی پاکﷺ کے قرب میں محسوس کرتے ہیں اورخود کو بھی ان صحراؤں اور ان پہاڑوں اور ان دَرّوں کے درمیان ٹہلتے ہوئے پاتے ہیں۔
تو یہ خطبات جہاں ہمیں تاریخِ اسلام کے بالکل ابتدائی اور کلیدی دور سے متعارف کرواتے چلے جارہے ہیں، وہاں حضرت نبی پاکﷺ کے قرب کا احساس دلانے کا کام بھی کررہے ہیں۔
ایسے میں کہ آپ نے یہ خطبات سن رکھے ہوں اور آپ سرزمینِ حجاز میں بالمشافہ حاضری کا شرف بھی پالیں، تو اس کی تاثیر الگ طرح سے طلسماتی ہے۔
میں نے ایک خوش گھڑی میں مشاہدہ کیا کہ حضرت صاحب کی خدمت میں مکہ اور مدینہ اوران کے مابین علاقوں کا ذکر ہوا تو حضرت صاحب نے اسے بے انتہا محبت، توجہ اور انہماک سے سنا۔ بلکہ تفصیلات بتائیں جو زائر کو معلوم نہ تھیں۔ اور یہ ذکر ایسے رنگ میں تھا کہ مجھے احساس ہوا کہ جس طرح ہم سننے والوں کو یہ خطبات کسی اور دنیا میں لے جاتے ہیں، حضرت صاحب جو یہ خطبات ارشاد فرماتے ہیں خود اس مقدس سرزمین کو بے حد قریب سے محسوس فرماتے ہیں۔
جبلِ اُحد کے ذکر پر حضور نے اس کی جو تفصیلات بیان فرمائیں وہ حیران کن تھیں۔ ایسے جیسے حضور جبل احد کے پیچھے سے کفارِ مکہ کی فوج کو آتا دیکھ رہے ہوں۔ اور جیسے جبلِ روما پر متعین تیرانداز اپنی ترتیب سمیت آپ کی نظروں کے سامنے ہوں۔ زائرِ حرمین نے عرض کی کہ جہاں جبلِ اُحد بہت بلند ہے، وہاں جبلِ روما تو بہت ہی چھوٹا اور پست قامت ہے جہاں تیر انداز تعینات کیے گئے۔ فرمایا:
’’دشمن کا لشکر اُحد کی دوسری طرف سے مدینہ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ یہ بھی آنحضورﷺ کی تدبیر تھی کہ اس لشکر کے ابھرنے پر اس نشیبی مقام سے اس لشکر کے حملے کو پسپا کردیا جائے۔ خود آپﷺ قریبی علاقے میں ہی تھے جہاں سے آپ ؐ کارروائی کا جائزہ لے سکیں اور جنگی تدابیر میں رہنمائی فرماتے رہیں۔‘‘
دیگر مقامات جن کا ذکر آتا رہا، حضرت صاحب ان کی کیفیت بیان فرماتے رہے۔ اور پھر خود جبلِ اُحد و جبلِ روما کا تذکرہ فرمانے لگے۔
’’پہاڑ تو اپنی اصل حالت میں ہی قائم رہتے ہیں۔ ہاں ان پر جمی مٹی کی تہیں وقت کے ساتھ اور وہاں سے اگر لوگوں کا گزر ہو تو کم بھی ہو جاتی ہے بلکہ بعض اوقات ختم بھی ہوجاتی ہے اور نیچے سے نئی پتھریلی سطح نکل آتی ہیں۔ ‘‘
یہ فرما کر جیسے حضرت صاحب کا تخیل حجاز کے پہاڑوں سے حضرت صاحب کے مولِد ربوہ کی پہاڑیوں کی طرف تشریف لے گیا۔ وہ ربوہ جو حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھوں سے ظاہر ہونے والا ایک معجزہ ہے۔ وہ ربوہ جو بنجر اور ویران اور ہر لحاظ سے غیر ذی زرع خطہ زمین تھا۔ جہاں شورزدہ مٹی اور سنگلاخ پہاڑیوں کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا۔ جسے دیکھ کر سب حیران تھے کہ ہنستے بستے قادیان سے ہجرت کی تو لاہور کے پررونق شہر میں آباد ہوئے۔ اور اب اچانک اس بنجر اور بے آب و گیاہ زمین پر مرکزِ احمدیت؟ یہ ایسا سوال تھا جس کا جواب اللہ تعالیٰ نے صرف حضرت مصلح موعودؓ، جنہیں خدانے خود اولالعزم قراردیا، کے دل میں ڈال دیا ہوا تھا۔
اور پھر وقت نے دیکھا کہ جو حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تھا کہ یہ عشق و وفا کے کھیت کبھی، خوں سینچے بغیر نہ پنپیں گے، تو ربوہ کو حضرت مصلح موعودؓ نے دعاوٴں سے سینچا اور آج یہ گل و گلزار بھی ہے۔ جہاں کبھی پینے کے قابل پانی بھی نہ تھا، وہاں دنیا کی ہر جدید سہولت موجود ہے۔
تو جبلِ اُحد سے حضرت صاحب کا مبارک تخیل اب اس پاک بستی میں تھا، جس کو آباد ہوتا حضرت صاحب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ حضرت صاحب کی ولادت ۱۹۵۰ میں ہوئی اور یوں ربوہ بھی حضرت صاحب کے ساتھ ہی اپنے بچپن، نوجوانی، جوانی اور موجودہ عمر تک پہنچا ہے۔ اور یوں حضرت صاحب نے ربوہ کا معجزہ رونما ہوتے ہر مرحلے میں مشاہدہ فرمایا ہے۔ اور پھر خلیفة المسیح کے منصب پر متمکن ہونے سے پہلے تو تزئین ربوہ کمیٹی کے نگران ہونے کے باعث حضرت صاحب اس شہر کو سبزہ زار اور گلزار بنانے میں خود کلیدی کردار ادا فرما چکے ہیں۔ فرمایا:
’’ہم چھوٹے تھے تو گول بازار کے سامنے باب الابواب تک پہاڑی اور اس میں ایک دَرّہ تھا۔ ہم اس دَرّے سے گزر کر سکول جایا کرتے تھے۔
’’افضل برادرز کی دوکان تب بھی تھی اور اس کے سامنے کُھلا میدان تھا۔ نہ کمیٹی کا دفتر تھا نہ مسجد بلال۔ کچھ بھی نہیں تھا۔ دارالصدر سے ہمارے گھرکی طرف سے آئیں تو ٹی آئی سکول پہنچنے کا مختصر ترین راستہ اسی پہاڑی اور دَرّے میں سے ہو کر جاتا تھا۔
’’ہم دَرّے سے اتر کر ریلوے لائن کراس کر کے سکول چلے جاتے۔ جب سائیکل ملا تو چونکہ یہ شارٹ کٹ تھا، سائیکل سے اتر کر دَرّے سے ہوتے ہوئے آگے پھر سائیکل چلاتے سکول یا کالج پہنچ جایا کرتے۔
’’جہاں اب صدر عمومی کا دفتر ہے وہاں جلسے کے دنوں میں بازار لگتا تھا۔ مچھلی، پکوڑے، کھانے پینے کی چیزوں کے سٹال بڑے بڑے سائبانوں کے نیچے لگتے تھے۔
’’جب دارالعلوم اور دارالنصر ابھی پوری طرح آباد نہیں ہوئے تھے، بلکہ دارالعلوم تو تقریباً بے آباد تھا، تب ٹی آئی کالج سے ڈگری کالج والی جگہ تک تقریباً میدان ہی نظر آتا تھا۔
’’پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ جب کالج کے پرنسپل تھے، آپ نے کالج کے سامنے باسکٹ بال کے کورٹ بنوائے۔ وہاں نیشنل سطح کے ٹورنامنٹ ہوتے تھے۔ ربوہ کی بھی اپنی ٹیمیں تھیں۔ لاہور سے کچھ غیر از جماعت بھائیوں اور ان کے عزیزوں نے مل کر Brothers’ team بنائی ہوئی تھی۔ بڑی اچھی ٹیم تھی اور باسکٹ بال کے کھلاڑی حضورؒ کے لاڈلے تھے۔
’’جب ٹورنامنٹ ہوتا اور ٹی آئی کالج کی ٹیم جیت جاتی تواس خوشی میں کالج میں ایک دن کی چھٹی دی جاتی تھی۔
’’پھاٹک کے آس پاس بھی جو اب دکانیں ہیں، یہ نہیں تھیں۔ البتہ افضل برادرز سے ریلوے پھاٹک کی طرف جاتے ہوئے ایک کشمیری صاحب کا ایک کچا سا ڈھابہ تھا اور چائے خانہ تھا۔ اور اس کے سامنے بھی ایک کچا ساچائے خانہ تھا جہاں لوگ بازار آتے جاتے رک کر چائے پی لیا کرتے تھے۔
’’اُس زمانے میں تو ہر طرف مٹی ہی مٹی تھی۔ اسی پر لوگوں کے چلنے سے راستے بن گئے ہوئے تھے۔ پھر سڑکوں کا خاکہ اس طرح ابھرا کہ پلاننگ کے مطابق جو سڑکیں تھی ان پر موٹے پہاڑی پتھران راستوں پر بچھا دیے گئے۔ پھر بجری وغیرہ سے سڑکوں کی کچھ شکل نکل آئی۔
’’سڑکیں بننے کے بعد شارٹ کٹ راستوں کی بجائے سڑکوں کا استعمال شروع ہوا۔ اور کچھ درخت لگنے شروع ہوئے۔ ورنہ تو مٹی ہی مٹی تھی۔ اب تو ربوہ جتنا سرسبز ہو گیا ہے، اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
’’ہمارے اَبّا کے پاس ایک Volkswagen Microbus تھی۔ وہ اس پر دارالصدر جنوبی کے راستے فیکٹری ایریا میں واقع اپنے کارخانے جایا کرتے تو باوجود آہستہ اور احتیاط سے چلنے کے، خوب دھول اڑا کرتی۔ ایک مرتبہ ایک صاحب نے ابا کو خط لکھا کہ مانا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے ربوہ کی مٹی کو بابرکت فرمایا ہے، مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آپ ہمارے گھروں کو دھول سے بھر دیں۔ ابّا پھر اور بھی محتاط ہو گئے۔
’’دار العلوم اور دارالنصر بنتے ہوئے تو مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔ بلکہ دارالصدر بھی جہاں ہمارا مکان تھا وہاں بھی بہت سے مکان میرے دیکھتے دیکھتے بنے۔ وہاں میدان میں بلکہ بہت سے گھروں کی بنیادوں میں تو ہم کھیلا کرتے تھے۔‘‘
اس کے بعد مجھے ارشاد ہوا تو میں نے اپنے معاملات پیش کرنا شروع کیے۔ ایک معاملہ ایسی تاریخی دستاویزات کا تھا جو حال ہی میں شعبہ آرکائیو کی تحویل میں آئی تھیں۔ ان میں ایک خط حضرت صاحب کی والدہ حضرت ناصرہ بیگم صاحبہ کا تھا۔ میں اس کے مندرجات بیان کررہا تھا کہ فرمایا:
’’میری والدہ کی تحریر بہت خوشخط بہت پختہ تھی۔ دکھاؤ میں بتاتا ہوں کہ یہ انہی کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے یا کسی اور سے لکھوایا ہوا ہے۔‘‘
خط پیش کیا تو حضور نے تمام مندرجات خود پڑھے اور فرمایا: ’’ہاں!یہ انہی کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔ بہت اچھی تحریر تھی اُن کی۔‘‘
الحمدللہ، اس جملے کے ساتھ ہم ایک مرتبہ پھر ربوہ میں (بلکہ کچھ کچھ قادیان میں بھی) موجود تھے۔ اور حضور تذکرہ فرمارہے تھے حضرت مصلح موعودؓ کے تعلیمِ نسواں کو فروغ دینے کا، جو بجائے خود جماعت پر ایک بہت بڑا احسان ہے۔ جب حضرت مصلح موعودؓ ۱۹۲۴ء میں انگلستان تشریف لے جا رہے تھے تو راستے سے قادیان کی انتظامیہ کو خط لکھا کہ خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا ہے کہ مغرب میں اسلام کی فتح میں خواتین کا کردار بہت اہم ہوگا۔ لہذا فوری طور پر میری دو بیویوں اور میری بیٹی عزیزہ ناصرہ بیگم کے لیے نواب محمد علی خان صاحبؓ سے مشورہ کر کے یورپین استانی کا انتظام کر دیں۔ سو یہ انتظام کردیا گیا اور پھر بعد میں ایسا انتظام کچھ دیر رہا۔ فرمایا:
’’حضرت مصلح موعودؓ کی بیٹیوں میں سے میری والدہ نے ایف اے تک تعلیم حاصل کی۔ اس زمانے میں تو میٹرک بھی بہت بڑی بات سمجھا جاتا تھا۔ بلکہ انہوں نے تو پنجاب یونیورسٹی سے مولوی کی ڈگر ی بھی لی ہوئی تھی۔ ان کی تعلیم پر حضرت مصلح موعودؓ نے بھی خاص توجہ دی اور ان کی والدہ حضرت اُمِ ناصر نے بھی۔
’’حضرت مصلح موعودؓ نے تو ان کی تعلیم کے لیے ایک انگریز governess بھی رکھی ہوئی تھی۔ یہ خاتون حضرت چھوٹی آپا (حرم حضرت مصلح موعودؓ) اور میری والدہ کو پڑھایا کرتی تھی۔ پہلے نواب محمد علی خان صاحبؓ کے یہاں پڑھاتی تھی، پھر چھوٹی آپا اور میری والدہ کو بھی اس نے کچھ عرصہ پڑھایا۔
’’اُمّی بتایا کرتی تھیں کہ ان کا خط شروع میں اتنا اچھا نہ تھا۔ پھر حضرت ام ناصر نے ان کو املا کی مشق کروائی۔ وہ بتاتی تھیں کہ ام ناصر انہیں اخبار دے دیتیں اوراس میں سے کچھ حصے کے بارے میں کہتیں کہ یہ سطریں اسی طرح خوش خط لکھو جس طرح اخبار میں لکھی ہوئی ہیں۔ تو اُمّی بتایا کرتی تھیں کہ اس طرح لکھ لکھ کر انہیں خوش خط لکھنے کی مشق ہو گئی۔
’’اُمّی کی عربی بھی بہت اچھی تھی۔ میں نے بھی کچھ عرصہ ان سے عربی سیکھنے کی کوشش کی۔ مگر یہ سلسلہ زیادہ دیر نہ چلا۔ گزشتہ امریکہ کے دورے پر خدام کی ایک نشست میں ایک خادم نے مجھے پوچھا کہ آپ کس مضمون میں اچھے تھے۔ میں نے اسے کہا کہ میں تو کوئی بہت اچھا سٹوڈنٹ نہیں تھا۔‘‘
عرض کی کہ حضور! آپ تو تلمیذ الرحمٰن ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کیا کچھ نہیں سکھا دیا۔ ساری جماعت اس بات کی گواہ ہے۔
میرے منکسر مزاج آقا نے براہِ راست کوئی جواب نہ دیا۔ کچھ توقف کے بعد فرمایا:
’’اللہ کا فضل ہے۔ جماعت کو جس طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ وہ مضمون دل میں ڈال دیتا ہے۔ اب یہ جو بدری صحابہؓ سے سلسلہ شروع ہوا۔ اب غزوات کی طرف چل نکلا۔ اس کے ساتھ آنحضورﷺ کی سیرت بھی بیان ہورہی ہے۔ اسلامی تاریخ کے اس اہم حصے کو زندہ رکھنا ضروری ہے۔ تو اللہ تعالیٰ مضامین کی طرف خود توجہ پھیر دیتا ہے اور انہیں بیان کرنے کا سامان بھی کر دیتا ہے۔‘‘
بعد میں ملاقات جاری رہی اور پھراختتام پر میں حضرت صاحب کی خوبصورت یادوں کے نازک موتی سنبھالتا باہر آگیا۔ ساتھ یہ خواہش بھی دل میں لیے کہ میں تو یہاں بیٹھا ہوں، کسی سے درخواست کر کے اس پہاڑی کی تصویریں ہی منگوا لی جائیں۔ تب ربوہ میں شام ہو چکی تھی مگر جس دوست سے درخواست کی، انہوں نے صبح ہوتے ہی اس پہاڑی کی تصویریں بھیج دیں۔ گول بازار کی طرف کا زاویہ بھی (جہاں سے حضور اس پر تشریف لے جاتے)، اور ٹی آئی سکول؍کالج کی طرف سے بھی جدھر اتر کر حضور سکول تشریف لے جایا کرتے۔
ربوہ کی پہاڑیاں کِرانہ پہاڑی سلسلہ کا حصہ ہیں۔ ربوہ کی پہاڑیوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ محمد بن قاسم نے جب سندھ اور جنوبی پنجاب کو فتح کر لیا تو ربوہ کی پہاڑیوں کو عبور کرتا کشمیر کی طرف بڑھا تھا۔
خوش نصیب ہیں وہ پہاڑیاں جو ربوہ کی مبارک سرزمین میں واقع ہیں۔ اور خوش نصیب ہیں ہم کہ کم از کم دو فتح نصیب جرنیلوں کو جانتے ہیں جنہوں نے ان پہاڑیوں کو عبور کیا۔ ایک کی منزل کشمیر جنت نظیر تھا، دوسرے کا جنت الفردوس کو لے جانے والاراستہ۔ اللھم اید امامنا بروح القدس۔
ماشاءاللہ بہت عمدہ تحریر اور زبردست ملاقات ایسے لگ رہا تھا صاف صاف مناظر دکھائی دے رہے ہیں
ماشاءاللہ آصف باسط صاحب کو اللہ تعالی نے خلافت کے قرب کی برکت سے لکھنے کا خاص ملکہ عطا فرمایا ہے ۔ان کی تحریر قاری کی توجہ کو کھینچ لیتی ہے اور مضمون ختم ہونے تک توجہ قائم رہتی ہے۔پیارے آقا کی باتیں ہمیشہ دلنشیں ہوتی ہیں اللہ تعالی ان کی صحت اور عمر میں برکت عطا فرمائے۔آمین
JazakAllah Ahsanal Jaza