یادِ رفتگاں

باوفا اور محنتی مربی…عبد السلام عارفؔ

(’ابن سلام‘)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک ارشاد ہے کہ اُذْکُرُوْامَحَاسِنَ مَوْتَاکُم یعنی تم اپنے وفات یافتگان کی خوبیوں کا تذکرہ کیا کرو۔فی زمانہ خلیفۂ وقت، ہمارے پیارے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خدا تعالیٰ کے وہ مقدس اور چنیدہ وجود ہیں جو کسی واقفِ زندگی کے با وفا ہونے پر مہر تصدیق ثبت کردیں تو ا س سے بڑھ کر اعزا ز اس دنیا میں اور کوئی نہیں ہو سکتا اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ اعزاز میرے والدِ محترم عبد السلام عاؔرف مربی سلسلہ کو عطا ہوا جو مورخہ ۱۹؍نومبر۲۰۲۳ءکو بوجہ کینسر انتقال کر گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

خاکسار کے ابو جان مکرم عبدالسلام عارف صاحب مربی سلسلہ مورخہ یکم اگست ۱۹۶۹ء کو مکرم ہارون احمد صاحب آف صادق پور ضلع میرپور خاص(حال ضلع عمرکوٹ) کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ۱۹۳۷ء میں خلافتِ ثانیہ کے دَور میں ہواجب آپ کے نانا حاجی حسن خان صاحب نے احمدیت قبول کی اور ان کے معاً بعد آپ کے دادامکرم نور محمد صاحب نے بھی بیعت کرلی۔اس وقت یہ بزرگان چاہ اسماعیل والا ضلع ڈیرہ غازی خان میں مقیم تھے۔ قبولِ احمدیت کی وجہ سے وہاں شدید مخالفت شروع ہو گئی اس لئے حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر یہ بزرگان سندھ کی طرف ہجرت کر گئے اور وہاں تحریک جدید کی زمینوں پر نور نگر فارم میں بطور مزارع کام کرنا شروع کر دیا تاہم بعد میں۹؍جون ۱۹۴۹ءکو حضرت مصلح موعودؓ نے وہاں کا دورہ کیا اور ایک علیحدہ بستی کے قیام کا اعلان فرمایا جس کا نام حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ  صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام پر ’’صادق پور‘‘ رکھا گیا جو کہ ۱۹۸۰ء میں ایک علیحدہ جماعت بن گئی۔ ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت کی زرعی اصلاحات کے نتیجے میں مکرم نور محمد صاحب کو گورنمنٹ کی طرف سے قریباً اسّی ایکڑ زمین الاٹ ہوئی اور تب سے یہ خاندان یہیں پر آباد ہے اور اب اللہ کے فضل سے یہ ضلع عمرکوٹ کی دوسری بڑی جماعت ہے۔

بچپن سے ہی ابو جان کوان بزرگوں کی صحبت میں رہنے کا موقع ملا جنہوں نے خود احمدیت قبول کی تھی جس سے ان کی طبیعت میں نیکی اور تقویٰ کے بلند معیار کو حاصل کرنے کی لگن پیدا ہو گئی۔ ان بزرگوں کے ساتھ آپ کو جلسہ سالانہ ربوہ میں بھی شرکت کا موقع ملا۔بچپن سے ہی ابو پنجوقتہ نماز کے ساتھ ساتھ تہجد اور دیگر نوافل بھی پابندی کے ساتھ ادا کرتے۔نماز فجر کے بعد سب سے پہلا کام تلاوت قرآن ہوا کرتا۔ نماز چاشت و اشراق بھی اکثر ادا کرتے اور رات کو سونے سے قبل بھی دو نوافل لازماً ادا کرتے اور یہ طریق تادمِ آخر قائم رہا۔

ابوجان نے ۱۹۸۶ء میں محمدآباد اسٹیٹ کے گورنمنٹ سکول سے میٹرک پاس کرنے کے بعد زندگی وقف کرنے کافیصلہ کیا اور جامعہ احمدیہ ربوہ میں داخلہ لیا۔ ابو کا زندگی وقف کرنے کا فیصلہ بھی اپنے اندر ایک نہایت گہرا سبق رکھتا ہےجس میں ان کا توکل علی اللہ نہایت نمایاں طور پر واضح ہے۔ ابو نے جب دادا ابو سے زندگی وقف کر کے جامعہ احمدیہ میں داخلہ لینے کا ارادہ ظاہر کیا تو دادا ابو نے کہا بیٹا!ہمارے حالات تمہارے سامنے ہیں۔ زمینوں کی آمد بالکل نہ ہونے کے برابر ہے اور دوسرا کوئی ذریعہ آمد بھی نہیں ہے۔ اگر تم نے یہ فیصلہ کرنا ہے تو یہ بات ذہن نشین کر لینا کہ ہمارے پاس اتنا سرمایہ بھی نہیں ہے کہ تمہیں ربوہ تک کا کرایہ ہی دے سکیں۔ مگر ابو جان نے کہا کہ میں فیصلہ کر چکا ہوں اب انشاءاللہ خداتعالیٰ خود راستے بنا دے گا۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۱۹۹۱ء میں جامعہ احمدیہ سے مبشر کا امتحان پاس کیا اور دوڑ ضلع نواب شاہ سے میدانِ عمل میں خدمت کاآغاز کیا۔ اس طرح آپ کومکرم دین محمد صاحب شاہد کے بعد بلوچ خاندان کے دوسرے جبکہ کھوسہ بلوچ قبیلے کے پہلے مربی سلسلہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔

۱۹۹۵ء میں ابو جان وکالت تبشیر کے تحت یوگنڈاکے لیے بطور مبلغ منتخب ہوئے تاہم قوتِ شنوائی کی کمی کی وجہ سے نہ جاسکے جس کے بعد بدین، تونسہ شریف، ناصرآباد، لیہ، علی  پور، لودھرا ں اور بہاولپور میں بطور مربی سلسلہ خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ اس طرح ابو جان کا کل عرصۂ خدمت لگ بھگ چونتیس سال پر محیط ہے۔ آپ نے لودھراں اور بدین میں بطور مربی ضلع خدمت کی توفیق پائی۔

ابو جان کی قوتِ شنوائی بچپن سے ہی نہایت کم تھی مگر اس محرومی کو کبھی بھی اپنی ذمہ داریوں میں حائل نہیں ہونے دیا۔ خلافتِ خامسہ کے انتخاب سے قبل حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بطور ناظراعلیٰ ناصرآباد فارم دورے پر تشریف لائےتو ابو جان ملاقات کے لیے گئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ’’مربی صاحب آپ آلۂ سماعت لے لیں اور وہ لگایا کریں‘‘۔ اس کے بعد تادمِ وفات ابو جان آلہ سماعت کا استعمال کرتے رہے۔

۲۰۰۸ء میں خلافت جوبلی کے موقع پر ابو جان نے حضورانور کی خدمت میں خط تحریر کیا کہ خاکسار کی تجویز ہے کہ جس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۸۹ء میں جماعت احمدیہ کے سو سال پورے ہونے پرجشن  تشکر کے موقع پر اپنے لیٹر پیڈ پر مونوگرام چھپوایا تھا اسی طرح حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے لیٹر پیڈ پر بھی خلافت احمدیہ کے سو سال مکمل ہونے پر خلافت جوبلی کا مونوگرام ہونا چاہیے۔ خط تحریر کرنے کے بعد ابو بارہا ہمیں گھر پر بھی دعا کی تلقین کرتے رہے اور اپنے دیگر دوست مربیان سے بھی دعا کی درخواست کی کہ میں نے اس طرح حضور انور کی خدمت میں خط لکھا ہےلیکن اب سوچتا ہوں کہ کہیں دربارِ خلافت میں کوئی گستاخی نہ سرزد کر بیٹھا ہوں۔حضور انور کی طرف سے جب اس خط کا جواب ملا تو لیٹر پیڈپر خلافت جوبلی کا مونوگرام موجود تھا اور خط میں تحریر تھا کہ آپ کی تجویز مجھے پسند آئی ہے اور اس پر عمل درآمد بھی شروع ہو چکا ہے۔ اس بابرکت خط کے موصول ہونے پر ابو جان کا عالمِ نشاط دیدنی تھا۔ بلاشبہ یہ ایک عظیم الشان اعزاز ہے جو ابو جان کے حصے میں آیا۔

بطور مربی سلسلہ ابو جان کا عملی نمونہ مثالی تھا۔ خلافت کے ساتھ گہرا عشق و وفا کا تعلق تھا اور عشق و وفا کا وہی جذبہ وہ ہر فردِ جماعت میں پیدا کرنےکی کوشش میں ہمہ وقت لگے رہتے۔ تمام افراد جماعت کے ساتھ ذاتی تعلق رکھتے اور ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے۔اگر کہیں سے رات گئے بھی کوئی پیغام ملتا تو اپنی صحت اور آرام کا خیال کیے بغیر فوراً جانےکے لیے تیار ہو جاتے۔ باوجود اپنے محدود الاؤ نس کے ہمیشہ ضرورت مندوں کی مدد کرتے۔ مہمان نوازی ابو جان کا طرۂ امتیاز تھا۔ مرکزی مہمانوں کا ذاتی مہمانوں کی طرح خیال رکھتے۔ ہمیشہ ان کے کھانے اور رہائش کا بندوبست گھر سے کرتے۔ کوئی بھی اگر ملنے آتا تو اس کی خاطر تواضع کے بغیر اسے واپس نہ جانے دیتے تھے۔ غیر احمدی احباب کے ساتھ بھی بہترین تعلقات استوار رکھتے حتیٰ کہ وہ بھی آپ کو ’’مربی صاحب‘‘ کہنے لگتے۔ آپ کے ایک شاگرد مربی سلسلہ نے بیان کیا کہ میں نے ایک دن ان سے پوچھا کہ ’’مربی صاحب، اتنا محدود الاؤنس ہے اور ملک میں مہنگائی بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ لیکن آپ اپنی مہمان نوازی سے با ز نہیں آتے تو یہ سب خرچے کیسے پورے کرتے ہیں ‘‘۔ ابو جان نے جواب دیا کہ اگر میں حساب کرنے بیٹھوں تو میرا مہمان نوازی کا خرچہ میرے الاؤنس سے زیادہ ہے۔ پھر شہادت کی انگلی آسمان کی طرف کر کے کہنے لگے۔ ’’یہ سب وہاں سے آتا ہے۔‘‘

آپ میں توکل علی اللہ اور تعلق باللہ کا وصف بہت نمایاں تھا۔ کتنے بھی مشکل حالات ہوتے ابو جان کبھی بھی پریشانی کا اظہار نہ کرتے بلکہ یہی کہتے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو وہی قادر ہے۔ اسی توکل اور تعلق باللہ کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے پھر بارہا ابو جان کو قبولیتِ دعا کے نظارے بھی دکھائے۔علی پور میں قیام کے دوران ایک غیر از جماعت شخص نے جماعت کی مسجد میں آنا شروع کیا اور بیعت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تاہم ابو جان نے تردّد کیا اور بیعت فارم نہیں بھرا۔ وہ شخص مستقل مسجد آتا رہا اور بیعت کرنے پر بضد رہا۔ حتیٰ کہ جماعتی عاملہ کے ممبران نے بھی ابو سے کہا کہ اب کافی وقت گزر چکا اب اس کی بیعت لے لینی چاہیے تاہم ابو نے سب سے یہی کہا کہ آپ سب لوگ ابھی دعا کریں۔ چند دن مزید گزرے تو ابو نے ہم سے گھر میں ذکر کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ یہ شخص مسجدمیں آ کر شرانگیزی کر رہا ہے اور نقصان پہنچانے کی نیت رکھتا ہے اور ساتھ ہمیں دعا اور صدقہ دینے کی بھی تحریک کی۔ بعد ازاں مزید تحقیق ہونے پر پوری جماعت پر اس کی شر انگیزی کی نیت عیاں ہوگئی اور اس کے بعد وہ شخص دوبارہ کبھی مسجد میں نظر نہیں آیا۔اسی طرح کورونا کے ایام میں ابو جان نے لودھراں کے ایک احمدی دوست کے بارے میں ایک انذاری خواب دیکھ کر ان کے بیٹے سے کہا کہ اپنے والد صاحب کی طرف سے صدقہ کریں اور حضورِانور کی خدمت میں بھی دعائیہ خط تحریر کریں ان کے بیٹے نے ایسا ہی کیا۔وہ احمدی دوست کچھ دنوں بعد شدید بیمار ہوئے۔ کورونا سمیت کئی عوارض میں مبتلا ہوئے تاہم اللہ تعالیٰ کے فضل سےشفا یاب ہوگئے۔ ان کے بیٹے جب بعد میں ابو سے ملے تو نہایت فرطِ جذبات سے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ کے صدقہ اور دعا کی تحریک کی وجہ سے اللہ نے ہمارے والد کو دوسری زندگی عطاکی ہے۔ ابو نے کہا اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اس میں میرا کوئی کمال نہیں سب اللہ تعالیٰ کے کام ہیں۔

ابو جان کو شاعری کا بھی ذوق حاصل تھا جسے بھرپور طریقے سے بروئے کار بھی لاتے۔ خلافت پر کافی نظمیں لکھیں جو مختلف جماعتی رسائل میں شائع ہوتی رہیں۔اس کے علاوہ ملکی حالات پر بھی گہری نظر ہوتی تھی اور اس بارے میں مقامی اخبارات و جرائد میں قلمی نام سے کالم بھی لکھتے رہے جو عوام میں نہایت مقبول ہوئے۔ تونسہ شریف میں ایک اخبار کے اعزازی صحافی رہے۔ اخبار کے مدیر سے کسی حکومتی اہلکار نے ابو کے بارے میں پوچھنا چاہا تو اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہم اپنے صحافیوں کی معلومات کسی کو نہیں دے سکتے۔

ابو جان نے ساری زندگی تصنع سے پاک اور نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ گزاری۔ ایک دفعہ خاکسار نے کپڑوں کا ایک جوڑا بطور تحفہ دیا تو کہنے لگے میں نے اپنے جامعہ احمدیہ کے دورِ طالب علمی سے لے کر آج تک ایک وقت میں صرف چار جوڑے ہی رکھے ہیں۔ اب تمہارے اس تحفے کے ساتھ میرے پاس پانچ جوڑے ہو گئے ہیں تو مجھے ایسے لگ رہا ہے کہ میرے پاس بہت زیادہ کپڑے ہو گئے ہیں۔ اسی طرح ایک دفعہ خاکسار نے ابو کے سامنے غالب ؔکا یہ مصرع پڑھا ؏

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

تو ابو میری طرف دیکھ کر مسکرائےا ور کہنے لگے ’’مومن کی کونسی خواہشیں؟ مومن کی اپنی کوئی خواہش نہیں ہوتی۔ اسے جتنا عطا ہوتا ہے وہ اسی پر خوش ہوتا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے‘‘۔ ابو کا تربیتِ اولاد کا یہ انداز بھی دل موہ لینے والا ہوتا تھا۔ تربیت کے معاملے میں کبھی سختی سے پیش نہیں آئے۔ ہمیشہ پیار اور محبت کے ساتھ اور دلیل کے ساتھ تمام باتیں سمجھا دیا کرتے۔ اگر کبھی سختی کر بھی دیتے تو تھوڑی دیر بعد ہمارے لیے کوئی تحفہ لے آتے اور کہتے میں نے تمہیں ڈانٹ دیا تھا۔ میں نے سوچا کہیں تم مجھ سے ناراض نہ ہو جاؤ۔

آخری دم تک ہمیں ہمیشہ خلافت کے ساتھ مضبوط تعلق بنا کر رکھنے کی تلقین کرتے رہے۔ہمارے سینوں کو عشقِ خدا اور عشقِ رسولؐ سے ہمیشہ منور کرتے رہے اور تلقین کی کہ اپنی آئندہ نسلوں کی بھی اسی نہج پر تربیت کرنا۔ہم دونوں بھائیوں کو حافظِ قرآن بنایا،بڑے بھائی کو وقفِ نوکی بابرکت تحریک میں شامل کیا جبکہ خاکسار کو خلافت جوبلی کے سنگِ میل کو اپنی زندگی میں دیکھنےکے شکرانے کے طور پر خلیفہ وقت کی خدمت میں بطور وقف زندگی پیش کیا جسے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہِ شفقت قبول فرمایا۔ہمیں ہمیشہ اپنے وقف کو احسن طریق پر نبھانے کی نصیحت کرتے رہتے۔ بڑے بھائی جب مربی بنے تو انہیں تاکیدی نصیحت کی کہ ہمیشہ نظام جماعت کی اطاعت کرنا اور کبھی بھی اپنی خواہش کااظہا ر مت کرنا۔ نظام جماعت بہتر جانتا ہے کہ تم سے کب اور کیا خدمت لینی ہے۔ اپنے تمام رشتےداروں کے ساتھ مضبوط تعلق تھا۔ ہمیشہ ان سے حسنِ سلوک سے پیش آتے۔ اگر رشتہ داروں میں اختلاف ہو بھی جاتا تو فوراً ان میں صلح کروا دیا کرتے۔جامعہ احمدیہ کے ایام طالب علمی سے ہی تمام رشتہ داروں کے لیے ضرورت کی جماعتی کتب و رسائل اور ادویات وغیرہ لے کر جاتے اور ان کی رقم بھی کسی سے نہ لیتے تھے۔ یہاں تک کہ خود مقروض ہو جاتے تھے اور یہ سلسلہ تادم آخر جاری رہا۔ امی جان کی اچانک وفات کے صدمے کو بھی نہایت ہمت و حوصلہ سے نہ صرف خود برداشت کیا بلکہ ہمیں بھی سنبھالا اور خدا کی رضا میں راضی رہنے کی تلقین کی۔ ہمیشہ کوشش کرتے کہ ہمیں کسی صورت امی کی کمی محسوس نہ ہو۔

خدمتِ دین کا جنون تھاجو ابوجان کی زندگی کے باقی تمام معاملات پر حاوی تھا۔وصیت کے نظام میں ہر فرد جماعت کو شامل کرنے کی کوشش کرتے۔ والدین کو اپنی اولاد وقفِ نو کی بابرکت تحریک میں شامل کرنے کی تلقین کرتے۔ ہر فرد گھرانہ کی علیحدہ علیحدہ فائلیں بنا کر انہیں دیتے کہ اپنی جماعتی ڈاک ان میں سنبھال کر رکھیں اور یہ تمام خرچہ اپنی جیب سے برداشت کرتے۔ جماعتی املاک وجائیداد کی خاص حفاظت کرتے۔ کہا کرتے کہ بطور واقفِ زندگی ہم جماعتی املاک کے نگہبان ہیں۔ اپنی بیماری کے ایام میں بھی خدمتِ دین میں مصروف رہے۔ بدین میں بطور مربی ضلع خدمت کی توفیق پارہے تھے۔ وہاں کی جماعت طاہر آباد میں نئی مسجد تعمیر کروائی۔ بیماری کے ایام میں جبکہ چلنا پھرنا تقریباً نا ممکن ہوگیا تھا امارت ضلع کی ڈاک کی ستّر فائلیں بنا کر امیر صاحب ضلع کے حوالے کیں اور اس بات پر افسوس کرتے رہے کہ کچھ مزید وقت مل جاتا تواچھا تھا، ابھی بہت سارے کام ادھورے ہیں۔

آخری ایام میں طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ میں داخل رہے۔لاسٹ سٹیج کینسر کی تشخیص کے باوجود نہایت ہمت سے بیماری کا مقابلہ کرتے رہے۔ عیادت پر آنے والے تمام دوستوں سے خندہ پیشانی سے ملتے اور ان کا احوال دریافت کرتے۔ چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ سجائے ہمیں حوصلہ دیتے رہے کہ دعائیں کرو۔ میرے لیے حضورِانور بھی دعائیں کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے گا اور میں دوبارہ صحت یاب ہو کر میدان عمل میں جاؤں گا اور جماعت کی خدمت کروںگا۔

بالآخر تقدیر غالب آئی اور مورخہ ۱۹؍نومبر ۲۰۲۳ء کو خلیفہ وقت کا یہ بے لوث خادم رات ۱۲ بج کر ۵منٹ پر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مورخہ ۲۰؍ نومبر کو مسجد مبارک ربوہ میں آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور بہشتی مقبرہ دارالفضل میں تدفین عمل میں آئی۔

مورخہ ۲۴؍ نومبر ۲۰۲۳ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ میں ازراہ شفقت ابو جان کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا’’عبدالسلام عارف صاحب مربی سلسلہ…چوّن سال کی عمر میں گذشتہ دنوںوفات پا گئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ ان کے خاندان میں احمدیت ان کے پڑنانا مکرم حاجی حسن خان کے ذریعہ آئی جنہوں نے 1937ءمیں خلافتِ ثانیہ کے دَور میں احمدیت قبول کی تھی۔ ان کی اہلیہ کی بھی وفات ہو گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو دو بیٹوں سے نوازا اور دونوں حافظ قرآن ہیں۔ ایک مربی سلسلہ ہیں اور دوسرے بھی میرا خیال ہے واقفِ زندگی ہیں۔

ان کے بیٹے حافظ عبدالمنعم جو مربی سلسلہ ہیں کہتے ہیں بہت پیار کرنے والے تھے۔ پیار سے تربیت کی۔ نہ صرف اپنی اولاد سے پیار کیا بلکہ برادری سے بھی صلہ رحمی اور محبت کا بہت تعلق تھا۔ لوگوں سے بھی بہت پیار کا تعلق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ ان کی وفات پر آئے اور اپنے تعلقات کا ذکر کیا۔ کہتے ہیں ہمارے دلوں میں اللہ اور اس کے رسولؐ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلافت کی محبت اس قدر راسخ کی کہ اب ہمارے دلوں سے کبھی یہ نکل نہیں سکتی بلکہ ہمیں یہ بھی کہا کہ اپنی اولاد کو بھی تلقین کرتے چلے جانا۔ کہتے ہیں والدہ کی وفات ہوئی تو خود بھی بڑا صبرکیا اور ہمیں بھی صبر کی تلقین کی۔

ان کے ایک مربی دوست راجہ مبارک صاحب ہیں کہتے ہیں میں ان کا کلاس فیلو تھا اور اکثر وقت ان کے ساتھ جامعہ میں بھی اور فیلڈ میں بھی گزارا اور ایک فرشتہ صفت انسان تھے۔ عبادت میں بھی اعلیٰ مقام، بزرگی میں بھی اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ نہایت مہذب زبان استعمال کرتے۔ دلیل سے بات کرتے، کبھی کسی سے نہ لڑتے۔ لوگ ان سے لڑ لیتے، زیادتی بھی کر لیتے لیکن وہ ہمیشہ خندہ پیشانی سے ملتے۔ کبھی ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش نہیں کی اور ہر کسی کا پورا پورا خیال رکھتے تھے اور یہی ایک حقیقی مربی کی خصوصیت ہے۔ اور کہتے ہیں جہاں جہاں بھی وہ رہے سینکڑوں افراد کے اندر خلافت سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری۔ اتنی گہرائی میں جا کر انہوں نے تربیت کی کہ ان کی وفات پر جہاں جہاں بھی وہ رہے لوگ آئے اور مربی صاحب کا ذکر کر کے دھاڑیں مار مار کر روتے تھے کہ ہماری جماعت یتیم ہو گئی۔ خود کئی کئی میل کا پیدل سفر کرتے تھے۔ پانچ دس کلو میٹر کا سفر پیدل کر لیتے تھے اور جب ان کو کہا جاتا تھا کہ جماعت سہولت دیتی ہے کرایہ رکشہ وغیرہ لے لیا کریں تو کہتے اگر میں جماعت کے پیسے بچاتا ہوں تو تم لوگوں کو کیا تکلیف ہے۔ اور پیدل دورے کیا کرتے تھے، میلوں میل دورے کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ایسے باوفا اور محنتی مربیان اللہ تعالیٰ جماعت کو ہمیشہ دیتا رہے اور بچوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔‘‘(خطبہ جمعہ ۲۴؍نومبر۲۰۲۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۵؍دسمبر۲۰۲۳ء)

بعد نماز جمعہ پیارے آقا نے نماز جنازہ غائب بھی ادا کی۔ علاوہ ازیں مجالس صادق پور، علی پور، تونسہ شریف، حیدرآباد، بدین و دیگر میں بھی نماز جنازہ غائب ادا کی گئی۔ مرحوم نے لواحقین میں دو بیٹے حافظ عطاء المنعم مربی سلسلہ، خاکسار اور والد مکرم ہارون احمد صاحب کے علاوہ تین بھائی اور پانچ بہنیں سوگوار چھوڑی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور اپنے پیاروں کی محافل میں جگہ دے۔ آمین اللھم آمین

اے خدا بر تُربتِ او ابر رحمتہا ببار

داخلش کن از کمال فضل در بیت النعیم

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button