الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
محترم شیخ محمد حسن صاحب
سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے دورِ ہجرت کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کی عالمگیر تاریخ میں کئی نئے ابواب رقم ہوئے۔ جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ لندن میں مقیم خلافت احمدیہ کے سلطان نصیر قابل رشک انداز میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ لبیک کہتے ہوئے اپنے آقا کے قدموں میں آبیٹھے۔ ان مخلص خدام میں درویش صفت محترم شیخ محمد حسن صاحب بھی شامل تھے۔ آپ کئی دہائیوں سے شعبہ ضیافت کے ساتھ منسلک تھے اور معروف خادم دین تھے۔ جلسہ سالانہ اور دیگر تقریبات کے دوران کئی کئی روز اسلام آباد میں مہمان نوازی کے فرائض طبعی خوش دلی کے ساتھ سرانجام دیتے۔ ایسے میں تکان سے چُور محترم شیخ صاحب کو (اُن کے دورِ ضعیفی میں بھی)ہم نے کبھی کسی کے ساتھ شدید ناراض ہوتے یا تلخ کلامی کرتے نہیں دیکھا۔ اگر کسی مہمان یا کارکن کی طرف سے زیادتی ہو بھی جاتی تو رنج کا اظہار اگرچہ آپ کے چہرے پر تو دکھائی دیتا لیکن نہ آپ کی خدمت کے انداز میں کوئی کمی آتی اور نہ آپ کی زبان سے کوئی ناشائستہ یا ناگوار کلمہ ادا ہوتا۔ آپ کی یہی خوبیاں تھیں جن کی وجہ سے آپ ’بھائی حسن‘ کے نام سے معروف تھے اور ہر ایک کی نگاہ میں قابل احترام تھے۔ ’’اخبار احمدیہ‘‘ لندن کی پیکنگ کا کام سالہاسال آپ کے گھر میں ہوتا رہا۔ آپ کی بیٹی مکرمہ صفیہ بشیر سامی صاحبہ نے برسوں پر محیط اپنی یادوں کو ۳۳۶؍صفحات پر مشتمل کتاب’’میری پونجی‘‘کی صورت میں مرتب کیا ہے۔ اس کتاب کا تعارف رسالہ ’’انصارالدین‘‘جنوری فروری ۲۰۱۴ء میں خاکسار (محموداحمد ملک)کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
محترم شیخ محمد حسن صاحب اپنے خودنوشت حالات زندگی میں رقمطراز ہیں کہ میرے والد کا نام محترم نور محمد صاحب تھا۔ والدہ مکرمہ فاطمہ بی بی صاحبہ بڑی وضع دار خاتون تھیں۔ گھر میں نہ صرف اپنے بچوں کی کثرت تھی بلکہ والد صاحب کی عادت تھی کہ اگر کوئی رشتہ دار بچہ یتیم ہوجاتا تو اسے بھی گھر لے آتے۔ چنانچہ اٹھارہ بیس افراد ہر وقت گھر میں ہوتے تھے۔ اتنے بچوں کو قابو میں رکھنا ایک مضبوط اعصاب والی خاتون کا تقاضا کرتا ہے اور وہ والدہ صاحبہ کو اللہ تعالیٰ نے عطا کر رکھے تھے۔ آپ ہر ایک کی مدد کے لیے تیار رہتیں۔ گھر کے قریب قبرستان تھا۔ جب بھی کوئی میت آتی تو آپ کو ئی مشروب بناکر لے جاتیں اور غمزدہ لوگوں کی ڈھارس بندھاتیں۔ اکثر رات کو محلہ کے غریب گھروں میں جاکر اُن کی مدد کرتیں۔ یورپ میں مساجد کی تعمیر کے لیے احمدی خواتین سے حضرت مصلح موعودؓ نے تحریک فرمائی تو آپ نے اپنی سونے کی بالیاں پیش کردیں۔
میرے والد محترم نور محمد صاحب ایک خاموش طبع، غریب پرور اور ہر کسی پر ترس کھانے والے انسان تھے۔ پیشہ جلدبندی تھا۔ آمد زیادہ نہیں تھی لیکن ضرورتمندوں کی مدد دل کھول کر کرتے۔ توکّل علی اللہ بہت تھا اور اللہ تعالیٰ کا ان سے سلوک بھی نرالا تھا۔ ایک بار ہم دونوں کہیں جارہے تھے کہ اُنہیں سانپ نے ڈس لیا۔ آپ سارا راستہ دعائیں پڑھ پڑھ کر پھونکتے رہے جن میں بکثرت درودشریف اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبحٰنَکَ اِنِّی کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ شامل تھی۔ الحمدللہ کہ سانپ کے کا ٹے کا کوئی بھی بد اثر آپ پر نہ ہوا۔
ایک بار آپ قادیان جانے کے لیے گاڑی میں سوار ہوئے لیکن گاڑی چلنے سے قبل اتر آئے۔غا لباً کوئی القاء ہوا ہوگا۔ بعد میں یہ گاڑی راستہ میں حادثہ کا شکار ہوگئی۔
ایک بار خاکسار اور والد صاحب نے سٹیشن پر پہنچ کر بابو کو کچھ پیسے دیے کہ فلاں جگہ کے دو ٹکٹ دے دو۔ اُس نے کہا دو آنے کم ہیں۔ ہمارے پاس وہی پیسے تھے۔ والد صاحب مجھے کہنے لگے کہ تم ٹرین پر چلے جاؤ مَیں پیدل آجاؤں گا۔ مَیں نے اصرار کیا کہ آپ چلے جائیں مَیں پیدل آجاؤں گا۔ اتنے میں مجھے جیب میں کوئی سخت سی چیز محسوس ہوئی۔ دیکھا تو دو آ نہ کی رقم نکلی۔ چنانچہ دونوں اکٹھے سفر پر روانہ ہوئے۔ آج تک سمجھ نہیں آئی کہ رقم میری جیب میں کہاں سے آئی۔
والد صاحب جسمانی لحاظ سے اتنے مضبوط نہ تھے۔ ایک مرتبہ کسی نے حضرت مسیح موعودؑ کو گالی دی تو شدید صدمے سے آپ بےہوش ہوگئے۔ والدہ میرے بچپن میں ہی وفات پاگئی تھیں اور والد صاحب کے ساتھ کثیر تعداد بچوں کی رہ گئی تھی۔ احمدیت کی مخالفت، بچوں کی ذمہ داری اور دیگر پریشانیاں … چنانچہ کچھ شادیاں غیراحمدیوں میں ہوئیں اور ہم اس ملےجلے ماحول میں آگے بڑھنے لگے۔ والد صاحب کی طبیعت میں نرمی تھی اس لیے جس نے جو چاہی وہی راہ اختیار کرلی۔ ہم چھ میں سے تین بھائی احمدی ہوئے۔ ایک بہن بھی احمدی ہوئی لیکن مخالف سسرال کے زیراثر اُس کی اولاد احمدی نہ ہوئی۔
۱۹۳۰ءمیں ملک میں کئی تحریکیں چل رہی تھیں۔ اپنی جوشیلی طبیعت کی وجہ سے ہر جلسے جلوس میں مَیں شامل ہوتا تھا۔ کشمیر موومنٹ چلی تو مَیں احرار کے جلوس میں شامل ہوکر اسلام کے نام پر گرفتار ہوا۔ تین ماہ کی سزا ہوئی۔ مولوی گھروں کو چلے گئے اور ہم جیلوں میں۔ اس دوران رمضان آیا تو مَیں نے پورے روزے رکھے جس سے دل کی سختی نرمی میں بدل گئی۔ گھر کے پاس امام باڑا کی مسجد تھی۔ رہائی کے بعد مَیں نماز کے لیے وہاں جانے لگا۔ وہاں ایک بزرگ مکرم رحیم بخش صاحب بھی آتے تھے۔ بہت کم گو تھے۔ ایک روز مجھے کہنے لگے کہ تم سارا کچھ دیکھ آئے ہو، یہ سارے شیطانوں کے ٹولے ہیں، مرزا صاحب سچے ہیں اُن کو مان لو۔مَیں نے کہا کہ آپ خود کیوں نہیں مان لیتے؟ کہنے لگے کہ میری بات چھوڑو۔ پھر اپنی ایک خواب سنائی جس میں حضرت مسیح موعودؑ نے انہیں بتایا تھا کہ اس زمانہ میں رسول کریم ﷺ کے تخت کی نگرانی کرنے کے لیے میری ڈیوٹی لگی ہے۔
اُن کی بات نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا اور جلسہ سالانہ پر اپنے بھائی کے ہمراہ قادیان چلاگیا۔ جلسہ سنا اور لوگوں کا باہمی تعلق دیکھا، حضرت مسیح موعودؑ کے مزار پر گیا تو کوئی بدعت نہیں دیکھی۔ آخر حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر بیعت کرکے واپس لَوٹا۔ یہ دیکھ کر والد صاحب کا حوصلہ بہت بلند ہوا۔ لیکن محلہ والوں کو پتا چلا تو بائیکاٹ کر دیا۔ پھر میرے چھوٹے بھائی منظور نے اور کچھ عرصہ بعد خالہ زاد غلام محمد صاحب نے بھی بیعت کرلی۔ غلام محمد صاحب مضبوط جسم کے مالک تھے۔ لمبا عرصہ فیصل آباد میں خادم مسجد اور اسیرراہ مولیٰ بھی رہے۔ فیصل آباد میں شہید ہونے والا وحید احمد اُن کا پوتا تھا۔ بائیکاٹ کے دنوں میں ایک روز ہم دونوں کبڈی کا میچ دیکھ رہے تھے۔ ہمارے محلہ کی ٹیم بُری طرح ہار رہی تھی۔ کسی معتبر کی نظر ہم پر پڑی تو انہوں نے ہمیں میدان میں اُترنے کو کہا۔ ہم نے کہا کہ ہمارا تو بائیکاٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مولوی تو یونہی فساد پیدا کرتے ہیں، اس وقت محلہ کی غیرت کا سوال ہے۔ ہم نے سوچا کہ یہ تو کوئی تَصرّفِ الٰہی لگتا ہے۔ پھر دعا کرکے ہم میدان میں اترے تو جلد ہی مخالف ٹیم شکست کھاگئی۔ اس پر بائیکاٹ کرنے والے ہی اپنے کندھوں پر اٹھا کر ہمیں جلوس کی شکل میں واپس لے کر آئے اور با ئیکاٹ خودبخود ختم ہو گیا۔
میری منگنی غیراحمدی تایا کی بیٹی سے طے تھی۔ جب ہم بارات لے کر اُن کے ہاں پہنچے تو اچانک ایک ا حراری مولوی نے لڑکی کے والد کو لعن طعن کی۔ اس پر لڑکی کے والد نے مجھے ایک کاغذ دیا کہ دستخط کردو۔ اس پر لکھا تھا کہ مَیں احمدی نہیں ہوں۔ اور تسلی دلائی کہ یہ تحریر عارضی ہے تاکہ وقت گزر جائے۔ وہ اسے معمولی مسئلہ سمجھتے تھے لیکن میرے لیے یہ زندگی اور موت والی بات تھی۔ مَیں نے انکار کردیا۔ چنانچہ ایک بزرگ کے گھر پنچایت لگائی گئی اور سب مجھے مجبور کرنے لگے کہ دستخط کردو بعد میں جو مرضی ہوجاؤ ہمیں پروا نہیں۔ دباؤ اتنا بڑھا کہ دل چاہتا تھا کہ بھاگ جاؤں لیکن ایسا کرنا بہت مشکل تھا۔ بس اللہ پر توکّل کرکے ڈٹارہا۔ لڑکی والے تحریر چھوڑ کر اب زبانی اقرار کو ہی کافی سمجھنے لگے۔ آخر لڑکی کے والد نے اپنی پگڑی میرے پاؤں میں رکھ دی۔ مَیں نے پگڑی اُٹھا کر اُن کے سر پر رکھ دی تو انہوں نے پوچھا کیا تم مان گئے ہو کہ تم مرزائی نہیں ہو؟ مَیں نے کہا ہاں، مَیں مرزائی تو نہیں مگر بفضلِ خدا احمدی ضرور ہوں۔ یہ جواب سن کر لڑکی کا باپ سخت غصے میں آگیا۔ مَیں نے اُن کو سمجھا یا کہ مَیں اتنی دنیا کے سامنے کھڑا ہو کر یہ اعلان کررہا ہوں کہ مَیں احمدی ہوں آپ بھی ہمت کریں۔ جن بزرگ کے گھر میٹنگ ہو رہی تھی وہ مجھے کہنے لگے کہ میری اتنی عمر ہوگئی ہے مَیں نے ایسا نظارہ کبھی نہیں دیکھا کہ لڑکی والے اپنی پگڑیاں اتار کر لڑکے کے پاؤں میں رکھیں اور وہ اپنے ایمان پر قائم رہے۔میرا مشورہ تمہیں یہی ہے کہ تم اپنا ارادہ پکا رکھو۔ مجھے تمہارا پیرو مرشد کامل لگتا ہے۔ مجھے اُن کی بات سے مزید تقویت ملی۔ میرے انکار پر لڑکی والوں پر اس قدر رعب پڑا کہ انہوں نے پوچھا کہ آپ کوئی ہرجانہ وغیرہ کا مقدمہ تو نہیں کریں گے؟ والد صاحب نے اُن کو تسلی دی کہ ہمارا کوئی ایسا ارادہ نہیں۔
میرا شادی سے انکار شہر بھر میں تبلیغ کا سبب بن گیا اور ہمارا احمدیت کے ساتھ قرب بڑھنے لگا۔ اسی دوران مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کی غالباً پہلی تقرری ۱۹۳۳ء میں لدھیانہ میں ہوئی تو مناظروں کا مرکز ہمارا گھر بن گیا۔ جلد ہی غیراحمدی مولوی مناظروں سے بھاگنے لگے۔ پھر اُن کی جگہ محترم مولانا احمد خان نسیم صاحب آ گئے تو شہربھر میں مشہور ہوگیا کہ احمدیوں کے دلائل کا جواب نہیں دیا جاسکتا۔ یہ مناظرے میرے لیے تقویت کا باعث اور بہت سوں کی ہدایت کا باعث بھی ہوئے۔ ایک مسلمان جو عیسائی ہوچکا تھا وہ بھی احمدی ہوگیا۔
پھر قادیان میں میرے رشتہ کی تجویز ہوئی۔ حضرت میاں فضل محمد صاحبؓ ہر سیاں والے کی بیٹی مکرمہ حلیمہ بی بی صاحبہ کا رشتہ زیر غور تھا۔ لڑکی والوں نے خاکسار کا خاصا انٹرویو لیا۔ کم و بیش ہر بات کا جواب اُن کی امیدوں کے برعکس تھا۔ تعلیم کا پوچھا تو جواب نفی میں تھا، کاروبار کا پوچھا تو کوئی ایسا کام نہ تھا جو مَیں بیان کرتا۔ آمد اندازاً پندرہ بیس روپے بتادی۔ مَیں بےفکر تھا کہ جو کچھ بتایا ہے سچ تو بتایا ہے۔ اس پر لڑکی والوں نے ہمیں جواب دے دیا۔ ہم اگلے روز ناکام لاری کے اَڈہ پرپہنچے۔ ابھی بس میں بیٹھنے ہی والے تھے کہ ہمیں واپس بلایا گیا اور بتایا گیا کہ رات مولانا احمد خان نسیم صاحب نے اس رشتہ کے لیے دعا کی تو اُن کو حضرت رسول کریم ﷺ کی زیارت ہوئی اس وجہ سے اس رشتہ کو با برکت سمجھا گیا ہے۔ چنانچہ ۱۹۳۴ءکے جلسہ سالانہ پر حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے نکاح پڑھایا اور ۱۹۳۵ءمیں میری شادی ہوگئی۔
شادی کے چند روز بعد ایک جھوٹے مقدمے میں مَیں نامزد ہوگیا اور پولیس مجھے پکڑ کر لے گئی۔ اس پر مخالفین نے خوشیاں منائیں۔ خاکسار کے والد نے میری نوبیاہتا اہلیہ کو دعا کے لیے کہا تو اُس نے جواب دیا کہ مجھے تو کوئی فکر نہیں کیونکہ مَیں نے خواب میں (اس عاجز کو) اچکن اور پگڑی میں دیکھا ہے اور یہ عزت کی نشانی ہے۔ بہرحال مجھے رات تھانہ میںگزارنا پڑی لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے کو ئی تکلیف نہ ہونے دی۔ سپاہیوں نے پوچھا کیسے آنا ہوا؟ خاکسار نے وجہ بتائی تو انہوں نے مجھے کھانا کھلایا اور سونے کے لیے پلنگ بھی دیا۔ اگلے روز بھائی آکر مجھے چھڑاکر لے گیا۔ واپسی پر ہمیں مخالفین کا ایک گروہ ملا جو میرے خلاف گواہی دینے تھانے جارہا تھا۔ مجھے واپس آتا دیکھ کر انہیں بہت مایوسی ہوئی۔
پھر مَیں بمبئی آگیا۔ یہاں مجھے سیکرٹری تبلیغ چُن لیا گیا۔ مَیں اَن پڑھ تھا۔ مَیں نے اپنی مجبوری بتائی تو دوبارہ الیکشن ہوا لیکن جماعت نے پھر میرا ہی نام کثرت رائے سے منظور کیا۔
جب خاکسار فیروزپور قلعہ میں ملازم تھا تو ایک روز کمشنر صاحب کے کہنے پر اُن کے بچوں کی کتابوں کی جِلد بندی کردی لیکن اُن کے اصرار پر بھی پیسے نہ لیے اور یہی کہا کہ بچوں کا کام کرنے کی مَیں کوئی اُجرت نہیں لیتا۔ اس پر وہ کہنے لگے اگر میرے لائق کوئی کام ہوتو ضرور بتائیں۔ پاکستان بننے کے بعد ہم لاہور آئے تو نہ کوئی گھر تھا اور نہ کوئی کاروبار۔ کسی نے بتایا کہ وہ کمشنر فیصل آباد میںالاٹمنٹ افسر لگے ہوئے ہیں۔ چنانچہ مَیں وہاں چلاگیا۔ لوگوں کا کافی ہجوم تھا۔ جب وہ میرے پاس سے گزرنے لگے تو مَیں نے اُن کو سلام کیا۔ وہ مجھے دیکھ کر بہت حیران ہوئے اور فرمایا:کیا مجھ سے کوئی کام ہے؟ مَیں نے اپنی ضرورت بتائی تو اُنہوں نے اپنے آفیسر کو ہدایت دی۔ اس طرح مجھے فیصل آباد میں عین مسجد فضل کے سامنے لوہے سے بھری ہوئی دکان الاٹ ہو گئی۔
احمدیت کی برکت سے مجھے خداتعالیٰ نے کئی اعجازی نشان دکھائے۔ یعقوب نامی ایک شخص دہریہ خیالات رکھتا تھا۔ ایک دن اُس نے طنزاً کہا کہ کتنی شدید گرمی ہے، تم اپنے خدا سے کہو کہ بارش برسا دے۔ پھر وہ پیچھے ہی پڑ گیا۔ خاکسار نے اُسے سمجھایا کہ خدا تعالیٰ ہماری خواہشوں کا پابند نہیں ہے۔ لیکن وہ شوخی اور ضد میں اتنا بڑھا کہ میری طبیعت دعا کی طرف مائل ہو گئی۔ اس رات بادل آئے، گرج چمک ہوئی لیکن بارش نہ ہوئی۔ میرا خدشہ درست ثابت ہوا کہ صبح جب مَیں کام پر پہنچا تو اُس نے طعنہ دیا کہ رات تمہارا خدا گرجا تو بہت لیکن برسا نہیں۔ پھر مسلسل طنز کرکے اُس نے میرا بیٹھنا محال کردیا تو مجھ پر عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ شدید گرمی میں باہر نکل کر مَیں نے آسمان کی طرف منہ اٹھایا اور اللہ تعالیٰ کو اُس کی غیرت کا واسطہ دے کر دعا کی۔ زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ نہ جانے کہاں سے بادل آئے اور میرے چہرے پر قطرے گرنے لگے۔خاکسار نے زوردار بارش کی التجا کی تو اتنی زور سے بارش ہوئی کہ وہ بھی بےاختیار بول اُٹھا کہ میں مان گیا ہوں کہ تمہارا خدا زندہ ہے۔ یہ بھی کہا کہ ایسا سلوک صرف مرزا صاحب کے ما ننے والوں کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔
ایک بار مَیں حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ (یسرناالقرآن والے) کی خدمت میں حاضر تھا۔ ایک دوست جو کسی سرکاری محکمہ کے بڑے افسر تھے، وہاں آئے، دعا کی درخواست کی اور ایک خطیر رقم پیش کی۔ آپؓ نے فرمایا: مَیں دعا تو ضرور کروں گا لیکن یہ رقم آپ اسلام کی ترقی کے لیے حضرت خلیفۃالمسیح کی خدمت میں پیش کردیں۔
۱۹۵۰ءمیں مجھے فرقان فورس میں شمولیت کی توفیق ملی۔ جب مَیں محاذ پر جانے لگا تو حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؓ نے نام پوچھا تو عرض کیا:محمد حسن۔ حضورؓنے فرمایا:کیا محمداسلم؟ خاکسار نے کہا:نہیں حضور! محمد حسن۔ حضورؓ نے پھر فرمایا:اچھا اچھا محمد اسلم۔ ایسا تین بار ہوا۔ پھر مَیں محاذ پر چلاگیا۔ چند ہفتوں بعد بیٹے کی پیدائش کی اطلاع ملی۔ مَیں نے وہیں سے حضورؓ کی خدمت میں نام رکھنے کی درخواست بھجوائی تو حضورؓ نے ’محمد اسلم‘ نام تجویز فرمادیا۔
۱۹۵۰ءمیں شدید سیلاب آیا تو اہل ربوہ کی خیریت دریافت کرنے کے لیے محترم امیر صاحب نے فیصل آباد سے ہم دو افراد کو دودھ کے ڈبّے دے کر بھجوایا۔ ہم رجوعہ تک بس میں اور پھر پیدل گہرے پانیوں میں سے گزر کر ربوہ پہنچے۔ ربوہ خدا کے فضل سے با لکل محفوظ تھا بلکہ سیلاب کی وجہ سے پھلوں اور دیگر اشیاء کے کئی ٹرک وہاں رُکے ہوئے تھے جن کی وجہ سے اشیائے خورونوش کی فراوانی تھی۔
مکرم حکیم خورشید احمد صاحب لائبریرین جامعہ نے ایک بار مجھے بارہ کتابیں جلدبندی کے لیے دیں۔ مَیں کتابیں تیار کرکے بس کی چھت پر رکھ کر اُن کو دینے جارہا تھا کہ منزل پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ زیادہ تر کتابیں راستے میں گرگئی ہیں۔ مجھے بہت فکر اور سخت صدمہ ہوا۔ پھر کتابوں کو ڈھونڈنے کا پکا ارادہ کرکے مولوی صاحب سے سائیکل لے کر فیصل آباد کی طرف دعا کرتے ہوئے چل پڑا۔ راستہ میں ملنے والا ہر شخص لاعلمی کا اظہار کرتا۔ رجوعہ کے قریب کچھ مزدور سڑک بنا رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک کتاب ہمیں ملی ہے اور ایک ہم نے فلاں شخص کے پاس دیکھی ہے۔ چنانچہ ایک میل دُور اُس شخص کے گھر پہنچا۔ اُس کی ماں نے بڑی محبت سے بٹھایا اور گرم گرم دودھ پیش کیا جسے پی کر میری جان میں جان آئی کیونکہ مَیں صبح سے بھوکا پیاسا تھا۔ اُس شخص نے بتایا کہ دوسرے گاؤں کے سکول ہیڈماسٹر کو مل لیں کیونکہ بچے اس سڑک سے گزرتے ہیں۔ ہیڈماسٹر صاحب بہت ہی شریف انسان تھے۔ اُنہوں نے فوراً ہی سکول کے بچوں سے رابطہ کیا اور ساری کتابیں اسی گاؤں سے مل گئیں۔ یہ ایک معجزہ تھا۔
ایک روز حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے ذاتی ڈائری ٹھیک کرنے کے لیے دی۔ اس پر دعا کی غرض سے کئی نام لکھے ہوئے تھے۔ مَیں نے ڈائری واپس کی تو انہوں نے اجرت پوچھی۔ مَیں نے عرض کیا کہ میرا نام بھی اس دعائیہ فہرست میں لکھ لیں۔ کچھ عرصہ بعد مَیں نے خواب دیکھا کہ مفتی صاحبؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے آپ کا نام انگریزی میں لکھ لیا ہے۔ جب یہ خواب مَیں نے حضرت مفتی صاحبؓ کو سنائی تو آپؓ نے فرمایا کہ خواب میں ’محمد‘ اور ’صادق‘ کو دیکھا ہے تو ایسا ہوکر رہے گا۔ چنانچہ بعد میں افریقہ اور لندن میںسالہاسال کے قیام کے دوران بےشمار جگہ میرا نام انگریزی میں لکھا گیا۔
۱۹۵۸ء میں خاکسارکو ایک واقف کار (غلام محمد صاحب کاشمیری) نے اپنا ایک خواب سنایا کہ میاں طاہر احمد صاحب خلیفہ بن گئے ہیں۔ یہ بات 24 سال بعد پوری ہوئی۔
حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ جب نیروبی آئے تو مَیں نے آپؓ کو اپنا خواب سنایا کہ مَیں آپؓ کی ٹانگیں دبا رہا ہوں۔ آپؓ نے فرمایا خواب تو ہم دونوں کے لیے ہی بہت اچھی ہے لیکن اس کی ضرورت نہیں کیونکہ مجھے دبوانا اچھا نہیں لگتا۔ جب مَیں لندن آگیا تو اس خواب کی تعبیر ظاہر ہونے لگی۔ حضرت چودھری صاحبؓ کی کئی کتابوں کی جِلدبندی کی مجھے توفیق ملی اور آپؓ کا پیار مجھ ناچیز سے بڑھتا گیا۔ ایک دن کسی کا نکاح تھا۔ آپؓ ہاتھ میں لڈو پکڑے، تلاش کرتے ہوئے آ ئے اور لڈو میرے ہاتھ پر رکھ دیا۔
ایک دن آپؓ نے مجھے اپنا بستر ٹھیک کرنے کو کہا۔ مَیں بہت خوش ہوا اور جلدی جلدی بستر ٹھیک کیا۔ مَیں نے دیکھا کہ آپؓ نے اپنی پتلون تہ کرکے تکیے کے نیچے رکھی ہوئی تھی تاکہ اُس کی تَہ ٹھیک رہے۔ بستر دیکھ کر آپؓ مسکرائے اور فرمایا: لگتا ہے تمہارا بستر تمہاری بیوی ٹھیک کرتی ہے۔
ایک دن مَیں آپؓ کے پاس بیٹھا تھا کہ محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب تشریف لائے، جو بہت خوش تھے۔ انہوں نے نوبیل انعام ملنے کی خبر دی۔ پھر حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں اسی وقت اطلاع دی گئی۔ اُس وقت تک مجھے نوبل انعام کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔جب ڈاکٹر صاحب تشریف لے گئے تو پھر آپؓ نے مجھے نوبیل انعام کے بارے میں تفصیل سے سمجھایا۔
محترم شیخ محمد حسن صاحب کی وفات ۵؍فروری ۲۰۰۳ء کو ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئے۔
………٭………٭………٭………