اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز (دورۂ جرمنی و بیلجیم ۲۰۱۸ء کے چند واقعات۔ حصہ ششم)
ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب
ہم مسیحؑ کو خدا کا بیٹا نہیں مانتے
حضورِانور کی دن کی آخری ملاقات ایک بڑے وفد کے ساتھ تھی جس میں مختلف ممالک سے آنے والے سینکڑوں افریقی احمدی اور مہمان شامل تھے۔ کچھ مہمان خاص طور پر افریقہ سے جلسہ میں شرکت کے لیے آئے تھے جبکہ دیگر یورپ میں مقیم تھے۔
ایک گھانین احمدی رضوان صاحب نے حضورِانور سے مغربی ممالک میں بچوں کی تربیت کے درپیش چیلنجز کے بارے میں سوال کیا۔ انہوں نےعرض کیا کہ بعض مغربی سکولوں میں اساتذہ بچوں کو سکھاتے ہیں کہ وہ مذہب کے بارے میں تنقیدی رویہ اپنائیں اور خدا کے وجود پر شکوک و شبہات رکھیں۔
اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ یہ چیلنج کسی طلسماتی طریقے سے تو ختم نہیں ہوگا، اس کےلیے مغرب میں مقیم احمدی مسلمان والدین کو اپنے بچوں کی اخلاقی تربیت اور پرورش کے لیے زیادہ محنت کرنی ہوگی۔ آپ کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ آپ اپنے کام یا دیگر مصروفیات میں اس قدر مگن نہ ہو جائیں کہ اپنے بچوں کو مناسب وقت نہ دے سکیں۔
حضورِانور نے مزید فرمایا کہ خدا کے وجود کے حوالے سے یہ کافی نہیں ہے کہ آپ اپنے بچوں کو صرف یہ بتائیں کہ خدا موجود ہے بلکہ آپ کو انہیں خدا کے وجود کے مختلف دلائل اور ثبوت بھی سمجھانے ہوں گے۔ اسی طرح سکولوں سے بھی بات کریں اور انہیں بتائیں کہ یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ آپ کے بچوں کو اس انداز میں تعلیم دیں جو ان کے مذہبی عقائد کو کمزور کرے۔
حضورِانور نے بعد ازاں اپنے بچوں کی تربیت کا ذاتی تجربہ بیان کیا اور گھانا میں پیش آنے والے ایک واقعے کا تذکرہ فرمایا۔
حضورِانور نے فرمایا کہ گھانا میں میرے بچے ایک عیسائی سکول میں پڑھتے تھے اور ایک دن میرے کم سن بیٹے کو یہ سکھایا گیا کہ مسیحؑ خدا کے بیٹے ہیں۔ اس پر مَیں نے اسے بہت وضاحت سے بتایا کہ یہ ہمارا عقیدہ نہیں ہے اور اسے دوبارہ یہ الفاظ نہیں کہنے چاہئیں۔ جب اس نے دوبارہ وہ الفاظ کہنے سے انکار کیا تو میرے بیٹے اور بیٹی کو سکول کے اساتذہ نے جسمانی سزا دی۔
حضورِانور نے مزید فرمایا کہ تین دن تک انہیں سزا دی گئی اور چوتھے دن مَیں سکول گیا اور اساتذہ سے ملاقات کی۔ مَیں نے انہیں بتایا کہ ہم مسیحؑ کو خدا کا بیٹا نہیں مانتے اور میرے بچے یا تو خاموش رہیں گے یا کہیں گے کہ مسیحؑ اللہ کے نبی ہیں۔ اس کے بعد اساتذہ نے اتفاق کیا اور میرے بچوں کو دوبارہ مسیحی عقائد کا اعادہ کرنے کے لیے نہیں کہا گیا۔ لہٰذا یہ مسئلہ نیا نہیں ہے اور نہ ہی یہ صرف مغرب تک محدود ہے۔ یہ سب مسلمان والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی صحیح راہنمائی کریں اور ان کے ایمان کی مضبوطی کو یقینی بنائیں۔
خوف نہ کرو، مَیں انسان کا بیٹا ہوں اور خود بھی ایک عام انسان ہوں !
ایک اَور افریقی احمدی نے حضورِانور کی خدمت میں عرض کیا کہ مَیں نے بہت سے لوگوں سے سنا ہے کہ جب وہ آپ سے ملتے ہیں تو وہ بھول جاتے ہیں کہ کیا کہنا تھا۔
اس پر حضورِانور مسکرا کر فرمانے لگے کہ یہ میری غلطی تو نہیں ہے اگر وہ بھول جاتے ہیں! کبھی کبھار لوگ بہت جذباتی ہو جاتے ہیں اور جب ان پر جذبات غالب آتے ہیں تو وہ بات کرنے میں بھی دقّت محسوس کرتے ہیں۔ لہٰذا اِن کا بات نہ کرپانا خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ محبّت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ ایک شخص جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرنے کے لیے آیا، وہ خوفزدہ اور پریشان نظر آ رہا تھا تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خوف نہ کرو، مَیں انسان کا بیٹا ہوں اور خود بھی ایک عام انسان ہوں۔ اس لیے جب کوئی مجھ سے ملتا ہے تو اسے خوف محسوس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، لیکن اگر وہ محبّت کی وجہ سے جذباتی ہو جائیں تو وہ الگ بات ہے۔
خلافتِ احمدیہ کی کامیابی مقدر ہے
مہمانوں کے مزید کئی سوالات کے بعدمیٹنگ کانگو کی ایک صحافی کے سوال پر اختتام پذیر ہوئی، جنہوں نے خلافتِ احمدیت اور دنیا کے مستقبل کے حوالے سے حضورِانور کی توقُعات کی بابت دریافت کیا۔
اس کے جواب میں حضورِانور نے فرمایا کہ خلافتِ احمدیہ، جو حقیقی خلافت ہے، کی کامیابی مقدر ہے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کامیابی کی پیشگوئی فرمائی تھی۔ ہم پہلے ہی اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں کیونکہ ہر روز لوگ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو قبول کر رہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ایک دن ہم دنیا کی اکثریت کے دل جیت لیں گے تاکہ وہ اس حقیقت کو پہچان سکیں کہ اسلام سچائی، امن اور ہم آہنگی کا مذہب ہے۔
اس کے ساتھ ہی میٹنگ ختم ہوئی اور حضورِانور مرکزی جلسہ گاہ کی طرف روانہ ہوئے تاکہ مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھا سکیں۔ یہ چند جذباتی دنوں کا ایک جذباتی اختتام تھا۔ مَیں بےصبری سے انتظار کر رہا تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔
دستِ شفا
ایک دن جرمنی کے جلسے کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ منصور (حضور کے نواسے) کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ جب مَیں نےایک دن کے بعد اسے دیکھا تو اس سے پوچھا کہ اب اس کی طبیعت کیسی ہے؟
منصور نے جواب میں کہا کہ رات اور صبح کے وقت میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ میرے سر میں شدید درد تھا جس کی وجہ سے مجھے فجر تک بالکل نیند نہیں آئی۔ تاہم فجر کے بعد حضورِانور میری تیمارداری کے لیے تشریف لائے اور انہوں نے مجھے شہد ملا دودھ دیا اور ساتھ میں پیراسیٹامول(Paracetamol) بھی دی۔ اس کے بعد مَیں سوسکا اور جب مَیں بیدار ہوا تو طبیعت بہتر محسوس ہوئی۔
یہ ایک خوبصورت اور نایاب جھلک ہے کہ کس طرح حضورِانور اپنی گونا گوں مصروفیات کے باوجود اپنے خاندان اور عزیزوں کی دیکھ بھال کرتے اور اپنے فرائض کو سر انجام دیتے ہیں۔ درحقیقت جس نے بھی قریب سے حضورِانور کو دیکھا ہے وہ اس بات کی گواہی دے گا کہ حضورِانور جس محبّت اور توجہ سے اپنے خاندان کا خیال رکھتے ہیں، وہ تمام انسانیت کے لیے ایک مثال ہے۔
اپنی زندگی کے ہر دوسرے پہلو کی طرح حضورِانور پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاکیزہ سنّت کی پیروی کرتے ہیں۔
مجھے خوشی ہوئی کہ منصور کی طبیعت بہتر ہو گئی تھی اور مَیں نے اس سے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ حضورِانور نے تمہاری جلد صحت یابی کے لیے دعا کی ہو گی۔اس پر منصور نے مجھے چند سال پہلے کا ایک واقعہ سنایا جب وہ سکول میں دسویں جماعت میں تھا۔
منصور نے کہا کہ مجھے ایک سال قبل ریاضی کےGCSE امتحان کے لیے منتخب کیا گیا تھا، لیکن امتحان سے ایک رات قبل اچانک میری طبیعت بہت خراب ہو گئی۔ مجھے شدید دردِ شقیقہ اور تیز بخار ہو گیا تھا۔ میری والدہ (صاحبزادی امۃالوارث فرح فاتح صاحبہ) بہت پریشان ہوئیں اور انہوں نے حضورِانور کو اطلاع دی۔ شام کے وقت حضورِانور ہمارے فلیٹ میں مجھے دیکھنے کے لیے تشریف لائے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ مَیں کیسا محسوس کر رہا ہوں اور جواب میں مَیں نے عرض کیا کہ میری طبیعت بہت خراب ہے۔
اس لمحے کو یاد کرتے ہوئے جب منصور نے حضورِانور سے اپنی طبیعت کی خرابی کے بارے میں عرض کیا تھا مسکرانے لگا اور بولا کہ مَیں مذاق نہیں کر رہا عابد چچا! مجھے واقعی ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے مَیں مَر رہا ہوں!
منصور نےاپنی بات جاری رکھتے ہوئے بیان کیا کہ پھر حضورِانور نے کمال شفقت سے اپنا دستِ مبارک چند منٹ کے لیے میری پیشانی پر رکھ دیا اور کچھ منٹ بعد فرمایا کہ فکر مت کرو، تم بالکل ٹھیک ہو جاؤ گے۔ اور پھر مجھے آرام کرنے کے لیے کہہ کر تشریف لے گئے۔
منصور نے مجھے بتایا کہ اُس کی طبیعت اتنی خراب تھی کہ اسے مشکل ہی لگتا تھا کہ وہ امتحان دے سکے گا، لیکن جیسے ہی حضورِانور کمرے سے تشریف لے گئے وہ فوراً سو گیا۔
منصور نے کہا کہ مَیں چند گھنٹوں تک مسلسل سوتا رہا اور جب مَیں بیدار ہوا تو بالکل ٹھیک ٹھاک اور مکمل طور پر صحت یاب ہو چکا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے مَیں کبھی بیمار ہوا ہی نہیں تھا! میری والدہ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مَیں امتحان دے سکتا ہوں؟ مَیں نے جواب دیا کہ جی، مَیں بالکل ٹھیک ہوں! مَیں سکول گیا اور امتحان دیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے مَیں نے اس GCSE امتحان میں اے سٹار گریڈ حاصل کیا۔
منصور کی کہانی سن کر حیرت انگیز اور ایمان افروز تجربہ ہوا کہ کس طرح جبکہ وہ اتنا زیادہ بیمار تھا حضورِانور نے تشریف لا کر اس کے سر پر دستِ شفا رکھا اور فرمایا کہ وہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔ اور جیسا کہ حضورِانور نے فرمایا تھا، منصور بیدار ہوا تو بیماری کا کوئی اثر باقی نہ تھا اور بالآخر اس نے اس امتحان میں بہترین گریڈ حاصل کیا، جس میں چند گھنٹے پہلے تک اس کے لیے بیٹھنا بھی تقریباً ناممکن نظر آرہا تھا۔
(مترجم:قمر احمد ظفر۔انتخاب:مظفرہ ثروت)