الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

چند پاکیزہ ہستیوں کا ذکر خیر

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں مکرمہ امۃالحئی میر صاحبہ نے خاندانِ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعض بزرگ خواتین کی سیرت اپنے مشاہدات کے حوالے سے رقم فرمائی ہے۔

آپ بیان کرتی ہیں کہ میری شادی ۱۹۴۴ء میں کشمیر میں اپنے گاؤں آسنور میں ہوئی۔ وہاںبہت سے احمدی خاندان آباد تھے جس کی وجہ سے گاؤں کا ماحول بہت پاکیزہ تھا۔ گرمیوں میں قادیان سے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ اور حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی فیملیاں اور بعض مربیان بھی آسنور میں سیر کی غرض سے آیا کرتے تھے۔ اس طرح جلسے جیسا ماحول بن جاتا۔ آس پاس کے دیہات سے بھی لوگ جمعہ پڑھنے کے لیے آسنور آتے۔ سیبوں کے باغوں میں ٹینٹ لگتے جہاں خاندان الگ الگ ٹھہرتے تھے البتہ حضرت امّاں جانؓ میرے والد مکرم خواجہ عبدالعزیز ڈارصاحب کے بنگلے میں رہنا پسند فرماتیں اور میری والدہ خور شیدہ بیگم صاحبہ کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا پسند فرماتیں۔ اگر کسی جگہ دعوت ہوتی تو کہتیں: ڈار صاحب کی بیگم کو پہلے لے جاؤ میرا کھانا یہی پکائیں گی۔ یہ بہت صفائی سے کھانا بناتی ہیں ان کے ہاتھ میں ذائقہ ہے۔

شادی کے بعد مَیں اپنے میاں مکرم عبد المنا ن صاحب کے ساتھ قادیان آئی کیونکہ وہ پہلے قادیان میں ہی پڑھتے تھے۔ پڑھائی سے فارغ ہونے کے چند سال بعد انہوں نے نور ہسپتال سے ڈگری لے کر دواخانہ نوردین میں باقاعدہ ملازمت شروع کردی۔ہمیںحضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے گھر میںدو کمرے کا گھر ملا اور چالیس روپے تنخواہ ملتی تھی۔

حضرت امّاں جی صغریٰ بیگم صاحبہؓ نے مجھے خوب پیار دیا۔ وہ جانتی تھیں کہ یہ کس ماحول سے آئی ہے اور یہاں کیسے گزارہ کر رہی ہے۔ جب کبھی مَیں جاتی تو کہتیں: ’’آؤکشمیری دلہن! میرے ساتھ بیٹھ کر کشمیری چائے پیو۔ آم کھاؤ۔ یہاں سیب نہیں ملیں گے۔‘‘ ویسے کشمیر سے جو بھی آتا میرے لیے الگ اور حضرت امّاں جیؓ کے لیے الگ سیب کی پیٹی لاتا۔ آپؓ اپنے بچوں میں سیب بانٹتیں اور کہتیں: ’’میری کشمیری بہو نے یہاں بھی کشمیر بنادیا ہے۔‘‘ سال میں کوئی ایسا دن نہیں گزراکہ ہم دونوں کے پاس سیب، بادام، اخروٹ اور شہد ختم ہوا ہو۔ آپؓ کے گھر کا ایک دروازہ ہمارے گھر میں کھلتا تھا۔ مَیں اکثر گرمیوں میں دوپہر کے وقت آپؓ کا کمرہ پانی ڈال کر ٹھنڈا کرتی اور پنکھے کے نیچے چارپائی کرکے اس پر چادر بچھاتی، تکیہ لگا کر کہتی آپ لیٹ جائیں۔ آپؓ مجھے کہتیں: پہلے تم میرا سر سہلاؤ۔ جب میں سوجاؤں گی تو تم چلی جانا۔

آپؓ مجھے ہر عید پر عیدی دیا کرتی تھیں۔کسی شادی میں جاتیں تو مجھے ساتھ لے جاتیں۔ پہلےگھر پر آ کرمیرے میاں سے اجازت لیتیں۔ وہ اجازت دیتے تومجھے کہتیں: میاں کو کھانا کھلاؤاور پھر آنا۔ اس طرح میری تربیت بھی کرتیں۔

۱۹۴۶ء میں میرے گھر پیاری سی بیٹی پیدا ہوئی۔اس وقت میری امی میرے پاس تھیں۔ وہ جا کر حضرت امّاںجیؓ کو بلا کرلائیں۔ انہوں نے میرے سرہانے بیٹھ کر دعائیں شروع کیں اور پھر بچی کو شہد چٹایا۔ پھر گھر جا کر میرے لیے حلوہ بنا کر بھیجا اور چائے بھی بھیجی۔

مَیںہفتے میں دو تین مرتبہ حضرت اماں جانؓ کے پاس شام کے وقت موتیے کا ہار یا گجرا ،کشمیری سیب اور اخروٹ لے کر جاتی اور وہ مجھے اپنے ہاتھ سے ا مرود کاٹ کر کھلاتیں۔ ایک دفعہ میں نے کہا کہ آج تو میں یہ امرود گھر لے کر جاؤں گی اپنے میاں کو کھلاؤں گی۔ آپؓ بہت خوش ہوئیں اور کہا: یہ دوسرا والا امرود میاں کے لیے لے جاؤ جو مَیں نے کاٹا ہے وہ تم کھاؤ۔

پاکستان میں میر اگھر سرگودھا کے گاؤں ہجن میں تھا جو حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کے حوالے سے مشہور تھا۔ ایک دفعہ جب مَیں حضرت امّاں جانؓ سے ملنے گئی تو مجھ سے پوچھا: تم نے اپنی والدہ سے مسالے کی وڑیاں بنانی سیکھی ہیں؟ مَیں نے کہا کہ مَیں نے انہیں وڑیاںبناتے ہوئے دیکھا ہے مگر کبھی خود نہیںبنائیں۔ تو تاکیداً کہا: اگلی دفعہ بنا کر لانا، مَیں چیک کرکے بتاؤں گی کیسی بنی ہیں۔گھر واپس جاکر تمام مسالے اکٹھے کیے وڑیاں تیار کرکے اپنے دیورعزیزم خواجہ عبداﷲ کے ہاتھ بھیج دیں۔ حضرت امّاں جانؓ نے فرمایا:ٹھہرو عبداﷲ! پہلے مَیں چیک کروں گی پھر جانا۔ پھرکافی دیر بعد آواز دی اور کہا:’’اپنی بھابھی کو کہنا جزاکم اﷲ احسن الجزاء۔ بہت اچھی بنائی ہیں، ذائقہ اچھا ہے، بس ایک چیز، اس کی ماں کے ہاتھوں کی خوشبو کی کمی ہے۔‘‘ یہ فقرہ سن کر مَیں بہت روئی کیونکہ مجھے اپنی والدہ سے ملے اٹھارہ سال گزرگئے تھے۔ وہ کشمیر میں تھیں اور مَیں پاکستان میں تھی۔ چھ ماہ بعد حضرت امّاں جانؓ سے ملاقات کا موقع ملا تو فورا ًفرمایا: ’’تم نے مسالے کی وڑیاں بنا کر بھیجی تھیں، ابھی تک میرے پاس پڑی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ جزائے خیر دے۔‘‘ اس وقت میری گود میں بیٹاتھا۔ اس کوپیسے پکڑ ا دیے اور مجھے ایک سوٹ کاکپڑا دیا۔

حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی فیملی جب کشمیر جایا کرتی تھی تو مَیں وہاں اپنی عمر کے حساب سے چھوٹے چھوٹے کام کرتی تھی، داد وصول کرتی اور دعائیں لیتی تھی۔ اس وجہ سے سب کا مجھ سے پیار کا تعلق قائم ہوگیا تھا۔جب بھی حضورانورؓ کشمیر تشریف لے جاتے تو آپؓ کی بیگمات ہر ایک کو کوئی نہ کوئی تحفہ ضرور دے کر آتیں۔اس کے علاوہ مجھے یاد ہے کہ ان کی ٹوٹی ہوئی چوڑیاں بھی ہم کزنز آپس میں تبرک کے طور پر بانٹ لیتی تھیں۔ہمارے کشمیر والے گھر میں امّاںجانؓ کی استعمال شدہ چیزیں ابھی تک پڑی ہوں گی۔

پاکستان بن گیا تو ایک صبح مسجد مبارک قادیان میں اعلان ہوا کہ نوجوان قادیان میں ہی رہیں، البتہ بوڑھوں بچوں اور عورتوں کو آج ہی پاکستان روانہ کرنا ہوگا۔میرے میاں نے بھی مجھے قافلے کے ساتھ روانہ کردیا۔ مَیں لاہور پہنچی تو رتن باغ میں ایک سکول تھا جس میں تمام عورتوں کو ٹھہرایاگیا تھا۔ اکتوبر کے مہینے میں کافی ٹھنڈہوگئی تو اکثر حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ا ور حضرت نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ کیمپ میں آکر حال پوچھتے اور دلجوئی کرتے۔ ایک بار حضرت بیگم صاحبہؓ نے پوچھا کہ غفار ڈارتمہارا کیا لگتا ہے؟ مَیں نے کہا : وہ میرے چچازاد بھائی ہیں، انہوں نے میری امی کا دودھ بھی پیا ہوا ہے۔ آپؓ نے مجھے گلے سے لگا کر کہا : وہ میرا بیٹا ہے میں نے اس کو پالا ہے۔ تم تو بہت امیر خاندان سے ہو بتاؤ کوئی ضرورت ہے؟ مَیں نے کہا کہ مَیں اس کمرے میں بہت بے سکون ہوں۔ ایک چھوٹا کمرہ بند پڑا ہے اگر مل جائے تو مَیں اور میری بیٹی سکون سے رہیں گی۔ اُن کے چلے جانے کے ایک گھنٹہ بعد ایک بزرگ کیمپ میں آئے اور پوچھا کہ کشمیر والی بی بی کونسی ہے؟ پھر انہوں نے ہمارے لیے چھوٹا کمرہ کھول دیا۔مَیں نے کمرے کی صفائی کی اور سکون سے اس میں رہنے لگی۔

ہفتہ یا دس دن گزرنے کے بعد ایک دن میری طبیعت بہت خراب ہوئی۔ میں چونکہ اُمید سے تھی اور سخت پریشان تھی کہ اب کیا کروں، کسے بلائوں۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اتنے میں حضرت چھوٹی آپا او ر حضرت مہر آپا میرے کمرے کے سامنے سے گزریں تو مَیں نے آواز دی۔ حضرت چھوٹی آپا نے ایک احمدی نرس کو بلوایا۔ اس نے مجھے چیک کیا اور کہا کہ انشاء اللہ رات نو بجے تک بچے کی پیدا ئش متوقع ہے۔مَیں کوشش کروں گی آنے کی۔مگر وہ کسی مجبوری کے تحت نہ آسکی۔ البتہ میری ہمسائی اس وقت میرے پاس مدد کے لیے موجود تھی۔ دونوں بیگمات بھی نو بجے دوبارہ اس ناچیز کے کمرہ میں تشریف لائیں۔ اللہ کے فضل اور دعائوں سے بیٹے کی پیدائش ہوگئی۔اس کے بعد وہ دونوں گھرتشریف لے گئیں اور حضرت مصلح موعودؓ کو بتایاکہ آج ہمارے کیمپ میں لال چقندر جیسا بچہ پیدا ہوا ہے۔ حضورانورؓ نے فرمایا: ’’کشمیری اور پٹھان بچے پیدائش کے وقت لال سرخ ہوتے ہیں۔‘‘ چھوٹی آپا نے بتایا کہ حضور وہ کشمیری ہے اور اس بچے کی ڈیڑھ سالہ بہن کا نام امۃالکریم ہے۔ اس پر حضورؓ نے فرمایا : ’’یہ عبدالکریم آگیا ہے۔‘‘ چھوٹی آپا نے حضورانورؓ کو بتایاکہ اس عورت کے پاس کوئی کپڑا نہیں ہے، ہم نے بچے کو اس کی ماں کے دوپٹے میں لپیٹ دیا ہے۔ حضورانورؓ اس وقت وضو کر کے تولیے سے چہرہ صاف کررہے تھے۔ فوراً وہ تولیہ حضرت چھوٹی آپاکو دیا اور فرمایا: ’’ابھی جا کر اس تولیے سے بچے کو لپیٹ کر آؤ، اس کو ٹھنڈ نہ لگ جائے۔‘‘ چھوٹی آپاصاحبہ دوبارہ تشریف لائیں اور وہ تولیہ مجھے دیا جو تھوڑا سا گیلا تھا۔ مَیں نے اس میں منہ لپیٹ کر برکت حاصل کی اور خدا تعالیٰ کی اس نعمت کا شکر ادا کیا۔ چھوٹی آپا میرے لیے دودھ کا گلاس اور بچے کے لیے شہد اور کچھ کپڑے بھی لے کر آئی تھیں۔ بچے کو شہد چٹایا اور کہتی جارہی تھیں: دیکھو اس بھوکے مہاجر نے میری ساری انگلی کھینچ لی ہے۔

………٭………٭………٭………

محترم مولوی محمد ابراہیم بھامبڑی صاحب کے لیے ایک دعائیہ تقریب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ ۷؍جون ۲۰۱۴ء میں ایک خوبصورت دعائیہ تقریب کی مختصر رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں تحریر ہے کہ سلسلہ کے قدیم خادم محترم مولوی محمد ابراہیم بھامبڑی صاحب ۶؍جون ۱۹۱۴ء کو قادیان کے قریب واقع گاؤں بھامبڑی میں پیدا ہوئے۔ آپ نے اٹھائیس سال بطور استاد تعلیم الاسلام ہائی سکول میں اور پچاس سال بطور صدر محلّہ دارالنصر غربی ربوہ خدمات سرانجام دیں۔ دنیابھر میں پھیلے ہوئے آپ کے شاگردوں نے آپ کی خدمت دین سے معمور سوسالہ زندگی پر شکرانہ کے طور پر ایک تقریب منعقد کرنے کا پروگرام بنایا جس کے محرّک مکرم محمد زکریا ورک صاحب (کینیڈا) تھے۔ سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے انہوں نے ایک سو سال کی مناسبت سے سوہزار (ایک لاکھ روپے) اپنے بزرگ استاد کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے اکٹھے کیے اور آپ کے حالات و خدمات پر مشتمل ایک چوورقہ باتصویر سوونیئر بھی شائع کیا۔

یہ تقریب ۳۱؍مئی ۲۰۱۴ء کو بعدنماز عصر دفتر صدر عمومی ربوہ میں منعقد ہوئی جس کے منتظم مکرم منیر احمد منیب صاحب تھے۔ اس تقریب میں مکرم پروفیسر مبارک احمد عابد صاحب نے منظوم سپاسنامہ بھی پیش کیا۔ محترم مولوی صاحب نے اس تقریب کا انعقاد کرنے پر اپنے شاگردوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے کی نصیحت کی۔ آپ نے بلند آواز میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا عربی قصیدہ بھی سنایا۔ تقریب کے اختتام پر محترم چودھری حمیداللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید نے دعا کروائی۔

(نوٹ:ستاذی المحترم ماسٹر مولوی محمدابراہیم بھامبڑی صاحب، مولوی فاضل ۱۷؍دسمبر ۲۰۲۳ء بروز اتوار طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ میں بعمر ۱۰۹ سال وفات پاگئے۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ)

………٭………٭………٭………

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30؍جون 2014ء میں شائع شدہ مکرم مبارک احمد ظفر صاحب کی ایک غزل میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

وہی مامون ہوں گے ہر بلا سے

جنہیں ناتا رہا اس سلسلہ سے

ہمیشہ انبیاء کرتا ہے غالب

یہی ہے سنّتِ ربی سدا سے

وہی اب روشنی ہے شش جہت میں

جو نکلی تھی کبھی غارِ حرا سے

ہمیں تعلیم ہے کرنا اطاعت

دل و جاں ، روح سے ، سچی وفا سے

ہمیں لارَیب ہے حق الیقیں یہ

خدا ہے باوفا اہلِ وفا سے

اسے کھانی پڑے گی منہ کی آخر

وہ جو ٹکرائے گا ’’مردِ خدا‘‘ سے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button