احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
(گذشتہ سے پیوستہ)
۸:شیخ محمدبہاؤالدین صاحب مدارالمہام ریاست جوناگڈھ
انہوں نے کتاب کے لیے پچاس روپے ارسال کیے تھے اور اللہ تعالیٰ نے قبل ازوقت آپؑ کواس کی اطلاع بھی دی تھی۔چنانچہ آپؑ تحریر فرماتے ہیں:’’ہم کو یاد ہے کہ محرم۱۲۹۹ہجری[۱۸۸۱ء] کی پہلی یا دوسری تاریخ میں ہم کو خواب میں یہ دکھائی دیا کہ کسی صاحب نے مدد کتاب کے لئے پچاس روپیہ روانہ کئے ہیں۔ اسی رات ایک آریہ صاحب نے بھی ہمارے لئے خواب دیکھی کہ کسی نے مدد کتاب کے لئے ہزار روپیہ روانہ کیا ہے۔ اور جب انہوں نے خواب بیان کی تو ہم نے اسی وقت ان کو اپنی خواب بھی سنا دی اور یہ بھی کہہ دیا کہ تمہاری خواب میں انیس حصے جھوٹ مل گیا ہے۔اور یہ اُسی کی سزا ہے کہ تم ہندو اور دین اسلام سے خارج ہو۔ شاید اُن کو گراں ہی گزرا ہوگا۔ مگر بات سچی تھی جس کی سچائی پانچویں یا چھٹے محرم میں ظہور میں آگئی یعنے پنجم یا ششم محرم الحرام میں مبلغ پچاس روپے جن کو جوناگڈھ سے شیخ محمد بہاؤ الدین صاحب مدار المہام ریاست نے کتاب کے لئے بھیجا تھا۔ کئی لوگوں اور ایک آریہ کے روبرو پہنچ گئے۔ والحمد للّٰہ علٰی ذالک۔‘‘(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد۱صفحہ۲۸۳-۲۸۴ حاشیہ در حاشیہ نمبر۱)
۹: نواب محمود علی خان صاحب رئیس چھتاری
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہین احمدیہ جلدچہارم صفحہ ۳۱۹ پر تحریر فرمایا ہے کہ’’ہاں نواب اقبال الدولہ صاحب حیدرآباد نے اور ایک اور رئیس نے ضلع بلند شہر سے جس نے اپنا نام ظاہر کرنے سے منع کیا ہے ایک نسخہ کی قیمت میں سو سو روپیہ بھیجا ہے۔‘‘
ضلع بلند شہر کے جس رئیس کا حضورؑ نے ذکر فرمایا ہے کہ انہوں نے ایک سو روپیہ براہین احمدیہ کے لیے بھیجا لیکن اپنا نام ظاہر کرنے سے منع کیا ہے۔ قرائن سے معلوم ہوتاہے کہ یہ رئیس نواب محمود علی خاں صاحب بہادر رئیس چھتاری ضلع بلند شہر تھے۔ اس کا علم رسالہ اشاعۃ السنہ سے بھی ہوتا ہے۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بعض رؤساء اسلام کی طرف مراجعت کی حضرت اقدسؑ کو تحریک کی تھی جن میں نواب صاحب ممدوح کا نام بھی ہے۔ اور لٹریچر سے ان میں سے کئی ایک کو حضرت اقدسؑ کی طرف سے تحریک کیے جانے کا علم ہوتا ہے۔ چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب اشاعۃ السنہ جلد ۲ نمبر نہم و دہم بابت ستمبر و اکتوبر ۱۸۸۰ء میں صفحہ ۳ پر تحریر کرتے ہیں:’’۴۔ براہین احمدیہ کی معاونت کی نسبت ہم نمبر سابق میں بہت کچھ ترغیب دے چکے ہیں جس سے مسلمانان حامیان اسلام کے متاثر ہونے کی قوی امید ہے۔ اب ہم اس کتا ب کے مؤلف مرزا غلام احمد صاحب کو ایک تدبیر فراہمی چندہ یا قیمت کتاب پر آگاہ کرتے ہیں وہ یہ کہ مرزا صاحب اس باب میں ان اعیان و رؤسا ء اسلام کی طرف مراجعت کریں جن میں اکثر ایسے ا ہل وسعت ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی صاحب توجہ کریں تو صرف اپنی ہمت سے بلا شراکت غیر کتاب کو چھپوا سکتے ہیں۔ آگے اس تدبیر کا کار گر ہونا خدا کے اختیار میں ہے۔ جس کی عظمت شان ہے اللّٰھم لامانع لما اعطیت و لا معطی لما منعت حکایت ہے۔ آں حضرات کے نام نامی یہ ہیں:
۱۔نواب والا جاہ امیر الملک مولوی سید محمد صدیق حسن خان صاحب بہادر امیر ریاست بھوپال۔
۲۔نواب محمود علی خان صاحب بہادر رئیس چھتاری ضلع بلند شہر۔
۳۔نواب محمد ابراہیم علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ۔
۴۔…
۵۔ جناب خلیفہ محمد حسن صاحب وزیر ریاست پٹیالہ دام اقبالھم۔‘‘
اشاعۃ السنہ کی طرف سے اس ذکر پرا نہی ایام میں حضرت اقدسؑ نے نواب صاحب چھتاری کو مدد کے لیے توجہ دلائی تھی چنانچہ حضورؑ ۲۱؍جون ۱۸۸۳ء کے مکتوب میں میر عباس علی صاحب لدھیانوی کو تحریر فرماتے ہیں کہ’’ابتدامیں جب یہ کتاب چھپنی شروع ہوئی تواسلامی ریاستوں میں توجہ اور مدد کے لئے لکھاگیاتھابلکہ کتابیں بھی ساتھ بھیجی گئی تھیں۔سواس میں سے صرف نواب ابراہیم علی خان صاحب نواب مالیرکوٹلہ اور محمودخان صاحب رئیس چھتاری اور مدارالمہام جوناگڑھ نے کچھ مدد کی تھی۔ دوسروں نے اول توجہ ہی نہیں کی اوراگرکسی نے کچھ وعدہ بھی کیاتو اس کاایفانہیں کیا۔ بلکہ نواب صدیق حسن خان صاحب نے بھوپال سے ایک نہایت مخالفانہ خط لکھا۔آپ ان ریاستوں سے ناامیدرہیں اور اس کام کی امداد کے لئے مولیٰ کریم کوکافی سمجھیں۔ أَلَيْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ‘‘(مکتوبات احمدؑ جلداول صفحہ ۵۳۸،مکتوب نمبر۲۰)
۱۰: محمد افضل خان صاحب
انہوں نے ایک سو دس روپیہ بھیجا۔ جیساکہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے براہین احمدیہ میں آپ کاذکرکرتے ہوئے لکھا کہ’’اورایک عہدہ دار محمدافضل خان نام نے ایک سودس اور نواب صاحب کوٹلہ مالیر نے تین نسخہ کی قیمت میں سوروپیہ بھیجا۔‘‘ (براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلداول صفحہ ۳۱۹)
جنا ب محترم محمد افضل خان صاحب سپرنٹنڈنٹ بندوبست راولپنڈی تھے۔ انہی کابھیجاہوا یہ روپیہ ایک نشان بھی ٹھہرا چنانچہ اس کاذکرکرتے ہوئے حضرت اقدس علیہ السلام تحریرفرماتے ہیں:’’کچھ عرصہ گذرا ہے کہ ایک دفعہ سخت ضرورت روپیہ کی پیش آئی۔ جس ضرورت کا ہمارے اس جگہ کے آریہ ہم نشینوں کو بخوبی علم تھا… اِس لئے بلااختیار دل میں اس خواہش نے جوش مارا کہ مشکل کشائی کے لئے حضرتِ احدیت میں دعا کی جائے۔ تا اس دعا کی قبولیت سے ایک تو اپنی مشکل حل ہوجائے۔ اور دوسرے مخالفین کے لئے تائیدالٰہی کا نشان پیدا ہو۔ ایسا نشان کہ اس کی سچائی پر وہ لوگ گواہ ہوجائیں۔ سو اُسی دن دعا کی گئی اور خدائے تعالیٰ سے یہ مانگا گیا کہ وہ نشان کے طور پر مالی مدد سے اطلاع بخشے۔ تب یہ الہام ہوا:دس دن کے بعد میں موج دکھاتا ہوں۔ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ۔ فِیْ شَآئِلٍ مِّقْیَاسٍ۔دن وِل یُو گو ٹو امرت سر۔یعنی دس دن کے بعد روپیہ آئے گا۔ خدا کی مدد نزدیک ہے اور جیسے جب جننے کے لئے اونٹنی دُم اُٹھاتی ہے۔ تب اس کا بچہ جننا نزدیک ہوتا ہے۔ ایسا ہی مدد الٰہی بھی قریب ہے۔ اور پھر انگریزی فقرہ میں یہ فرمایا کہ دس دن کے بعد جب روپیہ آئے گا تب تم امرت سر بھی جاؤ گے۔تو جیسا اس پیش گوئی میں فرمایا تھا ایسا ہی ہندوؤں یعنی آریوں مذکورۂ بالا کے روبرو وقوع میں آیا۔ یعنی حسب منشاء پیش گوئی دس دن تک ایک خر مہرہ نہ آیا۔ اور دس دن کے بعد یعنی گیارھویں روز محمد افضل خان صاحب سپرنٹنڈنٹ بندوبست راولپنڈی نے ایک سو دس روپیہ بھیجے۔ اور بیست روپیہ ایک اور جگہ سے آئے۔ اور پھر برابر روپیہ آنے کا سلسلہ ایسا جاری ہوگیا۔ جس کی امید نہ تھی۔ اور اُسی روز کہ جب دس دن کے گذرنے کے بعد محمد افضل خان صاحب وغیرہ کا روپیہ آیا۔ امرت سر بھی جانا پڑا۔ کیونکہ عدالت ِ خفیفہ امرت سر سے ایک شہادت کے ادا کرنے کے لئے اس عاجز کے نام اُسی روز ایک سمن آگیا۔‘‘(براہین احمدیہ،ر وحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۵۹تا ۵۶۱ بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳)
۱۱: سردار عطر سنگھ صاحب رئیس اعظم لدھیانہ
حضرت اقدس علیہ السلام ان سردارصاحب کی عالی ہمتی اور فیاضی کاذکرکرتے ہوئے اپنی کتاب میں تحریرفرماتے ہیں:’’اور سردارعطرسنگھ صاحب رئیس اعظم لودھیانہ نے کہ جوایک ہندو رئیس ہیں اپنی عالی ہمتی اور فیاضی کی وجہ سے بطور اعانت (۲۵روپے) بھیجے ہیں۔ سردار صاحب موصوف نے ہندو ہونے کی حالت میں اسلام سے ہمدردی ظاہر کی۔ بخیل اور ممسک مسلمانوں کو جو بڑے بڑے لقبوں اور ناموں سے بلائے جاتے ہیں اور قارون کی طرح بہت سا روپیہ دبائے بیٹھے ہیں۔ اس جگہ اپنی حالت کو سردار صاحب کے مقابلہ پر دیکھ لینا چاہئے۔ جس حالت میں آریوں میں ایسے لوگ بھی پائے گئے ہیں کہ جو دوسری قوم کی بھی ہمدردی کرتے ہیں اور مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی کم ہیں کہ جو اپنی ہی قوم سے ہمدردی کر سکیں. . . . اسلامی امیروں میں ایسے لوگ بہت ہی کم پائے جائیں گے کہ جن کو اپنے سچے اور پاک دین کا ایک ذرہ خیال ہو‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱صفحہ۳۱۹، ۳۲۰)
آپ کا پورا نام مع القاب ملاذالعلماء و الفضلاء مہامہو پادھیائے سردار عطر سنگھ صاحب کے۔سی۔ ایس۔ آئی رئیس بھڈور تھا۔ ولادت۱۸۳۳ء وفات ۱۸۹۶ء۔ اپنے والد کے اکلوتے بیٹے تھے جن سے آپ نے بتیس ہزار بیگھہ اراضی اور پینتیس ہزار روپے کی جاگیر ورثہ میں پائی تھی۔ ریاست پٹیالہ کی طرح ان کی بھی ریاست تھی لیکن ۱۸۵۶ء کے بعدچھوٹے راجے جاگیردار قرار دے دیے گئے تھے۔ سردار عطر سنگھ صاحب کی مساعی سے خالصہ کالج بنا تھا۔ وہ کسی خاص فرقہ سے تعلق نہ رکھتے تھے۔ سردار گوردیال سنگھ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حضرت منشی عمر الدین صاحبؓ میرے دادا کے ۱۸۶۶ء سے ۱۸۹۶ء تک قریباً تیس سال ملازم رہے۔ وہ دیانتدار، مضبوط کیریکٹر کے مالک، مذہب کے دلدادہ،ملنسار اور اپنے آقا کے بہت وفادار تھے۔ وہ لائبریری جس میں حضرت منشی صاحب کام کرتے تھے سر موصوف کی وفات پر ان کی وصیت کے مطابق پبلک لائبریری میں شامل کر دی گئی تھی۔
لدھیانہ کی اسی پبلک لائبریری کی بابت مکرم عرفانی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ’’سردار عطر سنگھ صاحب رئیس بھدوڑ ضلع لدھیانہ تھے انہوں نے ایک لائبریری فائدہ عام کے لئے لدھیانہ میں قائم کی ہوئی تھی۔ اس لائبریری کے لائبریرین مولوی عمر دین صاحب رضی اللہ عنہ احمدی تھے۔ ان کا معمول تھا کہ جو لوگ مطالعہ کے لئے آتے انہیں براہین احمدیہ اور سرمہ چشم آریہ کی تعریف کر کے پڑھنے کی تحریک کرتے۔ خاکسار عرفانی جو ان ایام میں طالب علم تھا عموماً دو تین مرتبہ ہفتہ میں ان کے پاس جاتا تھا وہ منشی عمر الدین کے نام سے مشہور تھے۔ مگر بڑے ذی علم اور مرتاض احمدی تھے۔ ابتداء حضرت منشی احمد جان رضی اللہ عنہ کے مرید تھے پھر ان کی عام ہدایت کے ماتحت احمدی ہو گئے۔ بڑے مخلص اور عملی احمدی تھے۔‘‘(اصحاب احمد جلد دوم صفحہ ۲۲ حاشیہ)
(باقی آئندہ ہفتہ کو ان شاء اللہ)