احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
ہم نے تو دو منٹ میں نماز جنازہ ختم ہوتے دیکھی ہے۔ پھر مجھے ہوش آیا تو سمجھا کہ نماز تو یہی نماز ہے پھر تو میں مستقل ہو گیا اور ایک لذت اور سرور پیدا ہونے لگا اور یہ جی چاہتا تھا کہ ابھی اَور نماز لمبی کریں
(گذشتہ سے پیوستہ)
۶:حضرت میاں جان محمد صاحبؓ قادیان
آپ کا نام براہین احمدیہ حصہ اول کے صفحہ نمبر ۱۱ پر فہرست معاونین کے نمبر ۱۲ پر درج ہے اور اعانت کی رقم دو روپے بطور اعانت لکھا ہے۔
بہت ابتدائی زمانہ میں جب کہ ابھی حضورؑ کاکوئی دعویٰ بھی نہ تھا اس وقت قادیان کی مسجداقصیٰ میں اذان دینااور نمازبھی پڑھانے کاکام حضرت میاں جان محمدصاحبؓ کے سپردہی تھا۔
حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں:’’بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔ اے کہ میاں جان محمد والد صاحب کے ساتھ بہت رہتا تھا اور میاں جان محمد کا بھائی غفارا والدصاحب کے ساتھ سفروں میں بعض دفعہ بطور خدمت گار کے جایا کرتا تھا۔اور بعض دفعہ کو ئی اور آدمی چلا جاتا تھا خاکسارعرض کرتا ہے کہ میاں جان محمد قادیان کا ایک نیک مزاج مُلّا تھا اور حضرت صاحبؑ کے ساتھ بہت تعلق رکھتا تھا۔اوائل میں بڑی مسجد میں نماز وغیرہ بھی وہی پڑھایا کرتا تھا غالباً حضرت خلیفہ ثانیؓ کو بھی بچپن میں اُس نے پڑھایا تھا۔غفارا اُس کا بھائی تھا،یہ شخص بالکل جاہل اور ان پڑھ تھا۔اور بعض اوقات حضرت صاحب کی خدمت میں رہتا تھا۔ بعد میں جب قادیان میں آمدورفت کی ترقی ہوئی تو اس نے یکّے بنا کر یکّہ بانی شروع کر دی تھی اس کے لڑکے اب بھی یہی کام کر تے ہیں بوجہ جاہل مطلق ہو نے کے غفارے کو دین سے کوئی مَس نہ تھا مگر اپنے آخری دنوں میں یعنی بعہد خلافت ثانیہ احمدی ہوگیا تھا۔شیخ یعقوب علی صاحب نے لکھا ہے کہ حضرت صاحب کی نصیحت سے غفارے نے اوائل میں جب وہ حضرت صاحب کی خدمت میں تھا نماز شروع کردی تھی مگر پھر چھوڑ دی۔اصل میں ایسے لوگ اعراب کے حکم میں ہوتے ہیں مگر جان محمد مرحوم نیک آدمی تھا اور کچھ پڑھا ہوا بھی تھا۔ اُس کے لڑکے میاں دین محمد مرحوم عرف میاں بگا کو ہمارے اکثر دوست جانتے ہونگے۔قوم کا کشمیری تھا۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۱۹۷)
جب ان کی وفات ہوئی تو حضرت اقدسؑ نے اپنے اس مخلص محبت رکھنے والے کی نمازجنازہ پڑھائی۔ایسی محبت سے پڑھائی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کویہ قابل رشک خواہش پیداہوئی کہ کاش!یہ جنازہ میراہوتا۔
اس نمازجنازہ کی روایت جوحضرت پیرصاحبؓ نے بیان کی ہے حضورؑ کی اس محبت کابھی خوب خوب اندازہ ہوتاہے۔اپنے اس محبت کرنے والے سے محبت کا اور ان جیسے دوسرے ہزاروں لاکھوں محبت کرنے والوں سے بھی محبت کا!
حضرت پیرسراج الحق صاحب نعمانیؓ بیان کرتے ہیں: ’’حضرت اقدس امام موعود علیہ السلام بھی میاں جان محمد مرحوم سے بہت محبت رکھتے تھے۔ حضرت اقدس علیہ السلام کیسے ہی عدیم الفرصت ہوتے مگر جب یہ مرحوم آتے تو آپ سب کام چھوڑ کر مرحوم سے ملتے۔(میاں جان محمد مرحوم و مغفور قادیانی فوت ہو گئے تو حضرت اقدس علیہ السلام جنازہ کے ساتھ ساتھ تشریف لے گئے۔)الغرض جب مرحوم کا جنازہ قبرستان میں گیا تو حضرت اقدس علیہ السلام نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور خود امام ہوئے۔ نماز میں اتنی دیر لگی کہ ہمارے مقتدیوں کے کھڑے کھڑے پیر دُکھنے لگے اور ہاتھ باندھے باندھے درد کرنے لگے۔ اوروں کی تو میں کہتا نہیں کہ ان پر کیا گزری لیکن میں اپنی کہتا ہوں کہ میرا حال کھڑے کھڑے بگڑ گیا اور یوں بگڑا کہ کبھی ایسا موقع مجھےپیش نہیں آیا کیونکہ ہم نے تو دو منٹ میں نماز جنازہ ختم ہوتے دیکھی ہے۔ پھر مجھے ہوش آیا تو سمجھا کہ نماز تو یہی نماز ہے پھر تو میں مستقل ہو گیا اور ایک لذت اور سرور پیدا ہونے لگا اور یہ جی چاہتا تھا کہ ابھی اَور نماز لمبی کریں۔ درحقیقت یہ صادقوں کے صدق کے نشان ہوتے ہیں اور یہ بھی کرامت کا نشان ہوتا ہے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کُوْنُوْا مَعَ الصادقین معیت صادقین اگر کوئی شے نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ امر کے صیغہ سے نہ فرماتا صادق میں صدق و راستی کی طرف جذب و کشش کا ایک روحانی اثر ہوتا ہے جس کے اثر سے انسان یوں کھینچ جاتا ہے کہ جیسے لوہا مقناطیس کی طرف کھینچ جاتا ہے۔ غرض کہ نماز میں اس قدر دیر لگی ہو گی کہ ایک آدمی ایک میل تک چلا جائے اور اگر اس کو مبالغہ نہ سمجھا جائے تو میں بلاخوف کہہ سکتا ہوں کہ جانے والا بے شک واپس آ جائے جب نمازِ جنازہ سے فارغ ہوئے تو حضرت اقدس علیہ السلام مکان کو تشریف لے چلے۔
ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضور! (علیک الصلوٰة والسلام) اتنی دیر نماز میں لگی کہ تھک گئے۔ حضور کا کیا حال ہوا ہو گا یعنی کہ آپ بھی تھک گئے ہوں گے۔
حضرت اقدس علیہ السلام: ہمیں تھکنے سے کیا تعلق۔ ہم تو اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے تھے اس سے اس مرحوم کے لئے مغفرت مانگتے تھے۔ مانگنے والا بھی کبھی تھکا کرتا ہے اور جو مانگنے سے تھک جاتا ہے وہ رہ جاتا ہے ہم مانگنے والے اور وہ دینے والا پھر تھکنا کیسا۔ جس سے ذرا سی بھی امید ہوتی ہے وہاں سائل ڈٹ جاتا ہے اور بارگاہِ احدیت میں تو ساری امیدیں ہیں وہ معطی ہے وہاب ہے رحمان ہے رحیم ہے اور پھر مالک ہے اور تس پر عزیز۔
دوسرے صاحب: حضور نے کیا کیا دعائیں کیں۔ دعاء ماثورہ تو چھوٹی سی دعا ہے۔
حضرت اقدس علیہ السلام: دعائیں جو حدیثوں میں آئی ہیں وہ دعاء کا طرز اور طریق سکھانے کے لئے ہیں یہ تو نہیں کہ بس یہی دعائیں کرو اور اس کے بعد جو ضرورتیں اور پیش آئیں ان کے لئے دعا نہ کرو۔ دعا کا سلسلہ قرآن شریف نے اور حدیث شریف نے چلا دیا اب آگے داعی پر اس کی ضرورتوں کے لحاظ سے معاملہ رکھ دیا کہ جیسی ضرورتیں اور مطالب اور مقاصد پیش آئیں دعا کرے۔ ہم نے اس مرحوم کے لئے بہت دعائیں کیں اور ہمیں یہ خیال بندھ گیا کہ یہ شخص ہم سے محبت رکھتا تھا ہمارے ساتھ رہتا تھا ہمارے ہر ایک کام میں شریک رہتا تھا اور اب یہ ہمارے سامنے پڑا ہے اب ہمارا فرض ہے کہ اس وقت ہم شریکِ حال ہوں اور یہ وہ ہے کہ اس کے واسطے جناب باری میں دعائیں کی جائیں سو اس وقت جہاں تک ہم میں طاقت تھی دعائیں کیں۔
سراج الحق: (راقم سفرنامہ) کچھ بولنا چاہتا تھا جو حضرت خلیفة المسیح علیہ السلام بول اٹھے۔
نور الدین: (یعنی خلیفة المسیح دام فیضہ) نے عرض کیا کہ جناب مجھے اس وقت یہ خیال آیا اور اس وقت بھی کہ جب مرحوم کا جنازہ پڑھا جا رہا تھا کہ یہ جنازہ میں ہوتا۔
حضرت اقدس علیہ السلام: ہنس کر فرمایا آپ مولوی صاحب نیکیوں میں سابق بالخیرات ہیں اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَاتِ انسان کو نیت صحیح کے مطابق اجر مل جاتا ہے اور آپ تو نور الدین اسم بامسمّٰی ہیں۔
پھر حضرت اقدس علیہ السلام نے اس مرحوم کی خدمت اور وفاداری کا ذکر کیا۔ میں جو بولنا چاہتا تھا یہ بات بولنی چاہتا تھا کہ جو حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب دام فیضہ بول اٹھے پھر میں خاموش ہی رہا کہ بازی تو حضرت مولانا نورالدین لے گئے اب تیرا بولنا ٹھیک نہیں اور خلافِ ادب بھی ہے۔‘‘(تذکرۃ المہدی صفحہ ۷۶تا ۷۹)
’’یہ مرحوم آپؑ کے معتقدوں اور عاشقوں اور فدائیوں میں سے تھا۔ خوش گلو تھا اس پر بوجہ اعتقادِ حضرت اقدس بڑی بڑی ناقابل برداشت ابتلائیں آئیں۔ ماریں تک مخالفوں سے کھائیں۔ وجوہِ معاش تک بند ہوئیں اور طرح طرح کی اذیتیں اور قسم قسم کی تکلیفیں مخالفوں کی طرف سے پہنچیں جو بیان سے باہر ہیں مگر اللہ اللہ مرحوم ایسا ثابت قدم رہا کہ جو حق ثابت قدمی کا ہوتا ہے۔ وہ حضرت اقدس علیہ السلام کے ہم عمر تھا مجھ سے بڑی محبت رکھتا تھا اور عجیب عجیب باتیں حضرت اقدس کی سنایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے ایک خواب اس زمانہ میں دیکھا تھا کہ جب براہین نہیں لکھی گئی تھی اور اس کا کوئی ذکر بھی نہیں تھا کہ ہمارے گھر میں یعنی میری والدہ کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے ہیں اور ہمارے گھر میں بڑی خوشیاں کر رہے ہیں اس خواب سے جب آنکھ کھلی تو کچھ تعبیر سمجھ میں نہیں آ ئی۔ جب حضرت اقدس علیہ السلام نے براہین احمدیہ لکھی اور مجددیت کا دعویٰ کیا تو اس خواب کی یہ تعبیر معلوم ہوئی کہ حضرت عیسیٰ کے پیدا ہونے سے مراد مجدد اور امامِ وقت سے ہے جو عیسوی قلب اور مسیحی صفات اپنے اندر رکھتا ہے اور وہ یہی حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام ہیں اور ہمارا گھر اور مرزا غلام مرتضیٰ کا گھر دو گھر نہیں ہیں اور میں حضرت اقدس علیہ السلام کی والدہ کو بچپن سے ماں کہا کرتا تھا یہ تعبیر یوں پوری ہوئی یہ خواب بیان کر کے مرحوم بہت ہی خوش ہو جاتا اور خوشی سے پھولا نہ سماتا۔ بعض دفعہ میں نے دیکھا کہ یہ خواب بیان کر کے وجد میں آ جاتا۔‘‘(تذکرۃ المہدی صفحہ ۷۶)
۷: نواب اقبال الدولہ اقتدار الملک قیصر ہند سروقار الامراءمحمد فضل الدین خان بہادر
سکندرآباد۔ کے۔ سی۔ آئی۔ ای
نواب صاحب موصوف کے بارے میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا:’’ خواب میں دیکھا تھا کہ حیدر آباد سے نواب اقبال الدولہ صاحب کی طرف سے خط آیا ہے اور اس میں کسی قدر روپیہ دینے کا وعدہ لکھا ہے۔ یہ خواب بھی بدستور روزنامہ مذکورہ بالا میں اسی ہندو کے ہاتھ سے لکھائی گئی اور کئی آریوں کو اطلاع دی گئی۔ پھر تھوڑ ےدنوں کے بعد حیدر آباد سے خط آگیا اور نواب صاحب موصوف نے سو روپیہ بھیجا۔ فالحمد للہ علی ذالک۔‘‘(براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد۱صفحہ۵۶۹،۵۶۸،حاشیہ در حاشیہ نمبر۳)
اسی طرح کتاب کے صفحہ ۳۱۹ پربھی آپؑ نے ان کے ایک سوروپے دیے جانے کاذکرکرتے ہوئے فرمایاہے:’’ہاں نواب اقبال الدولہ صاحب حیدرآباد نے اور ایک اور رئیس نے ضلع بلند شہر سے جس نے اپنا نام ظاہر کرنے سے منع کیا ہے ایک نسخہ کی قیمت میں سو سو روپیہ بھیجا ہے۔‘‘
نواب اقبال الدولہ کا پورانام مع خطابات اقبال الدولہ اقتدار الملک قیصر ہند سر وقار الامراء نواب محمد فضل الدین خان سکندر جنگ بہادر کے۔ سی۔ آئی۔ ای تھا۔آپ امیر کبیر شمس الامراء نواب رشید الدین خان بہادر کے فرزند اور نواب سکندر جاہ بہادر نظام سوم کے پوتے۔ موجودہ نظام دکن کے بہنوئی۔ نواب سر خورشید جاہ بہادر امیر کبیر کے چھوٹے بھائی اور نواب سر آسمان جاہ بہادر کے عم زاد بھائی تھے۔ولادت ۲۳؍ محرم ۱۲۳۰ھ[۱۸۱۵ء] وفات ۶؍ذیقعدہ ۱۳۱۹ھ[۱۹۰۲ء]۔ نواب افضل الدولہ بہادر نظام دکن کی وفات پر نواب میر محبوب علی خاں بہادر کی صغر سنی کے باعث نواب اقبال الدولہ گارڈین مقرر ہوئے۔ آپ نے یورپ کا سفر کیا۔ ملکہ وکٹوریہ کے ہاں دعوت کھائی۔ اس سفر سے شہرت بہت بڑھی۔
براہین احمدیہ کا ذکر ایک ایسی مجلس میں ہوتا رہتا تھا جس میں مرزا صادق علی بیگ صاحب ظہور علی صاحب وکیل اور ایک حکیم صاحب شامل ہوتے تھے۔ ان میں سے کسی نے نواب صاحب موصوف کو چندہ کی تحریک کر دی اور انہوں نے ایک سو روپیہ دے دیا۔ نواب صاحب کے تموّل کے پیش نظر یہ رقم بہت قلیل تھی۔ ان کے تموّل کا علم اس بات سے ہوتا ہے کہ ان کی شادی پر جانبین سے لاکھوں روپیہ خرچ ہوا۔ ان کی اسٹیٹ پائے گا تیرہ سو نوے مربع میل میں تھی۔ جس کی مردم شماری ۱۹۰۱ء میں قریباً اڑھائی لاکھ تھی اور یہ سب آپ کی رعایا تھے۔ وہاں پینتالیس ہزار مکانات تھے۔ اسٹیٹ کی سالانہ آمد تیرہ لاکھ روپیہ تھی۔ آپ کو عمدہ عمارات کی تعمیر کا شوق تھا چنانچہ حیدر آباد کا قصر فلک نما آپ نے نو سال میں چالیس لاکھ روپیہ کے صرفہ سے تعمیر کروایا تھا۔ طبیعت سخاوت پسند تھی۔ کسی کو خالی نہ جانے دیتے تھے۔ پچاس یا سو روپیہ سے کم دینے کے عادی نہ تھے۔
گو آپ کے تموّل کے پیش نظر ایک سو روپیہ کی اعانت زیادہ حیثیت نہ رکھتی تھی لیکن اکثر رؤسا نے جو سلوک کیا تھا اس کے پیش نظر قابل قدر تھی۔ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بھی اس اعانت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔
حضرت عرفانی صاحبؓ نے انہیں نواب صاحب کے متعلق لکھاکہ ’’ نواب اقبال الدولہ مرحوم نے ایک سوروپیہ کی مددکی یہ شخص اپنی فیاضی میں بے نظیرتھا۔اس کوایک لاکھ دے دینابھی کچھ بات نہ تھی مگرخداکی مشیت نے ان سے صرف ایک سوروپیہ دلوایااور وہ بھی بطورنشان تھا۔‘‘
(باقی آئندہ ہفتہ کو ان شاء اللہ)
٭…٭…٭