متفرق شعراء

خوشبو رچی ہے سانس میں

یوں تو لقائے جاناں لگی مختصر بڑی

لیکن تمام عمر کا حاصل تھی یہ گھڑی

اس چشمِ شوقِ دید کو دیدار جب ہوا

نظریں اٹھیں نہ آنسوؤں کی تھم سکی جھڑی

خوشبو رچی ہے سانس میں، آنکھوں میں روشنی

بیٹھا تھا اُس کے روبرو میں صرف دو گھڑی

دل یوں لگا کہ نور کے چشمے سے دھل گیا

اُس ماہ وش حسیں کی نظر مجھ پہ جب پڑی

کچھ ایسا نور نور سا چہرا خدا نما

گویا کہ ماہتاب نے اس سے کرن گھڑی

دلکش، حسین و دلربا وہ ناز ناز شخص

دیکھے عدو بھی اس کو تو آنکھیں رہیں جڑی

نکلے اگر وہ بام پر خوشبو بکھیر دے

بولے تو لفظ لعل و جواہر کی اک لڑی

جینا محال ہے بہت دنیا میں بے امام

اک دشتِ خارزار ہے اور دھوپ ہے کڑی

ہم خوش نصیب لوگ ہیں اس دور میں ضیاء

ہم پر وہ ایک ذات ہے سایہ کیے کھڑی

(ضیاء اللہ مبشر)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button