دورۂ یورپ ۱۹۲۴ء کے ثمرات
دورہ یورپ کے دوران حضرت مصلح موعودؓ نے ہر ممکن طریق پر تبلیغ کی سعی فرمائی۔ اس زمانہ کے عظیم ہتھیار پریس کے ذریعہ اسلام احمدیت کا پیغام ہر طرف پھیلا دیا۔ متعدد ممالک کے پریس کے نمائندگان نے حضورؓ اور ممبرانِ قافلہ کی تصاویر لیں۔ اس طرح اُس زمانہ میں بھی محدود وسائل کے باوجود حضورؓ نے اشاعت کا حق ادا کرنے کی سعیٔ بلیغ فرمائی
تاریخ احمدیت میں درج ہے کہ’۱۹۲۴ء کاسال سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں تبلیغی نقطہ نگاہ سے ایک انقلاب انگیز سال کہلانے کا مستحق ہے کیونکہ اس میں حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے یورپ کا پہلا سفر فرمایا جس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ ایک نئے دور میں داخل ہوگئی‘۔(جلد چہارم صفحہ۴۲۲)
قارئین کرام! یہ وہ بڑا ثمرہ تھا جو دورہ یورپ کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کو حاصل ہوا۔ اس مضمون میں ہم اس تاریخی دورےکے ثمرات پر نظر ڈالتے ہیں۔
جماعت احمدیہ کی ترقی کے دوسرے دور کا آغاز
خلافت ثانیہ کے آغاز میں چند یورشوں اور بنیادی اختلافات نے جنم لیا۔ ان اختلافات میں سب سے بنیادی مسئلہ خلافت کے قیام پر اعتراض تھا۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے ایک لمبا عرصہ غیر مبائعین پر اتمام حجت کے لیے صرف کیا۔ اس دوران ہندوستان سے باہر اشاعت اسلام کے کام بھی ہوتے رہے۔ قادیان سے مسیح الزمان کا پیغام برطانیہ، افریقہ، یورپ اور آسٹریلیا میں پہنچ چکا تھا بلکہ مبلغین اسلام احمدیت کے ان علاقوں میں مسیح موعودؑکے پیغام کی اشاعت و ترویج کے لیے بھی قدم رنجہ ہوچکے تھے۔ مسیح محمدی سے متعلقہ ایک پیشگوئی میں ذو القرنین کا مغرب کا سفر کرنا مذکور ہے۔ حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی طرف توجہ فرمائی تو آپ پر یہ حقیقت بالکل منکشف ہو گئی کہ قرآن مجید میں ذوالقرنین(مسیح موعود) یا اس کے نائب کے سفر یورپ کی اور حدیث شریف میں سفر دمشق کی واضح پیشگوئیاں موجود ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ نے لیکچر لاہور اور براہین احمدیہ حصہ پنجم میں تحریر فرمایا ہے کہ ذوالقرنین کے قرآنی واقعہ میں میرے متعلق پیشگوئی ہے اور میرا نام ذوالقرنین رکھا گیا ہے اب ذوالقرنین کی نسبت قرآن مجید میں لکھا ہے کہ اس نے مغربی ممالک کی طرف سفر کیا۔ ثابت ہوا کہ مسیح موعود یا اس کے کسی جانشین کو ان ممالک کی طرف ضرور سفر کرنا پڑے گا۔
حضرت مسیح موعودؑ نے حدیث نزول عیسیٰ کی تشریح میں فرمایا:یُسَافِرُ الْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْدُ اَوْ خَلِیْفَۃٌ مِنْ خُلَفَائِہِ اِلَی اَرْضِ دِمَشْقَ (حمامۃالبشریٰ صفحہ ۳۷ طبع اول) یعنی مسیح موعود یا اس کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ سرزمین دمشق کا سفر اختیار کرے گا۔(تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۳۹۲)
ذوالقرنین کے سفر سے متعلق واقعہ پرغور کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے معلوم کیا کہ یہ سفر (بنیادی اغراض کے اعتبار سے)تبلیغ کے لیے نہیں بلکہ مغربی ممالک میں اسلامی انقلاب کی تبلیغی سکیم تیار کرنے کے لیے کیا جائے گا۔ (تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ۳۹۳)
پس دورۂ یورپ کا عظیم ثمرہ اشاعت ہدایت کے لیے ایک للہی سکیم تیار کرنا بھی تھا۔ جس کے نتائج تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں کہ کس طرح اسلام احمدیت کا پیغام دنیا کے کناروں تک شہرت پا گیا۔
جماعت احمدیہ کے لیے منظم نیابتی نظام
حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی روانگی سے قبل قادیان میں نیابتی یعنی قائم مقامی کا نظام قائم فرمایا اور اس بارے میں تفصیلی ہدایات دیں بلکہ ایک مکمل خطبہ جمعہ اس بارے میں ارشاد فرمایا۔ حضورؓ نے اپنے بعد حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کو امیر اور حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے کو ان کا نائب مقرر فرمایا۔ ان کے علاوہ ایک مجلس شوریٰ مقرر فرمائی جس کے چودہ ممبر قرار دیے۔ حضورؓ نے ان تمام اصحاب کے تقرر پر ۱۱؍جولائی ۱۹۲۴ء کو ایک خطبہ بھی ارشاد فرمایا ۔ جس میں ہر ایک کا نام لے کر ان کی مخلصانہ خدمات کا نہایت تعریفی کلمات میں ذکر کرکے بتایا کہ موجودہ حالات میں یہ لوگ میرے نزدیک بہترین مشیر ہیں۔
علمی کام جاری رکھنے کے لیے حضورؓ نے ہدایت جاری فرمائی کہ مکرم مولوی شیر علی صاحبؓ درس قرآن اور مولوی سید سرور شاہ صاحب درس بخاری دیں اور یہ دونوں درس مسجد اقصیٰ میں باری باری ہوں۔حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ ناظر اعلیٰ کی حیثیت میں کام کر رہے تھے۔ اب جدید انتظام کے بعد حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحبؓ کو (حضرت چودھری نصر اللہ خان صاحب کی حج سے واپسی تک) ناظر اعلیٰ مقرر فرمایا گیا۔
حضورؓ نے ڈاک کا یہ انتظام فرمایا کہ آپ کے نام خطوط قادیان کے پتہ پر لکھے جائیں اور مرکز سے ہفتہ کی ڈاک کا اکٹھا پارسل بنا کر حضور کے نام بھیج دیا جائے۔
یہ نظام حضور کے قادیان سے غیرحاضری کے ایام میں فعال طور پر کام کرتا رہا اور اس کے بعد بھی اندرونِ ہند کے دورہ جات میں بھی نیابتی نظام کو فعال کر دیا جاتا رہا۔ اس طرح قادیان سے ڈاک حضورؓ کو بھجوا دی جاتی اور یوں احبابِ جماعت اور خلیفۂ وقت کا رابطہ بغیر کسی انقطاع کے فعال رہا۔
جماعت احمدیہ اور خلافت سے محبت کا قیام
حضرت مصلح موعودؓ کی قادیان سے روانگی کے وقت ایک ہجوم امڈ آیا۔ ہر آنکھ اپنے محبوب آقا کی جدائی پر اشکبار تھی۔ اپنے محبو ب کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ایک دوسرے پر گرتے آگے بڑھنے لگے۔ منتظموں نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ ہجوم کے گردوغبار سے حضور ؓکو تکلیف ہو گی۔ سب لوگوں کو قریب آنے سے روکنے کی کوشش کی مگر حضورؓ نے حکم دیا کہ کسی کو روکا نہ جائے اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ میں بھی آہستہ آہستہ چلتا ہوں آپ لوگ بھی آہستہ چلیں تا زیادہ گرد نہ اڑے۔
قادیان سے بمبئی تک ریل کے سفر میں لوگ اپنے آقا کی ایک جھلک دیکھنے آتے رہے۔ بندرگاہ پر احباب کی ایک کثرت موجود تھی۔ حضورؓ نے ایک پُر سوز دعا کروائی۔ جہاز روانہ ہوا۔دوست بڑی تیزی سے نظر سے اوجھل ہورہے تھے مگر حضور ؓکی شفقت و محبت کا ایک عجیب عالم دیکھنے میں آیا یعنی جہاز کا جو حصہ بھی دوستوں کے قریب ہوتا حضور بھی دوڑ کر اسی طرف تشریف لے جاتے کبھی اس سرے کبھی دوسرے اور کبھی وسط میں اور دوستوں کے لیے قریب جا کر پھر دعا شروع کرا دیتے اس وقت بارش ہو رہی تھی اور آپ کے کپڑے بھیگے ہوئے تھے مگر اپنے خدام سے دلی الفت و محبت کی چنگاری آپ کو بے قرار کیے ہوئے تھی۔ غرضیکہ حضور اسی طرح جہاز کے چاروں طرف نہایت بے تابی سے گھومتے رہے حتیٰ کہ سب دوست آنکھوں سے بالکل غائب ہو گئے۔ (تاریخ احمدیت جلدپنجم صفحہ ۴۰۰، ۴۰۳)
روانگی سے قبل حضورؓنے عرشہ جہاز سے ایک چٹھی احباب جماعت کو لکھی جس میں آپ نے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ سفر کے آٹھویں دن (۲۲؍ جولائی) جہاز عدن کے اور قریب آیا تو حضورؓ نے آدھی رات کے وقت اپنے قلم سے جماعت کے نام ایک مفصل خط میں لکھا:’’میں خدا کی مشیت کے ماتحت اپنے دوستوں کی پوری ملاقات سے تو ایک وقت تک محروم ہوں پس مجھے آدھی ملاقات کا تو لطف اٹھانے دو۔ مجھے چھوڑ دو کہ میں خیالات و افکار کے پر لگا کر کاغذ کی ناؤ پر سوار ہو کر اس مقدس سرزمین میں پہنچوں جس سے میرا جسم بنا ہے اور جس میں میرا ہادی اور رہنما مدفون ہے اور جہاں میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کی راحت۔ دوستوں کی جماعت رہتی ہے۔ ہاں پیشتر اس کے کہ ہندوستان کی ڈاک کا وقت نکل جائے مجھے اپنے دوستوں کے نام ایک خط لکھنے دو تا میری آدھی ملاقات سے وہ مسرور ہوں اور میرے خیالات تھوڑی دیر کے لیے خالص اس سرزمین کی طرف پرواز کرکے مجھے دیار محبوب سے قریب کر دیں۔‘‘
یہ وہ محبت تھی جو یک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ تھی۔ جہاں جماعت اپنے محبوب کی جدائی میں غمگین تھی وہیں یہ محبّ بھی ماہیٔ بےآب کی طرح اس جدائی پر غمگین تھا۔ اس عارضی جدائی نے اس پیاری جماعت اور ان کے محبوب کے درمیان محبت کو اور گہرا کر دیا۔ جس کا اظہار حضور ؓکی واپسی پر ہوا کہ ہزارو ں سعید روحیں ہر شہر میں، ہر کوچہ میں جہاں سے قافلہ گزرتا اس کامیاب مراجعت پر نعرہ ہائے تکبیر بلند کرتی اور حمد کے گیت گاتی رہیں۔
دار التبلیغ دمشق و فلسطین اور مصر کا قیام
دمشق کے مشہور ادیب شیخ عبدالقادر مغربی نے حضورؓ سے ملاقات میں کہا کہ ایک جماعت کے معزز امام ہونے کی حیثیت سے ہم آپ کا اکرام کرتے ہیں۔ مگر آپ یہ امید نہ رکھیں کہ ان علاقوں میں کوئی شخص آپ کے خیالات سے متاثر ہو گا کیونکہ ہم لوگ عرب نسل کے ہیں اور عربی ہماری مادری زبان ہے اور کوئی ہندی خواہ وہ کیسا ہی عالم ہو ہم سے زیادہ قرآن و حدیث کے معنی سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ آپؓ نے یہ گفتگو سن کر اس کے خیال کی تردید فرمائی اور ساتھ ہی تبسم کرتے ہوئے فرمایا کہ مبلغ تو ہم نے ساری دنیا میں ہی بھیجنے ہیں۔ مگر اب ہندوستان واپس جانے پر میرا پہلا کام یہ ہو گا کہ آپ کے ملک میں مبلغ روانہ کروں اور دیکھوں کہ خدائی جھنڈے کے علمبرداروں کے سامنے آپ کا کیا دم خم ہے۔ چنانچہ آپؓ نے ایسا ہی کیا کہ ولایت سے واپسی پر دمشق میں دارالتبلیغ قائم کرنے کے لیے حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحبؓ اور حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ کو بھجوا دیا۔ جنہوں نے چند سالوں میں احمدیت کے بیج کی آبیاری کی اور دمشق میں مشکلات کے باعث فلسطین میں دار التبلیغ کا قیام عمل میں آیا۔ اور دوسری جانب مصر میں بھی دار التبلیغ قائم کیا۔
تاریخی مقامات کا مشاہدہ
حضورؓ ۱۷؍اگست ۱۹۲۴ء کو روما میں داخل ہوئے جو عیسائیت کے پوپ کا مرکز ہے۔گو پوپ سے ملاقات نہ ہو سکی۔ لیکن روما میں حضورؓ نے اصحاب کہف کی غاریں بھی دیکھیں اور بڑی بصیرت سے ان کا مشاہدہ فرمایا۔ اس کی تفصیل حضورؓ نے اپنی تفسیر کبیر جلد چہارم میں سورة الکہف کی تفسیر میں درج فرمائی ہے۔ حضورؓ نے اصحاب کہف سے متعلق مختلف نظریات کو اپنی تحقیق سے رد کرتے ہوئے قرآن کریم میں بیان کردہ حقیقت کو درست ثابت فرمایا۔
دیگر مقامات کا مشاہدہ بھی قابلِ ذکر ہے جن میں عدن کے قریب قوم عاد کی عمارتیں، نہرِ سویز، اہرامِ مصر، فرعون کی لاش، فلسطین کی ارضِ مقدسہ، بیت المقدس، بیت لحم، دمشق، منارہ بیضاء، بہاء اللہ کا مزار وغیرہ شامل ہیں۔ حضورؓ نے متعدد تقاریر میں ان مقامات کے متعلق اپنا مشاہدہ پیش فرمایا۔ اسی طرح عرب ممالک کے علاوہ تفسیر، خطابات میں یورپ کےمقامات طرز معاشرت، قوم تشخص اورثقافت کا بھی تذکرہ اور تقابل پیشفرمایا۔
لیکچرز اور اشاعت اسلام
دورہ یورپ کے دوران حضرت مصلح موعودؓ نے ہر ممکن طریق پر تبلیغ کی سعی فرمائی۔ اس زمانہ کے عظیم ہتھیار پریس کے ذریعہ اسلام احمدیت کا پیغام ہر طرف پھیلا دیا۔ متعدد ممالک کے پریس کے نمائندگان نے حضورؓ اور ممبرانِ قافلہ کی تصاویر لیں۔ اس طرح اُس زمانہ میں بھی محدود وسائل کے باوجود حضورؓ نے اشاعت کا حق ادا کرنے کی سعیٔ بلیغ فرمائی۔ صرف لندن کو دیکھا جائے تو حضورؓ نے متعدد لیکچرز، انٹرویوز، گفتگو، ملاقاتیں، فارمل تقاریراور پبلک مقامات پر تقاریر کیں اور اپنا مدعا پیش فرمایا۔ ذیل میں ان کی ایک مختصر فہرست پیش ہے۔
حضورؓ نے قیام لندن کے پہلے ہفتہ میں ’’ایوننگ سٹینڈرڈ‘‘ اور اخبار ’’سٹار‘‘ کے نمائندوں کو انٹرویو دیا۔
حضرت مولوی عبدالرحیم صاحبؓ نیرؔ مبلغ انگلستان نے اخبارات کے نمائندوں کو دعوت دی۔ جس میں مذاہب کانفرنس کی انتظامیہ کے بعض ممبران (کرنل ینگ ہسبینڈ اور مس شارپلز) بھی شریک ہوئے۔ اس دعوت میں حضورؓ نے اہل انگلستان کے نام ایک مفصِّل پیغام دیا۔
دوسرے ہفتہ میں حضورؓ برائٹن کے قصبہ میں تشریف لے گئے اور جنگ عظیم میں جان دینے والے سپاہیوں کی یادگار میں چھتری میں دعا کی۔حضورؓ نے دعا سے پہلے ایک تقریر بھی فرمائی۔ سینما والوں نے اس نظارہ کی تصویریں سینما میں دکھائیں اور اخبارات نے مفصل خبریں شائع کیں۔
’’سپرچولزم سوسائٹی‘‘ کے ایک جلسہ میں شمولیت فرمائی اور مختلف اخبارات اور مذہبی کانفرنس کے نمائندوں سے گفتگو کی۔
تیسرے ہفتہ میں حضور نے ۷؍ستمبر ۱۹۲۴ء کو بہت سے انگریز مردوں، عورتوں ہندوستانی طالب علموں اور سفارت ترکیہ اور دوسرے معزز مسلمانوں کو دعوت پر بلایا۔
۹؍ستمبر ۱۹۲۴ء کی شام کو حضور نے ’’ایسٹ اینڈ ویسٹ یونین‘‘ کے اجلاس (منعقدہ گلڈ ہائوس) میں پہلا انگریزی لیکچر دیا۔
۱۳؍ستمبر ۱۹۲۴ء کو حضور نے پورٹ سمتھ میں دو لیکچر دیے ایک ’’مسیح کی آمد ثانی‘‘ اور دوسرا ’’پیغام آسمانی‘‘ پر ۱۵؍ستمبر کو حضورؓ نے ہندوستانی طلبہ سے خطاب فرمایا۔
۱۷؍ستمبر۱۹۲۴ء کو آپؓ نے مولوی نعمت اللہ خان صاحب شہید کابل کی شہادت سے متعلق ایک احتجاجی جلسہ میں تقریر فرمائی۔
۱۹ستمبر ۱۹۲۴ء کی شام آپ نے سینٹ لوکس ہال میں ’’حیات بعد الموت‘‘ پر شاندار لیکچر دیا۔
۲۳؍ستمبر ۱۹۲۴ء کا دن سفر یورپ کی تاریخ میں سنہری دن ہے۔ کیونکہ اس دن ویمبلے کانفرنس میں حضور ؓکا بے نظیر مضمون پڑھا گیا۔
۲۶؍ستمبر کو حضور ؓنے کنز رویٹو کی درخواست پر ڈچ ہال لنڈن میں ہندوستان کے حالات حاضرہ اور اتحاد پیدا کرنے کے ذرائع پر ایک معلومات افزا لیکچر دیا۔
۲۸؍ستمبر کو آپ کا ایک اہم مضمون ’’رسول کریمﷺ کی زندگی اور تعلیم سے نوجوان بچے کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟‘‘ کے موضوع پر لنڈن فیلڈ میں پڑھا گیا۔
ان لیکچرز کی بدولت اسلام احمدیت کے پیغام کو وسعت ملی۔ ہر جگہ پریس کا کوئی نہ کوئی نمائندہ موجود ہوتا اور حضورؓ کی فوٹو لے کر نہ صرف شائع کی جاتی بلکہ مختلف سینماگھروں میں ان فلموں کی رونمائی کی گئی۔ جماعت کے تعارف پر پریس میں ایک ہنگامہ بپا تھا۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی قادیان سے روانگی کے ساتھ ہی برطانوی پریس میں آپ کی آمد کی خبریں شائع ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ مگر لندن میں ورود کے بعد تو مصور اور غیر مصور اخبارات نے اتنی کثرت سے آپ کے فوٹو اور حالات وغیرہ شائع کیے کہ ایک متعصب رومن کیتھولک اخبار کو لکھنا پڑا کہ تمام برطانوی پریس سازش کا شکار ہو گیا ہے۔ اور کئی لوگوں نے برملا اظہار کیا کہ پریس نے اتنی اہمیت اور شہرت لنڈن میں آنے والے کسی بڑے سے بڑے لارڈ کو بھی نہیں دی جتنی آپ کی تشریف آوری پر پریس کے علاوہ فلموں میں آپ کے اور آپ کے رفقاء کے مناظر دکھائے گئے اس طرح خدا نے انگلستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک آپ کی شہرت کا خود ہی سامان فرما دیا۔ذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء (تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ ۴۴۶)
ریویو آف ریلیجنز کا انگریزی ایڈیشن
رسالہ ریویو آف ریلیجنز حضرت مسیح موعودؑ کا جاری کردہ رسالہ ہے۔ اس وقت سو سال سے زائد عمر کا یہ رسالہ دنیا بھر میں اشاعت ہدایت میں مصروف عمل ہے۔ ۱۹۲۴ء میں دورہ یورپ کے دوران حضرت مصلح موعودؓ کی آمد سے ایک زبردست تحریک پیدا ہوگئی تھی۔ اس نے اس ضرورت کو ظاہر کیا کہ یہاں سے ایک ماہوار رسالہ کی ضرورت ہے۔ چنانچہ دورہ یورپ کے دوران قیام لنڈن کے چھٹے ہفتہ( ۲۶؍ستمبر سے ۲؍اکتوبر ) میں حضورؓ نے فیصلہ فرمایا کہ ’’ایک باقاعدہ ماہوار رسالہ ریویو آف ریلیجنز شائع ہو، خواہ قادیان کے رسالہ کو یہاں منتقل کر دیا جائے یا یہ رسالہ اس کا لنڈن ایڈیشن ہو۔ اسی طرح ۳؍ اکتوبر ۱۹۲۴ء کی شام کو حضورؓ نے ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ لنڈن کی ترتیب مضامین اور دیگر امور پر مجلس شوریٰ بھی منعقد فرمائی۔
الفضل کی رپورٹ کے مطابق ۱۵؍اکتوبر ۱۹۲۴ء تک یہ رسالہ جاری ہونا تھا۔ (الفضل ۲۸ اکتوبر ۱۹۲۴ء)
کلیدِ فتح و ظفر
لندن میں مبلغ کی از سرِ نو تعیناتی کی۔ اور حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب دردؔ کو از خود لندن مشن چھوڑنے تشریف لائے اور مکان کی کلید عطا فرمائی۔ شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے لکھا کہ وہ اس کلید کو ’’فتح و ظفر کی کلید‘‘ کے لیے بطور تفاؤل سمجھتے ہیں۔ (الفضل ۱۱نومبر۱۹۲۴ء) اور تاریخ نے اس بابرکت مختصر تقریب کا ثمرہ مشاہدہ کیا کہ یہ کلید واقعی فتح و ظفر کی کلید ثابت ہوئی اور ترقیات کے دروازے لندن میں احمدیت پر وا ہوتے چلے گئے اور ہوتے جا رہے ہیں۔ لندن مشن کے چھوٹے سے مکان کی یہ کلید ایک نئے کشادہ وسیع و عریض مرکزاسلام آباد کی کلید ثابت ہوئی۔ حدیقة المہدی، بیت الفتوح ،جامعہ احمدیہ یوکے کا در بھی اسی کلیدِ فتح و ظفر سے کھلا۔۱۹۸۴ء کے بعد کئی ممالک کے در کھلے۔ کئی شہروں کے رکھوالوں نے اپنی چابیاں خلیفۃ المسیح کے قدموں میں لاکر رکھ دیں۔
مبلغین کے لیے احساس پیدا ہونا
اسی مذکورہ بالا تقریب کلید برداری کے موقع پر حضورؓ نے مختصر خطاب فرمایا۔دورہ یورپ میں جہاں حضرت مصلح موعودؓ کی دُور اندیش نگاہ اسلام احمدیت کا مستقبل دیکھ رہی تھی وہیں خدا کا یہ اولوالعزم جرنیل جماعتی نظم و نسق کا بھی مشاہدہ کرتے ہوئے اسے مضبوط تر کرنے کی سکیم تیار کر رہا تھا۔ حضورؓ نے جہاں مبلغین کی کمزوری کی نشاہدہی فرمائی وہیں مرکز کی جانب سے کمی کااحساس کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ فرمایا کہ مرکز کی جانب سے مبلغین کا احساس زیادہ کیا جائے گا۔
حضورؓ نے فرمایا کہ ہمیشہ اس بات کو مد نظر رکھو کہ انسان اپنے وطن اور عزیزوں سے دور آتا ہے ہر قسم کی قربانی کرتا ہے۔ پھر اس محنت اور کام کا کوئی نتیجہ نکلنا چاہیئے۔ جو لوگ یہاں کام کرتے رہتے ہیں۔ ان سے بعض کوتا ہیاں ہوتی رہیں اوراس وجہ سے یہ بھی ہو سکتا ہے۔ کہ مرکز میں پورا احساس نہ ہو لیکن اب انشاء اللہ یہ نہیں ہو گا۔ مرکز میں احساس قدرتاً اب بہت زیادہ ہو گا۔ اس لیے اگر اب یہ کام زیادہ نتیجہ خیز نہ ہو۔ تو یہ مبلغین کی غلطی ہوگی۔ اور وہ اسکے ذمہ وار اور جوابدہ ہونگے۔ اس لیے کہ یہ ممکن نہیں کہ صحیح طریق پر کوشش ہو اور کوئی نتیجہ نہ نکلے۔(الفضل ۱۱نومبر۱۹۲۴ء)
پہلی مسجد کا سنگِ بنیاد
ہندوستان سے باہر حضرت خلیفة المسیح کے ہاتھوں پہلی مرتبہ مسجد فضل لندن کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ اور مسجد فضل لندن کو دنیا کے کونے کونے میں موجود ہزاروں احمدیہ مساجد کی ’’امّ المساجد‘‘کہا جا سکتا ہے۔ ۱۹؍ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۴ بجے شام ایک بہت بڑے مجمع میں ’’مسجد فضل‘‘(۶۳ میلروز روڈ۔ لنڈن) کا اپنے دست مبارک سے سنگ بنیاد رکھا۔اس تقریب پر سب سے پہلے (متعینہ) امام مسجد لنڈن مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے خوش آمدید کا مختصر ایڈریس پڑھا۔ جس کے بعد تمام حاضرین مقام بنیاد کی طرف گئے۔ تلاوت کے بعد حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے انگریزی زبان میں ایک مضمون پڑھا جس میں مسجد کی غرض و غایت پر اسلامی نقطہ نگاہ سے روشنی ڈالنے کے بعد فرمایا کہ میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ رواداری کی روح جو اس مسجد کے ذریعہ سے پیدا کی جاوے گی یہ دنیا سے فتنہ و فساد دور کرنے اور امن و امان کے قیام میں بہت مدد دے گی۔ اور وہ دن جلد آجائیں گے کہ لوگ جنگ و جدال کو ترک کرکے محبت اور پیار سے آپس میں رہیں گے۔
اس تقریب کے فوٹو اور فلم ایک درجن کے قریب فوٹو گرافروں اور سینما والوں نے لیے۔ نماز کے بعد مبارکباد کی آواز ہر طرف بلند ہوئی۔
اس مجمع میں مختلف قوموں کے ممتاز آدمی شامل تھے۔ مثلاً انگریز، جرمن، سربین، ہنگری، زیکو سلواکیا، ایتھونیا، مصری، امریکن، اٹالین، جاپانی اور ہندوستان کے رہنے والے نیز مختلف مذاہب کے لوگ عیسائی، مسلمان، پارسی اور یہود بھی تھے۔ اگرچہ بارش کا دن تھا پھر بھی دو سو سے زیادہ معززین اس تقریب میں شامل ہوئے جن میں انگریزوں کے علاوہ دوسری حکومتوں کے نمائندے بھی موجود تھے جن میں جرمن سفیر، ایتھونیا اور سربیا کے وزیر، زیکو سلواکیا کا نمائندہ۔ ترکی، البانیہ اور فن لینڈ کے وزراء نے بذریعہ خطوط اچھی خواہشوں کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم انگلستان نے امام مسجد لنڈن اور جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا۔ ’’افسوس میں اس دن لنڈن میں نہیں ہوں گا‘‘۔
حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو مسجد فضل لنڈن میں پہلا جمعہ پڑھایا اور لنڈن سے روانگی سے پہلے حضور نے فرمایا’’میرے نزدیک انگلستان کی فتح کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ آسمان پر اس کی فتح کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اور اپنے وقت پر اس کا اعلان زمین پر بھی ہو جائے گا۔ دشمن ہنسے گا اور کہے گا یہ بے ثبوت دعویٰ تو ہر ایک کر سکتا ہے مگر اس کو ہنسنے دو کیونکہ وہ اندھا ہے اور حقیقت کو دیکھ نہیں سکتا۔‘‘
اس طرح حضور کا یہ مبارک اور تاریخی سفر جو قریباً چار ماہ پہلے ۱۲؍ جولائی ۱۹۲۴ء کو شروع ہوا تھا ۲۴؍ نومبر ۱۹۲۴ء کو بخیر و خوبی ختم ہوا اور آپ یورپ کے لمبے اور طویل سفر سے حسبِ الہام بطور ’’ولیم دی کنکرر‘‘ کامیاب و کامران فتح مندی و کامرانی کا جھنڈا لہراتے ہوئے قادیان کی مقدس سرزمین میں رونق افروز ہوئے۔
کامیاب مراجعت اور کامیاب سفر
۲۴؍نومبر۱۹۲۴ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے اہلِ قادیان کے سپاس نامہ کے جواب میں مختصر خطاب فرمایا جس میں سفر کے مختصر حالات، دورانِ سفر اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور پہلے سے بتائی گئی اخبار کے ظہور کے مشاہدہ کا ذکر فرمایا اور خدا تعالیٰ کی حمد بیان فرمائی۔آخر پر حضورؓ نے فرمایا کہ میں اس خطرہ کو اپنے دل میں لے کر گیا تھا کہ یورپ اسلام کی ننگی تعلیم کو قبول نہیں کرسکتا۔ اور آیا اس یقین کے ساتھ ہوں کہ یقیناً قبول کر سکتا ہے کہ ایسی باتیں جن پر اہلِ یورپ اعتراض کرتے ہیں جب حقیقی شکل میں معقولیت کے ساتھ ان کے سامنے بیان کی گئیں تو وہ ان کی صداقت کا اعتراف کرتے۔ گو ساتھ ہی یہ بھی کہتے کہ ابھی ہم ان کو قبول نہیں کر سکتے۔ سوسائٹی اور رسوم رواج کی وجہ سے انہیں قبول کرتے ہوئے ڈرتے آتا ہے۔
غرض اس سفر میں ایسی کامیابی حاصل ہوئی ہے کہ جو انسانی وہم و خیال سے بالاتر ہے۔ اور جس بات کی طرف میں سر زمینِ ہند پر قدم رکھتے ہوئے جماعت کو توجہ دلاتا آیا ہوں اور آج بھی دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ساری کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ اور وہی حقیقی شکریہ کا مستحق ہے اور جماعت کو تیار ہوجانا چاہیئے کہ خدا نے جو بیج بویا ہے اس کی آب پاشی کریں۔(الفضل ۴؍دسمبر۱۹۲۴ء )
اشاعت احمدیت کے وسیع منصوبے
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ دمشق اور فلسطین میں دار التبلیغ کا قیام عمل میں آیا۔ لیکن یہ سلسلہ یہاں رکا نہیں اگلے سال ۱۹۲۵ء میں سماٹرا و جاوا میں مشن کا قیام ہوا۔ اور پھر ۱۹۳۴ء میں تحریک جدید کے قیام سے جماعت احمدیہ کی تاریخ ایک بار پھر سنہرے دور میں داخل ہوئی اور دنیا کے کونے کونے میں مشن ہاؤسز کا قیام ہوا۔ حضرت مسیح موعودؑ سے خدائی وعدہ ’’میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا ‘‘حسین ثمرہ ہم آج دیکھ رہے ہیں۔
بطور خلیفة المسیح دورہ یورپ جماعت احمدیہ کے لیے ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ہندوستان سے باہر عرب اور یورپ کے حالات کا از خود مشاہدہ کیا۔ تاریخی مقامات کا دورہ فرمایا۔ پریس اور میڈیا کے اس وقت کے تمام تر جدید ذرائع کو بروئے کار لایا گیا۔ اسلام احمدیت کا پیغام دنیا بھر میں پہنچا۔ اس سفر کے دوران اس مبارک، صاحب ِشکوہ اور عظمت اور دولت وجود نے اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو برکت دی۔ اور زمین کے کناروں تک شہرت پائی اور قوموں نے اس سے برکت پائی۔ مغرب میں اسلام کا جھنڈا گاڑنے کے بعد فتح و ظفر کی پیشگوئی کا حامل یہ وجود اس سفر سے کامیاب لوٹا اور احمدیت کی تاریخ کا یہ موڑ بے شمار برکات لیے ہوئے آیا اور اس کے ثمرات سے اگلی نسلیں مستفیض ہوتی چلی جا رہی ہیں۔
٭…٭…٭